ذولفقار نے اخبار میں ایک چھوٹا
سا اشتہار پڑھا۔ڈاکٹر سراج الدین احمدکے ہونے والے ایک لیکچر کی دعوت عام
دی گئی تھی۔
ذولفقار کے ذہن میں فوراََ ان کا چہرہ ابھر آیا اور خاص طور پہ ان کی
خیالات اور ان کی باتیں اسے یاد آنے لگیں۔
’’چلو آج شام یہاں چلتا ہوں……‘‘۔ ذولفقار نے بغیر کسی خاص وجہ کے تحیہ
کیاکہ اس لیکچر کو سننے آج شام وہاں جائے گا۔
ڈاکٹر سراج الدین احمد اپنی عمر کے آخری دور میں تھے۔ ان کی عمر لگ بھگ ستر
سال ہو گی۔ انہیں اپنی زندگی کے ابتدائی دور سے ہی دین سے خاص رغبت تھی۔
اپنی جوانی کے دورسے ہی وہ اسکول، کالج ، یونیورسٹی میں ہونے والی دینی
سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور متعدد دینی انجمنوں اور تنظیموں
کے رکن رہے۔ پیشے کے اعتبار سے تو وہ ایک ڈاکٹر تھے ۔ مگر جس کام کا بیڑا
انہوں نے اٹھا لیا تھا ، اس کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا کام ممکن نہ تھا۔ لہذا
انہیں اپنے پیشے کو خیر باد کہنا پڑا اور انہوں نے اپنی ساری کی ساری
صلاحیت اور اثاثے اپنے مشن پر وقف کر دئیے۔ ان کا مقصد تھا ’’ اﷲ کی زمین
پر اﷲ کے دین کو نافذ کرنا‘‘۔
’’معذرت کے ساتھ پوچھنا چاہتا ہوں …… آپ کی اتنی عمر ہو گئی ہے …… ام م م
…… کیا آپ اپنے مقصد میں نا کام ہو گئے ہیں؟؟؟‘‘ ذولفقار نے کچھ جھجھکتے
ہوئے لیکچر کے بعد ڈاکٹر صاحب سے ایسا چبھتا ہوا سوال پوچھ لیا۔
ڈاکٹر صاحب کا چہرہ نہایت سنجیدہ تھا۔ ’’غالباََ آپ نئے ہیں……‘‘ انہوں نے
کچھ توقف کیا، پھر کہا۔ ’’ شاید آپ نے ہمارے ہاں زیادہ وقت صرف نہیں کیا!!!‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے جواب میں ذولفقار سے ایک سوال پوچھ ڈالا۔
’’ام م م…… جی…… بس ایک بار آپ کو یونیورسٹی میں دیکھا تھا اور آج آیا ہوں……‘‘
ذولفقار کی آواز میں اعتماد کی کمی تھی۔
’’میرا مقصد آپ کو شرمندہ کرنا نہیں ہے…… مگر بہتر ہے کہ آپ ہمارے ہاں
تھوڑا وقت صرف کریں…… ہمارے لیکچر وغیرہ ہوتے ہیں اور کتابیں بھی ہیں ……
اپنا مطالعہ بڑھائیں…… انشاء اﷲ آپ کو آپ کے سوالوں کا جواب مل جائے گا۔‘‘
ذولفقار چپ سا ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک اور حضرت سے کلام شروع کر دیا۔
’’بیٹا ! ہم سب یہاں کامیاب ہیں۔ ہم نے باطل کو گلے نہیں لگایا۔‘‘ ڈاکٹر
صاحب نے خود ہی پھر بات شروع کر دی۔ شاید وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ان کی
اس جدوجہد کے بارے میں کوئی غلط رائے قائم کر لے۔
’’……بلکہ ہم نے اپنی ساری جدوجہد اسے مٹانے کے لئے کی ہے ‘‘۔ ’’ لیکن یہ
کام تب ہی ہو گاجب اﷲ چاہے گا‘‘۔
’’……ہمیں تو بس اپنے آپ کو اس وقت کے لئے تیار رکھنا ہے …… تیار کرنا ہے……
کہ جوں ہی کوئی چنگھاری بھڑکے …… ہم اس میں جل مرنے کے لئے تیار ہوں‘‘۔
’’ہمارا ایمان اتنا پختہ ہونا چائیے‘‘۔
’’ابھی تو ہم صرف مسلمان ہیں…… پیدائشی مسلمان ……ایمان ابھی تک ہمارے دلوں
میں داخل نہیں ہوا……‘‘
’’اپنے اندر ایمان پیدا کرو…… اسے مضبوط کرو…… اتنا مضبوط جتنا ابراہیم ؑ
کا تھا……‘‘
’’نالہ ہے بلبل ِشوریدہ تیرہ خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
بے خطر کود پڑا آتش ِنمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
شیوائے عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زناریئے بت خانہ ئے ایام ابھی ‘‘
