جو آواز میرے کانوں کو چھورہی
تھی، وہ کس پروگرام کی ہے؟ اَس پر میں کچھ کہہ نہیں سکتی تھی، کیوں کہ وہ
آواز دور رکھے ٹیلی ویژن کے ذریعے مجھ تک پہنچ رہی تھی، لیکن ہاں اس آواز
پر کان دھرنے کی وجہ کچھ یہ تھی کہ جو لفظ ادا کیے اور جو زبان بولی جارہی
تھی وہ قطعاً اس قابل نہیں تھی کہ کسی مہذب اور اخلاقی اقدار پر یقین رکھنے
والے گھرانے میں یہ پروگرام دیکھا جاسکے۔ میں نے ٹی وی لاؤنج کا رخ کیا،
جہاں میری گیارہ سالہ بڑی بیٹی ایک نجی ٹی وی چینل پر عید کی ٹرانسمیشن میں
دکھائے جانے والا ایک ڈراما دیکھ رہی تھی۔ ذرا غور کرنے پر معلوم ہوا کہ
ڈرامے میں کراچی کا کلچر دکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ افسوس رہ رہ کر اس بات
کا ہو رہا تھا کہ یہ کون سا کلچر ہے جسے دکھایا جارہا ہے۔ کیا ہمارے شہر
میں یہ زبان بولی جاتی ہے؟ یا اس شہر کے باسی اس حد تک اخلاقی زوال کا شکار
ہو چکے ہیں جو اس ڈرامے میں پیش کیا جا رہا ہے۔ لاحول پڑھنے کے بعد اس بات
کا احساس ہو ا کہ نہیں، ایسا نہیں ہے، فقط ایک آدھ ڈرامے میں ایسا ہوا ہے
اور میں خوامخواہ رائی کا پہاڑ بنا رہی ہوں۔ وقت کی کمی کے باعث ٹی وی
ڈرامے دیکھنے کی فرصت نہیں ملتی، لیکن اب سوال اس بات کا تھا کہ میرے اپنے
ٹی وی پر کیا دیکھتے ہیں؟ تو میں نے کچھ دن ٹی وی ڈراموں کا جائزہ لیا۔ اس
دوران پاکستان میں بننے والی فلموں کے حوالے سے بھی کچھ خبر ہوئی کہ میڈان
پاکستان کا نعرہ دینے والی فلمیں کس کلچر کو دکھا رہی ہیں؟ اس جائزے کے
دوران اندازہ ہوا کہ ایک نہیں دو نہیں تقریباً تمام چینلز نے جیسے بیہودگی
اور مزاح کے نام پر پھکڑ پن کا بیڑ اٹھا رکھا ہے۔ رہی سہی کسر نیوز چینل پر
آنے والے سنسنی خیز ڈراموں نے پوری کردی ہے، جن میں جرم کے آئیڈیاز دینے سے
لے کر اس کے چھپانے اور انجام دینے تک سب کی بڑی خوب صورتی سے تربیت دی
جاتی ہے۔
زندگی میں تفریح کا عنصر ہونا بہت ضروری ہے۔ کوئی انٹرٹینمنٹ نہ ہو تو
زندگی کی یکسانیت اور روزوشب کی مشقت ہمیں بے زار اور گھٹن کا شکار کردیتی
ہے۔ ہر کسی کی کوئی اپنی من پسند تفریح ہوتی ہے، لیکن کچھ تفریحات مشترکہ
ہوتی ہیں، جیسے فلم اور ڈراما وغیرہ، یہ اور کچھ دیگر شعبوں سے مل کر بنتی
ہیں۔ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری دنیا میں اب فقط تفریح کا ذریعہ ہی نہیں رہی بل کہ
ملکوں کی پہچان اور ان کی معیشت کا اہم حصہ بھی بن چکی ہے، ایسے میں ہمارے
یہاں یہ انڈسٹری کس حال میں ہے، اس کا اندازہ آج کے پاکستانی ڈراموں اور
میڈ ان پاکستان کا نعرہ دینے والی فلموں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ایسا
نہیں ہے کہ اچھا کام نہیں ہو رہا۔ ماضی میں اچھی فلمیں پاکستان فلم انڈسٹری
نے دنیا کے سامنے پیش کیں۔ ہدایت کار ہوں یا فلم ساز عوام کو معیاری تفریح
کا سامان دیتے رہے۔ ساتھ ہی ہماری ڈراما انڈسٹری تو شان دار تاریخ رکھتی
ہے۔ ٹی وی ڈراموں کی معیاری کہانیاں اور عکس بندی کئی عشروں سے دنیا بھر
میں ہمارے لیے باعثِ فخر رہیں۔ اس میں شک نہیں کہ گذشتہ سالوں کے دوران
ہماری انٹرٹینمنٹ انڈسٹری نے بہت ترقی کی ہے، لیکن کیا ہم اسے ترقی کہہ
