حسن کے دادا جی فجر کی نماز سے فارغ ہو کر اپنے شاگردوں
کو درس قرآن دے رہے تھے۔ اپنے گھر سے دور جہاں کوئی آتا جاتا نہیں۔ کوئی
بھولا بھٹکا وہاں سے گزر بھی جائے تو دادا جی کو اپنے آپ سے باتیں کرتا
پائے۔ انکے شاگرد کسی کو دکھتے تھوڑی تھے……
’’آج ہم سورۃ الجن پڑھیں گے…… تم لوگوں سے متعلق ہی ہے…… ہاہاہا……‘‘۔ دادا
جی کا وعظ شروع ہوا۔ سامنے کئی جنات دوزانوں بیٹھے تھے جنہیں صرف سنا جا
سکتا تھا۔ دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔
’’دراصل یہ نبوت کے ابتدائی دور کا واقعہ ہے…… حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ کی
روایت کے مطابق، حضور اکرم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ عکاظ کے بازار تشریف لے جا
رہے تھے کہ راستے میں انہوں نے فجر کی نماز پڑھائی…… کچھ جنات کا وہاں سے
گزر ہو رہا تھا ، جو کہ مشرک تھے…… انہوں نے قرآن پاک کی تلاوت سنی اور……
اور جیسا کہ بہت سے صحابہ صرف قرآن مجید سن کر ہی اسلام لے آتے تھے…… یہ
جنات بھی اسلام لے آئے……‘‘
’’اب یہ بات حضور اکرم ﷺ کو معلوم نہ تھی کہ کچھ جنات ان پر ایمان لے آئے
ہیں…… حتی کہ اﷲ نے یہ سورۃ، سورۃ جن…… وحی کر کے انہیں آگاہ کیا……‘‘
کوئی اور بھی چپ چاپ کھڑا یہ سارا درس سن رہا تھا۔جو اب تک ظاہر نہ تھا۔
جنات سے بھی چھپا تھا اور انکے استاد سے بھی!!!
’’ہمارا یہ جو آسمان ہے اس میں بروج ہیں، دروازے ہیں……جن پر اﷲ کے پہرہ دار
پہرہ دیتے ہیں……مگر جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ جنات کے لئے عالم بالا تک
رسائی ممکن ہے…… اور چوری چھپے کچھ شریر جنات وہاں سے کوئی بات اچک کر اپنے
انسان ساتھیوں کو بتا دیا کرتے ہیں……اس میں جھوٹ موٹ ملا کے…… مثلاََکاہنوں
کو یا شیطان مخلوقات کوبتا دیتے ہیں کچھ……‘‘
’’مگر جب یہ پہرہ سخت ہو جاتا ہے تو پھرکسی کی رسائی ممکن نہیں رہتی…… جب
اﷲ کو زمین والوں پر کوئی عذاب نازل کرنا ہوتا ہے…… یا جب وحی کی جاتی
تھی……یا اور بھی کوئی خاص کام ہو سکتا ہے ……واﷲ العلم ‘‘
’’بس یہی ہوا تھا……جب حضور ﷺ کو نبوت ملی تو سلسلہ نزول وحی شروع ہو گیا
اور ظاہر ہے یہ تو اتنا اہم کام تھا کہ آسمانوں پر سخت پہرہ ہو گیا اور اگر
پھر بھی کوئی جن وہاں تک رسائی کی کوشش کرتا تو اس پر ایک شہاب ثاقب کھینچ
مارا جاتا……‘‘
’’اس وجہ سے اس وقت کے جنات کو فکر لاحق ہوئی کہ ایسا کیا خاص کام زمین پر
ہو رہا ہے کہ اتنا سخت پہرہ ہو گیا ہے آسمان پر…… بس یہی جاننے کے لئے جنات
کے گروہ نکلے تھے کہ انہوں نے حضور ﷺ کو نماز میں قرآن مجید پڑھتے سنا اور
اس پر ایمان لے آئے……کئی گروہ بھیجے تھے انہوں نے …… ان میں سے ایک کا قصہ
ہے یہ……‘‘
’’ہاں ایسا تو ہوتا تھا……!!!‘‘۔ وہ بہت غور سے چھپا ان کا وعظ سن رہا تھا۔
’’یہ کیسے پتا چلا کہ وہ مشرک جن تھے؟؟؟‘‘ ایک طالب علم نے سوال کیا۔
’’ہاں ہاں! ابھی آ جائے گا سورۃ میں…… سورۃ سے ہی سب پتا چلتا ہے‘‘۔ دادا
جی نے سورۃ کی آیات پڑھنا شروع کیں۔
’’اے نبی ! کہو، میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے غور
سے(قرآن) سنا پھر (جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا:
’’ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے
اس لئے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہر گز اپنے رب کے ساتھ کسی کو
شریک
نہ کریں گے‘‘۔
’’بس یہاں سے پنا چل گیا نا کہ وہ پہلے کسی کو اپنے رب کے پاتھ شریک کرتے
