بی اے کے ایگزام کا اعلان ہوچکا تھا اور
ایڈمٹ کارڈ
ملنے شروع ہوگئے تھے.پہلے کارڈ لینے کی لائن میں لگو پھرفل کرکے چیک کرانے
کی پھر سبمیٹ کرانے کی لائن افففففف............ گیٹ سے چیونٹی کی قطاریں
شروع ہوتیں تو ختم ہوتے ہوتے کالج آف ہونے کا ٹائم لگ جاتا.خدا خدا کرکے یہ
مرحلے ختم ہوئے. لیکن ختم کہاں جی ابھی ایڈمٹ کارڈ واپس بھی تو وصول کرنا
تھا اس سے پہلے ہی اساتذہ نے دہائ دینا شروع کردی. خبردار جسکی حاضری %75
سے کم ہوگی وہ ایگزام میں بیٹھنے کا اہل نہیں ہوگا انکے اس اعلان نے کئ
طالبات کے ماتھے پر پریشا نی کی لکیر کھینچ دی پر ہمیں بھلا اس سے کیا
پرابلم ہوسکتی تھی.ہماری حاضری تو انکی طے کردہ پرسنٹیج سے بھی اونچی
تھی.سب کے منظور نظر جو ٹھہرے.خیر بڑی مشکل سے وہ چیونٹی کی لمبی قطار جیسی
لائن بھگتائ پر یہ کیا جب ہم کلرک کی کھڑکی تک پہنچے تو اس نے بڑی رعونت سے
جواب دیا بی بی یونیورسٹی جاؤ تمہارا کارڈ شامل نہین لسٹ میں.
ارے! ایسا کیسے ہوسکتا ہے پھر سے ذرا دیکھ بھال کے چیک کریں.مس ہوگیا
ہوگا.....اتنی دیر سورج کی آگ جھیلنے کے بعد یہ انکشاف خاصا جان لیوا تھا
کہ ہمارا کارڈ کالج آیا ہی نہیں....
نہیں بی بی ہمارا تو کام ہی یہی ہے ہم سے غلطی نہیں ہوسکتی.اور آپ اکیلی
ہستی نہیں جسکے ساتھ ایسا ہوا دیکھیئے پیچھے ........
اففففف پیچھے دیکھنے پر تو واقعی ہمین اس کلرک کی بات پر یقین ہوگیا.ہمارے
جیسی کافی لڑکیاں تھیں جو واپس پلٹ رہیں تھیں اور انکے اترے چہرے صاف بپتا
سنارہے تھے گذری ہوئ......... .. ہم بھی تھکے قدموں چلتے ہوئے اس پیپل کے
پیڑ کے نیچے آکر بیٹھ گئے جو ہمارے گروپ کی طے کردہ جگہ تھی.ہماری اکثر
گروپ میٹنگ یہیں انجام پاتیں.....تھوڑی دیر میں سب ہی وہاں جمع ہوگئیں.انکے
ہاتھ میں ایڈمٹ کارڈ اور ڈیٹ شیٹ صاف دکھ رہے تھے.غزل تمہارا کارڈ کہاں
ہے.....مہناز کے سوال پر ساری کتھا شروع سے آخیر تک بنا سانس لیئے سنا
دی.سارہ تو اچھی خاصی سیخ پا ہوگئ.سب ڈرامے ہیں انکے ذرا مٹھی گرم کرو پھر
دیکھو.
چھوڑ یار ہم یونیورسٹی جاکر نکلوا لیں گے کارڈ......اسکو یہ کہہ کر ٹھنڈا
کرنے کی کوشش کی تو وہ مزید بھڑک اٹھی.اس سے پہلے کہ ہم مزید اسکو کچھ
سمجھاتے اس نے سختی سے ہماری کلائ پکڑی اور واپس کلرک کے آفس تک لے
آئ.......سارہ کچھ نہیں ہونے والا اس بحث سے جب اسکے پاس کارڈ ہے ہی نہیں
تو کیسے دے گا اس نے ہمیں غصے سے گھور کے دیکھا چپ ....لڑکی بس سب خاموشی
سے دیکھتی جاؤ.یہ کہہ کر اسنے پرس سے نوٹ بک نکالی اور کاغذ پر کچھ تحریر
کیا.اور ہماری مٹھی میں دبا دیا .....اب جاؤ اور یہ اس کلرک علی کو دے دو.
پر اس میں تم نے لکھا کیا
.......
