امام محمد بن جار اﷲ بن ظہیرہ
الحنفی (م 986ھ :-
اِمام جمال الدین محمد جار اﷲ بن محمد نور الدین بن ظہیرہ قرشی حنفی (م
1587ء) ’’الجامع اللطیف فی فضل مکۃ واھلھا وبناء البیت الشریف‘‘ میں اہلِ
مکہ کا جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کا معمول یوں بیان
کرتے ہیں :
وجرت العادة بمکة ليلة الثاني عشر من ربيع الأول في کل عام أن قاضي مکة
الشافعي يتهيّأ لزيارة هذا المحل الشريف بعد صلاة المغرب في جمع عظيم، منهم
الثلاثة القضاة وأکثر الأعيان من الفقهاء والفضلاء، وذوي البيوت بفوانيس
کثيرة وشموع عظيمة وزحام عظيم. ويدعي فيه للسلطان ولأمير مکة، وللقاضي
الشافعي بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام، ثم يعود منه إلي المسجد الحرام قبيل
العشاء، ويجلس خلف مقام الخليل عليه السلام بإزاء قبة الفراشين، ويدعو
الداعي لمن ذکر آنفًا بحضور القضاة وأکثر الفقهاء. ثم يصلون العشاء
وينصرفون، ولم أقف علي أول من سن ذالک، سألت مؤرخي العصر فلم أجد عندهم
علمًا بذالک.
’’ہر سال مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات اہل مکہ کا یہ معمول ہے کہ
قاضی مکہ جو کہ شافعی ہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے
ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہبِ فقہ
کے قاضی، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس
اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جا کر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے
کے بعد بادشاہِ وقت، امیرِ مکہ اور شافعی قاضی کے لیے (منتظم ہونے کی وجہ
سے) دعا کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے نمازِ عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام
میں آجاتے ہیں اور صاحبانِ فراش کے قبہ کے مقابل مقامِ ابراہیم کے پیچھے
بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں
دعا کا کہنے والوں کے لیے خصوصی دعا کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے
کے بعد سارے الوداع ہو جاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ
سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے ہم عصر مؤرّخین سے پوچھنے کے باوُجود
اس کی تاریخ کا پتہ نہیں چل سکا۔‘‘
ابن ظهيره، الجامع اللطيف في فضل مکة وأهلها وبناء البيت الشريف : 201، 202
حضرت مجدد الف ثانی (971۔ 1034ھ :-
امام ربانی شیخ احمد سرہندی حضرت مجدد الف ثانی (1564۔ 1624ء) اپنے
’’مکتوبات‘‘ میں فرماتے ہیں :
نفس قرآں خواندن بصوتِ حسن و در قصائد نعت و منقبت خواندن چہ مضائقہ است؟
ممنوع تحریف و تغییر حروفِ قرآن است، والتزام رعایۃ مقامات نغمہ و تردید
صوت بآں، بہ طریق الحان با تصفیق مناسب آن کہ در شعر نیز غیر مباح است. اگر
بہ نہجے خوانند کہ تحریفِ کلمات قرآنی نشود. . . چہ مانع است؟
’’اچھی آواز میں قرآن حکیم کی تلاوت کرنے، قصیدے اور منقبتیں پڑھنے میں کیا
حرج ہے؟ ممنوع تو صرف یہ ہے کہ قرآن مجید کے حروف کو تبدیل و تحریف کیا
جائے اور اِلحان کے طریق سے آواز پھیرنا اور اس کے مناسب تالیاں بجانا جو
کہ شعر میں بھی ناجائز ہے۔ اگر ایسے طریقہ سے مولود پڑھیں کہ قرآنی کلمات
میں تحریف واقع نہ ہو اور قصائد پڑھنے میں مذکورہ (ممنوعہ) اَوامر نہ پائے
جائیں تو پھر کون سا اَمر مانع ہے؟‘‘
مجدد الف ثاني، مکتوبات، دفتر سوم، مکتوب نمبر : 72
شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ :-
عارِف باﷲ قدوۃ المحدثین شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (1551۔
1642ء) نے اپنی کتاب ما ثَبَت مِن السُّنّۃ فی ايّام السَّنَۃ میں ہر مہینہ
اور اس میں خاص خاص شب و روز کے فضائل اور ان میں کیے جانے والے اَعمال
مفصل بیان کیے ہیں۔ اُنہوں نے ماہِ ربیع الاول کے ذیل میں میلاد شریف منانے
اور شبِ قدر پر شبِ ولادت کی فضیلت ثابت کی ہے۔ اور بارہ (12) ربیع الاول
کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا جشن منانا بہ طورِ
خاص ثابت کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
وقد رؤي أبولهب بعد موته في النوم، فقيل له : ما حالک؟ قال : في النار، إلا
أنه خُفّف کل ليلة اثنتين، وأمص من بين أصبعي هاتين ماء. وأشار إلي رأس
إصبعيه. وإن ذلک بإعتاقي لثويبة عند ما بشرتني بولادة النبي صلي الله عليه
وآله وسلم وبإرضاعها له.
قال ابن الجوزي : فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمّه جُوزيَ في
النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، فما حال المسلم من
أمته يسر بمولده، ويبذل ما تَصل إليه قدرته في محبته صلي الله عليه وآله
وسلم ؟ لعمري! إنما کان جزاؤه من اﷲ الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم.
ولا يزال أهل الاسلام يحتفلون بشهر مولده صلي الله عليه وآله وسلم ويعملون
الولايم ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات ويظهرون السرور ويزيدون في
المبرّات ويعتنون بقراءة مولده الکريم ويظهر عليهم من مکانه کل فضل عميم.
ومما جرّب من خواصه أنه أمان في ذلک العام وبشري عاجل بنيل البغية والمرام،
فرحم اﷲ امرأ اتخذ ليالي شهر مولده المبارک أعياداً ليکون أشد غلبة علي من
في قلبه مرض وعناد.
’’ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا : اب تیرا
کیا حال ہے؟ کہنے لگا : آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن (میرے عذاب
میں) تخفیف کر دی جاتی ہے اور. اُنگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ.
میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے (جسے میں پی لیتا
ہوں) اور یہ (تخفیفِ عذاب میرے لیے) اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد
کیا تھا جب اس نے مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خوش
خبری دی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ بھی پلایا تھا۔
’’ابن جوزی (510۔ 579ھ / 1116۔ 1201ء) کہتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں
ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت (میں) قرآن حکیم
میں (ایک مکمل) سورت نازل ہوئی ہے۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے
والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد
کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عشق میں حسبِ
اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو
(اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل) اپنے فضل کے
ساتھ اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائیں گے۔
’’اور ہمیشہ سے مسلمانوں کا یہ دستور رہا ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں
میلاد کی محفلیں منعقد کرتے ہیں، دعوتیں کرتے ہیں، اس کی راتوں میں صدقات و
خیرات اور خوشی کے اِظہار کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان
دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک کام کریں۔ اس موقع پر وہ ولادت باسعادت کے
واقعات بھی بیان کرتے ہیں۔
’’میلاد شریف منانے کے خصوصی تجربات میں محفلِ میلاد منعقد کرنے والے سال
بھر امن و عافیت میں رہتے ہیں اور یہ مبارک عمل ہر نیک مقصد میں جلد
کامیابی کی بشارت کا سبب بنتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اُس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے
جو میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شب بہ طور عید مناتا ہے، اور جس
(بدبخت) کے دل میں عناد اور دشمنی کی بیماری ہے وہ اپنی دشمنی میں اور
زیادہ سخت ہوجاتا ہے۔‘‘
عبد الحق، ما ثَبَت مِن السُّنّة في أيّام السَّنَة : 60
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم منانے کے اَحوال اور درج بالا واقعات سیرتِ طیبہ پر فارسی زبان میں
لکھی جانے والی اپنی کتاب ’’مدارج النبوۃ (2 : 18، 19)‘‘ میں بھی بیان کیے
ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک میلاد شریف منانا کس قدر مستحسن
اور باعثِ اَجر و ثواب اَمر تھا۔
حاجی اِمداد اﷲ مہاجر مکی (1233۔ 1317ھ :-
علمائے ہند کے عظیم شیح بالخصوص مدرسہ دیوبند کے نام وَر عالم و فاضل بزرگ
حاجی اِمداد اﷲ مہاجر مکی (1817۔ 1899ء) ہندوستان سے ہجرت کر کے مکہ مکرمہ
میں مقیم ہوگئے اور مکہ میں درس دیتے رہے، پھر وہیں ان کی وفات ہوئی اور
جنت المعلیٰ میں مدفون ہیں۔ (1) حاجی اِمداد اﷲ مہاجر مکی چاروں سلاسلِ
طریقت میں بیعت کرتے تھے، اور دار العلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم
نانوتوی (1248۔ 1297ھ / 1833۔ 1880ء) اور دار العلوم دیوبند کے سرپرست
مولانا رشید احمد گنگوہی (1244۔ 1323ھ / 1829۔ 1905ء) آپ کے مرید و خلفاء
تھے۔ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی (1275۔ 1356ھ / 1859۔ 1937ء)، مولانا
اشرف علی تھانوی (1280۔ 1362ھ / 1863۔ 1943ء)، مولانا محمود الحسن دیوبندی
(م 1339ھ / 1920ء) اور کئی دیگر علماء و مشائخ کا شمار حاجی اِمداد اﷲ
مہاجر مکی کے خلفاء میں ہوتا تھا۔
(1) مصنف کو اُن کی آخری آرام گاہ پر حاضری کی سعادت بچپن میں 1963ء میں
حاصل ہوئی۔ اُس وقت ان کا مدفن ایک حجرے میں تھا۔
’’شمائمِ اِمدادیہ‘‘ کے صفحہ نمبر 47 اور 50 پر درج ہے کہ حاجی اِمداد اﷲ
مہاجر مکی نے ایک سوال میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِنعقاد کے
بارے میں اُن کی کیا رائے ہے؟ کے جواب میں فرمایا :
’’مولد شریف تمام اہل حرمین کرتے ہیں، اسی قدر ہمارے واسطے حجت کافی ہے۔
اور حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیسے مذموم ہو سکتا
ہے! البتہ جو زیادتیاں لوگوں نے اِختراع کی ہیں نہ چاہئیں۔ اور قیام کے
بارے میں کچھ نہیں کہتا۔ ہاں، مجھ کو ایک کیفیت قیام میں حاصل ہوتی ہے۔‘‘
1. اِمداد اﷲ، شمائم اِمداديه : 47
2۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی یہ عبارت ’’اِمداد المشتاق اِلیٰ اشرف
الاخلاق (ص : 52، 53)‘‘ میں نقل کی ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں :
’’ہمارے علماء مولد شریف میں بہت تنازعہ کرتے ہیں۔ تاہم علماء جواز کی طرف
بھی گئے ہیں۔ جب صورت جواز کی موجود ہے پھر کیوں ایسا تشدد کرتے ہیں؟ اور
ہمارے واسطے اِتباعِ حرمین کافی ہے۔ البتہ وقتِ قیام کے اِعتقاد تولد کا نہ
کرنا چاہیے۔ اگر اِہتمام تشریف آوری کا کیا جائے تو مضائقہ نہیں کیوں کہ
عالم خلق مقید بہ زمان و مکان ہے لیکن عالم اَمر دونوں سے پاک ہے۔ پس قدم
رنجہ فرمانا ذاتِ بابرکات کا بعید نہیں۔‘‘
1. اِمداد اﷲ، شمائم امداديه : 50
2۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی یہ عبارت ’’اِمداد المشتاق اِلیٰ اشرف
الاخلاق (ص : 58)‘‘ میں نقل کی ہے۔
حاجی اِمداد اﷲ مہاجر مکی کے مذکورہ بالا بیان کے مطابق حرمین شریفین میں
میلاد کی تقریبات کا ہونا اس بات کی حتمی و قطعی دلیل ہے کہ اس پر اہل
مدینہ اور اہل مکہ میں دو آراء نہیں تھیں، وہ سب متفقہ طور پر میلاد کا
اہتمام کرتے تھے۔ اور میلاد کے جواز پر اِس قدر حجت ہمارے لیے کافی ہے جو
کہ اِنکار کرنے والوں کے لیے برہانِ قاطع ہے۔
حاجی اِمداد اﷲ مہاجر مکی نے اِعتقادی نوعیت کے سات سوالات کے جواب میں
اپنی کتاب ’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘ (1) لکھی۔ کسی نے اُن سے دریافت کیا کہ
میلاد کے بارے میں ان کا کیا عقیدہ اور معمول ہے؟ تو اِس پر اُنہوں نے جواب
دیا :
(1) دیوبندی مسلک کے بعض علماء ’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘ کے بارے کہتے ہیں کہ یہ
حضرت اِمداد اﷲ مہاجر مکی کی تحریر نہیں، حالاں کہ مولانا اشرف علی تھانوی
نے ’’اشرف السوانح (3 : 355، 356)‘‘ میں تصریح کی ہے کہ یہ حضرت اِمداد اﷲ
مہاجر مکی کی تحریر ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے ’’فتاویٰ رشیدیہ (ص :
130، 131)‘‘ میں لکھا ہے کہ اُنہوں نے یہ رسالہ کسی سے لکھوایا اور سُن کر
اس میں اِصلاحات کروائیں۔ گویا اِس میں جو کچھ لکھا ہے وہ حضرت کا مسلک و
مشرب ہے۔ علاوہ ازیں دیوبند مسلک کے کتب خانوں سے شائع ہونے والے حضرت
اِمداد اﷲ مہاجر مکی کے دس رسالوں کے مجموعہ. ’’کلیاتِ اِمدادیہ‘‘. میں بھی
’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘ شامل ہے؛ جیسا کہ کتب خانہ اشرفیہ، راشد کمپنی، دیوبند
(بھارت) نے طبع کیا تھا، اور ادارہ اِسلامیات، لاہور نے بھی شائع کیا ہے۔
’’فقیر کا مشرب یہ ہے کہ محفل مولود میں شریک ہوتا ہوں، بلکہ برکات کا
ذریعہ سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف اور لذت پاتا ہوں۔‘‘
اِمداد اﷲ، فيصله هفت مسئله : 7
ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’رہا یہ عقیدہ کہ مجلسِ مولود میں حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
رونق افروز ہوتے ہیں، تو اس عقیدہ کو کفر و شرک کہنا حد سے بڑھنا ہے۔ یہ
بات عقلاً و نقلاً ممکن ہے، بلکہ بعض مقامات پر واقع ہو بھی جاتی ہے۔ اگر
کوئی یہ شبہ کرے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے علم ہوا، آپ کئی
جگہ کیسے تشریف فرما ہوئے، تو یہ شبہ بہت کمزور شبہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے علم و روحانیت کی وسعت کے آگے۔ جو صحیح روایات سے اور اہلِ
کشف کے مشاہدے سے ثابت ہے۔ یہ ادنیٰ سی بات ہے۔‘‘
اِمداد اﷲ، فيصله هفت مسئله : 6
جو لوگ محفلِ میلاد کو بدعتِ مذمومہ اور خلافِ شرع کہتے ہیں، اُنہیں کم اَز
کم اپنے شیخ و مرشد کا ہی لحاظ کرتے ہوئے اِس رویہ سے گریز کرنا چاہیے۔
جاری ہے--- |