عید امیر اور غریب کے لیے
یکساں خوشی کا پیغام لاتی ہے ، عید اصل میں ہے ہی دوسروں کو اپنی خوشیوں
میں شریک کرنے کا نام ہے یا دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام ہے اگر
ہمارے پڑوس میں خاندان میں کوئی عید کی خوشیوں میں شامل نہیں ہو سکتا غربت
کی وجہ سے تو اس کی مدد کرنے سے ہی عید کی دلی خوشیاں ملیں گیں ، جیسا کہ
ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل کر دی ہے
ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جن
کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تا کہ وہ غریب مسلمان بھی مسرتوں
اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے بھی ایک غریب مسلمان کی
خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے
وہ لازوال ہوتی ہے۔
اور ایسی مدد کرنے پر خدا اور رسول ﷺ بھی خوش ہوتے ہیں اور اگر ہو سکے تو
عید سے چند دن پہلے ان کی مدد کر دیں تاکہ وہ اپنے بچوں کے لیے کپڑے خرید
سکے ،یہ ہمارا ان پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اﷲ کی طرف سے ہم پر فرض ہے اﷲ
نے ہمارے رزق میں ان کا حصہ رکھا ہے۔
دوسری جانب مہنگائی کو دیکھتے ہیں اشیاء خوردو نوش کی قیمتیں آسمان سے
باتیں کر رہی ہیں ۔اور شائد غربا کی آہیں اس سے اوپر جا پہنچی ہوں ۔ یہ
ہمارے امرا وزیر ، ان کو کیا پتا کہ غربت کیا ہوتی ہے انہوں نے کبھی فاقہ
کیا ہو تو پتہ ہو کبھی ذلت دیکھی ہو کہ جب بچے گھر میں بھوکے ہوں سارا دن
کام نہ ملے دیہاڑی نہ ملے اوپر سے عید آجائے ۔ایک امیر نے میرے سامنے کل
ایک غریب سے کہا اﷲ تعالی چاہتا تو غربا کو خود نواز دیتا ۔
کل ایک بھوکے نے طنزیہ کہا مجھ سے۔۔۔۔۔ تیرا خدا بھی امیروں کی طرح ٹالتا
ہے
ایسے لوگ بھول جاتے ہیں۔ اﷲ کی طرف سے آزمائش ہے اﷲ کسی کو زیادہ اور کسی
کو کم دے کر آزماتا ہے اﷲ نے امیروں کو خبر دار کیا ہے کہ جو اپنی ضرورت سے
زیادہ ہو اسے غربا میں تقسیم کر دو ،پاکستان میں 50 فیصد آبادی خط غربت سے
نیچے زندگی گزار رہی ہے اس کے علاوہ جو دیہاڑی دار ہیں ان کی عید کیسی ہو
گی وہ بچوں کو کیا عیدی دیں گئے ۔کہاں سے لائیں گے نئے کپڑے ،اس کے بچے کس
حسرت سے اپنے ماں باپ کو دیکھتے ہوں گے تنخواہ دار طبقہ تو کسی نہ کسی طرح
رو دھو کر بچوں کے لیے عید کا سامان کپڑے ،جوتے اور دیگر اشیائے پوری کر ہی
لیتا ہے مگر وہ جو دیہاڑی دار ہیں ،جو بے روزگار ہیں وہ جو یتیم ہیں کتنے
حیرت دکھ ،افسوس اور بے حسی کی بات ہے کہ دیگر ممالک میں غیر مسلموں کے
تہواروں پر اشیائے خوردونوش انتہائی کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں تاکہ ہر
خاص و عام خوشیوں میں شریک ہو سکے غیر مسلموں کے تہوار مثلا کرسمس ،ہولی و
دیوالی وغیرہ اور ایک ہم ہیں بقول علامہ اقبال جسے دیکھ کر شرمائیں یہود ۔
عید پر منافع میں100 گنا اضافہ کر دیتے ہیں اور اشیائے خوردونوش کی ملاوٹ
میں بھی ۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی
زندگی مشکل کر دی ہے ۔ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی
خوشیوں میں شامل کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تا کہ وہ
غریب مسلمان بھی مسرتوں اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے
بھی ایک غریب مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو
روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے۔ اور ایسی مدد کرنے پر خدا اور
رسول ﷺ بھی خوش ہوتے ہیں نہیں معلوم خوشی ہے کیا چیز ؟ بس نام ہی سنتے آئے
ہیں۔
ہمیں سوچنا چاہیے کیا ہم سے صرف ہماری نمازوں کا ہی سوال ہو گا ،صرف ہمارے
روزوں کا سوال ہو گا ۔کیا مظلوم مسلمان،بے سہارا مسلمان،خط غربت سے نیچے
زندگی گزارنے وا لے غریب مسلمان،تیرے میرے ہمارے خاندان کے غربا جو مسکین
ہیں ان کے بارے میں سوال نہیں ہو گا ۔مسکین کون ہوتا ہے وہ جس کے حالات
انتہائی تنگ ہوں مگر وہ دست سوال دراز نہ کرے ۔ایسے افراد کے بارے میں ہم
سے روز محشر سوال ہو گا ،وہ جن کی ماں اس دنیا سے اٹھ گئی یا جس کا باپ نہ
رہا ان کا غم کون جانتا ہے ،کون سمجھ سکتا ہے جس پر گزری ہی نہ ہو ،یتیم کا
دکھ تو یتیم ہی سمجھ سکتا ہے مسکین کا مسکین ،جس کا باپ نہ ہو ،یا ماں نہ
ہو یا وہ بہت غریب ہو ،بیروزگار ہو ، اسے کام نہ ملتا ہو ، معذور ہو کام نہ
کر سکتا ،بوڑھے ہوں اولاد چھوڑ گئی ہو تنہا چھوڑ کر الگ ہو گئی ہو ،بیمار
ہوں ،یا بستر مرگ پر ہوں ،اس کے گھر عید کیا خوشیاں لائے گی ۔وہ عید کیسے
منائیں گے یہ شعر بھی کس کرب سے کہا گیا ہو گا ۔ غریب ماں اپنے بچوں کوبڑے
پیار سے یوں مناتی ہے ۔ پھر بنا لیں گے نئے کپڑے یہ عید تو ہر سال آتی ہے ۔
اے مسلم اپنی عید کی خوشیاں منانے والے ذر ا سوچ ۔
ہمیں اس عید پر جو ہمارے عزیز غریب ہیں ، پڑوسی ،بوڑھے
،کمزور،یتیم،مسکین،بے روزگار ،بیوہ ،ہیں ان کو تو اپنی خوشیوں میں شامل کر
نا چاہیے ۔ عیدکے دن خوشیاں مناتے وقت ہمیں غریب مسلمان بہن بھائیوں کو
بھولنا نہیں چاہیے ۔
|