ارے جاؤ تو سہی ..........اسکے اصرار پر ہم نے وہ پرچہ علی کے ہاتھ میں دے
دیا اور خاموشی سے اسکے چہرے کے تاثرات نوٹ کرنے لگے ہمیں پکا یقین تھا کہ
سارا نے ضرور کچھ ایسا لکھا ہوگا جس سے وہ ابھی بھڑک اٹھے گا.پر ایسا کچھ
نہیں ہوا وہ اپنی سیٹ سے اٹھا اور پاس رکھی الماریاں ٹٹولنے لگا.تھوڑی ہی
دیر میں جب وہ واپس لوٹا تو اسکے ہاتھ میں ایک پرچہ تھا جو اس نے ہمیں دے
دیا اور کہا کہ جس نے یہ پرچی دی وہ کہاں ہے؟
ہم نے دیکھا وہ پرچہ نہین ہمارا ایڈمٹ کارڈ ہی تھا...وہ وہ باہر پر آپ ایسا
کیوں کہہ رہے ہین ہم نے اسے ٹٹولنے کی کو شش کی کچھ نہیں بس ان سے کہیئے گا
میری بھی سفارش کردیں میں نے انکا کام کردیا شاید خوش ہوکر میری بھی ترقی
کروادیں
......اسکی بات سنکر جب ہم باہر آئے تو سب ہی دوست باہر موجود تھین اور
ہمارے ہاتھ میں لہراتا کارڈ دیکھ کر خوش ہوگئیں.
ہم نے سارہ ک ہاتھ پکڑا اور لے گئے اسکو ایک کونے میں... سچ بول کیا لکھا
تھا اس پرچے میں
کچھ نہین یار اگرـ تیرے اصولوں پر چلتے نا تو دو چار دن یونیورسٹی کی خاک
چھان رہی ہوتی.کبھی دیکھی ہے یونیورسٹی.
اور دیکھ اسکے کہنے کے مطابق تیرا کارڈ کالج آی ہی نہیں پھر یہ سب کیا ہے
کہاں سے ملا........وہ ایک سانس میںبولتی چلی گئ......
اور کچھ نہیں بس اتنا لکھا کہ جو لڑکی آپکے پاس بھیجی جارہی ہے اسکا کام
ہوجانا چاہیئے
پاگل مرے پاپا نیشنل بینک کے مینیجر ہیں.اور میرے بھائ نےاس علی کے بچے کو
سختی سے ہدایت کی ہوئ ہے کہ کوئ بھی کام ہو مجھے لائن میں لگنا نہ پڑے.بس
ایک نوٹ لکھا اور ہوگیا کام
پر سارہ یہ سب سہولت تمہارے لیئے ہے تمہارے بھائ خفا نہین ہونگے.
ہم نے کہا تو اس نے ہمارے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے مہربانی کرکے آپ چپ ہونا
پسند کرین گیں. سب سے اہم ہے کہ آپ ڈیٹ شیٹ پر فوکس کرین اور بتائیں آپکا
امتحانی مرکز کس سمت مین ہے........ہاہاہاہاہاہا
ہم نے اسکی بات پر ہنستے ہوئے شیٹ پرنظر ڈالی تو اس میں صاف لکھا تھا.
جامعہ کراچی ....دیکھو یونیورسٹی
تو جانا ہی پڑے گا اور ہم ہی نہیں سب کو بلکہ پورے شہر سے سے سبکا مرکز
وہیں ہے.
چلو اس بار دیکھ ہی لیتے ہین...افراح نے کہا غزل ہمارے روٹ سیم 'ہوں
گے.کیوں نہ کچھ اور ایسے اسٹوڈنٹ جمع کریں اور ساتھ مین چلین اسسے تھوڑی
کمپنی بھی مل جائے گی اور سہولت بھی.
نہیں شکریہ افراح ہم اپنے بابا کے ساتھ ہی جائیں گے
وہ ہمیں روٹ سے بھی واقفیت کرادیں گے....خیر اس دن ہم سب امتحانات کے لیئے
منصوبے بناتے رہے اور پھر کالج بند ہونے پر اپنے اپنے گھر روانہ ہوگئے.
آخرکار وہ دن بھی آہی گیا.جب ہم اپنے پہلے پیپر کے لیئے بابا کے ہمراہ گھر
سے نکلنے کے ..لیئے تیارہونے لگے.......اس دن اسلامیات کا پیپر تھا. ہم
جانے کے لیئے تیار ہورہے تھے.بابا نے آواز دی غزل جلدی کرو بہت دور جانا ہے
پہلے سے نکلیں گے تو وقت پر پہنچ جائیں گے.
جی بابا ہم نے جلدی سے سب ضروری چیزیں سمیٹ کر اپنے ہینڈ بیگ میں ڈالیں اور
بال سمیٹ کر آنکھوں مین کاجل لگانے لگے.اتنے میں ماں ناشتے کی ٹرے لے کر
کمرے میں داخل ہوئیں بیٹا کچھ کھا لو. بنا کھائے کچھ گھر سے ایک قدم نہیں
نکالنے دوں گی.
انکے پیار بھرے مصنوعی غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیئے ہم نے انکے گلے میں
بانہیں ڈال کر دھیرے سے پیار کیا اور کہا ماں آپکو تو پتہ ہے نا صبح صبح ہم
سے کچھ نہین کھایا جاتا اور پھر کہیں باہر جانا ہو تو بالکل بھی نہین.