تھے‘‘۔ دادا جان نے وضاحت کی۔
’’اور یہ کہ ’’ہمارے رب کی شان بہت اعلی و ارفع ہے، اس نے نہ کسی کو بیوی
بنایا ہے نہ بیٹا……ہمارے نادان لوگ اﷲ کے بارے میں بہت خلاف حق باتیں کہتے
رہے ہیں……ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں
بول سکتے……‘‘
’’ہو سکتا ہے کہ یہ جنات عیسائی تھے کیونکہ یہاں بیوی اور بیٹے کا ذکر ہے……
جو کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے‘‘۔ دادا جان نے پھر کہا۔
’’کون ہو تم …… یہاں کیوں چھپے کھڑے تھے……‘‘۔ اچانک شور و غل مچ گیا۔
’’غا غا غا …… نہیں …… چھوڑ دو مجھے……‘‘۔ اس کی آوازیں آنے لگیں۔
’’ کیا ہو گیا…… کون ہے؟؟؟‘‘۔ دادا جان بھی چونک کر کھڑے ہو گئے اورزور زور
سے بار بار پوچھنے لگے۔
’’محترم ! کوئی اجنبی چھپا کھڑا تھا…… نا جانے کس نیت سے آیا ہے؟؟؟‘‘۔ ’’
ہمارے علاقے کا نہیں ہے …… اردو بول رہا ہے‘‘۔ داد جی کے شاگردوں نے جواب
دیا جو اس اجنبی جن کو پکڑے کھڑے تھے۔یہ جنات ہندکو زبان بولتے تھے ۔
’’ ارے یہ توزخمی بھی ہے……‘‘۔ ایک اور اس کے زخمی پیروں کو دیکھ کر بولا۔
’’ مجھے معاف کر دیں میں ابھی چلا جاتا ہوں …… میں تو بس آپ لوگوں کا درس
سننے کی کوشش کر رہا تھا……‘‘ ۔ اس نے گھبراہٹ میں ہلکا ہلکا کانپنا شروع کر
دیا۔
’’ رکو……! کیا کر رہے ہو تم لوگ……؟؟؟‘‘۔ دادا جی نے کرخت آواز میں کہااور
آگے بڑھے جہاں سے آوازیں آ رہی تھیں ۔ خاموشی چھا گئی۔
’’کون ہو تم؟‘‘۔ دادا جی نے پوچھا۔
’’ میں…… میں…… کراچی سے آیا ہوں…… میں کراچی میں…… سندھ میں رہتا ہوں۔‘‘
’’کیا نام ہے تمھارا؟‘‘ ۔ داد جی نے نام پوچھا۔
’’بلشا‘‘
’’م م م ……‘‘۔ دادا جان صحیح طرح نام سن نا سکے۔
’’بلشا نام ہے میرا‘‘۔ بلشا نے گھٹی گھٹی آواز میں دہرایا۔
’’تم زخمی ہو؟؟؟‘‘دادا جی نے سن لیا تھا کہ اس کے پاؤں زخمی ہیں۔
’’ ام م م …… جی …… میرے پاؤں پر زخم ہیں……‘‘۔
’’کیسے لگے یہ زخم؟؟؟ کیا ماجرا ہے؟؟؟ یہاں اتنی دور کیوں بھاگ آئے ہو؟؟؟‘‘
بلشا کا ضبط ٹوٹ گیا اس نے رو رو کراپنی روداد سنانی شروع کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’ سدرہ کہاں ہوتی ہے؟؟؟‘‘۔ ذولفقار یونیورسٹی سے واپس آ چکا تھا۔ وہ عائشہ
اور اسکی امی ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ واقعی بہت عرصہ ہو گیا تھا اسے کہ
اپنی چھوٹی بہن کو دیکھے ہوئے۔حقیقتاََ اس نے خود ہی ااس کی طرف سے اپنی
آنکھیں بند کر لیں تھیں۔ کوئی جانور ہوتا تو اسے باندھ دیا جاتامگر کسی
انسان کا کیا کیا جائے جب وہ کسی چوپائے کی طرح بدک جائے۔ سب گھر والوں نے
سدرہ اور وحید کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ دراصل وہ دونوں ہی ان کے ہاتھ
سے نکل چکے تھے۔ وحید کے بارے میں تو اب سب پر امید تھے مگر سدرہ……
بہر حال ذولفقار کے اس سوال کے جواب میں صرف خاموشی ہی تھی۔ ذولفقار سوالیہ
نظروں سے اپنی امی اور عائشہ کی طرف دیکھنے لگا۔
’’وہ تو کسی ہاسٹل میں رہتی ہے……‘‘۔عائشہ نے بتایا اور ایک بار پھر خاموشی
چھا گئی۔ وحید کسی کشمکش کا شکار تھا۔ وہ اندر سے سدرہ کے حالات جاننا بھی
چاہتا تھااور اسے نظر انداز بھی کرنا چاہتا تھا۔
’’کب سے ہاسٹل میں ہے؟‘‘۔ ذولفقار نے دھیمے سے لہجے میں پوچھا۔
’’ایک مہینہ ہو گیا ہے تقریباََ……‘‘۔ عائشہ نے جواب دیا۔ ان کی امی بالکل
چپ تھیں۔ اس سے ذیادہ کسی نے اس بارے میں کوئی وضاحت نہ کی اور نہ ہی
دولفقار نے پھر کچھ پوچھا۔ شاید کوئی کچھ ذیادہ جانتا بھی نہ تھاکہ سدرہ
