یونیورسٹی کے بلوچ،سندھی پختون طلباء۔۔ پیار، محبت اور بھائی چارے کے سفیر

یورنیورسٹی میں بہت سے بلوچ طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ بلوچ طالب علم انتہائی با ادب، ملنسار، فرمانبردار، ہنس مکھ اور پیار کرنے والے ہیں۔ اپنے تشخص کے اظہار کے لئے انہوں نے ایک تنظیم بنائی ہے۔ شایدبلوچ سٹوڈنٹس کے نام سے۔ میں نے ہنس کر انہیں کہا کہ مجھے اس تنظیم کا ممبر بنا لو۔ فوراً چند ایک نے مجھ سے پوچھا سر آپ بھی بلوچ ہیں؟ میں نے جواب دیا۔ پورا تو نہیں مگر نیم بلوچ ہوں اور واقعی اس میں کوئی شک نہیں۔ میرا بچپن اور میری زندگی کے ابتدائی بیس (20) سال مزنگ میں گزرے ہیں۔ اب تو مزنگ کی آبادی میں بہت تبدیلی آچکی مگر اُس وقت مزنگ میں تین برادریاں رہتی تھیں۔ مزنگ کی چالیس (40) فیصد آبادی ارائیں تھے، تیس (30) فیصد بلوچ، بیس (20) فیصد سے زیادہ کمہار برادری تھی اور بقیہ تمام برادریاں شاید دس (10) فیصد سے بھی کم تھیں۔ میں جس محلے میں رہتا تھا اُس محلے میں بلوچوں کی اکثریت تھی۔میرا گھر بلوچوں کے گھروں میں گھرا ہوا تھا۔ میرے گھر کے سامنے ملک بشیر بلوچ کا ڈیرہ تھا۔ اُن دنوں تانگہ لاہور کی بنیادی ٹرانسپورٹ تھی۔ ملک صاحب کے دس، پندرہ تانگے تھے اور انتی ہی تعداد میں گھوڑے۔یہ گھوڑے اور تانگے ہمارے محلے کی رونق تھے۔ملک صاحب علاقے کے نمبردار بھی تھے۔ درمیانہ قد، موٹا تازہ جسم، بہت بلند آواز، میرے گھر کے بالکل سامنے اُن کی چارپائی ہوتی تھی۔ یہ چارپائی بھی عجیب تھی۔ عام چارپائی سے تقریباً پانچ گُنا بڑی۔ اُس کے بازو بھی بہت بھاری بھر کم تھے۔ پندرہ بیس آدمی آسانی سے اُس پر بیٹھ جاتے تھے۔ ملک صاحب چارپائی پر بیٹھے ہوتے تو اُن کی عقابی نظریں پورے محلے کا جائزہ لے رہی ہوتیں۔ کوئی انجان شخص محلے میں تھوڑی دیر کھڑا نظر آتا تو ملک صاحب کی آواز گونجتی او بیٹا! کیوں کھڑے ہو؟ ادھر آؤ۔ فضول کھڑے ہونے والا اُن کی آواز سنتا تو اُس میں زور دار گونج دار آواز کی دہشت سے ہی بھاگ جاتا۔ کوئی کسی سے ملنے والا ہوتا تو ملک صاحب پیار سے اسے اپنے پاس بٹھاتے، چائے پانی کا پوچھتے، پھر کس سے ملنا ہے پوچھتے اور اس کے گھر اپنا بندہ بھیج کر اسے بلا لیتے یا خود اٹھ کر پتہ کرتے۔ بہت دفعہ ہوتا کہ میرا کوئی دوست آتا تو اسے بٹھا کر مجھے آواز دیتے۔ میں جواب دیتا تایا جی آرہا ہوں۔ وہ میرے تایا ہی تھے۔ان سے میرا رشتہ خون کے رشتوں سے بڑھ کر تھا۔ میں نہ ہوتا تو میری والدہ جواب دیتی۔ پا جی! کہیں گیا ہوا ہے دو گھنٹے تک آئے گا۔ بیٹا اس کا فلاں دوست آیا ہے آئے تو بتا دینا۔ پھر میرے دوست کو احوال بتا کر بڑے پیار سے رخصت کرتے۔

عجیب دور تھا۔ ہمسایہ ہونا، محلے دار ہونا سب سے بڑی برادری تھی۔ پیار، محبت اور آپس میں ملنے جلنے کا نظام اس قدر مربوط تھا کہ آج کے خون کے رشتے بھی شاید اس کے سامنے مات ہیں۔محلے میں کسی ایک شخص کو مشکل پیش آتی تو پورا محلہ مشکل کا شکار ہو جاتا۔ میرے گھر کے ساتھ پانچ دوسرے گھر منسلک تھے جن میں سے چار بلوچوں کے تھے۔ وہ سبھی بزرگ آج دنیا میں نہیں مگر اُن کی اولادیں مجھے آج بھی سگے رشتہ داروں کی طرح ملتی ہیں۔ میں اُن سے ملتے ہوئے خود کو بلوچ ہی سمجھتا ہوں۔ اپنے پرانے محلے میں کبھی کبھی ماضی کی یادوں کے حوالے سے خود کو تروتازہ کرنے جاؤں تو یہی بلوچ میرے عزیزوں اور بھائیوں کی طرح گلے ملتے اور محبت کا پیغام دیتے ہیں۔