کچھ بھی ہو آج امتحان ہے خالی پیٹ دماغ بھی کام نہیں کرے گا. ارے کچھ تو لو
ورنہ ہم آپ سے بات کرنا بند کردین گے.
ماں نے اس دفعہ تقریبا وارن کرتے ہوئے کہاتو بابا بھی بولے بیٹا غزل تمہاری
ماں نہیں ماننے والی ہمارا مشورہ ہے کہ آپ کچھ کھا ہی لین اب.
ہاہاہاہاہا اچھا بابا ہم نے ایک توس اٹھایا اور جلدی سے کھوسے پاؤں میں
ڈالے
ارے یہ کیا غزل! اس سے کیا ہوگا؟....اور یہ کھوسے زیادہ چلنا پڑا تو تکلیف
دین گے بیٹا کوئ آرام دہ سلیپر پہن کے جاؤ......
ماںکی اس بات پر ہم نے کہا ماں یہ کافی ہے پلیز اس سے زیادہ کچھ نہین اور
ہمارے پاس کوئ ایسے سلیپر نہین جو ہم یونیورسٹی پہن کے جاسکیں سب ہی تو
تقریبا گھس دیئے ہین نہ ہی ٹینس شوز اس لائق ہیں وہاں پورے کراچی کے
اسٹوڈنٹ آرہے ہیں. نہین بھئ ہم یہ نئے کھوسے ہی پہنیں گے پھر چلنا کیسا
یہاں سے بس پھر اندر بھی انکی پرائیوٹ بسیں چلتی ہین ایک کیمپس سے دوسرے
کیمپس تک واپسی بھی بس سے ہونی ہے.آپ بس یہ دعا کرین ہمارا پیپر اچھے سے
ہوجائے.
ماں نے ماتھے پہ پیار کیا اور کہا جیسے آپکی مرضی....ہم آپکی رضا مین راضی
اور رہی بات پیپر کی تو دعا کیوں نہین کرین گے اور ہمیں یقین ہے کہ ہمیشہ
کی طرح اس بار بھی آپ اچھے نمبروں سے کامیاب ہوں گیں.اللہ آپکا حامی وناصر
رہے.آمین
انکی آنکھوںسے ایک ماں کی محبت صاف چھلک رہی تھی.
اس سے پہلے ہم ماں بیٹی اور ایموشنل ہوتے بابا نے شور مچادیا جلدی کرو بھئ
باقی باتیں آکے کرلینا.....
ہم نے ماں سے وداع لی پھوپھو کی دعا لی اور چل دیئے بابا کے ساتھ اس بات سے
انجان کہ آج کے دن ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے.؟................
راستے میں بابا ہمیں بسوں اور انکے اسٹاپ سے متعلق گائیڈ کرتے رہے اور
راستوں کی نشاندہی بھی
بابا کی یہ بہت اچھی عادت تھی وہ ہمیشہ کہین بھی جاتے تو ہم سب کو راستوں
کی معلومات تضرور دیتے انکا یہ ماننا تھا کہ اسطرح ہم لوگوں کو کبھی بھٹکنے
کا اندیشہ نہیں ہوگا کیونکہ ضروری نہین کہ وہ ہر جگہ ہمارے ساتھ ہوں کبھی
کہین تنہا جانے کی ضرورت پڑے تو ہم سب اسکے لیئے پہلے سے تیار
ہوں............
خیر وقت کیسے گذرا پتہ ہی نہین چلا اور ہم یونیورسٹی ک مین گیٹ پر پہنچ گئے
بس سے اتر کر بابا نے کہا بیٹا اب اندر آپکو خود جانا ہے اور بھی طالبات
جارہیں ہین انکے ساتھ ہی اندر چلیں جائیں. اور ہاں گیٹ پر سیکورٹی گارڈ کو
اپنا آئ ڈی کارڈ اور ایڈمٹ کارڈ ضرور چیک کرا دینا.
بابا نے ہمیں ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ وہ پانچ بجے ہم کو لینے یہین گیٹ کے
باہر پہنچ جائیں گے.یہ کہہ کر وہ واپس روانہ ہوگئے اندر داخل ہوتے وقت ہمیں
افراح بھی مل گئین ہم ساتھ ساتھ اپنے مطلوبہ کیمپس کی طرف روانہ ہوگئے پیپر
توقع کے مطابق بہت اچھا ہوا.