کیا کر رہی ہے…… کیا کرنا چاہتی ہے اور کیوں گھر سے چلی گئی ہے؟؟؟
’’تم بتاؤ ……یونیورسٹی میں سب ٹھیک جا رہا ہے؟‘‘ امی نے موضوع بدلا۔
’’جی…… یونیورسٹی میں تو سب ٹھیک ہے…… الحمداﷲ‘‘۔ذولفقار نے سیدھا سا جواب
دیا۔
’’تمہاری منگنی وغیرہ کچھ کروا دیں؟؟؟‘‘ انہوں نے اچانک یہ بات کہہ ڈالی۔
عائشہ اور ذولفقار دونوں ہنسنے لگے۔
’’منگنی ابھی!!!‘‘
’’یہ اچانک کیسے خیال آ گیا آپ کو؟؟؟‘‘ ذولفقار بولا۔
’’کر لو نا…… کیا ہوا!!! شادی بعد میں کر لینا‘‘۔انہوں نے جواب دیا۔
’’ ابھی پہلے عائشہ کا تو کچھ ہو جائے……‘‘ وہ بولا۔
’’عائشہ کا بھی ہو جائے گا ، انشاء اﷲ…… شادی بعد میں کر لینا ابھی صرف
منگنی کا کہہ رہی ہوں‘‘۔
’’تو کیا فائدہ منگنی کا؟؟؟ وہ بھی بعد میں کر لیں گے……‘‘۔ ’’ یا پھر شادی
ہی سیدھی سیدھی کر لیں گے۔ منگنی کی کیا ضرورت ہے‘‘۔
’’اچھا بتاؤ!!! تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے؟‘‘۔ اس کی امی نے تجسسسے پوچھاجس
پر ذولفقار مسکرا گیا۔ عائشہ بھی بیٹھی اس مباحثے کا مزہ لے رہی تھی۔
’’نہیں…… نہیں ، کوئی لڑکی پسند تو نہیں ہے مجھے ایسے……‘‘
’’زیبا پسند ہے تمہیں!‘‘۔ انہوں نے چچا کی بیٹی کا نام لیا تو ذولفقار اور
عائشہ دونوں حیران رہ گئے۔ کیونکہ انہوں نے تو پہلے ہی صاف صاف انہیں رشتے
سے منع کر دیا تھا۔بلکہ اچھا خاصہ بے عزت ہی کر دیا تھا چچی کو۔
’’زیبا!!!‘‘۔ ذولفقار اور عائشہ دونوں نے اچھل کر پوچھا۔
’’انکا خیال کیسے آ گیا آپ کو؟؟؟‘‘۔ عائشہ بولی۔
’’آپ نے تو اچھا خاصہ انہیں……‘‘۔ ذولفقار نے جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا۔
’’نہیں! میں نے اچھا نہیں کیا تھا……‘‘۔ انکی امی نے دھیمی لہجے میں کہنا
شروع کیا۔ ذولفقار اور عائشہ دونوں پر خاموشی طاری ہو گئی۔
’’بے چاری ! اچھی لڑکی ہے زیبا…… اور چچا ، چچی بھی اچھے ہی ہیں…… میں نے
خواہ مخواہ……‘‘
’’اب مجھے اپنے کئے پر افسوس ہوتا ہے…… ہم ہی برے لوگ ہیں‘‘۔
’’کسی کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چائیے…… میری بھی تو بیٹی ہے……‘‘
تینوں خاموشی سے کچھ دیر بیٹھ کر ماضی کی حرکتیں یاد کرنے لگے۔ دل ہی دل
میں سب اپنے اعمال پر افسوس کر رہے تھے۔ حالات نے ان سب ہی کو سیدھا کر دیا
تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
رات کا دوسرا پہر تھا۔ رجا سامری کی کوٹھری میں داخل ہوا۔ آسمان پر چودہویں
کا چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ مگر سامری کی کوٹھری میں
ہمیشہ کی طرح گپ اندھیرا تھا۔ رجا کے جسم سے ایک سرد لہر دوڑگئی۔وہ اس سے
پہلے کبھی اکیلا اس کوٹھری میں نے آیا تھا۔ اور یہ پہلی بار تھی کہ وہ رات
اس پہر یہاں آرہا تھا۔ وہ پلٹا اور کوٹھری کے دروازے پر کھڑا ہو کر باہر
آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ مگر اب اسے دروازہ بند کرنا ہی تھا جس کے بعد وہ
ایک ویران ، خاموش ا، اندھیری کرٹھری میں تنہا رہ جاتا۔ اس نے کچھ ہمت کی
اور آہستہ آہستہ کوٹھری کا دروازہ بند کرنے لگا۔ چاند کی آخری کرن جو
دروازے سے چھلک کراندر آ رہی تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔
رجا نے ایک گہری سانس لی پھر پلٹ کر ایک ایک قدم لیتا کوٹھری کے اندر جانے
لگا۔ اس نے جھک کر اندھیرے میں شمع ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ مگر کچھ ہاتھ نہ
لگا۔ وہ کھڑا ہو کر یاد کرنے لگا کے شمع کہا ں پڑی ہے۔ اسے ایسا لگا جیسا
