کاپی پیسٹ محض آپ کے کی بورڈ کے دو بٹن نہیں بلکہ یہ ایک
ایسی بیماری ہے جو ہماری روزمرہ کی زندگی میں سرایت کرچکی ہے- کسی بھی چیز
کو کاپی کرنے کا سب سے تہذیب یافتہ لفظ ہے “ متاثر ہونا“-
اگر آپ کو کوئی چیز بےحد پسند آجائے تو آپ فوراً اس کی نقل تیار کرنے میں
لگ جاتے ہیں- ایسا کرتے ہوئے آپ کاپی رائٹس کے اصولوں کو بھی بالائے طاق
رکھ دیتے ہیں-
|
|
ٹھہریے٬ کیا آپ کاپی رائٹس کا مطلب بھی جانتے ہیں؟ ہوسکتا ہے آپ اس سے آشنا
ہوں لیکن صد افسوس کے بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی( میٹرک بورڈ ) اس سے
بالکل ناواقف ہے-
آپ کو یہ جان کر شدید حیرت ہوگی کہ بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی نے ایک
بھارتی تعلیمی ادارے کی ویب سائٹ پنجاب اسکول ایجوکیشن بورڈ کا ڈیزائن کاپی
کر کے اس پر اپنی ویب سائٹ ڈیزائن کی ہے- اگر آپ دونوں ویب سائٹس کے ڈیزائن
کا موازنہ کریں تو آپ کو دونوں سائٹس میں بےپناہ مماثلت محسوس ہوگی-
پاکستانی ہونے کے ناطے آپ یہی سوچیں گے کہ ضرور یہ کارنامہ بھارت کا ہے٬
مگر معذرت کے ساتھ یہ کمال پاکستانی ویب سائٹ کا ہی ہے- اگر آپ کراچی بورڈ
کی ویب سائٹ کے پیج کے اختتام پر دیے گئے “Useful Links” کے آپشن پر کلک
کریں گے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا-
اس پر کلک کرتے ہی یوزر پنجاب بورڈ کی سائٹ پر جا پہنچتا ہے- اس کا مطلب یہ
ہے کہ کراچی بورڈ نے ڈیزائن تو کاپی کرلیا لیکن لنک ہٹانا بھول گئے٬ بھائی
اگر کاپی کیا ہی تو کم سے کم بھارت کے پنجاب بورڈ کا لنک تو ہٹا دیتے-
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک تعلیمی ادارہ اپنا تشخص پامال کرتے ہوئے
ایسی حماقت کرسکتا ہے تو ہم طالبعلم سے ایمانداری کی امید کرسکتے ہیں؟
ذرا سوچیے اور پھر چھاپیے-
|