واپسی پر جب باہر آکر یونیورسٹی پوائنٹس کے لیءے آکر کھڑے ہوئے تو سامنے سے
گذرتی طالبات نے کہا کہ پیدل چلنا پڑے گا پوائنٹس سے ایک اسٹوڈنٹ گر کے
ہلاک ہوگیا ہے جامعہ کراچی کی طلبہ یونین نے احتجاج شروع کردیا ہے.پوائنٹس
کو جبرا روک دیا گیا ہے.اففففففف
اسکا مطلب گڑبڑ شروع ہم نے بھی پیدل گیٹ کی راہ لی.اتنے میں افراح اپنی
ساتھی طالبات کے ساتھ ہمیں پھر ملیں غزل ہمارے ساتھ چلو ہم آپکو گھر تک
چھوڑ دین گے
انکی اس پیشکش کو ہم نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ نہیں شکریہ بابا بس آتے ہی
ہوں گے.
پر یہ کیا باہر گیٹ کے ایک جم غفیر کھڑا تھا اس میں بابا کو ڈھونڈنا بھوسے
کے ڈھیر میں سے سوئ ڈھونڈنے کےبرابر تھا خیر مقر رجگہ پر ہم کھڑے ہوکر بابا
کا انتظار کرنے لگے پر وقت تیزی سے گذر رہا تھا لوگ چھٹنے لگے بابا کہین
دکھائ نہیں دے رہے تھے دل میں عجب عجب وسوسے گھر کرنے لگے.آخرکار ہم نے طے
کیا کہ ہم تنہا گھر کے لیئے روانہ ہوں..........................
ہم نے بابا کی بتائ ہوئ بس پکڑی اور سوار ہوگئے اس دن بدترین ٹریفک جام تھا
پورے شہر کا مرکز ایک جگہ ہونے کے باعث چاروں طرف سے روڈ بلاک ہوچکے تھے بس
چل کیا رینگ رہی تھی دوگھنٹے سے اوپر ہوگئے بس نے ایک کیا آدھا کیا پونا
میل بھی طے نہیں کیا.ہم بھی دوسرے مسافروں کی طرح بس سے اتر کر پیدل چلنے
لگ گئے. خیر نیپا چورنگی پہنچ کرپھر بس پکڑی لیکن کچھ دور چلنے کے بعد پتہ
چلا کہ بس کا روٹ مختلف ہے واپس اترے اور پھر پیدل چلنا شرو گبھراہٹ سوار
ہورہی تھی پتہ نہیں بابا کہاں ہوں گے وہ ہمیں لینے کیوں نہین پہنچے
نہین ایسا نہین ہوسکتا وہ اتنے لاپرواہ نہیں ہوسکتے ہماری جانب سے
ایسا بھی تو ہوسکتا ہے جیسے ہم انھین ڈھونڈ نہین پائے وہ بھی ہمیں ڈھونڈ
رہے ہوں
اوہ! ایسا ہوا تو وہ بہت پریشان ہو جا ئیں گے یہ خیال آتے ہی ہم نے اپنے
قدم
تیز کردیئے. ..................
انہی خیالات سے الجھ رہے تھے کہ حسن اسکوائر بھی آگیا ہم کافی دیر سے چل
رہے تھے ہم نے وہاں رک کر بس کا انتظار کرنے کو ترجیح دی اسٹاپ پر اس وقت
کافی لوگ موجود تھے جو ہماری طرح
بس کا انتظار کررہے تھے....
اچانک ہمیں ایسا لگا کہ کسی نے ہمیں آواز دی پہلے تو ہم نے اسے اپنا وہم
سمجھ کے سر جھٹک دیا پر تھوڑی دیر بعد پھر وہی آواز
بے بی سنو سنو بے بی
کیا پریشان ہو میں کچھ مدد کروں کہان جانا ہے میں چھوڑ دیتا ہوں
ہم نے پیچھے دیکھا وہ شخص آنکھوں میً خباثت اور چہرے پر دبی دبی مسکان لیئے
ہماری طرف چلا آرہا تھا ہم ڈر گئے اور ہم نے پیدل آگے چلنا شروع کردیا مدد
کے لیئے کس کو بلاتے اس طرح سب جان جاتے کہ یہ لڑکی حقیقت مین اکیلی ہے کس
کا کیا پتہ
ہم جتناآ گے بڑھتے
وہ اتنا ہی ہمارے پیچھے آتا اب تو مانو ہم نے دوڑ ہی لگادی شاید ہمارے چہرے
سے جھلکتی پریشانی نے اسے ہماری طرف متوجہ کیا...
ہم نے آؤ دیکھا تاؤ سامنے سے آنے والی بس میں بنا روٹ معلوم کیئے بغیر پھر
چڑھ گئے اور سکون کی سانس لی...اب ہم اس انجان شخص کی دسترس سے دور
تھے.کنڈیکٹرسے پتہ چلا بس سیدھی جائے گی سبزی منڈی سے آگے حالات ایک دم
ہوگئے ہیں جبکہ ہمین اندر ہی جانا تھا..ان دنوں محاصرے اور کرفیو عام سی
بات تھی.