مجھے مزنگ کو خیر باد کہے چالیس (40) سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھائی چارہ، وہ پیار اور محبت، وہ خلوص اور باہمی اخلاص سب کچھ رفتہ رفتہ ختم ہو چکا۔ تعصب نے اس تیزی سے اپنی جڑیں پھیلائیں ہیں کہ ہر جگہ نفرت کے ڈیرے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ دوستی، رشتہ داری، مذہب، رنگ، نسل، برادری، محلہ داری، زبان سمیت ہر مشترک چیز کا ایک تعصب ہوتا ہے۔ یہ تعصب اگر اخلاقی اور انسانی قدروں کو پامال نہ کرے۔ انصاف سے بالا تر نہ ہو۔ نفرت کی اداؤں سے بے نیاز ہو تو اُس میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ بہت سی صورتوں میں یہ تعصب فائدہ مند بھی ہوتا ہے اور لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے بھی ہیں۔ الیکشن کے دوران امیدوار اس تعصب کا بھرپور استعمال کرتے ہیں اور کر رہے ہیں اور اس تعصب کی بنیاد پر ہار جیت ہوتی رہی ہے۔ افسو س اس وقت ہوتاہے جب حد سے بڑے ہوئے تعصب کی بناء پر بہت سے اہل لوگ اپنی برادری کے کم ووٹ ہونے کی بنا پر ہار جاتے اور کچھ نا اہل اپنی برادری کے زیادہ ووٹوں کے بل پر الیکشن جیت جاتے۔ لوگ انسانی خوبیوں کو مکمل نظر انداز کر کے برادری کے شخص کو تعصب کی بنیاد پر ووٹ دے کر خود کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے یہ دنیا میں ہر جگہ ہوتا ہے۔ جہاں ذات برادری نہیں ہوتی علاقے کا تعصب ہوتا ہے۔ مذہبی تعصب ہوتا ہے۔ ایشیائی، یورپی، امریکی اور افریقی کا تعصب ہوتا ہے۔ لوگ اپنے فائدے کے لئے رنگ، نسل، فرقے اور علاقے کے تعصب کو اُجاگر کرتے ہیں۔ شاید یہ کوئی برائی نہیں۔ برائی کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب تعصب نفرت کی بنیاد بن جاتا ہے۔

آج لاہور کی پھیلتی آبادی نے برادری ازم کو عملاً ختم کر دیا ہے اس سے پہلے لاہو رایک عرصے تک دو برادریوں کا گڑھ رہا ہے۔ ایک ارائیں اور دوسرے کشمیری۔ سیاست میں بھی مقابلہ ان برادریوں کے امیدواروں کا ہی ہوتا تھا۔ ارائیں گو اکثریت میں تھے، مگر تعصب کے ساتھ اہلیت بھی دیکھی جاتی تھی۔اسی وجہ سے کبھی ارائیں اور کبھی کشمیریوں کا پلڑا بھاری رہتا۔ بہت سے ارائیں کشمیریوں کے ساتھ اور بہت سے کشمیری ارائیوں کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ صحت مند اور خوبصورت مقابلہ ہوتا۔ منتخب ہونے والے سب کو ساتھ لے کر چلتے۔ پھر ایک ہی برادری ہوتی۔ سب کا بھائی چارہ ہر حال میں قائم رہتا۔

آج تعصب نفرت کو پروان چڑھا رہا ہے۔ ایسے حالات میں پنجاب کی یونیورسٹیوں میں بلوچ، پختون، سندھی، شمالی علاقہ جات اور دیگر علاقوں کے طلباء کی موجودگی خوش آئند ہے۔ یہ لوگ پنجاب کے حالات سے بھی واقف ہوں گے اور یقینا ایک اچھا پیغام لے کر جائیں گے۔ یہ محبت اور بھائی چارے کے سفیر ہونگے۔ انہیں احساس ہوگا کہ لاہور یا کوئی بھی شہر کسی کی جاگیر نہیں۔ سب پاکستانی ہیں۔خرابی تو ان کے روّیوں میں ہے جو سب کو لوٹ رہے ہیں۔ سب کا استحصال کر رہے ہیں۔ جنہیں ملک کے عوام سے نہیں لوٹ مار سے دلچسپی ہے اور جن سے نجات سب کا مطمع نظر ہے اور اس جدوجہد میں سندھی، بلوچی، پنجابی اور پٹھان سمیت سب برابر کے شریک ہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500445 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More