(علامہ محمد اقبال رحمت اﷲ علیہ)ـ
ذولفقار نے ان کی تنظیم میں آناجانا شروع کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
بڑی ہلچل مچی ہوئی تھی۔آج یونیورسٹی میںannual dinner تھا۔ تمام اسٹیوڈنٹس
اور ٹیچرز خوب اچھی طرح بن ٹھن کر اس تقریب میں شرکت کرنے آئے تھے۔بہت اچھی
طرح سب کچھ آرگنائز کیا گیا تھا۔ مگر آرگنائزرز ابھی بھی ٹینشن میں ہی تھی۔
ذولفقار کیٹرنگ والوں پر کسی بات پر چیخ رہا تھا۔ بلال صاحب بھی تیزی سے
چلتے ہوئے کسی کی طرف بھاگ رہے تھے۔ مس سبا کچھ اسٹیوڈنٹس کو کچھ سمجھا
بجھا رہی تھیں۔
’’ذولفقار صاحب! وی آئی پیز کی لسٹ دیجئے گا‘‘۔ نیلوفر نے ذولفقار کی طرف
دیکھے بغیر اس کی طرف لسٹ لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ اگر ایک جملے میں بات
کہی جائے تو محفل میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس کا حسن و جمال تماملڑکیوں
کے لئے رشک و حسدکا باعث بناہوا تھا۔
ذولفقار ٹھٹھک کر رہ گیا۔ یہ دونوں آرگنئزرز کی ٹیم میں شامل تھے۔ مگر یہ
پہلا موقع تھا جب ان کی آپس میں بات ہو رہی تھی۔ ذولفقار سب چھوڑ چھاڑ کر
اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا۔ پھر اپنا لیپ ٹاپ کابیگ جھاننے لگا ۔ اس کی اس عجیب
کیفیت کو اسٹیوڈنٹس نے محسوس کیا۔
’’یہ لیں……‘‘ نیلوفر نے لسٹ لی اورتیزی سے واپس جانے لگی۔ اور جان بوجھ کر
اپنا چھوٹا سا کلچ نیچے گرا دیا۔
’’ا م م م…… ایکسکیوز می! ایکسکیوز می!‘‘ ذولفقار نے کلچ اٹھایا اور دھیمے
سے لہجے میں نیلو فر کو مخاطب کرنے لگا۔ مگر وہ کافی آگے بڑھ چکی تھی۔
ذولفقار اس کے پیچھے جانے لگا اور اسے مخاطب کرنے کی کوشش کرتا رہا۔مگر
نیلوفر تو بڑی بے نیازی سے آگے بڑھی جا رہی تھی۔ اسے سب سنائی دے رہاتھا کو
کوئی اسے پکار رہا ہے……َ وہ تو بس اس احساس کا لطف اٹھا رہی تھی کہ وہ آگے
آگے …… ذولفقار اس کے پیچھے پیچھے…… اسے اور کیاچائیے تھا!!!
آخر کار نیلوفر ایک سیٹ پر بیٹھ گئی۔ اس نے ایک بار پھر ذولفقار کو شرمندہ
کر چھوڑا تھا۔ اسے اندر ہی اندر غصہ بھی آنے لگا۔
’’مس نیلوفر! یہ آپ کا پرس گر گیا تھا نیچے……‘‘ ذولفقار نے مختلف سے لہجے
میں کہا۔
’’اوہ…… آئی ایم رئیلی سوری……‘‘ نیلوفر نے ہر لفظ کھینچ کھینچ کر جواب دیا۔
ذولفقار اس کا روشن دمکتا چہرا دیکھ کر نڈھال ساہو گیا۔ وہ سارا غصہ وصہ
بھول گیا۔ اس نے اندر ہی اندر ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
’’کب؟ہائے…… ابھی گرا تھا یہ……‘‘ ’’ جب آپ کے پاس آئی تھی میں؟؟؟‘‘ اس نے
اپنی نازک سی آواز میں پوچھا۔
’’جی‘‘۔ ذولفقار نے مختصر سا جواب دیا اور اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔
’’اوہ…… آئی ایم رئیلی سوری…… ‘‘
’’نہیں نہیں کوئی بات نہیں……‘‘ ذولفقار مسکرایا۔ جواب میں نیلوفر نے بھی
اپنے چہرے پر ایک پیاری سی مسکراہٹ بکھیری۔ذولفقار کا دل کھل اٹھا۔ اس کے
بعدتقریب کے اختتام تک ذولفقار نیلوفر کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ وہ کہاں
ہے۔ کیا کر رہی ہے۔ وہ ابھی ہنسی، ابھی چلی، وہ کس سے باتیں کر رہی ہے۔
نیلوفر نے ایک جھٹکے میں ہی ذولفقارکا حال ویسا کا ویسا کر دیا جیسا چند
ماہ پہلے تھا۔نیلوفر کی چالوں کا کوئی توڑ کہاں!
