دعوت کا آغاز
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم غار حراء سے نکل کر جب گھر میں داخل ہوئے
تو آپ نے بستر پر آرام فرمایا۔ ابھی اسلام کے مستقل اور دین کے بارے میں
سوچ ہی رہے تھے کہ سورہ مدثر نازل ہوئی اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کو اٹھ کھڑے ہونے اور ڈرانے پر مقرر کیا۔ چنانچہ اس طرح پیغمبر اکرم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے دعوت حق کا آغاز کیا اس دعوت کے تین مرحلے تھے۔
(الف) پوشیدہ دعوت
دعوتِ حق کے اس مرحلے کی مدت مؤرخین نے3 سے5 سال لکھی ہے۔ مشرکین کی سازش
سے محفوظ رہنے کے لئے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ
عوام کی جانب توجہ دینے کی بجائے لوگوں کو فرداً فرداً دعوتِ حق کے لیے
تیار کریں اور پوشیدہ طور پر باصلاحیت لوگوں سے ملاقات کر کے ان کے سامنے
دین الہٰی پیش کریں۔ چنانچہ آپ کی جدوجہد سے چند لوگ آئین توحید کی جانب
آگئے مگر ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ اپنے دین کو مشرکین سے پوشیدہ رکھیں
اور فرائض عبادت کو لوگوں کی نظروں سے دور رہ کر انجام دیں۔
جب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور 30 تک پہنچ گئی تو رسول خدا صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے ارقم کے گھر کو جو کوہ صفا کے دامن میں واقع تھا تبلیغ
اسلام اور پرستش خداوند تعالیٰ کا مرکز قرار دیا۔ آپ اس گھر میں ایک ماہ تک
تشریف فرما رہے۔ اب مسلمانوں کی تعداد 40 تک پہنچی تھی۔
قریش کا ردعمل
اگرچہ قریش کو کم و بیش علم تھا کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
پوشیدہ طور پر دعوت دین حق جاری ہے لیکن انہیں اس تحریک کی گہرائی سے
واقفیت نہ تھی اس لیے انہوں نے کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا کیونکہ اس سے
انہیں کسی خطرہ کا اندیشہ نہیں تھا، مگر اس کےساتھ ہی وہ اپنے گرد و پیش کے
ماحول سے بھی بے خبر نہ تھے، چنانچہ وہ ان واقعات کی کیفیت بھی ایک دوسرے
سے بیان کر دیتے تھے، رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقعے سے فائدہ
اٹھایا اور اس عرصے میں آپ نے (حزب اللہ) جماعت حق کی داغ بیل ڈال دی۔
(ب) عزیز و اقرباء
دعوت کا یہ مرحلہ اس آیہ مبارکہ کے نزول کےساتھ شروع ہوا۔
وانذر عشیرتک القربین
اپنے رشتہ داروں کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیے
پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اس کام پر
مقرر کیا کہ آپ علیہ السلام کھانے کا انتظام کریں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کے عزیز و اقارب کو کھانے پر بلائیں، تاکہ ان تک خداوند تعالیٰ
کا پیغام پہنچا دیں۔
تقریباً 40 یا45 آدمی آپ کے دستر خوان پر جمع ہوئے، رسول خدا صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم چاہتے تھے کہ لوگوں سے گفتگو کریں، مگر ابولہب نے غیر متعلقہ
باتیں شروع کر کے اور آپ پر سحر و جادو گری کا الزام لگا کر محفل کو ایسا
درہم برہم کیا کہ اس میں اصل مسئلے کو پیش نہ کیا جاسکا۔
اگلے روز آپ نے دوبارہ لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا۔ جب لوگ کھانے سے فارغ
ہوگئے تو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنی جگہ سے اٹھے اور تقریر کے
دوران فرمایا: اے عبدالمطلب کے بیٹوں! خدا کی قسم مجھے قوم عرب میں ایک بھی
ایسا جوان نظر نہیں آتا کہ وہ اس سے بہتر چیز لے کر آیا ہو، جو میں اپنی
قوم کے لئے لے کر آیا ہوں۔ میں تمہارے لیے دنیا اور آخرت کی خیر (بھلائی)
لے کر آیا ہوں۔ خداوند تعالیٰ نے مجھے اس کام پر مقرر کیا ہے کہ میں تمہیں
اس کی طرف دعوت دوں۔ تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مدد کرے تاکہ وہ
تمہارے درمیان میرا بھائی، وصی ور جانشین بن سکے۔ فایکم یوازرنی علی ھذا
الامر علی ان یکون اخی ووصیی وخلیفتی؟ ”رسول خدا نے تین مرتبہ اپنی بات
