عقاب اور مرغی

 کہتے ہیں کہ کسی علاقہ میں کسی درخت پر عقاب نے اپنا گھونسلہ بنایا ہوا تھا جس میں اس نے انڈے دئے ہوئے تھے اور خدا کی طرف سے ہوا کچھ یوں کے زلزلہ آیا جس کی وجہ سے ان انڈوں میں سے ایک نیچے گرا اور وہ نیچے گرا بھی تو اس ٹھکانہ میں جو کہ مرغی کا تھا مرغی نے عقاب کے انڈے کو اپنا انڈہ سمجھا اور اپنے انڈوں کی طرح ہی عقاب کے انڈے کی دیکھ بھا ل میں بھی لگی ہی اور بل آخر مرغی کے انڈوں سے بھی بچے نکلے اور عقاب کے انڈے سے بھی بچا نکلا عقاب کا بچہ بھی مرغی کے بچوں کے ساتھ ساتھ ہی بڑا ہوا اور مرغیوں کی طرح ہی ااپنی زندگی گزارنے لگا ۔ ایک د ن اس نے آسمان کی بلندیوں پر بعض عقاب اڑتے ہوئے دیکھے تو اس کے دل میں بھی شدید خواہش پیدا ہوئی کی کاش وہ بھی کسی طرح آسمان کی بلندیوں پر اڑے۔ جب اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے ساتھ رہنے والی مرغیوں سے کیا کہ میں بھی آسمان کی بلدیوں کو چھونا چاہتا ہوں۔ تو تمام ساتھ والی مرغیوں نے زور دار قہقہے لگائے اور اس کا خوب تمسخر اڑیا کہ تم مرغی ہو مرغی ،تمہارا کام اڑنا نہیں ہے اور نہ ہی مرغیوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ اڑ سکیں ۔ اور پھر اس عقاب نے اپنے اڑنے کی اس خوہش کو دل میں چھپا لیااور مرغیوں کی طرح سے زندگی بسر کی اور مرغیوں کی طرح سے ہی مرا ۔

اگر دیکھا جائے تو ہماری قوم کا بھی حال کچھ ایسا ہی ہے جب پاکستان بنا اور اس کی آذادی کی تحریک چلی تو ڈاکٹر علامہ اقبال سے ہمارے بزرگوں کو مخاطب کیا اور ان کو شاہیں کے لفظ سے مخاطب کیا
اور فرمایا
نہیں تیرا نشیمن قصر ِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

مگر ان شاہیوں نے اپنی جان اپنیے مال اپنی اولاد اور اپنے وسائل کی قربانیاں کر کے جب پاکستان بنا لیا تو ہمارے ملک پر صوبائیت، مذہب پرستی، فرقہ پرستی نسل پرستی وغیرہ کے زلزلے آئے جس کے نتیجے میں شاہینوں کی اولدیں مرغی صفت لوگوں کے زیر اثر آگئی حلانکہ کہ قابلیت تو تھی اڑنے کی مگر جو حکمران کبھی خود بھی نہیں بلند پرواز کر پائے انہوں نے شاہینوں کی نسلوں کو بھی بلند پروازیں نا کرنیں دیں اور جب کبھی کسی بھی شاہین نے کسی بھی شعبہ میں بھی بلند پرواز کی ٹھانی ان کا مزاق اڑایا گیا ان کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے ۔ خواہ وہ قوم کی بیٹی ملالہ ہو جس نے امن کا جھنڈا بلند کیا اور امن کے آسمان میں بلند پرواز کی خواہش کا اظہار کیا اس کے ساتھ کے ساتھ انتہائی افسوس ناک سلوک کیا ۔ خواہ ڈاکٹر عبد السلام ہوں جنہوں نے فزکس کا نوبل انعام حاصل کیا مگر ان کو بھی اڑنے سے روکنے والے لوگ تھے ۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو کہ سائنس، میڈیکل سائنس ادب، معاشیات۔ کے آسمانوں میں بلند پروازوں سے نئے آسمانوں کو تسخیر کرنے کی قابلیت رکھتے تھے اور ملک کا سرمایہ تھے مگر وہ یہ پرواز نہ کرسکے ۔ اور آج ہم آزادی کے کئی سالوں کے بعد بھی ترقی پذیر ممالک کی صف میں کھڑے ہیں اور جو ہم سے بعد میں آزاد ہوئے تھے ان کو ترقی یافتہ بنے بھی عرصہ ہو چکا ہے خدا کرے کہ آنے والی نسلیں ہماری اپنی ذات کو پہچانیں کہ وہ بلندی پر اڑنے والے شاہیں ہیں نا کہ ایسی مرغیاں جن کو کسی بھی وقت کوئی بھی ذبح کر سکتا تھا۔
خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
’’ بے شک انسان کے لئے وہی ہے جس کے لئے اس نے سعی ( کوشش) کی ہے ‘‘

خدا کرے کہ ہم اپنے ان حالات کو بدلنے کے لئے سعی کریں کیوں کہ جو کوئی خود بدلنا نہیں چاہتا خدا بھی اس کے حالات میں بدلاؤ نہیں فرماتا ہے خدا کرے کہ ہم ان دیوروں کو توڑتے ہوئے آگے بڑھیں اور ان شب کے پاسبانوں کو شکست دیتے ہوئے اپنے وطن کو ترقی یافتہ سے ترقی پذیر ممالک کی صف میں لے آئیں اور خدا ہمارے وطن کو ان صوبائیت، مذہب پرستی، فرقہ پرستی نسل پرستی کنبہ پروری جیسے زلزلوں سے بچائے رکھے کہ ایسا نہ ہو کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی بلند پروازوں سے محروم رہ جائیں۔ ہم اپنی نسلوں کو اپنی کو ششوں کے ذریعہ سے ہی بچا سکتے ہیں
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
Nadeem Ahmed Farrukh
About the Author: Nadeem Ahmed Farrukh Read More Articles by Nadeem Ahmed Farrukh: 33 Articles with 30773 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.