سکتے ہیں؟
نجی ٹی وی چینلز آنے کے بعد لاتعداد پروڈکشن ہاؤس قائم ہوگئے ہیں اور بڑی
تعداد میں ڈرامے بن رہے ہیں، لیکن ان ڈراموں کا معیار کیا ہے؟ تقریباً سب
ڈراموں میں امیرکبیر گھرانے اور ان کا پُرتعیش لائف اسٹائل دکھایا جاتا ہے۔
انڈین ڈراموں کی تقلید میں ہمارے ڈراموں میں بھی گھریلو سازشیں جگہ پاچکی
ہیں۔ بیہودہ زبان کا استعمال ایک عام سی بات ہے۔ وہ لفظ جو ہمارے گھروں میں
غلطی سے اگر کوئی ادا کر دے تو کڑی سزا دی جاتی تھی، آج وہی الفاظ ہمارے ٹی
وی ڈرامے ہمارے بچوں کو سکھا رہے ہیں۔ ڈرامے، فلمیں، آرٹ کسی بھی معاشرے کو
بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عام اذہان کی آبیاری کرتے ہیں۔
ایک ڈرامانگار، ایک فلم رائٹر، ایک شاعر، ایک ادیب اپنے کام کے ذریعے عام
لوگوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور معاشرہ بناتا ہے۔ آخر ہم کس کلچر کو فروغ
دینا چاہتے ہیں؟
جدیدیت اپنانا اور اذہان کو بدلنے کا خواب دیکھنا غلط نہیں، لیکن جدیدیت کی
آڑ میں جان بوجھ کر یا انجانے میں نئی نسل کے کردار تباہ کرنا کہاں کی
جدیدیت ٹھہری!
اس سے کون کافر انکاری ہے کہ آج ایک عام پاکستانی بھی اس تیز دنیا کے بارے
میں اپنے غربت اور مسائل کے باوجود بہت کچھ جانتا ہے۔ لہٰذا یہ عذر پیش
کرنا کہ ایک عام پاکستانی شہری کو تفریح دینے کے لیے یہ سب دکھانا بہت
ضروری ہے جو دکھایا جا رہا ہے، سراسر غلط ہے۔ کسی اور ملک سے متاثر ہوکر
ایسی زبان پیش کرنا جو ہمارے یہاں غیرمعیاری اور غیراخلاقی ہے، اپنی تہذیب
وثقافت سے دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر کسی اور ملک کے کلچر کے مطابق کسی
ڈرامے اور فلم کی زبان غلط نہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمارے یہاں
بھی صحیح ہے۔
اپنے جائزے کے دوران میں نے ایک ڈرما دیکھا، جس میں ایک امیر بوڑھے آدمی سے
ایک جوان لڑکا اس کی بیوی کے ساتھ شادی کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ بوڑھا بہت
اچھے موڈ میں سگار سلگاتے ہوئے مسکراتا ہے اور اپنی بیوی کی خوب صورتی کے
قصیدے پڑھتے ہوئے کہتا ہے کہ ہاں وہ جوان ہے خوب صورت ہے تم یقیناً اس سے
شادی کرسکتے، ہو میں بس کل تک اس طلاق دے دوں گا۔ کیا مجھے کوئی اس بات پر
قائل کرسکتا ہے کہ یہ ہمارا کلچر ہے! یہ تو وہی بات ہوئی کہ کوّا چلا ہنس
کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔
آخر ہمارے قلم کاروں، اداکاروں اور ہدایت کاروں میں کیا کمی ہے کہ ہم دوسرے
ممالک کے نہ صرف ڈرامے امپورٹ کر رہے ہیں بل کہ ان کے اسکرپٹ کو کاپی کر کے
یہ سمجھ رہے ہیں کہ بہت کمال کردیا ہے۔ تقریباً تمام ڈراموں کی کہانیاں
یکساں ہیں، جس سے لگتا ہے کہ ہمارے لکھنے والوں کی تخلیقی صلاحیتیں ختم
ہوچکی ہیں۔
جہاں تک فلموں کا تعلق ہے تو ہم اچھے اداکاروں، ہدایت کاروں، کہانی نویسوں،
موسیقاروں اور گلوکاروں کی کھیپ کی کھیپ رکھنے کے باوجود اس شعبے میں اپنے
پڑوسی ملک ہی نہیں دیگر بہت سے ممالک سے بھی بہت پیچھے ہیں۔
پاکستانی سنیماؤں میں بھارتی فلمیں چلانے کی اجازت ملنے سے سنیما مالکان کو
تو فائدہ ہوا ہے، لیکن ہماری بچی کھچی اور تباہ حال فلمی صنعت کو نقصان ہوا
ہے۔ چند سالوں کے دوران کچھ اچھی فلمیں بنائی گئی ہیں، لیکن ان سب کا موضوع
دہشت گردی ہے، اور انھیں خاص مقاصد کے لیے سرمایہ لگا کر بنایا گیا ہے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ اچھی فلم بنانے کے لیے سرمایہ نہیں، مگر یہ کہنا غلط ہے،
آپ اچھی کہانی، اچھی اداکاری، اور ہدایت کاری کے ذریعے شان دار فلمیں بنا
سکتے ہیں۔ پڑوسی ملک میں بہت کم سرمائے سے بننے والی مزاحیہ فلم ’’بھیجا
فرائی‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔ ہمارا مزاح لکھنے والوں کا معیار اور مزاحیہ
اداکاری بھارت کے اس شعبے سے کہیں بلند ہے، تو ہم اچھی مزاحیہ فلمیں کم
سرمائے سے کیوں نہیں بنا سکتے؟
فلم میں انٹرٹنیمنٹ کے نام پر پاکستانی کلچر کو غلط رنگ دے کر پیش کرنا نہ
صرف اپنے پیشہ سے ساتھ بددیانتی ہے بل کہ ملک کی نسلوں کے ساتھ بھی کھلواڑ
ہے۔ ہمیں فلموں کے ذریعے اپنے خوب صورت کلچر کو فروغ دینا چاہیے، نہ کہ اس
مسخ کرکے دکھایا جائے۔
اب بات کرتے ہیں موسیقی کی۔ ہمارے گلوکار آج بھی بھارت سے آگے ہیں، گلوکاری
اور موسیقی میں ہم نے نہ صرف بھارت کا مقابلہ کیا ہے بل کہ اسے پیچھے چھوڑ
دیا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے گلوکاروں اور موسیقاروں کو اچھی فلموں
کا پلیٹ فارم میسر نہیں ہے۔
جہاں تک اسٹیج ڈراموں کا تعلق ہے تو بہت کم معیاری اسٹیج ڈرامے ہورہے ہیں،
زیادہ تر ڈرامے پھکڑپن اور بے ہودگی کا نمونہ ہوتے ہیں۔
انٹرٹینمنٹ انڈسٹری ملکوں کی معیشت کا بھی اہم ذریعہ ہوتی ہیں، اگر حکومت
توجہ دے، اس شعبے میں سرمایہ کاری کرے، گائڈلائن دے تو بڑی تعداد میں اچھی
فلمیں بن سکتی ہیں، ایسا کرنے سے ملک میں بڑی تعداد میں فلمیں بننے کا
سلسلہ شروع ہوگا، ہم معیاری فلمیں بنائیں تو انھیں بھارت میں بہت بڑی
مارکیٹ میسر آئے گی، اس کے علاوہ امریکا، یورپ اور یو اے ای میں رہائش پذیر
پاکستانیوں اور بھارتیوں کی صورت میں بھی ہمیں مارکیٹ ملے گی۔
بڑی تعداد میں فلمیں بننے اور انھیں بڑی مارکیٹ میسر آنے کی صورت میں براہ
راست اور بالواسطہ طور پر لاکھوں لوگوں کو روزگار میسر آئے گا۔ اچھی فلم
کسی ملک کی ترجمان بھی ہوتی ہے، اگر ہم معیاری فلمیں بنائیں جنھیں دنیا میں
دیکھا جائے تو اس سے پاکستان کا عالمی سطح پر سوفٹ امیج ڈیولپ ہوگا۔ ملک
میں پھلے تعصب نسل اور زبان کی وجہ سے ہونے والے تشدد کو کم کرنا ہو،
اقلیتوں سے اچھے سلوک کا پیغام ہو، سیاسی شعور کو اجاگر کرنا ہو، نوجوانوں
کے دلوں میں ملک کی محبت کا جذبہ پیدا کرنا ہو، نئی نسل کو تعلیم کی طرف
راغب کرنا ہو، انتہاپسندی کو کم کرنا ہو یا عام فرد کی ذہنی سطح کو بلند
کرنا ہو، بلاشبہ کسی بھی ملک کی فلم، تھیٹر اور ڈراما انڈسٹری اس حوالے سے
اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ ہماری انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی صورت حال ان لوگوں
کو سوچنے اور عمل کرنے کی دعوت دیتی ہے جو انٹرٹینمنٹ کے حوالے سے مثبت اور
معیاری کام کر سکتے ہیں اور پاکستان کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا
کرسکتے ہیں۔ |