اسٹیوڈنٹس اورٹیچرز اسٹیج پر مختلف قسم کے مزاحیہ اسکٹس پیش کر رہے تھے۔ اب
نیلوفر کی باری تھی……
’’یہ محفل جو آج سجی ہے ……
اس محفل میں ہے کوئی ہم سا؟
ہم سا ہو تو سامنے آئے
ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘
تقریب کے اختتام پر نیلوفر نے یہ گانا گایا اور حقیقتاََ سب کو گھائیل کرکے
رکھ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’ٹھیک کہہ رہے ہیں یہ……‘‘ ذولفقار رات کو اپنے بستر پر لیٹا سوچ رہا
تھا۔آج وہ پھر تنظیم سے ہو کر آیا تھا۔ اسے ڈاکٹر صاحب کی باتیں یاد آ رہی
تھیں۔
’’ٹھیک کہتے ہیں…… نمازوں پہ نمازیں پڑھتے ہیں ہم …… چلے کاٹتے ہیں…… حج پہ
حج…… عمرے پہ عمرے…… اور ہمارے ملک کی پارلیمنٹ میں حدود اﷲ کو پامال کیا
جاتا ہے……‘‘۔’’اﷲ کی کتاب اور اس کے احکامات کو پیروں تلے روندھا جاتا
ہے……‘‘
’’جو چاہے قانون یہ بنا لیں…… بس ووٹوں کی گنتی کر کے……‘‘
’’کیا اﷲ کی ہمارے سیاسی معاملات میں کوئی حیثیت نہیں؟؟؟‘‘ ۔ ’’اﷲ کو اس
میں دخل اندازی کی کوئی اجازت نہیں؟؟؟‘‘
’’غلط ہے یہ……واقعی……غلط ہے……‘‘۔ ’’ہم نے اﷲ کو مسجدوں میں قید کر دیا
ہے……اپنی سیاسی اور معاشی زندگی سے نکال باہرپھینکا ہے……‘‘
’’ہماری ساری معیشیت سود پر ٹکی ہے اور سود اﷲ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ
ہے!!!‘‘
’’ہاں! میری ساری عبادات جھوٹی ہیں……‘‘۔’’ ……جب تک کہ میں اﷲ کی وکالت نہ
کرو…… اس کے لئے…… اس کی بات کو نافذکرنے کے لئے نہ لڑوں……‘‘۔ ’’سب دھوکہ
ہے……‘‘ ذولفقار اپنے آپ سے بہت کچھ کہے چلے جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
نیلوفر اور ذولفقار کی آپس میں تھوڑی بہت گفتگو پھر شروع ہو چکی تھی۔کبھی
کسی کتاب لینے کے بہانے…… کبھی کوئی نوٹس وغیرہ ایکسچینج کرنا…… کبھی کچھ
کورس سے متعلق سمجھنا سمجھانا……
مگر دونوں کے دلوں میں جو کچھ تھا وہ ایک دوسرے سے چھپا نہ تھا۔وقفے وقفے
سے وہ جان بوجھ کر ایک دوسرے سے بات کرنے کا بہانہ ڈھونڈتے۔ نیلوفر اسے
اپنی فریبی چالوں سے ڈھیر کر چکی تھی۔جب کبھی نیلوفر تنہائی میں ذولفقار کے
روم میں آتی تو ذولفقار اپنے جزبات بہ مشکل قابو کر پاتا۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک……‘‘ذولفقار کے روم کے دروازے پر دستک ہوئی۔ شام کے چار بج
چکے تھے۔ ان کی بلڈنگ کے اس فلور کا سارا اسٹاف جا چکا تھا۔ ذولفقار اپنے
روم میں اکیلا تھا اور نکلنے کی تیاری ہی کر رہا تھا۔
’’جی……‘‘ ذولفقار نے حیرانی سے کہا کہ اس وقت کون آ گیا۔
دروازہ کھلا اور ذولفقار کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ دروازے پر نیلوفر کھڑی
تھی۔
’’کین آئی کم ان؟؟؟‘‘ نیلوفر کے چہرے پر ایک شریر مسکراہٹ تھی اور اس کے
آواز میں ایک فریب……
’’ام م م…… جی…… ‘‘ ’’ ویل کم‘‘ ذولفقار نے بہت ہی دھیمے سے کہا۔ اس کی
آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔ ’’ ویلکم‘‘ اس نے دوبارہ زرا زور سے کہا۔
نیلوفر آئی اور اس کے سامنے رکھی چیئر پر بیٹھ گئی۔اس کا ریشمی دوپٹہ بار
بار اس کے کاندھوں سے ڈھلک رہا تھا۔ذولفقار جھجھکتے ہوئے اس کے حسن ِبے
مثال کا دیدار کرنے لگا……کبھی نظر اٹھاتا کبھی جھکاتا…… وہ ہر بار اپنا
دوپٹہ کسی نئی ادا سے ٹھیک کرتی……
پرَاب کی بار جو اس کا دوپٹہ سرکا تو اس نے اسے ٹھیک نہ کیا……وہ ریشمی حجاب
ایک کاندھے پر پڑا اس کا پردہ کرنے میں بے بس تھا۔
’’آپ …… آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا میں نے……!!!‘‘ نیلوفر نے دھیرے دھیرے سے
کہنا شروع کیا۔
’’ام م م…… نہیں…… نہیں……ایسی کوئی بات نہیں……‘‘ ذولفقار نے پاس رکھے گلاس
میں پانی ڈالا اور ایک گھونٹ پی لیا کہ شاید اس طرح اس کی جھجھک کا اندازہ
نیلوفر کو نہ ہو سکے۔
نیلوفر نے آگے بڑھ کر وہی گلاس اٹھایا اور ذولفقار کے سامنے اسی پانی سے
ایک گھونٹ پی لیا۔ ’’یہ لیجئے……‘‘ اس نے ذولفقار کو گلاس تھمایاکہ وہ پانی
پیئے۔ نیلوفر کی لپ اسٹک نے گلاس کے کناروں پر اس کے ہونٹوں کی شبیہہ بنا
دی تھی۔ذولفقار اس کے اشارے سمجھ گیا کہ وہ کیا چاہتی تھی۔ وہ جوان جزبات
سے پُر ہو گیا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے گلاس کا بچا کچا پانی پیا اور پھر……
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔ |
ذولفقار نے اخبار میں ایک چھوٹا سا اشتہار پڑھا۔ڈاکٹر
سراج الدین احمدکے ہونے والے ایک لیکچر کی دعوت عام دی گئی تھی۔
ذولفقار کے ذہن میں فوراََ ان کا چہرہ ابھر آیا اور خاص طور پہ ان کی
خیالات اور ان کی باتیں اسے یاد آنے لگیں۔
’’چلو آج شام یہاں چلتا ہوں……‘‘۔ ذولفقار نے بغیر کسی خاص وجہ کے تحیہ
کیاکہ اس لیکچر کو سننے آج شام وہاں جائے گا۔
ڈاکٹر سراج الدین احمد اپنی عمر کے آخری دور میں تھے۔ ان کی عمر لگ بھگ ستر
سال ہو گی۔ انہیں اپنی زندگی کے ابتدائی دور سے ہی دین سے خاص رغبت تھی۔
اپنی جوانی کے دورسے ہی وہ اسکول، کالج ، یونیورسٹی میں ہونے والی دینی
سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور متعدد دینی انجمنوں اور تنظیموں
کے رکن رہے۔ پیشے کے اعتبار سے تو وہ ایک ڈاکٹر تھے ۔ مگر جس کام کا بیڑا
انہوں نے اٹھا لیا تھا ، اس کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا کام ممکن نہ تھا۔ لہذا
انہیں اپنے پیشے کو خیر باد کہنا پڑا اور انہوں نے اپنی ساری کی ساری
صلاحیت اور اثاثے اپنے مشن پر وقف کر دئیے۔ ان کا مقصد تھا ’’ اﷲ کی زمین
پر اﷲ کے دین کو نافذ کرنا‘‘۔
’’یہ در اصل نظاموں کی لڑائی ہے……
کمیونزم جمہوریت کے خلاف ہے…… سوشلزم کیپیٹلزم کے خلاف ہے……
انسان اپنی ابتداء ہی سے ایک ایسے نظامِ زندگی کی تلاش میں ہے جو کُلی طور
پر عدل و انصاف پر مبنی ہو……جس میں ہر طبقے کا آدمی خوش اور مطمئین ہو……