اس کے پیٹھ کے پیچھے کوئی کھڑا ہے۔ اس کے جسم سے ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ اس
کی ہمت نے ہوئی کہ پیچھے مڑ کے دیکھے۔ وہ ایسے ہی بت بنا وہاں کھڑا رہا۔
پھر ہلکی سی گردن ایک جانب موڑی، اب اسے لگا کہ کوئی دوسری جانب سرک گیا
ہے۔ اس نے پھر کھڑے کھڑے گردن سیدھی کی اور دوسری جانب گردن گھمائی۔ مگر
کچھ نہ دکھا۔اس نے اپنے آپ کو سنبھالا…… اسے کچھ ہمت ہوئی اور اس نے ایک
قدم آگے بڑھایا۔ اس کے پیر سے شمع ٹکرائی۔ رجا نے فورا جھک کر شمع اٹھا لی
اور یک دم اسے جلا کر آگے پڑی ایک میز پر رکھ کر پلٹا۔ سامنے دیوار پر دو
سائے بن گئے۔ ایک تو رجا کا اور ایک کسی اورکا……
’’آآآ……‘‘۔ رجا کے منہ سے زور دار چیخ نکلی ۔ وہ گھبرا کر دو دیواروں کے
درمیان کونے میں گر پڑا۔ اس کا دل تیڑی سے دھڑک رہا تھا۔ وہ اپنے گھٹنوں کو
اپنے ہاتھوں میں دبا کرمنہ چھپا کر چیخنے لگا۔
’’گھبراؤ نہیں…… یہ تو میں ہوں میرے بیٹے!‘‘۔ کوٹھری اس آواز سے گونج اٹھی۔
رجا پر کپکپی طاری ہو گئی۔
’’یہ تو میں ہوں تمہارے باپ کا باپ……‘‘
’’گھبراؤ نہیں …… دیکھو میری طرف……‘‘
وہ وجود بار بار یہ جملے دہرانے لگا۔ رجا کچھ سمجھ نہ پا رہا تھا ، نہ ہی
اس کا دھیان اس آواز پر تھا۔ وہ تو اس طرح کسی کو اپنے سامنے پا کر بد حواس
کانپ رہا تھا۔ مگر وہ وجود لگاتار رجا کو تسلی دے رہا تھا۔
کچھ دیر بعد رجا نے اس آواز پر غور کرنا شروع کیا۔بہت احتیاط سے اس نے اپنے
منہ سے اپنا ہاتھ تھوڑا نیچے کیا اور ڈر ڈر کر اپنی نظریں اٹھائیں۔ اس نے
کسی کے پیر دیکھے مگر وہ زمین پر نہ لگے تھے بلکہ ہوا میں اٹھے ہوئے
تھے۔اور ایک سیاہ چوغہ سا اوپر سے نیچے کو اس کے پیروں پر ڈھلکا ہوا تھا۔
’’اٹھو……!‘‘
’’میں تمہارا باپ ہوں۔ تم میری نسل میں سے ہو۔‘‘
رجا نے اپنا پورا چہرہ ظاہر کر کے اس وجود کو دیکھا جو ہوا میں معلق تھا۔
اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے خاندان کی وہ ہستی کھڑی تھی جسے مرے ہوئے کئی
سال بیت چکے تھے۔
’’مجھے پہچان گئے نا……‘‘
’’دیکھو ! میں کتنی اچھی حالت میں ہوں۔’’
’’ڈرو نہیں میری طرف دیکھو!‘‘۔ ’’میں جوان ہوں‘‘۔
’’گھبراؤ نہیں ……اٹھو!‘‘ رجا اب تک وہیں دیوار کے کونے میں سہم کر بیٹھا
تھا۔
’’مجھے تم پر فخر ہے، میرے بیٹے!‘‘
’’تم ہماری ذلت کا بدلہ لو گے……‘‘۔ ’’ پھر تم پر بھی ایسے ہی انعام و اکرام
ہوں گے جیسے مجھ پر ہوئے ہیں……‘‘۔ وہ مسکرانے لگا۔
رجا اپنے ڈر پر قابو پا نے لگا۔ وہ اس شخصیت کو غورغور سے حیران کن نظروں
سے دیکھ رہا تھا ، جو کئی سال پہلے مر چکی تھی۔ وہ بڑا خوبصورت، طاقتور، پر
نور اور بارعب شخص نظر آ رہا تھا۔ اس کے سر پر ایک تاج تھا اور دو بازؤں کے
ساتھ دو پر بھی تھے جس کے کنارے زمین کو چھو رہے تھے۔
’’تم پر آقا کا بڑا کرم ہوا ہے……‘‘ اس نے پھر کہنا شروع کیا۔
’’اس نے تمہیں چن لیا ہے…… تا کہ تمہیں خوش کر دے‘‘۔
’’دیکھو! میں کتنی آسائش میں ہوں۔‘‘
’’تمہارا دوست ، جس نے تمہیں سیدھا رستہ دکھایا…… بڑا اچھا آدمی ہے‘‘۔
’’اس کی ہر بات ماننا …… تمہیں ہماری ذلت کا بدلہ لینا ہے۔‘‘
’’زاھب کی نسل سے اور اس کتاب سے جس نے ہمیں رسوا کیا……‘‘ وہ چلانے لگا۔
’’توریت نے ہمیں ذلیل کر دیا…… ہمارے صدیوں پرانے دستور کو…… ہمارے رسم و
رواج کو پامال کر دیا۔‘‘
’’اور جب ہم نے اپنا حق مانگا تو ہمارے ساتھ ناانصافی کی گئی‘‘۔
’’تم جانتے ہو نا میرے غیرت مند بیٹے!‘‘
’’تم ہمارا بدلہ لو گے نا!‘‘
