بکوٹ شریف کی خانقاہی’’ افطاری‘‘
(Syed Muzammil Hussain, Chamankot)
خانقاہوں نے دین اسلام کی ترویج
اشاعت میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے ۔ خانقاہی نظام کی شروعات قرون اولیٰ
میں ملتی ہیں۔ مسجد نبوی ﷺ میں حضور حتمی مرتبت علیہ السلام کی موجودگی میں
اصحاب صُفہ کا چبوترہ بیک وقت ایک مدرسہ بھی تھا اور خانقاہ بھی۔ اس میں
درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی اہتمام تھا۔ اسلامی تاریخ میں
خانقاہی نظام نے طویل سفر طے کیا اور منظم شکل اختیار کی۔ برصغیر میں حضرت
معین الدین چشتی اجمیری ؒ، حضرت بہاؤالدین ذکریاؒ ، حضرت داتا گنج بخش اور
کشمیرمیں حضرت شاہ ہمدان ؒ کی خانقاہیں ہمارے شاندار ماضی کی عکاس ہیں۔ ترک
شہر کو نیا میں حضرت مولانا رومؒ کا مزار خانقاہ ہی تو ہے وسط ایشیا میں
سنکیانک میں، انڈونیشیا، ملائیشیا ہر جگہ خانقاہوں کی کوئی نہ کوئی شکل
موجود ہے۔ خانقاہی نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں ٓنے والوں
کا کھلے دل سے استقبال کیا جاتا ہے ۔ آنے والوں کو اتنے اچھے انداز میں خوش
آمدید کہا جاتا ہے کہ وہ خانقاہ کے تربیتی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن
دور انحطاط کے باعث اب خانقاہی نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اس پر
مادیت کا غلبہ ہو چکا ہے ۔ خانقاہی نظام کی خوبیوں کو حرص و ہوا نے اپنے
قبضے میں لے لیا ہے اورخانقاہیں حیات بخش ہونے کے بجائے لوگوں کو سستی اور
کاہلی کا شکار بنارہی ہیں۔ اسی کی جانب علامہ اقبال نے یوں اشارہ کیا تھا۔
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؓ
علامہ اقبال کے نعرہ مستانہ کے باوجود کچھ استثناء ات موجود ہیں۔ علامہ
مرحوم نے اُن کا ذکر حضرت مولانا رومؒ اور حضرت نظام الدین اولیاءؒ اور
حضرت شاہ ہمدانؒ کے حضور خراج عقیدت پیش کر کے کیا تھا۔ انہی استثنا ء ات
میں سے ایک کا تجربہ گزشتہ دنوں اس وقت ہوا جب ہم ایک خانقاہ پر پہنچے ۔ یہ
راولپنڈی مظفر آباد شاہرہ کے قریب اور کوہالہ کے متصل بکوٹ شریف (ہزارہ) کی
خانقاہ ہے جو حضرت پیر عقیق اﷲ، پیر فقیر اﷲ اور پیر ازہر مرحومین کے
روحانی مقام و مرتبے کے باعث قائم ہوئی۔ ہم خانقاہ پر بغیرکسی طے شدہ
پروگرام کے پہنچے تھے دراصل بکوٹ شریف میں ایک عزیزہ کی نماز جنازہ میں
شرکت مطلوب تھی۔ افطار کا وقت قریب تھا، سوچا خانقاہ پر ہی افطار کیا جائے
۔ جب ہم خانقاہ پر پہنچے تو وہاں پہلے سے موجود چند افراد افطاری کے لیے
دستر خوان سجا رہے تھے انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا اور افطاری میں اپنے
ساتھ شریک ہو جانے کی دعوت دی ان کی جانب سے خوش آمدید کہتے ہوے ہم سے یہ
نہ پوچھا گیا کہ ہم کون ہیں؟ ہماری تلاشی نہ لی گئی۔ الغرض ہم تمام لوگوں
نے بغیر کسی تردد کے افطاری کی، انہوں نے نہ صرف افطاری کروائی بلکہ
خانقاہی ’’بوفے‘‘ میں بھی شریک کیا۔
میں خا نقاہی نظام کی تار یخ میں گھومنے لگا ، مجھے پیر عتیق اﷲ ، پیر فقیر
اﷲ اور پیر ازہر مرحومین کی اس خانقاہ میں پورا خانقاہی نظام نظر آنے لگا ۔
اسی اثناء میں موجودہ سجادہ نشین پیر زاہر بھی تشریف لے آئے ۔ نماز مغرب
میں جو مزہ آیا اُسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ مسجد نہایت شاندار
انداز میں بنائی گئی ہے اُس مسجد کی اہم بات یہ ہے کہ اُس کی دیوروں پر
کہیں بھی کچھ لکھا نہیں مباداکہ نمازی کی نگاہ اُٹھ جائے اور اُس کی توجہ
بٹ جائے ۔ پیر زاہر صاحب نے مسجد کے امام کی اقتداء میں نماز ادا کی ۔ اس
کے بعد اُن سے اُن کے بزرگان کی دینی خدمات پر تفصیل سے بات ہوئی ۔ انہوں
نے جو کتب لکھیں ، اُن کا ذکر بھی آیا خصوصی طور پر ’’یدبیضاء‘‘ او’’ر نسبت
خیرالبشرﷺ ‘‘پر زاہر صاحب نے تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ انہوں نے بتایا کہ اُن
کے بزرگان رسول اکرم ﷺ کی آل اطہار اور اُن کے اصحاب کرام سے گہری عقیدت و
محبت کو اپنے ایمان کا لازم خیال کرتے تھے اور بکوٹ شریف کی خانقاہ کو اُسی
منہج پر گامزن رہنے پر فخر ہے۔ بعد میں پیر زاہر صاحب نے نماز جنازہ میں
شرکت کی ۔ وہاں بھی انہوں نے امامت نہیں کی بلکہ وہاں کے مقامی امام کو آگے
بڑھایا
پیرزاہر صاحب کی کی قیادت میں بکوٹ شریف کی خانقاہ میں اسی نظام کو زندہ
رکھا جا رہا ہے جو ان کے آباء و اجداد نے قائم کیا تھا ۔ انہیں خراج تحسین
اور ان کے بزرگان کو خراج عقیدت پیش ہے ۔ |
|