امن و امان ہو…… زندگی کے ہر شعبے کے اصول اور قوانین میسر ہوں…… اور سب سے
بڑھ کر، جو اخلاقی اعتبار سے انسانی فطرت کے عین مطابق ہو…… کوئی ایلین
نظام نہ ہو……
مگر افسوس کہ اس دور میں جب کہ آج انسان سائنسی طور پر تو کہاں سے کہاں
پہنچ گیا ہے ، یہی وہ دور ہے جس میں سب سے ذیادہ انسان کا خون بہایا جا رہا
ہے…… پہلی اور دوسری جنگِ عظیم ان ہی سو سالوں میں ہوئی اور اب گیارہ ستمبر
کے واقعے کے بعد …… لگتا تو یوں ہے کہ تیسری جنگِ عظیم کی چنگاریاں جلنی
شروع ہو گئی ہیں…… اﷲ کی پناہ!!!
میں خود امریکہ میں دیکھ آیا …… کہ کس طح کیپیٹلسٹ نظام میں امیر ذیادہ سے
ذیادہ امیر اور غریب تو آٹے کی چکی بن گیا ہے…… سب کی ایک مشینی سے زندگی
ہے…… کوئی روحانیت نہیں…… کوئی نورانیت نہیں…… کسی کے پاس وقت ہی نہیں……لوگ
کنفیوز ہیں……
انسانی تاریخ میں صرف ایک نظامِِ زندگی ایسا آیا کہ جس میں حکمراں کو دیکھو
تو لگتا کہ کوئی درویش ہے…… خلیفہء وقت کہتا کہ اگر دجلہ کے کنارے کوئی کتہ
بھی بھوکا مر گیا تو اﷲ کے ہاں میں اس کا جوابدہ ہونگا…… بھری محفل میں
کوئی بھی کھڑا ہو کر خلیفہء وقت کا محاسبہ کر سکتا تھا…… کوئی رنگ و نسل کا
فرق نہیں…… کہیں عورت کے حقوق غضب نہیں…… مال و دولت کی فراوانی …… علم و
ہنر پر کوئی قید نہیں……
اُس سے ذیادہ انسان کی بھلائی اور کون جان سکتا ہے جس نے انسان کو بنایا
ہے…… کیا وہ ہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا؟؟؟
اﷲ کے بتائے ہوئے ضابطہء حیات کو اپنانے میں ہی اصل امن و سکون اور خوشیاں
ہیں……‘‘
ڈاکٹر سراج الدین اپنی بات کر کے ڈائس سے نیچے آ گئے اور ذولفقار کے ساتھ
رکھی کرسی پر ہی بیٹھ گئے۔
’’معذرت کے ساتھ پوچھنا چاہتا ہوں …… آپ کی اتنی عمر ہو گئی ہے …… ام م م
…… کیا آپ اپنے مقصد میں نا کام ہو گئے ہیں؟؟؟‘‘ ذولفقار نے کچھ جھجھکتے
ہوئے لیکچر کے بعد ڈاکٹر صاحب سے ایسا چبھتا ہوا سوال پوچھ لیا۔
ڈاکٹر صاحب کا چہرہ نہایت سنجیدہ تھا۔ ’’غالباََ آپ نئے ہیں……‘‘ انہوں نے
کچھ توقف کیا، پھر کہا۔ ’’ شاید آپ نے ہمارے ہاں زیادہ وقت صرف نہیں
کیا!!!‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب میں ذولفقار سے ایک سوال پوچھ ڈالا۔
’’ام م م…… جی…… بس ایک بار آپ کو یونیورسٹی میں دیکھا تھا اور آج آیا
ہوں……‘‘ ذولفقار کی آواز میں اعتماد کی کمی تھی۔
’’میرا مقصد آپ کو شرمندہ کرنا نہیں ہے…… مگر بہتر ہے کہ آپ ہمارے ہاں
تھوڑا وقت صرف کریں…… ہمارے لیکچر وغیرہ ہوتے ہیں اور کتابیں بھی ہیں ……
اپنا مطالعہ بڑھائیں…… انشاء اﷲ آپ کو آپ کے سوالوں کا جواب مل جائے گا۔‘‘
ذولفقار چپ سا ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک اور حضرت سے کلام شروع کر دیا۔
’’بیٹا ! ہم سب یہاں کامیاب ہیں۔ ہم نے باطل کو گلے نہیں لگایا۔‘‘ ڈاکٹر
صاحب نے خود ہی پھر بات شروع کر دی۔ شاید وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ان کی