’’ہاں‘‘۔ اس وجود کا کلام رجا پر پوری طرح حاوی ہو گیا تھا۔ رجا کو ایسا
لگا جیسے کوئی عظیم طاقت اس کے کام میں اس کی مددگار ہے۔ اس کی ہمت آسمان
کو چھونے لگی۔
’’افسوس کے یہ راز مجھ پر اب کھلا …… جب کہ میں اس دنیا سے رخصت ہو چکا
ہوں۔‘‘
’’مگر میں اپنی نسل کو اس دھوکے میں نہیں رہنے دوں گا……‘‘
’’تم اور تمہاری نسلیں اس کی مستحق ہیں کہ دنیا میں بھی وہی پائیں جو میں
نے موت کے بعد پایا ‘‘۔
’’توریت انسان کو اذیت دینے کے لئے اتری ہے……‘‘
’’تم کیسے توریت کی بندشوں میں جیو گے…… کیسے گھٹ گھٹ کر جیو گے؟؟؟‘‘
’’عہد کرو!‘‘
’’کہو کہ میں آزاد ہوں……‘‘
’’اپنی آنکھیں بند کرو اور اپنا ہاتھ اٹھا کر عہد کرو……‘‘
’’کہو کہ میں آزاد ہوں!‘‘
’’میں آزاد ہوں……‘‘ رجا نے دہرایا۔
’’میں اس جہاں میں خاص ہوں……‘‘۔ رجا نے دہرایا۔
’’میں اپنے اوپر بندشیں اور ظلم برداشت نہ کروں گا۔‘‘
’’میں پوری طرح سے اپنی زندگی جیوں گا۔‘‘
’’میں توریت کی ہر جابر پابندی سے آزاد ہوں‘‘۔
’’توریت نے ہمیں دھوکہ دیا…… ہمارے ساتھ نا انصافی کی‘‘۔
’’میں اس سے بدلہ لوں گا‘‘۔
’’میں زاھب کو برباد کر دوں گا‘‘۔
’’میرا آقا اور خدا وہ ہے جو سامری اور آپ کا خدا ہے‘‘۔
’’آج تم آزاد ہو گئے‘‘۔ رجا کی آنکھیں بدستور بند تھیں۔
’’آج تم کامیاب ہو گئے‘‘۔
’’آج تمہاری حسین زندگی کا آغاز ہوا‘‘۔
کوٹھری میں مکمل خاموشی چھا گئی۔ کچھ دیر بعد رجا کا ذہن اس سحر انگیز
کیفیت سے نکلا۔اس نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں۔ کیا دیکھتا ہے کہ اس نے
ایک حسین لباس زیب تن کیا ہوا ہے۔ اس کے سر پر ایک تاج ہے اور پوری کوٹھری
گلاب کی پتیوں سے بھری ہے، ہر طرف خوشبو ہی خوشبو ہے۔
رجا وہیں بے اختیار لیٹ گیا اس پر نیند طاری ہو رہی تھی۔ اس کا ذہن ایک ہی
بات دہرا رہا تھا۔
’’میں آزاد ہوں‘‘۔ ’’ ہر پابندی سے آزاد‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔
بدی کی طرف کشش، جادو ٹونا، شیطانیت……یہ سب ایک نشے کی طرح ہے۔ جیسے نشہ
کرنے والے کو معلوم ہوتاہے کہ اس کا نشہ کوئی بھلی چیز نہیں۔ اس کی ذات کی
تباہی، اس کے گھر کی، اس کے معاش کی…… غرض یہ کہ ہر طرح سے نشہ کرنا اس کے
لئے ایک مضر کام ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی وہ نشہ کرتا ہے۔ اسے نشہ کرنے میں
بہت لطف آتا ہے۔ اسے نشہ کرتے ہی ہر غم سے وقتی سکون مل جاتا ہے۔ اور صرف
یہ ہی نہیں وہ اس کا پرچار اوروں میں بھی کرتا ہے۔ اسے پھیلاتا ہے۔ ایک بار
جسے یہ لت لگ جائے پھر اسے چھوڑنا تقریباََ نا ممکن ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اس
کے بغیر سانس نہیں لینے پاتا۔ نہ جیتا ہے اور نہ مرتا ہے۔
رجا بھی ایسے ہی نشے میں چور تھا۔ وہ اور سامر ی روز رات کو اس کوٹھری میں
چلہ کھینچتے۔ شیطان کی پرستش کرتے۔ اﷲ اور اس کی کتاب کی نافرمانی کاعہد
کرتے اور بدلے میں سامری اور حکمااسے جنتر منتر سکھاتے جاتے۔ آئے دن بابل
کے لوگ اپنی مشکلیں فریادیں لے کر ان کے پاس آتے اور وہ کچھ نہ کچھ لے دے
کر ان کے لئے کالے اعمال کرتے۔
پھر ایک رات ان دونوں نے مل کر شیطانی طاقتوں کو پکارا اور زاھب کے آنگن کی
مٹی پر سحر پھونکا۔ زاھب ، زلکا اور ان کے بچے سب بیمار پڑ گئے۔ رجا کے دل
کو سکون آ گیا۔ وہ جان چکا تھا کہ اب زاھب کی خیر نہیں۔ جلد ہی زاھب بیمار
زلکا سے تنگ آ کر اسے چھوڑ دے گا اور پھر وہ فوراََ زلکا کو اپنے چنگل میں
پھسا کر اسے بھگا لے جائے گا…… اور اپنی بدلے کی آگ کو کچھ ٹھنڈا کرے گا۔