اندھیرا ہوچلا تھا گھڑی سا ڑھے چھ بجا رہی تھی بس والا ہمین سبزی منڈی
کے سامنے اتار کر آگے بڑھ گیا
لائٹ جانے کے بعد گھپ اندھیرا چارون اور پھیل گیا تھا وقفے وقفے سے فائرنگ
کی آواز یں آرہیں تھیں.
ایک ایسی لڑکی کے لیئے جو گھر سے کالج تک کے روٹ کے علاوہ کبھی کہین نکلی
نہ ہو یہ سب بہت تکلیف دہ صور تحال تھی.
اکیلی لڑکی راستوں سے انجان پھر گھپ اندھیرا
انجان اور بدمعاش قسم کے آدمیوں کے پیچھے لگنے کا خوف
تیز ہوتی فائر نگ اور اب تو ہلکی ہلکی پھوار بھی شروع ہوگئ تھی... دور دور
تک کونظر نہین آرہا تھا سنسان سڑک پر اب تو چلتی گاڑیاں بھی نظر نہیں آرہیں
تھیں.پھر کوئ آدم زاد سوال ہی نہیں پیدا ہوتا
کسی مصیبت میں پھنس جاتے تو مدد کرنے والا کوئ بھی نہ ہوتا کسی کو خبر ہی
نہ ہوتی کہ یہ اچھی خاصی لڑکی کو زمین نگل گئ یا آسمان
دل میں طرح طرح کے وسوسے پھر سر اٹھانے بہت دیر تک چلنے کے باعث پیروں میں
چھالے پڑگئے تھے اب ماں کی ہدایت یاد آرہی تھی کاش ہم نے انکی بات مان لی
ہوتی کھوسے پیر کی سوجن کے باعث پاؤں مین بری طرح پھنس گئے تھے.
جو لوگ کراچی میں رہائش پذیر ہین وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں گے کہ
سہراب گوٹھ سے سبزی منڈی تک ہم نے کتنا فاصلہ طے کیا
وہ بھی پیدل
سامنے کھڑے ہم تھوڑی دیر اپنی انہی فضول سوچوں میں غرق رہے پھر خود کو تسلی
دی یاد ہے ماں بابا کیا کہتے ہیں ہم کبھی تنہا نہیں ہوتے ہمارا رب ہمیشہ
ہمارے ساتھ ہوتا ہے بس ہمیں اس پر اپنا یقین بنائے رکھنے کی ضرورت ہے وہ ہر
روپ مین ہر جگہ ہر وقت ہماری مدد کے لیئے ہمارے ساتھ ہوتا ہے پھر کس بات کا
ڈر بھلا کوئ کیا بگاڑ سکتا ہے اسکا جس نے دنیا بنائ
غزل ہمت کرو بس تھوڑی دور اور..........
اتنا تو فاصلہ طے کرہی لیا ہے باقی بھی ہو ہی جائے گا پھر گھر پر سب پریشان
ہورہے ہونگے یہ سوچ کر ہم نے ڈبل روڈ پار کیا اور سبزی منڈی میں داخل ہوئے.
اس وقت منڈی اندھیرے کے
باعث بہت بھیانک منظر پیش کررہی تھی.
ہاتھ کو ہاتھ سجھائ نہین دے رہا تھا جگہ جگہ مال کے ڈھیر ان پر ڈھکے جا نے
والے خاکی کپڑے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کی ما نند دکھ رہے تھے...
جگہ جگہ چرسی سروں پر چادرین ڈال کر نشہ کرنے میں مصروف تھے.
کوئ آہٹ ہوتی ت انکے مشغلے میں خلل پڑجاتا اور وہ چادر ہٹاکر چارون اور نظر
دوڑاتے اور پھر سے مشغول ہوجاتے.ہمارے جسم مین ایک سرد سہ لہر دوڑ جاتی
کہین وہ ہمیں راستے میں نہ روک لین.
کہیں کہیں کچھ پٹھان چوکیدار آگ کی تاپ لیتے بھی دکھائ دیئے
اٹھتی آگ کی لپٹین اور جلتے چٹکتے کوئلوں سے اڑتی چنگاریاں ماحول کو اور
پراسرار بنا رہیں تھین
کبھی جھینگر کی آواز تو کبھی پتنگے کبھی فائرنگ کی وقفے سے آتی آواز ہمارا
دھیان بٹادیتی کچھ چنگاریاں تو ہمارے پیروں میں بھی آکر لگین.جلنے کی تکلیف
محسوس ہوئ تو اپنے پیرون کی طرف دھیان چلا گیا چنگاریوں نے چھوٹے چھوٹے
سورا خ کردیئے تھے پیروں کے چھالے اب زخم کی صورت اختیار کر گئے تھے.ان سے
رسنے والے خون سے کھوسے بھی رنگین ہوچلے تھے.
یا میرے رب! !!!! مجھے حوصلہ دے آنکھون سے بہنے والے آ نسوؤں نے گالوں پر
کاجل کی لمبی لمبی کالی لکیرین کھینچ دین تھین.پیروں سے چلنا تو دور اب ایک
قدم اٹھانا بھی محال ہورہاتھا
اپنی یہ حالت دیکھ کر ہمارے کانوں میں اس گاؤں سے آنے والی لڑکی کی آواز
گونجنے لگی
جو اکثر اپنی ماں کے ہمراہ ہماری حویلی آیا کرتی تھی
وہ دیر تک ہمارے پاؤن محویت سے دیکھتی رہتی بی بی جی! کیا آپ اپنے پاؤں
زمین پر نہین رکھتیں....
اسکے استفسار نے ہمارے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی
کیوں مومل ایسا کیوں کہا آپ نے.....
جواب مین وہ بولی دیکھو نا کتنے گلا بی گلابی پاؤن ہیں آپکے بالکل چھوٹے
بچوں کی طرح
آپ زمین پر پیدل کہاں چلتیں ہونگین جو ان مین مٹی لگے ہماری طرح تھوڑی کوس
در کوس چلنا پڑتا ہوگا.
پاگل لڑکی ایسا کچھ نہین ہم بھی آپکی طرح عام سے انسان ہین... اور جہاں اشد
ضرورت ہو و ہیں گاڑی یوز کی جاتی ہے ورنہ پیدل چلنے کو ہی تر جیح دیتے ہین
یہ ایک طرح سے بہت اچھا بھی ہے زیادہ سہولتین انسان کو کاہل بنا دیتی ہین
اس نے نہ سمجھ آنے والے انداز مین گردن ہلائ اور کہا پھر بھی بی بی جی آپ
بڑے سوہنے ہو...........
ہاہاہاہاہا یادوں مین گونجنے والا قہقہہ یک دم کراہٹ مین تبدیل ہوگیا کھوسہ
پھٹ چکا تھا اور ٹوٹے پھوٹے راستے کے پتھر بھی اب چبھنے لگے تھے.ہم بہت تھک
گئے تھے رکنا سمجھو گرنے کے مترادف تھا شاید ہن پھر چل نہین پاتے
بس تھوڑی دور اور
خیالات تھے کہ ذہن مین ہوا کے جھونکون کی طرح آجا رہے تھے بارش تیز ہوچلی
تھی. اب تھوڑی سردی بھی محسوس ہونے لگی فائرنگ مین اب کمی آگئ تھی پر ہمین
اس کا خوف قطعی نہین تھا بارش کی وجہ سے اکادکا دکھنے والی الاؤ کی روشنی
بھی معدوم ہوچکی تھی ایک بار پھر گھپ اندھیرا ہم نے درود شریف کا ورد کرنا
شروع کردیا .......
میری بیٹی میرا فخر میرا غرور ہے مجھے اس پر مکمل اعتماد ہے اگر وہ آ
گےپڑھنا چاہتی ہے تو مین اسے کبھی نہین روکوں گا
بابا کی آواز ہمارے ذہن مین گونجنے لگی.جو انھوں نے ہماری تدریس سے متعلق
اعتراضات پر کہی تھی.
غزل کتنا بھاگ دوڑ کرتی ہو سارا دن کالج سے اسکول پھر ہوم ٹیوشنز پھر کوچنگ
تھکتی نہین ہو
یہ سارے اسائمننٹ بھی تمہارےپاس کرنے کا وقت نہین ہوتا کالج مین لائبریری
میں دماغ خراب کرتی رہتی ہو.... انسان ہو یا جن
ہاہاہاہا جن سمجھ گئیں اب کام کرنے دو خاموشی سے
یہ سارے نوٹس فوٹو اسٹیٹ کرکے کلاس میں بانٹ دینا اوکے
اوکے میڈم جو حکم اور آپکی اجرت اسکے لیئے کیا حکم ہے
ہاہاہاہا اس سے پارٹی کرلینا خوش
غزل یہاں آیئے مس صغری نے اشارے سے بلایا
جی میم حکم آپکو اور نو اور طالبات کو اعزازی طور پر کامرس گروپ مین
ڈائریکٹ ٹرانسفر کیا جارہا ہے آپ ایگری ہو تو کنفرم کردو اوکے میم
پر اس پر عمل درآمد ہمارے لیئے ممکن نہین تھا پھر کوچنگ جوا ئن کرنا پڑتا
جو ہمارے لیئے ممکن نہین تھا.
