جب کسی قوم کی بربادی کے دن آتے
ہیں تو سب سے پہلے اس قوم کے راہنما کردار کی عظمت کھو بیٹھتے ہیں ان میں
نہ عقل رہتی ہے ، نہ شعور نہ دین کا احساس، نہ دنیا کا خیال۔ عدل و انصاف
کے معیار بدل جاتے ہیں لاقانونیت کا بول بالا ہوتا ہے۔ بڑی مچھلی چھوٹی
مچھلی کو نگل لیتی ہے۔ طاقتور ہر سیاہ و سفید کا مالک بن جاتا ہے۔ مسند
انصاف پہ بیٹھے منصف ایسے ایسے فیصلے صادر کرتے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی
ہے۔مفاد پرست ابن الوقت نام نہاد دانشور ایسے ایسے دلائل دیتے ہیں کہ رات
کو دن اور دن کو رات میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ جس ڈگر پر چل پڑا ہے وہاں تباہی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے
رہا کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر نا انصافی پر مبنی نظام زیادہ دیر تک
قائم نہیں رہ سکتا۔ دنیا کے ممالک میں شائد ہی کہیں ایسا دیکھنے کو ملا ہو
کی ایسے افراد جن پر اربوں روپے کی کرپشن کے کیس چل رہے ہوں اوروہ مسند
اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہوں ۔ نا انصافی کا یہ دوہرہ میعار ہمارے معاشرتی
رویوں میں نا انصافی کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے۔ ناانصافی پر مبنی نظام میں
کسی منصف کی طرف انصاف کے حصول کی امید لگانا عقل و شعور سے بالاتر ہے۔
عمران خان کا جوڈیشل کمیشن بنوانے کا فیصلہ ان کی بہت بڑی سیاسی غلطی
تھی۔عوام نے موجودہ سیاسی حالات میں پی ٹی آئی کو جو پذیرائی بخشی او ایک
چھوٹی سی جماعت کو دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان لا کھڑا کیا اس کی
بنیادی وجہ انصاف کا وہ نعرہ تھا جو عمران خان نے لگایا کرپشن اور لوٹ مار
پر مبنی بوسیدہ نظام کے خلاف اعلان جنگ کو عوام کی طرف سے بھرپور سراہا گیا
مگرملک پر قابض چند خاندانوں نے جب انہیں اپنے لیے خطرہ محسوس کیا تو ان کے
خلاف تمام سازشی عناصر اکھٹے ہو گے۔ انگریز کے دور میں کسی نہ کسی طرح شریک
اقتدار رہنے والوں کی اولادوں کو جب اپنی کشتی انصاف کے بھنور میں ڈوبتی
محسوس ہوئی تو انہوں نے ایک سازش کے تحت ایسے افراد کو تحریک انصاف میں
شامل کروایا جو عمران خان کے دست راست بن کر انہیں ایسے راستوں پر لے آئے
جہاں رسوائی ہی رسوائی تھی۔ عمران خان کا دھرنے کا فیصلہ ہو یا جوڈیشل
کمیشن کی تشکیل کا فیصلہ ان سے ایسی غلطیاں کروائی جا رہی ہیں کہ جس کا
براہ راست فائدہ میا ں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو پہنچ رہا ہے۔ کمیشن
کے فیصلے کے بعد آج عمران خان نے نواز شریف کو ایک طاقتور وزیراعظم بنا دیا
ہے بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گاکہ پاکستان میں بادشاہ سلامت کا ظہور ہو چکا
ہے۔ سیلاب میں ڈوبی قوم نے وزیر اعظم کا خطاب بھی سن لیا جو چھپے لفظوں میں
اپنی فتح اور عمران خان پر طنز کے الفاظ کی بوچھاڑ لیے ہوئے تھا۔
گو کہ ایسے حالات میں وزیر اعظم کا خطاب درست فیصلہ نہ تھا ،کاش وزیر اعظم
کمیشن رپورٹ کی بجائے اپنا فوکس سیلاب زدگان کی طرف رکھتے اور قوم کا سیلاب
جیسی نا گہانی آفت کے مقابلے کے لیے حوصلہ بڑھاتے، ان کے زخموں پر مرہم
رکھتے اورمتاثرین کی بحالی کے لیے کچھ اعلانات ہی کر دیتے مگر یہ سیاسی
خطاب کسی طرح بھی وقت کی ضرورت نہ تھاخصوصاــــ ایسے حالات میں جب عمران
خان کمیشن کے فیصلے کو تسلیم کر چکے تھے۔ نواز شریف کو صبر کا دامن نہیں
چھوڑنا چاہیے تھا گو وقتی طور پر نواز شریف کوکمیشن رپورٹ سے بے پناہ تقویت
ملی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوام میں بھی ان کی پذیرائی میں اضافہ
ہوا ہے قوم کو جو مسائل درپیش ہیں وہ جوں کے توں پڑے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب
مہنگائی، بے روزگاری ، کرپشن اور لوٹ مار کے ہر روز سامنے آنے والے سکینڈل
موجودہ حکومت کی نیک نامی کے لیے کافی ہیں۔
ٓ آج حکومت میں بیٹھا ہر شخص اپوزیشن کو بے جان دیکھنا چاہتا ہے جو کہ عوام
کے لیے کسی طرح بھی سود مند نہیں۔ طاقتور اپوزیشن ہی جمہوریت کے لیے ناگزیر
ہوتی ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ بھرپور اپوزیشن کا کردارکریں اور تحریک
انصاف میں ایسے افراد پر نظر رکھیں جو ایک خاص مقصد کے تحت تحریک انصاف میں
شامل کرائے گئے ہیں اور کرائے جائیں گے۔اب تک تحریک انصاف کو جو نقصان
پہنچا ہے وہ انہیں افراد کا کیا دھراہے۔ جب تک بوسیدہ نظام کا خاتمہ نہیں
ہو جاتا اس وقت تک ایسے فیصلے آتے رہیں گے جو پرانے نظام کو بچانے اور
کرپشن مافیا کے تحفظ کے ضامن ہونگے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ انصاف کے
حصول میں کھڑی رکاوٹوں کو ہٹا کر مساوات پر مبنی عدل و انصاف پر قائم
معاشرے کا قیام ہے ورنہ کرپشن مافیا کو کلین چٹ یو ں ہی ملتی رہے گی۔ کرپشن
اور دھاندلی کرنے والے کبھی اپنے پیچھے ثبوت نہیں چھوڑتے۔ جس ملک میں ایک
پٹواری کی کرپشن کوئی ثابت نہیں کر سکتا وہا ں اتنے بڑے بڑے مگر مچھوں کے
خلاف ثبوت موجودہ بوسیدہ نظام میں لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کہتے
ہیں قانون اندھا ہوتا ہے وہ کتابی ثبوت کے بغیر کسی کی نہیں سنتا اور کرپشن
مافیاء قانون کو چکما دینے کا فن بخوبی جانتی ہے۔عوام نے دیکھ لیا خلق خدا
کی آواز کاغذات کی فائلوں میں یوں گم ہو گئی جیسے اس ملک میں الیکشن
انسانوں نے نہیں فرشتوں نے کروائے ہوں۔ اﷲ ہمارے حال پر رحم کرئے اور ۶۷
سال سے اس ملک کو لوٹنے والوں کا بھی تو احتساب ہو سکے۔
|