گزشتہ سے پیوستہ
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: شرعی حیثیت
مَن گھڑت، خود ساختہ طریقے اور کیفیات دِین میں سے نہیں ہیں، ذِکر و اذکار،
عید، صلاۃ و سلام، یہ سب دِین میں تو ہیں، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ”’
اِن کو کرنے کی کون سی کیفیت اور ہیئت دِین میں ہے؟
قُرآن کی آیات کا اپنی طرف سے تفسیر و شرح کرنا، صحیح ثابت شدہ سُنّت اور
صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کی موافقت کے بغیر اپنی طرف سے معنی و مفہوم
نکالنا اور اُس کو بُنیاد بنا کر عِبادات و عقائد اخذ کرنے سے کوئی کام
عبادت اور کوئی قول و سوچ عقیدہ نہیں بن سکتے، نہ ہی کچھ حلال و حرام کیا
جا سکتا ہے، نہ ہی کچھ جائز و ناجائز کیا جا سکتا ہے، نہ ہی کسی کو کافر و
مشرک و بدعتی قرار دیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی ایسے بلا دلیل اور ذاتی آراء
و فہم پر مبنی اقوال و افعال و اَفکار دِین کا جُز قرار پا سکتے ہیں، وہ
یقیناً دِین میں نئی چیز ہی قرار پائیں گے، جِسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے بدعت قرار فرمایا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مذکورہ بالا اِن فرامین کے بعد دِین
میں کِسی بھی نئے کام یعنی بدعت کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ، ”’ ہر ”’ بدعت
کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گمراہی قرار دِیا ہے، کِسی بدعت
کو اچھا یعنی بدعتِ حسنہ کہہ کر جائز کرنے کی کوئی گنجائش نہیں، اور میں
کہتا ہوں کہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سئیہ کی تقسیم بذات خود ایک بدعت ہے۔
اِمام الالکائی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا کہ
( کُلّ بدعۃ ضلالۃ و اِن رآھا الناسُ حسنہ )
( ہر بدعت گمراہی ہے خواہ لوگ اُسے اچھا ہی سمجھتے ہوں )
،صحابہ ر ضی اللہ عنہم سے اِس موضوع پر بہت سے فرامین صحیح اسناد کے ساتھ
مروی ہیں ، اِنشاء اللہ کبھی اُن کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی سعی کروں گا،
جاری ہے |