اس جدوجہد کے بارے میں کوئی غلط رائے قائم کر لے۔
’’……بلکہ ہم نے اپنی ساری جدوجہد اسے مٹانے کے لئے کی ہے ‘‘۔ ’’ لیکن یہ
کام تب ہی ہو گاجب اﷲ چاہے گا‘‘۔
’’……ہمیں تو بس اپنے آپ کو اس وقت کے لئے تیار رکھنا ہے …… تیار کرنا ہے……
کہ جوں ہی کوئی چنگھاری بھڑکے …… ہم اس میں جل مرنے کے لئے تیار ہوں‘‘۔
’’ہمارا ایمان اتنا پختہ ہونا چائیے‘‘۔
’’ابھی تو ہم صرف مسلمان ہیں…… پیدائشی مسلمان ……ایمان ابھی تک ہمارے دلوں
میں داخل نہیں ہوا……‘‘
’’اپنے اندر ایمان پیدا کرو…… اسے مضبوط کرو…… اتنا مضبوط جتنا ابراہیم ؑ
کا تھا……‘‘
’’نالہ ہے بلبل ِشوریدہ تیرہ خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
بے خطر کود پڑا آتش ِنمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
شیوائے عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زناریئے بت خانہ ئے ایام ابھی ‘‘
(علامہ محمد اقبال رحمت اﷲ علیہ)ـ
ذولفقار نے ان کی تنظیم میں آناجانا شروع کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
بڑی ہلچل مچی ہوئی تھی۔آج یونیورسٹی میںannual dinner تھا۔ تمام اسٹیوڈنٹس
اور ٹیچرز خوب اچھی طرح بن ٹھن کر اس تقریب میں شرکت کرنے آئے تھے۔بہت اچھی
طرح سب کچھ آرگنائز کیا گیا تھا۔ مگر آرگنائزرز ابھی بھی ٹینشن میں ہی تھی۔
ذولفقار کیٹرنگ والوں پر کسی بات پر چیخ رہا تھا۔ بلال صاحب بھی تیزی سے
چلتے ہوئے کسی کی طرف بھاگ رہے تھے۔ مس سبا کچھ اسٹیوڈنٹس کو کچھ سمجھا
بجھا رہی تھیں۔
’’ذولفقار صاحب! وی آئی پیز کی لسٹ دیجئے گا‘‘۔ نیلوفر نے ذولفقار کی طرف
دیکھے بغیر اس کی طرف لسٹ لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ اگر ایک جملے میں بات
کہی جائے تو محفل میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس کا حسن و جمال تماملڑکیوں
کے لئے رشک و حسدکا باعث بناہوا تھا۔
ذولفقار ٹھٹھک کر رہ گیا۔ یہ دونوں آرگنئزرز کی ٹیم میں شامل تھے۔ مگر یہ
پہلا موقع تھا جب ان کی آپس میں بات ہو رہی تھی۔ ذولفقار سب چھوڑ چھاڑ کر
اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا۔ پھر اپنا لیپ ٹاپ کابیگ جھاننے لگا ۔ اس کی اس عجیب
کیفیت کو اسٹیوڈنٹس نے محسوس کیا۔
’’یہ لیں……‘‘ نیلوفر نے لسٹ لی اورتیزی سے واپس جانے لگی۔ اور جان بوجھ کر
اپنا چھوٹا سا کلچ نیچے گرا دیا۔
’’ا م م م…… ایکسکیوز می! ایکسکیوز می!‘‘ ذولفقار نے کلچ اٹھایا اور دھیمے
سے لہجے میں نیلو فر کو مخاطب کرنے لگا۔ مگر وہ کافی آگے بڑھ چکی تھی۔
ذولفقار اس کے پیچھے جانے لگا اور اسے مخاطب کرنے کی کوشش کرتا رہا۔مگر
نیلوفر تو بڑی بے نیازی سے آگے بڑھی جا رہی تھی۔ اسے سب سنائی دے رہاتھا کو
کوئی اسے پکار رہا ہے……َ وہ تو بس اس احساس کا لطف اٹھا رہی تھی کہ وہ آگے
آگے …… ذولفقار اس کے پیچھے پیچھے…… اسے اور کیاچائیے تھا!!!
