محبت پھول جیسی ہے - قسط 1

۷مارچ ۲۰۰۵ ء بروز سوموار
یااللہ کب رکے گی یہ بارش؟ پورا ہفتہ ہوگیا کبھی تیز کبھی ہلکی۔ بازاروں میں بھی ہر طرف صرف پانی ہی پانی نظر آرہا ہے۔یونیورسٹی کھلنے میں صرف دو دن باقی ہیں اگر اسی طرح بارش ہوتی رہی تو کیسے جاؤں گا؟ اگر پاس ہوتی تو ایسے تیسے چلا بھی جاتا مگر ایک گھنٹے کی مسافت بارش میں کسی عذاب سے کم نہیں۔ایسا نہیں کہ مجھے میں ڈر لگتا ہے بلکہ بارش کی وجہ سے ہونے والے کیچر سے کپڑے جو خراب ہوتے ہیں۔۔۔ ان سے کیسے بچا جائے؟
امیر لوگ ان کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔۔۔کمرے سے نکلے نہیں، ڈرائیور کار کے ساتھ حاضر۔ کار سے اترے نہیں کلاس حاضر۔ مگر ہم جیسے غریبوں کو کون پوچھے؟ خیر ۔۔۔اللہ ہی مالک ہے وہی سننے والا ہے۔
’’دانیال ۔۔۔نورین کو سکول چھوڑ آؤ۔ ساڑھے آٹھ ہونے والے ہیں‘‘ امی کی آواز کمرے کے باہر سے آئی
’’اچھا ، امی ! ۔۔۔ ابھی آتا ہوں‘‘
بورڈ والوں نے بھی پیپرز کو ان نوں میں ہی رکھنا تھا، پتا بھی ہے کہ ان دنوں موسم خراب رہتا ہے مگر ان کو کیا؟؟؟ بچے جیسے بھی آئیں، ان کو تو بس پیپر سے مطلب ہے۔
’’بھائی چلیں۔‘‘ یونیفارم پہنے ہوئے ہاتھ میں کلپ بورڈ تھامے وہ کمرے میں آکر مجھ سے کہتی ہے
’’آتے ہوئے دو کلو لکڑیاں بھی لے آنا ‘‘ چولہے کے پاس برتن سمیٹتے ہوئے امی کہتی ہیں
’’ مگر امی لکڑیاں تو گیلی ہونگی۔‘‘
’’ گیلی ہوں تو کیا ہم کھانا پینا چھوڑ دیں؟ ہفتہ ہو گیا ہے گیس بند ہوئے ، جانے کب آئے گی‘‘
’’ چلو بھائی دیر ہو رہی ہے‘‘
………

۹ مارچ ۲۰۰۵ بروز بدھ
آج کا دن بھی معمول کے مطابق گزرا چونکہ آج یونیورسٹی کھلنی تھی اس لیے مجھے جلدی اٹھنا پڑا۔ کہنے کو تو مارچ کا دوسرا ہفتہ شروع ہوچکا ہے مگر سردی تو ایسے پڑ رہی ہے جیسے جنوری میں ہوتی ہی لیکن مارچ میں لوگ جرسیاں پہننا کم کر دیتے ہیں۔ تو پھر میں کیوں پہنوں؟ اگر پہن لی تو ہونیورسٹی میں سب مذاق اڑائیں گے۔ انسان کو اپنی صحت کا خیال رکھنا پڑتا ہے مگر صحت کے ساتھ ساتھ ارد گرد کے ماحول کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔دوسروں کے رنگ میں نہ چاہتے ہوئے بھی دھلنا پڑتا ہے۔
یونیورسٹی میں ہر طرف چہل پہل تھی ، سب خوش تھے کیونکہ آج نئے سمیسٹر کا پہلا دن تھا ۔ جس طرح پہلے تین سمیسٹر میں اکیلا آتا تھا بالکل اسی طرح آج بھی اسی طرح بسوں میں ذلیل ہوتے ہوئے یونیورسٹی پہنچا۔اب تو اس ذلالت برداشت کرنے کی عادت سی بن گئی ہے۔ ذلالت نہ کہوں تو اور کیا کہوں بسوں کے سفر کو؟ مگر کہتے ہیں نا ’’ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے‘‘ مگر میں نے کیا کھویا کیا پایا؟ یہ تو وقت کو معلوم ہے کیونکہ وقت گزرے کے ساتھ یہ ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں کیا چیز کھو دی اور جو چیز ہمارے پاس تھی اس کی قدر نہ کرتے ہوئے اس کو بھی کیسے اپنے ہاتھ سے جانے دیا۔ خیر بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔
آج بھی میں سادہ لباس میں ملبو س تھا۔ میری شخصیت میرے حالات کو سب کے سامنے رکھ دیتی تھی۔ اسی لیے شائد میں زیادہ دوست نہ بنا سکا۔ ایسا نہیں کہ میرے تمام کلاس فیلو مغرور ہیں بلکہ میں ہی اپنے آپ کو ان کے قابل نہیں سمجھتا۔ ان کی شخصیت، ان کا سٹیٹس میرے سٹیٹس سے بہت اونچا ہے۔ ان سے بات کرنے میں نہ جانے کیوں مجھے ایک جھک سی محسوس ہوتی ہے۔ بات کرتے کرتے ایک دم آواز کانپ جاتی ہے اور بات ہی بھول جاتا ہوں اور کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا بات کروں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے ور میں خود کو اتنا کم رت کیوں محسوس کرتا ہوں؟ یہ کچھ سوال ہیں جن کا جواب میں ہمیشہ سے جاننے کی کوشش کرتا رہتا ہوں مگر افسوس کہیں سے جواب نہیں ملتا الٹا میں مزید کشکمش میں الجھ جاتا ہوں۔ خیر ،، چلتے چلتے میں اپنے ڈپارٹمنٹ مین پہنچا۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی بہت زیادہ رش تھا۔
’’ کیا ان کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں کہ ڈیپارٹمنٹ کو وسیع کرسکیں۔‘‘ ہر بار کی طرح آج بھی یہ سوال میرے ذہن میں آکر رہ گیا۔’’ گنتی کے دوچار کمرے اور تین ڈگریاں اور ہر ڈگری کے چار چار سمیسٹر ، اور ہر سمیسٹر کے سینکڑوں سٹوڈنٹس۔ ‘‘
ابھی میں یہی سوچ رہا تھا کہ کامران میرے پاس آیا اور پھر وہی باتیں شروع ہوگئیں ۔۔۔ چھٹیاں کیسے گزریں؟ ۔۔کتنی سی جی پی اے بنی؟۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ کامران ہی واحد میرا دوست ہے جس سے اکثر میں اپنے دل کی باتیں کر لیتا ہوں اور وہ بھی میرے بارے میں سب کچھ جانتا ہے ۔ اگرچہ اسکے اور میرے سٹیٹس میں بھی کافی فرق ہے مگر نہ جانے کیوں اس سے بات کرتے ہوئے مجھے تھوڑی سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ وہ بھی اپنے دل کی تمام باتیں مجھ سے کر لیتا ہے اپنی منگنی والی بات بھی اس نے سب سے پہلے مجھے بتائی تھی اور اکثر اپنی منگیتر کے بارے میں مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے۔ اس کی خوبیاں، اسکی خوبصورتی کے بارے میں بتاتا اور میں اس کی ہاں میں ہاں ملاتا جاتا اور کرتا بھی کیا؟ میرے پاس تو کوئی بات ہی نہیں ہوتی کچھ کہنے کومفر اس کے پاس تو جیسے باتوں اور قصوں کی لمبی لمبی لائنیں لگی ہیں۔ ایک قصہ ختم نہیں ہوتا دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔ آج تک مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ لوگ اتنی باتیں کہاں سے لے آتے ہیں؟ ان کا ذہن ہوتا ہے یا باتیں بنانے والی مشین؟۔
خیر ۔۔۔آج تو متعارفی کلاس تھی ہر ٹیچر نے کچھ اپنے بارے میں بتایا اور کچھ اپنے اپنے کورس پلان کے بارے میں ویسے پہلی کلاس میں ہوتا بھی یہی ہے اسی لیے اکثر پہلی کلاس کو مس کر دیتے ہیں مگر مجھے یہ عادت نہیں ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے اپنی سکول لائف میں مشکل سے چار چھٹیاں کی ہونگی وہ بھی امی کے کہنے پر ورنہ میں تو آندھی ہو یا طوفان رکنے والا نہیں ۔ یہی حال کالج میں رہا اور انشاء اللہ یہی روایت یونیورسٹی میں قائم رکھنے کا عزم ہے۔ اسی لیے آج کی کلاس بھی میں نے مس نہیں کی۔ اگرچہ اسکا کچھ فائدہ تو نہیں ہوا مگر ضروری تو نہیں کہ ہر کام کسی فائدے کے لیے کیا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۴ مارچ ۲۰۰۵ بروز سوموار