ادھر ہاروت اور ماروت کی کرامات کے قصے بھی کسان پورے بابل میں مشہور کر
چکا تھا۔ کمزور عقیدے کے اسیر یہودیوں کو اپنی مشکلات سے چھٹکارے کے آسان
حل مل گئے تھے۔ کسی کی بکری بھی گم ہو جاتی تو اسے ڈھونڈنے کی زحمت نہ کرتا
بلکہ کسان کے گھر کی راہ لیتاکہ عمل عملیات کے ذریعے اس کا کام آسانی سے ہو
جائے۔ ہاروت اور ماروت تو من جانب اﷲ تھے وہ اپنا کام کئے جاتے …… ان کی
مثال ایسی ہی تھی جیسے کسی رشوت خور کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لئے داروغہ
خود کوئی عرضی لے کر اس کے ہاں جائے اور جب وہ رشوت مانگے تو اپنی اصلیت
ظاہر کر کے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لے۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’وہ وقت آ گیا ہے…… جس کے لئے ہم نے تمہیں بابل میں تعینات کیا تھا‘‘۔
حکما پوری طرح اپنے آقا کے آگے متوجہ تھا۔
ابلیس کا دربار لگا تھا۔ فجر کے بعد جب سورج نکلا اور روشنی پھیلنے لگی تب
شیاطین نے ابلیس کی پرستش کی۔
’’بابل میں ایک ایسا علم اترا ہے …… جو اس سے پہلے دھرتی پر کبھی نہ اترا
تھا‘‘۔
’’تم اپنے ساتھیوں سے کہہ دو کہ وہ ہاروت اور ماروت کے پاس جائیں اور ان سے
وہ کچھ سیکھ لیں ،جس سے کہ مرد و زن میں جدائی ڈال دیں…… اولاد کو اس کے
والدین کا دشمن کر دیں…… انسان کو انسان کا قاتل بنا دیں‘‘۔ ابلیس نے حکما
کو حکم دیا۔
حکمانے ایک اڑان بھری اورسامری کی کوٹھری میں جا اترا۔
۔۔۔۔۔۔۔
جیسا کہ رجا نے گماں کیا تھا ویسا ہی ہوا۔ زلکا اور زاھب کے بیچ جھگڑے ہونے
لگے۔ مگر پھر آہستہ آہستہ ان کی بیماری جاتی رہی۔ کچھ عرصے بعد ان کا
گھرانہ پھر اپنے معمول پر آ گیا تھا۔
’’بہت وقت گزر گیا ہے…… لگتا ہے جادو کا اثر ٹھیک طرح ہوا نہیں‘‘۔ رجا نے
سامری سے کہا۔
’’شاید تم زلکا کی بات کر رہے ہو‘‘۔ سامری رجا کی طرف متوجہ ہوا ۔ یہ دونوں
معمول کے مطابق رات گئے اندھیری کوٹھری میں چلہ کاٹ رہے تھے۔
’’قربانی پیش کرو‘‘۔ حکما نے رجا کے کان میں پھونکا۔ اس نے چونک کر ایک جھر
جھری لی۔
’’ہاں میں زلکا کی ہی بات کر رہا ہوں‘‘۔ رجا نے سر جھڑک کر سامری کو بتایا۔
’’ایسا ہو سکتا ہے…… میاں بیوی میں جدائی ڈالنا آسان کام نہیں‘‘۔سامری نے
رجا کی رائے سے اتفاق کیا کہ جادو کا اتر ٹھیک طرح نہیں ہوا۔
’’ہمیں سخت محنت کرنی ہو گی‘‘۔ سامری نے کہا۔
’’قربانی دو……اپنے عزیز کی قربانی‘‘۔ حکما نے پھر وسوسہ ڈالا۔ رجا خاموش ہو
گیا۔
دوسرے دن پھر ایسا ہی ہوا۔ اور کئی دن گزر گئے۔ رجا اور سامری دوبارہ زاھب
کے خلاف عمل کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ رجا اپنے عمل میں مصروف ہوتا کہ اچانک
اس کے ذہن میں پھر یہی بات آ جاتی۔ جیسے اس سے کوئی کہ رہا ہو کہ قربانی
دو۔
’’کئی دنوں سے میرے ذہن میں ایک خیال آ رہا ہے‘‘۔ رجا نے تنگ آ کر سامری سے
کہا۔
’’کیسا خیال؟‘‘
’’مجھے ایسا لگتا ہے جیسے مجھ سے کوئی قربانی مانگ رہا ہے……‘‘۔ ’’میری کسی
عزیز چیز کی قربانی‘‘۔ سامری کا چہرہ یہ سن کر سنجیدہ ہو گیا۔ وہ سمجھ چکا
تھا مگر رجا سے کچھ نہ کہنا چاہتا تھا۔
’’کچھ بتاؤ‘‘۔ رجا نے جواب مانگا۔
سامری کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر اچانک اس کے ذہن نے کام کیا۔ ’’بہت خوب! تم
تو ہمارے بھی استاد نکلے……‘‘۔ سامری کے چہرے پرمکروہ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’کیا مطلب‘‘۔
’ہاہاہا…… لگتا ہے تم بڑے مرتبے پانے والے ہو……‘‘