اففف یہ رہ رہ کر کون کون سی باتین ذہن مین آرہی ہین
گھر کالج اسکول سے متعلق سب لوگ اور ان سے جڑی باتیں ایک ایک کرکے ذہن
میںآرہین تھین.کس کس کا ذکر کریں پتہ نہین ہم ان سے واپس مل نھی پائیں
گےنہیں
بہت درد کے احساس کے ساتھ آنسوؤں سے سامنے کا منظر دھندلانے لگا ہمارا دل
کرریا تھا کہ ہم اپنے گھٹنے ٹیک کر دوزانو بیٹھ جائین اور زور زور سے چیخ
چیخ کرروئیں.ماں........بابا.......بھائ......کوئ تو آؤ ہم سے نہین چلا
جارہا ....ہم بہت اکیلے پڑگئے ہیں میری سہیلیوں تم ہی آجاؤ ..........اب
نہیں چلا جارہا. بہت درد ہورہا ہے
سارچیخیں جیسے اندر ہی دب کر رہ گئین تھیں ہمیں کمزور نہیں پڑنا بس تھوڑی
دور اور چلنا ہے خود کو دی جانے والی اس تسلی کے سوا ہمارے پاس اور کچھ
نہیں تھا اپنا حوصلہ بڑھانے کے لیئے... ہم چل رہے تھے اور پتہ نہین کتنا
چلنا تھا....
اندی پر بنی پلیا نزدیک آگئ تھی اس کے دوسری طرف بنے ہوٹل کی روشنیاں بہت
بھلی محسوس ہورہی تھیں.وہ شاید واحد ہوٹل تھا جو وہاں کمانے کے لیئے دور
دراز سے آنے والے سرائیکی پنجابی اورپٹھانی مزدورں سے بھرا ہوا تھا شاید ہی
اس وقت کوئ اردو اسپکینگ وہاں موجود ہو. ہم نے گزرا واقعہ یاد کرتے ہوئے
خود کو
نارمل کرنے کی کوشش کی نہیں چاہتے تھے کہ پھر کوئ ہمین پریشان دیکھ کر
ہمارے پیچھے لگ جائے اب رستہ بھی ٹھیک سے نہین دکھ رہا تھا اتنے میں دور سے
ایک بس آتی دکھائ دی.ہاں وہ بس ہی تھی جو ہمارے روٹ کی بس تھی پر یہ کیسے؟
بسین تو چل ہی نہین رہین تھین
بہرحال ہم نے ہاتھ ہلایا تو بس ہمارے پاس آکر رک گئ
سامنے افراح کو دیکھ کر ہماری جان میں جان آئاس نے سہارادیا بس مین چڑھنے
کے لیئے یہ کیا حالت بنا لی ہے؟ کیا ہواـ؟ غزل کچھ تو بولو .......اسکے
سوال شروع ہوئے تو ختم ہونے کا نام نہین لے رہے تھے یہاں سکت جواب دے چکی
تھی.
سب بتاتی ہوں پہلے یہ بتاؤ کہ تم تو بہت پہلے ہی نکل گئیں تھیں پھر یہ کیا
رات کے آٹھ بج رہے ہین اور تم ابھی تک بس میں ہو؟
ہاں! غزل ہم اس وقت اسی بس میں سوار ہوئے تھے.ٹریفک جام بہت تھا ہم بس سے
اترے ہی نہین اب کہیں جاکر یہ بس یہانتک پہنچی بس والا تو سبزی منڈی پر ہی
سب کو اتار رہا تھا گاڑیاں چلنی بند جو ہوگئیں ہیں جو بس نظر آتی ہے اسے
جلادیا جاتا ہے پر سب لوگوں کے اصرار نے ڈرا ئیور کا دل موم کردیا اور یہ
یہانتک آنے پر راضی ہوگیا......
اسکی بات سنکر ہم نے اپنا ماتھا پکڑ لیا افففف خدایا گویا یہ وقت متعین تھا
اگر ہم انکے ساتھ آنے کا فیصلہ کرلیتے تب بھی یہی وقت لگنا تھا.
پھوپھو کی آواز کانوں مین آنے لگی ہونی کو کوئ نہیں ٹال سکتا قدرت نے سب
متعین کیا ہوا ہے انسان کو راستوں کے چناؤ کا حق حاصل ہے جو اسکے سامنے پیش
آنے والے حالات کا تعین کرتا ہے.اب چاہے وہ کوئ بھی موقع ہو یا حالات
اس مختصر سے وقت میں پتہ نہیں کتنی اذیت جھیل چکے تھے ہم ہما را متوقع
اسٹاپ بہت نزدیک تھا سندھی ہوٹل پر اتر کر دیکھا تو دور دور تک سناٹا اور
اندھیرا پھیلا ہوا تھا ایک طرف رینجرز لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو زبردستی
پیچھے کی طرف دھکیل رہی تھی.....
مہربانی کرو جی اجازت نہین ہے محاصرہ کرلیا گیا ہے علاقے کا
...........کیوں اپنی جانوں کو خطرے مین ڈالنے پر تلے ہوئے ہو.....
رینجرز کے ایک جوان نے لوگوں کو مخاطب کرکے کہا....