دہرائی اور ہر مرتبہ حضرت علی علیہ السلام ہی نے اٹھ کر اعلان کیا کہ میں
آپ کی مدد و پشت بانی کروں گا۔ اس پر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا: انا ھذا اخی ووصی وخلیفتی فیکونا سمعوا لہ واطیعوا ”یہ علی علیہ
السلام تمہارے میرے بھائی، وصی اور خلیفہ ہیں ان کی بات سنو اور اطاعت
کرو۔“
اس مجلس میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تقریر کی اس سے مسئلہ امامت
کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے اور یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اصل (نبوت) کو امامت
سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔
عزیز و اقارب کو ہی کیوں پہلے دعوت حق دی گئی؟
مندرجہ بالا سوال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ دعوت عمومی سے قبل عقل و
دانش کی رو سے عزیز و اقارب کو ہی دعوت دی جانی چاہیے، کیونکہ امر واقعی یہ
ہے کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اقدام انتہائی حساس مرحلے اور
خطرناک حالات میں دعوت حق کی بنیادوں کو استوار کرنے کا بہترین ذریعہ تھا۔
کیونکہ۔
(۱) عزیز و اقارب کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کر کے ہی پیغمبر اکرم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم دشمنان اسلام کے خلاف طاقتور دفاعی محاذ قائم کرسکتے تھے۔
اس کا کم از کم اتنا فائدہ تو تھا ہی کہ اگر ان کے دل آپ کے دین کی طرف
متوجہ نہ بھی ہوئے تو بھی وہ رشتہ داری اور قرابت کی بنا پر آنحضرت صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ و دفاع کےلئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
(۲) رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انسانی کوتاہیوں اور اپنی ذات میں
تنظیمی قوت کا خوب اندازہ لگایا اور یہ جان لیا تھا کہ وہ کون سی طاقتیں
ہیں جو آپ کی مخالفت کریں گی اور آپ سے برسر پیکار ہوں گی۔
(ج) عام دعوتِ حق
رسول خدا نے اس آیت :
فاصدع بما توئمر واعرض ِعن المشرکین انا کفیناک
”جس چیز کا آپ کو حلم دیا جا رہا ہے اسے کھلم کھلا بیان کرو اور مشرکین کی
پروا نہ کرو تمہارا مذاق اڑانے والوں کے لئے ہم کافی ہیں۔“
آپ کو اس کام پر مقرر کیا گیا کہ سب کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں،
چنانچہ اس مقصد کی خاطر آپ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور اس جم غفیر کے
سامنے جو اس وقت وہاں موجود تھا آپ نے اس تمہید کے ساتھ تقریر شروع کی کہ:
اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے تمہاری گھات میں دشمن بیٹھا ہوا ہے
اور تمہارے لیے اس کا وجود سخت خطرے کا باعث ہے تو کیا تم میری بات کا یقین
کرو گے؟
سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہاں، ہم آپ کی بات کا یقین کریں گے کیونکہ ہم
نے آپ کی زبان سے اب تک کوئی جھوٹی بات نہیں سنی ہے اس کے بعد آپ نے
فرمایا:
فانی نذیر لکم بین یدی عذاب شدید
”اب جب کہ تم نے میری راست گوئی کی تصدیق کر دی ہے تو میں تمہیں بہت ہی سخت
عذاب سے آگاہ و خبردار کر رہا ہوں۔“
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات سن کر ابولہب بول اٹھا اور کہنے
لگا:
وائے تیرے حال پر، کیا تو نے یہی بات کہنے کے لئے ہمیں یہاں جمع کیا تھا؟
خداوند تعالیٰ نے اس گستاخ کی تنبیہ اور اس کے چہرے سے کینہ توزی کے نقاب
کو دور کرنے کے لئے سورہ ابولہب نازل فرمائی:
تبت یدا ابی لھب وتب مااغنی عنہ مالہ وماکسب سیصلی نارا ذات لھب وامراتہ
حمالة الحطب فی جیدھا حبل من مسد
”ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ کمایا ہوا
عنقریب اسے آگ میں ڈالا جائے گا اور اس کی بیوی لکڑی ڈھونے والی کو جس کے
گلے میں بندھی ہوئی رسی ہے۔“
۔۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محترم قارئین آپ کی آرا راقم کےلئے باعث عزت افزائی و
رہنمائی ہو گی۔ |