’’ایسا کیا کر دیا کہ وہ تم سے اتنا خوش ہے‘‘۔ ’’ اب تو تم ہمیں پوچھو گے
بھی نہیں۔‘‘ سامری کے چہرے پر بدستور شیطانی مسکراہٹ تھی۔
’’صاف صاف بتاؤ…… تم ہی میرے گرو ہو……‘‘ رجا نے اصرار کیا۔
’’اس میں بتانا کیا ہے…… تم سے تمہاری عزیز تر چیز کی قربانی مانگی گئی
ہے…… سمجھ لو کہ تمہاری وفاداری کا امتحان آنپڑا ہے‘‘
’’مگر کیسی قربانی…… ‘‘
’’تمہارا مقام بہت اونچا ہو گا…… تم تو ہم سب پر حکمرانی کرنے لگو گے‘‘۔
’’اچھا……! تو میں کیا کروں‘‘۔ رجا نے تجسس سے پوچھا۔
’’یہودیوں کے خدا نے بھی ابراہیم سے قربانی مانگی تھی…… اور بدلے میں
ابراہیم کو تمام انسانوں کا امام بنا دیا گیا……‘‘۔ سامری نے کہا اور کوٹھری
سے چلتا بنا۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’بابل کے نواح میں ایک چنے کا کھیت ہے‘‘۔حکما نے کہا۔
’’وہاں ایک کسان رہتا ہے…… اس کے ہاں دو مسافر مہمان ہیں ۔‘‘
’’تم دونوں وہاں جاؤ اور اس سے وہ علم سیکھ لو ‘‘۔ سامری صبح ہونے سے کچھ
پہلے اپنی کوٹھری میں اکیلا بیٹھا تھا۔ آج وہ اکیلا ہی تھا۔ پانچ کونوں کے
ستارے کے کونے جل رہے تھے۔
’’یہ قربانی کا کیا معاملہ ہے؟‘‘ سامری نے کوٹھری میں پکارا۔وہ رجاکے کان
میں پھونکے وسوسوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔
’’ہاہاہا…… تو تم کیا سمجھتے ہو …… یہ مرتبے تمہیں یوں ہی بیٹھے بٹھائے
حاصل ہو جائیں گے‘‘۔
’’تمہارا آقا تمہاری وفاداری جانچنا چاہتا ہے…… اسے ناراض نہ کرنا‘‘۔
’’تم نے بھی تو کئی بھینڈیں چڑہائی ہیں……‘‘۔ ’’اب اس کی باری ہے‘‘۔
’’اسے اس کی اولاد کی قربانی پیش کرنی ہو گی‘‘۔ ’’اس کی عزیز ترین چیز
کی‘‘۔ حکما کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔
’’اور ہاں ! جو کچھ بھی تم ان سے سیکھو …… اسے لکھ رکھنا‘‘۔ حکما سامری کو
ساری ہدایات دے کر غائب ہو گیا۔وہ کہہ گیا کہ ہاروت اور ماروت سے یہ جو کچھ
بھی سیکھیں اسے ضرور لکھ لیں۔
شام ڈھلے رجا سامری کے پاس پہنچا۔ سامری اسے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا۔
’’چلو! آج ہمیں کہیں جانا ہے‘‘۔
’’کہاں‘‘۔ رجا نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ہمارے خدا نے ہماری مدد کا بندوبست کر دیا ہے‘‘۔ سامری نے رجا کو سمجھاتے
ہوئے کہا۔
’’میں سمجھا نہیں‘‘۔ رجا نے زرا ڈر کر پوچھا۔
’’میں زاھب کی بات کر رہا ہوں‘‘۔ سامری نے تنگ آ کر سخت لہجے میں کہا اور
باہر کو نکلا۔ رجا اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔
’’ہمیں کافی دور جانا ہے‘‘۔ ’’کسی سے ملنے‘‘۔ وہ دونوں بابل کی چھوٹی چھوٹی
گلیوں میں جلدی جلدی چل رہے تھے۔ اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔
’’کہاں جانا ہے؟‘‘۔ رجا نے سامری سے پوچھا۔وہ ذہن پر خوب زور دے کر سوچ رہا
تھاکہ آخر زاھب کے معاملے میں ایسی کیا پیش رفت ہو گئی ہے……
’’ مغرب کی طرف…… وہاں کوئی چنے کا کھیت ہے……‘’۔ ’’وہیں جانا ہے ہمیں……‘‘۔
انہیں چلتے چلتے دو گھنٹے گزر گئے۔ آخر کار وہ ایک چنے کے کھیت میں جا
پہنچے۔رات کا وقت تھا۔ چاند کی روشنی میں انہیں کچھ کچھ آس پاس کی چیزیں
نظر آ رہی تھیں۔ اسی کھیت کے ایک کونے میں انہیں ایک جھونپڑی نما کچا سا
مٹی کا گھر نظر آیا۔ اس گھر کے روشندان سے آگ کی روشنی چھلک کر باہر آ رہی
تھی۔ وہ دونوں اسی طرف چل پڑے اور قریب جا کر دروازہ کھٹکھٹایا۔
’’کون ہے؟‘‘۔ اندر سے کسی آدمی کی آواز آئی۔
’’اس وقت کون آ گیا!‘‘۔ کسان اپنے آپ سے بولا۔