آخر کار نیلوفر ایک سیٹ پر بیٹھ گئی۔ اس نے ایک بار پھر ذولفقار کو شرمندہ
کر چھوڑا تھا۔ اسے اندر ہی اندر غصہ بھی آنے لگا۔
’’مس نیلوفر! یہ آپ کا پرس گر گیا تھا نیچے……‘‘ ذولفقار نے مختلف سے لہجے
میں کہا۔
’’اوہ…… آئی ایم رئیلی سوری……‘‘ نیلوفر نے ہر لفظ کھینچ کھینچ کر جواب دیا۔
ذولفقار اس کا روشن دمکتا چہرا دیکھ کر نڈھال ساہو گیا۔ وہ سارا غصہ وصہ
بھول گیا۔ اس نے اندر ہی اندر ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
’’کب؟ہائے…… ابھی گرا تھا یہ……‘‘ ’’ جب آپ کے پاس آئی تھی میں؟؟؟‘‘ اس نے
اپنی نازک سی آواز میں پوچھا۔
’’جی‘‘۔ ذولفقار نے مختصر سا جواب دیا اور اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔
’’اوہ…… آئی ایم رئیلی سوری…… ‘‘
’’نہیں نہیں کوئی بات نہیں……‘‘ ذولفقار مسکرایا۔ جواب میں نیلوفر نے بھی
اپنے چہرے پر ایک پیاری سی مسکراہٹ بکھیری۔ذولفقار کا دل کھل اٹھا۔ اس کے
بعدتقریب کے اختتام تک ذولفقار نیلوفر کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔ وہ کہاں
ہے۔ کیا کر رہی ہے۔ وہ ابھی ہنسی، ابھی چلی، وہ کس سے باتیں کر رہی ہے۔
نیلوفر نے ایک جھٹکے میں ہی ذولفقارکا حال ویسا کا ویسا کر دیا جیسا چند
ماہ پہلے تھا۔نیلوفر کی چالوں کا کوئی توڑ کہاں!
اسٹیوڈنٹس اورٹیچرز اسٹیج پر مختلف قسم کے مزاحیہ اسکٹس پیش کر رہے تھے۔ اب
نیلوفر کی باری تھی……
’’یہ محفل جو آج سجی ہے ……
اس محفل میں ہے کوئی ہم سا؟
ہم سا ہو تو سامنے آئے
ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘
تقریب کے اختتام پر نیلوفر نے یہ گانا گایا اور حقیقتاََ سب کو گھائیل کرکے
رکھ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’ٹھیک کہہ رہے ہیں یہ……‘‘ ذولفقار رات کو اپنے بستر پر لیٹا سوچ رہا
تھا۔آج وہ پھر تنظیم سے ہو کر آیا تھا۔ اسے ڈاکٹر صاحب کی باتیں یاد آ رہی
تھیں۔
’’ٹھیک کہتے ہیں…… نمازوں پہ نمازیں پڑھتے ہیں ہم …… چلے کاٹتے ہیں…… حج پہ
حج…… عمرے پہ عمرے…… اور ہمارے ملک کی پارلیمنٹ میں حدود اﷲ کو پامال کیا
جاتا ہے……‘‘۔’’اﷲ کی کتاب اور اس کے احکامات کو پیروں تلے روندھا جاتا
ہے……‘‘
’’جو چاہے قانون یہ بنا لیں…… بس ووٹوں کی گنتی کر کے……‘‘
’’کیا اﷲ کی ہمارے سیاسی معاملات میں کوئی حیثیت نہیں؟؟؟‘‘ ۔ ’’اﷲ کو اس
میں دخل اندازی کی کوئی اجازت نہیں؟؟؟‘‘
’’غلط ہے یہ……واقعی……غلط ہے……‘‘۔ ’’ہم نے اﷲ کو مسجدوں میں قید کر دیا
ہے……اپنی سیاسی اور معاشی زندگی سے نکال باہرپھینکا ہے……‘‘
’’ہماری ساری معیشیت سود پر ٹکی ہے اور سود اﷲ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ
ہے!!!‘‘
’’ہاں! میری ساری عبادات جھوٹی ہیں……‘‘۔’’ ……جب تک کہ میں اﷲ کی وکالت نہ
کرو…… اس کے لئے…… اس کی بات کو نافذکرنے کے لئے نہ لڑوں……‘‘۔ ’’سب دھوکہ