تو ان میں سے ہی ایک عمررسیدہ شخص دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو پیٹتے ہوئے
سڑک پر تقریبا لیٹ گیا وہ زور زور سے چلا رہا تھا
خدا! کے لیئے رحم کرو جانے دو ہمیں ہماری بچیاں گھروں کو ابھی تک نہیں
لوٹیں پتہ نہین کس حال میں ہوں گیں.......
ارے کوئ سنبھالو اسکو ہم کچھ نہین کرسکتے بابا اوپر سے آڈر نہین تمہاری آڑ
لے کر کوئ مجرم فرار ہوگیا تو آپ لوگوں نے ہمین ہی الزام دینا ہے......انکی
یہ بحث جاری ہی تھی بس سے اترنے والی طالبات اپنے اپنوں کو ہجوم میں تلاش
کرنے لگیں تب ہی ہماری نظر ہمارے بابا پر پڑی
شاید اس وقت کو الفاظ میں بیان کرنا نہ ممکن ہے جو حالت اس وقت ہمارے دل کی
ہورہی تھی اسکا درد بابا کی آنکھوں میں جھلک رہا تھا پر یہ وقت بکھرنے کا
نہین تھا ہمیں روتا دیکھ کر اس وقت موجود ان بہت سارے لوگون کا حوصلہ ٹوٹ
جاتا جو ابھی بھی اپنی بچیوں کے انتظار مین کھڑے تھے
ٹھیک ہو بیٹا! بابا نے مشکل سے ضبط کرتے ہوئے نارمل لہجے میں بات شروع کی
ہم مے جواب میں سر ہلایا جی بابا
کہاں تھین آپ میں گیٹ پر کھڑا آپکو اتنی ساری لڑکیون مین تلاش کرتا رہا پر
آپ نظر ہی نہیں آئیں کوئ تین دفعہ یونیورسٹی کے چکر لگا آیاآپ کہین نہین
دکھیں ...بابا شاید رش کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کو دیکھ نہین پائے بیٹا ہم
تو یونیورسٹی خالی ہونے تک انتظار کرتے رہے
سوری بابا ہماری وجہ سے آپکو اتنی تکلیف ہوئ.
چلو کوئ بات نہیں یہ اچھا ہے کہ آپکو راستے یاد رہے اور خیریت سے گھر پہنچ
گئیں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے گھر چلتے ہین آپکی ماما بھی بہت فکرمند ہین
ہم چل نہین گھسٹ رہے تھے پر ان زیادہ دور نہین بس تھوڑی دور اور چلنا تھااس
بار ہمین ایک مضبوط سہارا میسر تھا.... گھر داخل ہوتے ہی دروازہ عبو ر کرنے
کی دیر تھی بس سامنے ماں نے دیکھ کر ہمین یک دم سینے سے لگالیا وہ بہت رو
رہین تھین شاید پھر ہمارا ضبط بھی ٹوٹ گیا وہ باربار بر قرار کر ہمیں
چومتین اور روتی جاتین امی بس کرین دیکھین ہم گھر واپس آگئے ہیں بالکل صحیح
سلامت نہ روئین پلیز .....ہم نے رندھی ہوئ آواز می مشکل سے الفاظ ادا کیئے
ٹھیک ہے بیٹا آپ منہ ہاتھ دھو کے فریش ہوجاؤ ہم آپکے لیئے کھانا لگاتے ہین
یہ کہہ کر وہ مڑی ہی تھیں کہ ہم اچانک بے ہوش سے ہوکر گر پڑے...بابا نے
جلدی سےاٹھاکر بستر پر لٹایا اور ہمارے پیروں میںپھنسے ہوئے کھوسے اتارے.
زخم نیلے ہوچکے تھے اور سوجن بھی کافی تھی یہ سب کیسے ہوا میری بچی یا میرے
خدا! ماں رونے لگین تو بابا نے کہا شاید بہت چلی ہے یہ اور بہت دور تک
اسے سونے دو تھوڑی دیر اور دوا لگادیتےہیں پیروں پر فکر نہ کرو اب سب ٹھیک
ہے ہماری بچی مولا کریم نے ہمیں بخیریت لوٹادی اس سے بڑھ کر کیا دوسری بات
ہوسکتی ہے زخم تو بھر ہی جائین گے اب اسے آرام کرنے دو پرسوں پھر پیپر دینے
جانا ہے. یہ کہہ کر روم کی لا ئٹ بند کردی بابا ہمارے پاؤں کی پٹی کرنے لگے
اور ماں شکرانے کے نفل ادا کرنے کھڑیں ہوگئیں.
اس دن کےبعد ہمارے حوصلے اور ہمت پہلے سے کئ گنا زیادہ بڑھ گئ.
اب ہم کہین تنہا سفر سے ہرگز نہین ہچکچاتے تھے کیونکہ ہم تنہا تو کبھی تھے
ہی نہیں......................
آپ بیتی حیاء غزل کی زبانی |