’’ہم سوالی ہیں…… مشکل میں ہیں‘‘۔ سامری زور سے بولا تا کہ اندر صاف صاف
آواز پہنچ جائے۔
دروازہ کھلا اور سامنے ایک پچاس سالہ شخص کھڑا تھا۔
’’ہاں بولو‘‘۔
’’سنا ہے تمہارے ہاں دو مددگار ٹھہرے ہوئے ہیں…… ہم مشکل میں ہیں۔ ان سے
ملنا چاہتے ہیں‘‘۔ سامری مسکین سی آواز بنا کر بولا۔
’’کیا مشکل ہے؟‘‘۔ کسان نے پوچھا۔
’’ام م م …… یہ آدمی پریشان ہے…… اس کو کچھ مدد چائیے‘‘۔
ہاروت اور ماروت اندر کمرے میں بیٹھے یہ سب سن رہے تھے۔ انہوں نے فوراََ
اپنے پر سمیٹے اور اپنے انسانی حلئیے میں تبدیل ہو گئے۔ کچھ دیر میں ان کے
کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی ۔ ہاروت نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔
’’معاف کیجئے گا…… اس پہر آپ کو تنگ کیا……‘‘۔ کسان نے معذرت خواہانہ انداز
میں کہا۔
’’نہیں نہیں بولیں……آ جائیں‘‘۔ ہاروت نے بڑی شائستگی سے اندر آنے کا اشارہ
کیا۔
’’آپ پر سلامتی ہو……ہم بہت دور سے آئے ہیں……‘‘
’’آپ کے علم کا چرچا تو سارے بابل میں ہو گیا ہے‘‘۔ سامری نے کہنا شروع
کیا۔
’’ہم مجبور ہیں…… کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کو سُکھ دیں…… ان کی مشکلیں دور
کر دیں‘‘۔ ہاروت نے کہااور ماروت نے اس کی بات کی تائید کی۔
’’جی……آپ لوگ بہت بھلے اور ہمدرد لوگ ہیں…… ہماری کچھ مدد کیجئے‘‘۔ ’’بلکہ
ہمیں اپنا شاگرد ہی بنا لیجئے‘‘۔
’’کیا مدد کر سکتے ہیں ہم آپ کی؟‘‘ ماروت بولا۔
’’وہ ……اس آدمی کی بیوی نے اسے دھوکہ دیا…… ایک اور شخص سے شادی رچا لی
ہے‘‘۔ سامری نے رجا کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
’’اب یہ بہت غمگین ہے…… اس کی جدائی کے غم میں مرا جاتا ہے‘‘۔
’’آپ لوگ اس بیچارے کی مدد کیجئے…… اسے اس کی بیوی واپس دلوا دیجئے‘‘۔
سامری کی ایسی درخواست سن کر وہ سنجیدہ اور حیران سے ہو گئے۔
’’نہیں…… یہ کام صحیح نہیں‘‘۔ ہاروت بولا۔
’’ہم ایسا کچھ نہیں کرتے کہ جس سے کسی کی بیوی کو شوہر سے جداکر دیں‘‘۔
’’ہمیں خدائے تعالی سے خوف آتا ہے‘‘۔ ماروت نے ہاتھ اٹھا کر نفی میں اشارہ
کیا اور صاف صاف انکار کر دیا۔
’’مگر مگر……مگر، اس کے ساتھ تو ظلم ہوا ہے…… آخر توریت میں بھی تو یہی لکھا
ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور جان کے بدلے جان……‘‘۔ سامری نے فوراََ اپنا
شیطانی دماغ چلایا۔
’’اگر ایسا ہے تو اسے چائیے کہ قاضی کے پاس جائے……وہ فیصلہ کرے گا‘‘۔ ’’ہم
تویہاں فقط آزمائش کے لئے بھیجے گئے ہیں‘‘۔
’’کیا آپ کو علم نہیں کہ بابل کے قاضی توریت کے نافرمان ہیں……وہ کتاب اﷲ سے
بے بہرہ ہیں‘‘۔ ’’اس کے ساتھ ظلم ہو جائے گا‘‘۔ سامری منتیں کرنے لگا۔
’’نہیں…… ہم اسے کیسے کسی دوسرے کی بیوی دے دیں!!!‘‘ ہاروت و ماروت نے صاف
صاف انکار کر دیا۔
’’اچھا…… اچھا…… توایسا کریں آپ ہمیں اپنا علم سکھا دیں……‘‘۔’’اگر آپ یہ
کام نہیں کرنا چاہتے تو میں خود ہی اس بے چارے کی مدد کر دوں گا‘‘۔ ’’ علم
کی ترویج تو ویسے بھی بہت ہی نیک دل لوگوں کا کام ہے‘‘۔ سامری ان کے پیچھے
پڑ گیا۔
’’دیکھو! ہم تو محض ایک آزمائش ہیں۔ تم کفر میں مبتلا نہ ہو‘‘۔ انہوں نے
آخری بار تنبیہ کی اور اپنا کام پورا کیا۔
سامری اور رجا خوشی خوشی وہاں سے لوٹے اور واپس آتے ہی ہاروت اور ماروت کا
بتایا ہوا زاھب پر کر ڈالا اورجیسا کہ حکما کا فرمان تھا اس نے اس علم کو
ایک لوح پر لکھ کر محفوظ بھی کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے |