بارش کے بعد
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
تم ابرِ گریزاں ہو، میں صحرا کی
طرح ہوں
دو بوند جو برسو گے، بے کار میں برسو گے
مون سون کی بارشوں میں کراچی میں تو بہت کم مگر ملک کے دیگر حصوں میں شدید
تباہی مچا چکی ہے، ہر طرف سیلاب کا دور دورہ ہے، کسی صاحب نے فیس بک پر ایک
جملہ تحریر کیا تھا کہ ’’ آپ سب کو سالانہ تہوار ’’سیلاب‘‘ مبارک ہو‘‘
واقعی یہ سیلاب بھی ہر سال ہمارے ملک میں تباہی پھیلا کر اور اپنے اثرات
ذہنوں میں چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ مگر اربابِ اختیار اگلے سال ’’سیلاب نہ آئے
‘‘اس پر کام نہیں کرتے۔ منصوبہ بندی کی جائے تاکہ مستقبل میں سیلاب کو روکا
جا سکے۔ اور ہر سال جو تباہی ہوتی ہے اس سے بچا جا سکے۔
اور کراچی کی کیا بات کریں، بوندیں پڑتے ہی بجلی کا نظام جواب دے جاتا ہے،
ادنیٰ سا جھمپر جس میں کاربن آ جائے تو گھر کی بجلی بند ہو جاتی ہے اور اس
کے لئے کمپلین کرو تو چالیس گھنٹے بعد بھی ٹھیک نہیں کیا جاتا۔ پھر کوئی
جان پہچان نکالا جائے اور اس کے ذریعے کہلوایا جائے تو پھر جاکر کام ہوتا
ہے۔ افسوس!
بارش کے بعد سڑکیں خستہ خال ہیں، لاپرواہ موٹر بائیک ڈرائیونگ، کم روشنی،
خراب موسم کے باعث جانوروں کے اچانک سڑکوں پر رخنہ ڈالنے سے اور لب سڑک
گاڑیوں کی غلط پارکنگ حادثات کا موجب بن رہی ہیں، ڈرینیج سسٹم ناکارہ ہونے
سے ہفتہ دو ہفتہ گندہ پانی ابلتا رہتا ہے جس سے راہروؤں کو مشکلات کا سامنا
ہے۔ برساتی نالوں کی صفائی بہت سے علاقوں میں اب تک نہیں ہوئی جس سے بارش
کا پانی نالے کو چھوڑ کر روڈوں پر جمع ہے۔دیکھا جائے تو سیاستدانوں میں اب
کوئی زور و اثر نہیں رہا ہے، سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی بحالی کا کام ہو یا
کوئی اور کام ہماری پاک افواج ہی ہر میدان میں اتر کر سرخروہو رہی ہے۔ اور
کیوں نہ ہو یہ پاک افواج بھی ہمارے اور عوام بھی ہماری ہی ہے۔ تنقید بر
کُجا جس سے جو بن پا رہا ہے وہ کر رہا ہے مگر پاک افواج کی امدادی
کاروائیوں کا جواب نہیں۔ وہ ملک و عوام کو اپنی خدمات سے فیضیاب کر رہے ہیں۔
آج کل بھی بارشیں پورے ملک میں جاری ہیں، بلکہ غیر معمولی بارشوں کے بعد
سیلابوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے جس میں ہزاروں افراد لقمۂ اجل بن گئے اور
لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ مال مویشی پانی میں ڈوب گئے ہیں اور ہزاروں
ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ شہر اقتدار کے ساتھ جُڑے ہوئے
جڑواں شہر ہو یا ملک کا کوئی اور حصہ ہر سطح پر انتہائی اونچے درجے کا
سیلاب ہے جس کی کوریج میڈیا لمحہ بہ لمحہ دکھا رہا ہے۔ پنجاب اور شمالی
علاقہ جات میں اب بھی بارشیں جاری ہیں، خدا خیر کرے!
جو لوگ اس سیلاب سے در بدر ہوئے ہیں حکومت کو چاہیئے کہ انہیں مالی مدد کے
ساتھ ساتھ ان کے گھر بھی دوبارہ بنا کر دیئے جائیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے
اس بات کا اعلان تو کر دیا ہے اور اگر یہ کام شفاف طریقے سے عمل میں آ جائے
تو عوام کی داد رسی ہو سکتی ہے۔
چونکہ ’’ سیل آب ‘‘ یعنی پانی کی طغیانی زوروں پر ہے۔ اور سیلاب اکثر موسمِ
برسات میں ہی آتے ہیں کیونکہ برسات کے دنوں میں بارشوں کی وجہ سے دریاؤں
میں پانی زیادہ آ جاتا ہے۔ بعض دفعہ نقصان کم ہوتا ہے مگر بعض دفعہ اتنا
زیادہ ہوتا ہے کہ تباہی مچا دیتا ہے۔ اور اِن دنوں ہمارے ملک میں بھی سیلاب
کی تباہ کاریاں جاری ہے۔ زیادہ تر وہ علاقے متاثر ہوتے ہیں جو دیہات نشیبی
علاقوں میں ہوتے ہیں خاص طور پر سیلاب کی زد میں آ جاتے ہیں ۔ ایسے جگہوں
کے رہائشیوں کے لئے مون سون سے پہلے ہی حفاظتی انتظامات کر لئے جائیں تو
تباہی سے بچا جا سکتا ہے۔ جب سیلاب آتا ہے تو کچے مکان بھی زمین بوس ہو
جاتے ہیں اور پانی گھروں میں گھس جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے گھروں کا سامان،
خوراک، مویشیوں کا چارہ اور ایندھن وغیرہ سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے ۔پہاڑی
تودہ گرنے سے بھی اموات واقع ہو رہی ہیں۔ سندھ میں بھی خطرے کی گھنٹی بج
رہی ہے کہ سیلابی ریلا یہیں سے گزرے گا۔اﷲ تبارک و تعالیٰ ہم سب کے حال پر
اپنا خاص رحم و کرم فرمائیں۔ آمین۔
اختتامِ کلام بس اتنا کہ حکمران حضرات مل کر بیٹھیں ، ماہرین کو بھی
بٹھائیں اور آئندہ بارشوں سے پہلے کوئی تدبیر نکالیں تاکہ ہمارا ملک بھی
سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ سکے۔ اور ہر سال جو تباہی و بربادی، اموات،
کھڑی فصلوں کی تباہی اور جو دیگر نقصانات ہو رہے ہیں اس سے عوام کو نکالا
جا سکے۔ اور بارش رحمت ہی رہے زحمت نہ بنے۔ |
|