چوتھا سمیسٹر شروع ہوئے آج چھٹا دن ہے مگر میرا پہلا دن۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میں نے خوب چھٹیاں انجوائے کیں ، خوب مزے اڑائے اور اڑاتی بھی کیوں نا؟؟ زندگی چار دن کی تو ہے اسکو خوب انجائے کرنا چاہیے۔ مجھے تو ان لوگوں سے خوب الجھن ہوتی ہے جو زندگی کو کسی قیدی کی طرح گزارتے ہیں۔ کیا ان میں روح نہیں ہوتی؟ جو کسی خوشی کی ڈیمانڈ کرے۔۔ یا انہوں نے اپنے آپ کو مار لیا ہوتا ہے اگر ایسا ہے تو وہ زندہ کیسے رہتے ہیں؟ میرے نزدیک ایسے لوگ تو لاشوں سے کم نہیں۔ میں تو ان کو زندہ لاشیں ہی کہوں گی۔ خیر ان کا معاملہ ان کے ساتھ ، میں کیوں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنا وقت اور ڈائری کے ورق ضائع کروں؟ آخر اس ڈائری میں تو صرف اچھی اچھی یادیں ہی تو لکھنی ہیں اور لکھوں بھی کیوں نا۔۔؟؟ آخر میرے چاہنے والے نے تو دی ہے۔
ہفتہ کو جب میں ہاسٹل واپس آنے لے لیے تیاری کر رہی تھی تو دانش نے بڑے پیار سے مجھے یہ دی تھی اور بڑی محبت سے کہاتھا
’’ ایک بار پھر سے ہمیں دور ہونا پڑرہا ہے‘‘ دروازے سے داخل ہوتے ہوئے
’’ سارا قصور ہی تمہارا ہے۔۔!تم نے ہی شرط رکھی تھی کہ جب تک میں تعلیم مکمل نہیں کرونگی، تم شادی نہیں کروگے‘‘ بے رخی سے جواب دیتی ہوں
’’اس میں غلط ہی کیا ہے؟ ادھر تم تعلیم مکمل کرنا ادھر میں اپنا بزنس شروع کر لوں گا‘‘ وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہتا ہے
’’ ویسے۔۔۔ تمہیں تو خوشی ہوتی ہوگی، مجھے اتنا دور بھیج کر۔۔۔۔‘‘ سوالیہ انداز میں پوچھتی ہوں۔
’’ یہ تو تم نے ٹھیک کہا۔۔۔۔ خوشی تو بہت ہوگی‘‘ وہ مسکراہٹ کے ساتھ دروازے کی طرف جاتے ہوئے کہتا ہے
’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔تم اور پاپا تو چاہتے ہی یہی ہو کہ میں سب سے دور رہوں۔!‘‘ غصہ سے اپنے کپڑوں کو بیگ میں رکھتے ہوئے۔
’’ ارے بابا۔۔!اتنا غصہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا‘‘وہ ہنستے ہوئے میرا چہرہ اپنی طرف کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر میں غصہ میں اس کی طرف چہرہ نہیں کرتی۔
’’ تم دور کب ہو؟ دیکھو ادھر میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔‘‘ وہ ایک خوبصورت ڈائری میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہتا ہے۔ اس ڈائری کا سرورق اس قدر خوبصورت اور دلنشین ہوتا ہے کہ اگلے لمحے ہی میں سب کچھ بھول جاتا ہوں۔ سبز اور سرخ رنگ اس طرح بکھرے ہوتے ہیں جیسے کسی مصور نے یہ ورق بنانے کے لیے دل و جان لگا دی ہو اور اس پر اتنی خوبصورتی سے کرن لکھا تھا کہ نام کے ساتھ ساتھ ڈائری سے بھی کرنیں نکل رہی تھی۔
’’ کیا ہوا ؟؟ کہاں کھو گئی؟ ‘‘ وہ پیار سے میرے چہرے پر ہاتھ لگا کر کہتا ہے
’’ کتنی خوبصورت ہے‘‘ اسکی خوبصورتی میں کھو کر کہتی ہوں
’’مگر تم سے کم۔۔۔‘‘ وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہتا ہے
’’ اب تم روزانہ اس ڈائری میں اپنے حسین پلوں کو لکھاکرنا اور ان کو اتنے حسین انداز سے تحریر کرنا کہ جب تم مجھے واپس کرو تو تمہاری کوئی بات مجھ سے پوشیدہ نہ رہے۔‘‘
’’ کیا ؟؟؟ یہ تم مجھ سے واپس لو گے؟ ۔۔۔ بہت تنگ دل کے مالک ہو تم۔۔۔ یہ لو پکڑو، اپنی ڈائری۔۔۔ نہیں چاہیئے مجھے ‘‘ اس کے ہاتھ میں ڈائری کو تھماتے ہوئے
’’ ارے جس طرح تم مجھے میری ڈائری واپس کروگی ۔ بالکل اسی طرح میں تمہاری دی گئی ڈائری تم کو واپس کر دونگا۔‘‘
’’ کیا کہا تم نے ؟؟؟ تم میری ڈائری مجھے واپس کر دو گے؟ تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تم کو کوئی گفٹ دونگی ۔۔۔‘‘
’’ کیا ؟؟ تم نے میرے لیے کوئی گفٹ نہیں لیا ۔؟؟‘‘
’’ جی نہیں۔۔۔میرے پاس اتنے فضول پیسے نہیں کہ تمہارے لیے گفٹ خریدوں۔‘‘
’’ اچھا جی۔۔۔ میرے لیے اب گفٹ لینا ایک فضول کام ہے؟ ‘‘ وہ مسکرا کر اپنی بات مکمل کرتا ہے
’’ چلو کوئی بات نہیں میں اپنے لیے خود ایک اچھی سی ڈائری پسند کر لوں گااور سمجھوں گا کہ وہ تم نے دی‘‘ اس بات پر مجھے ہنسی آجاتی ہے اور میں ڈائری لے کر اپنے بیگ میں رکھ لیتی ہوں
اگلے دن میں اور مہر ڈائیو میں ہاسٹل کے لیے نکل پڑے۔ میں نے تو کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ کو پسند کیااور مہر میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ ہم نے خوب باتیں کیں۔ راستے میں جب بھی میں کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھتی تو باہر کی رونق مجھے اپنی طرف ضرور متوجہ کرتی۔ لہلہاتے کھیت، سر سبز درخت اور پھولون کی خوشبو تو مجھے اپنا دھیان کسی اور طرف کرنے ہی نہیں دیتے تھے۔
’’ کس قدر خوبصورت ہوتے ہیں گاؤں۔ کتنا قدررتی حسن چھپا ہے ادھر۔۔۔‘‘ میں آہستہ سے بولتی ہوں مگر اتنے شور میں بھی مہر میری بات سن لیتی ہے
’’ کیا کہا تم نے ؟؟؟ قدرتی حسن۔۔۔۔۔۔!!! ‘‘ وہ یہ کہہ کر ہنس پڑتی ہے
’’ ارے جتنی گندگی یہاں ہوتی ہے تم سوچ بھی نہیں سکتی‘‘ میں اس کی باتوں کی طرف دھیان کی نہیں دیتی اور اپنے ہی خیالوں میں کھوئی رہتی ہوں۔ ایس پہلی بار ہواکہ میں نے سفر میں اس قدر خاموشی کو ترجیح دی ورنہ میری باتوں سے تو مہر کیا دوسرے مسافر بھی تنگ آجاتے تھے۔ بلکہ ایک بار تو ڈرائیور نے بھی مجھے خاموش رہنے کو کہالیکن آج طبیعت کیوں خاموش تھی؟ میں خود نہیں جانتی، ایسا لگتا ہے جیسے یہ خاموشی مجھ سے کچھ کہہ رہی ہے۔اسکا میرے ساتھ کوئی گہرا تعلق ہے یا پھر کچھ ہونے کو ہے
ساحلوں کی خاموشی کہتی ہے
کوئی طوفان آنے والا ہے
اور آج جب میں اپنا سامان بیگ سے نکال رہی تھی تو میری نظر دانش کی دی گئی ڈائری پر پڑی اور یہ سوچ کر رہ گئی کہ میں بھلا کیسے لکھ سکتی ہوں ڈائری؟ مجھے زندگی کے لمحوں کو الفاظ میں ڈھالنے کا کہاں ڈھب؟ یہ سعچ کر میں نے اسکو الماری میں رکھ دیا کیونکہ میں نے کافی کلاسیں میس کر دیں تھیں اسی وجہ سے مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ سٹڈی کہاں تک پہنچی؟ اور میری روم میٹ بھی تو آج ہی پہنچی ہے اب کس سے پوچھوں؟؟ چلتے چلتے میں ڈیپارٹمنٹ کے سامنے لان میں پہنچی۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ اپنی سٹڈی میں مصروف تھا۔ سب سے الگ تھلگ ، کسی کی کوئی پرواہ نہیں۔ اکثر کلاس فیلو تو اس کا مذاق بھی اڑاتے ہیں مگر وہ اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ پہلے تو سوچا کہ اس سے کیا بات کروں؟ مگر معاملہ تو سٹڈی کا تھا پھر سوچا سٹڈی کے بارے میں ہی تو پوچھا ہے ۔ میں ادھر ادھر دیکھ کر اس کے پاس جاتی ہوں اور دس منٹ بعد اس کے پاس سے واپس آجاتی ہوں۔آج اسکے بات کرنے کا رویہ کچھ الگ سا تھا مگر مجھے کیا میرا کام تو ہو جائے گا۔ پھر مجھے اس سے کیا ؟؟ اس کا رویہ کیسا بھی ہو۔

جاری ہے
 
Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 107010 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More