ہے……‘‘ ذولفقار اپنے آپ سے بہت کچھ کہے چلے جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
نیلوفر اور ذولفقار کی آپس میں تھوڑی بہت گفتگو پھر شروع ہو چکی تھی۔کبھی
کسی کتاب لینے کے بہانے…… کبھی کوئی نوٹس وغیرہ ایکسچینج کرنا…… کبھی کچھ
کورس سے متعلق سمجھنا سمجھانا……
مگر دونوں کے دلوں میں جو کچھ تھا وہ ایک دوسرے سے چھپا نہ تھا۔وقفے وقفے
سے وہ جان بوجھ کر ایک دوسرے سے بات کرنے کا بہانہ ڈھونڈتے۔ نیلوفر اسے
اپنی فریبی چالوں سے ڈھیر کر چکی تھی۔جب کبھی نیلوفر تنہائی میں ذولفقار کے
روم میں آتی تو ذولفقار اپنے جزبات بہ مشکل قابو کر پاتا۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک……‘‘ذولفقار کے روم کے دروازے پر دستک ہوئی۔ شام کے چار بج
چکے تھے۔ ان کی بلڈنگ کے اس فلور کا سارا اسٹاف جا چکا تھا۔ ذولفقار اپنے
روم میں اکیلا تھا اور نکلنے کی تیاری ہی کر رہا تھا۔
’’جی……‘‘ ذولفقار نے حیرانی سے کہا کہ اس وقت کون آ گیا۔
دروازہ کھلا اور ذولفقار کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ دروازے پر نیلوفر کھڑی
تھی۔
’’کین آئی کم ان؟؟؟‘‘ نیلوفر کے چہرے پر ایک شریر مسکراہٹ تھی اور اس کے
آواز میں ایک فریب……
’’ام م م…… جی…… ‘‘ ’’ ویل کم‘‘ ذولفقار نے بہت ہی دھیمے سے کہا۔ اس کی
آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔ ’’ ویلکم‘‘ اس نے دوبارہ زرا زور سے کہا۔
نیلوفر آئی اور اس کے سامنے رکھی چیئر پر بیٹھ گئی۔اس کا ریشمی دوپٹہ بار
بار اس کے کاندھوں سے ڈھلک رہا تھا۔ذولفقار جھجھکتے ہوئے اس کے حسن ِبے
مثال کا دیدار کرنے لگا……کبھی نظر اٹھاتا کبھی جھکاتا…… وہ ہر بار اپنا
دوپٹہ کسی نئی ادا سے ٹھیک کرتی……
پرَاب کی بار جو اس کا دوپٹہ سرکا تو اس نے اسے ٹھیک نہ کیا……وہ ریشمی حجاب
ایک کاندھے پر پڑا اس کا پردہ کرنے میں بے بس تھا۔
’’آپ …… آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا میں نے……!!!‘‘ نیلوفر نے دھیرے دھیرے سے
کہنا شروع کیا۔
’’ام م م…… نہیں…… نہیں……ایسی کوئی بات نہیں……‘‘ ذولفقار نے پاس رکھے گلاس
میں پانی ڈالا اور ایک گھونٹ پی لیا کہ شاید اس طرح اس کی جھجھک کا اندازہ
نیلوفر کو نہ ہو سکے۔
نیلوفر نے آگے بڑھ کر وہی گلاس اٹھایا اور ذولفقار کے سامنے اسی پانی سے
ایک گھونٹ پی لیا۔ ’’یہ لیجئے……‘‘ اس نے ذولفقار کو گلاس تھمایاکہ وہ پانی
پیئے۔ نیلوفر کی لپ اسٹک نے گلاس کے کناروں پر اس کے ہونٹوں کی شبیہہ بنا
دی تھی۔ذولفقار اس کے اشارے سمجھ گیا کہ وہ کیا چاہتی تھی۔ وہ جوان جزبات
سے پُر ہو گیا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے گلاس کا بچا کچا پانی پیا اور پھر……
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے |