خالئق کا ئنا ت کی بہت
ساری نوازشوں ،محبتوں اور انعامات میں سے ایک باران رحمت بھی ہے بارش کی
پہلی پھوار کے ساتھ بچوں کی خوشی دیدنی ہو تی ہے جس طرح وہ اچھل کود کر
بارش کا لطف اٹھا تے ہیں مجھے بھی اپنے بچپن کی بارشیں یاد آجا تی ہیں (
اور اور بیائے دریا میائے ) بار ش، بارش آجا ؤ دریا مت آنا یہ وہ بلو چی
گیت ہے جوایک خاص ردھم کے ساتھ ہم ساتھی گا یا کرتے تھے گویا یہ گیت بھی
تھا اور دعا بھی تھی۔ بارش خالق کا عمل ہے زمین میں اگنے والے انا ج کو با
رش سے جو تعلق ہے وہ محتا ج بیا ں نہیں اگر آسما نو ں سے ابر رحمت نہ بر سے
تو رزق کی دا ستا ں ختم ہو کر رہ جا ئے سا ئنس کی ترقی کے با وجو درزق کا
نظام معیشت اور تقسیم دولت کا سارا نظا م با رش نہ ہو نے پر نیست ونابود
ہوجا ئے پا نی کی کمی سے قحط سالی اپنے ظالم جبڑو ں میں انسان کو د بو چ
لیتی ہے ہر شئے کی زند گی پا نی ہے خشک سالی کے دنو ں میں ہم با را ن رحمت
کی د عا ئیں ما نگتے ہیں نما ز استسقاء ادا کر تے ہیں لیکن جب قدرت اپنی
فیا ضی سے یہ نعمت عطا کر تی ہے تو ہما رے لیے زحمت بن جا تی ہے ۔ ہمیشہ کی
طر ح اس با ر بھی ہزاروں دعا وئں کے بعد با ران رحمت بر سی اور ہما ری لا
پر وائیوں کے با عث زحمت بن کر نا ز ل ہو ئی ہمارے دریا اس وقت بارشوں کے
باعث سیلابی صورت حال سے دوچار ہے سیلا بی پا نی ریلو ں کی صورت میں چترال
اور پنجاب کے مختلف مقا مات در یا وں اور ند ی نا لو ں کے کنا رے تو ڑتا ہو
ا ر ہا ئشی علا قو ں ودیہا تو ں میں داخل ہوگیا جہا ں مٹی کے گھر تبا ہ ہو
گئے مو یشی سیلا بی پا نی میں ڈو ب گئے انسا نی جا نیں ضا ئع ہو رہی ہیں
بہت سے لو گ کر نٹ لگنے سے ہلا ک ہوئے یہ تو شروعات ہیں ابھی نجانے کتنی
قیامتیں ہمارے دیگر صوبوں کے نصیب میں اس مون سون نے لکھ دی ہیں قصور ان
بارشوں کا نہیں یہ تو ہماری اپنی بد انتظامی ،سفاکی اور بے حسی ہے جو صرف
اپنے گھر اپنی زمینیں بچانے کی کو شش میں لگے رہتے ہیں پا کستا ن بننے کے
68 سالہ دور میں کئی سیا ست دا ں اور جرنلز آئے اور چلے گئے ان تما م ا
دوار میں مو ن سون کی با رشیں آئیں تبا ہ کا ریاں بھی ہو ئیں گھروں ،
کھیتوں اور بے گنا ہ انسانی جا نوں کے نذارنے بھی دیے گئے حکو متی اراکا ن
کے بعذریعہ ہیلی کا پٹر ز دورے بھی ہو ئے مگر کسی حکو مت کو تو فیق نہیں ہو
ئی کہ وہ ان شہرو ں دیہا تو ں بستیوں کو بچا نے کے لیے سنجیدگی سے کو ئی
مستقل عملی اقداما ت کر ئے ہم ہر سال ان تکلیف دہ حالا ت کا سامنا کر تے
ہیں اور پھر چند دنو ں میں سب بھو ل کر اپنی سر گر میوں میں مشغول ہو جا تے
ہیں وہ علا قے جو آج با رش کی تبا ہ کا ریوں کا نمو نہ پیش کر رہے ہیں کیا
ان کے منتخب نما ئندو ں کو اپنے علا قوں کی با بت کچھ خبر نہیں کہ ہر سال
با رشوں کے د ورا ن آبا دی کو کس قدر نقصا ن اٹھا نا پڑ تا ہے پھر کیوں
اسمبلیو ں میں بھیٹھ کر ایسے اقداما ت نہیں کر تے جن سے ان علا قوں میں جا
نی نقصان کا ہمیشہ کے لیے تد ارک کیا جا سکے وہ سب آج ان سینکڑ وں جا نوں
کے قاتل ہیں جو سیلا ب کی نذ رہو گئے یا ہو تے جا رہے ہیں ۔
چترال میں تبا ہی پھیلا نے کے بعد بر با دی نے پنجا ب کے علا قوں کا رخ کیا
ہے دیہا ت ڈو ب گئے ہیں لو گ مد دکے لیے پکا ر رہے ہیں نا قص انتطا ما ت کے
ہا تھوں پر یشا ن حال متا ثر ین انتظا میہ اور حکمرا نوں کو بد عا ئیں دے
رہے ہیں بے عوام سیلا بی پا نی میں گھرے ڈبکیا ں لگاتے ایک چا رپا ئی کو
کئی افراد تھا مے بپھر تی ہو ئی لہروں سے لڑتے دکھا ئی دیتے ہیں ڈوبتے مو
یشی اور انسا نوں کو دیکھ کر شدید دکھ کے ساتھ محسو س ہو تا ہے کہ ہم قیا م
پاکستا ن کے بعدوہیں ہیں جہا ں سے چلے تھے ہم اچا نک پیش آنے والے حا دثات
کے بچا ؤ کے لیے کو ئی انتظاما ت نہیں کر پائے ہیں خواہ وہ سانحہ کرا چی ہو
یا 2005ء کا زلزلہ ہوآج بھی ہما رے پا س ان سے بچنے کے درست ذرائع نہیں ہیں
ہما ری حکو متیں اپنی عیاشیوں کے لیے دل کھو ل کر خر چ کر تی ہے ہیلی کا
پٹرز میں بیٹھ کرڈ و بتے ہو ئے لو گو ں کا تما شہ دیکھتی ہے مگر خلق خدا کی
ز ندگی بچا نے کے لیے رقم دستیا ب نہیں سیلا بی آفت میں بنیا دی شئے ابتدا
ئی طبی سامان کے لئے دست نگر رہتے ہیں اشیائے ضرورت مون سون شروع ہو نے سے
پہلے ز یر یں علا قوں میں ہونی چا ہیے مگر افسوس ڈیز اسٹر مینجمنٹ کے ادارے
کی بد انتظامی ہر سال سوالیہ نشان بنی رہتی ہے ۔ حسب روایت ہرمشکل مرحلے
میں پا کستا نی افواج نے ا پنا مثبت کر دار نبھا یا ہے پاک فوج کے سر بر اہ
راحیل شریف نے ہدایت کی ہے متا ثرہ علا قو ں میں لوگوں کی مدد و معاو نت کو
ہر ممکن طریقے سے بروئے کار لا ئیں فوج کے جوان اس مشکل گھڑ ی میں اپنی
خدمت سے مصروف عمل ہیں کہیں امدادی سامان تقسیم کر رہے ہیں کہیں راشن کا
انتظام نبھا رہے ہیں ڈو بتوں کو بچا نے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ بز رگوں سے
سنا ہے کہ آند ھیاں، زلز لے اورطو فا ن اﷲ کے لشکر ہیں ہم اپنے اعما ل کی
طرف دیکھتے ہیں اپنی وزراء بیورو کریسی پر نظر ڈالتے ہیں تو اسی کے مستحق
نظر آتے ہیں آخر کر پشن ،جھو ٹ ،بد دیا نتی، بد اعمالی دنیا کے سب سے بڑے
جرا ئم میں ہم پہلے نمبر پر ہیں ہم پر بر ا وقت آچکا ہے مگر اﷲ تعالی نے تو
بہ کے دروازے ہمیشہ سب کے لیے کھلے رکھے ہیں۔
ہمیں عملی اقداما ت کی ضرورت ہے ایسے اقداما ت کی جو ہمیں آئندہ ان قدرتی
آفا ت سے بچا سکے اس کے لیے حکمراں طبقے کو فضول خر چیو ں کو خیر با د کہ
کر نئے ڈیمز بنا نے پر توجہ دینی ہو گی آج اگر بھا شا ڈیم ، کا لا با غ ڈیم
، در یا ئے کا بل پر ڈیم بن چکے ہو تے تو شہر کے شہر اور گا وں نہ ڈو بے
ہوتے کا لا با غ ڈیم کو ہم نے اپنی سیا سی انا کے بھینٹ چڑ ھا دیا دنیا کے
نقشے میں ہا لینڈ ایک ایسا ملک ہے جوسطح سمند ر سے نیچے آبا دہے وہا ں کبھی
سیلا ب نہیں آتا انھو ں نے جدید ٹیکنا لو جی کی مددسے اپنے آپ کو محفو ظ
بنا یا ہے تو ایک کا لا با غ ڈیم کس طرح پو رے شہر کو ڈبو سکتا ہے ۔ اسی طر
ح بلو چستا ن میں1986 ء میں آنے وا لے سیلا ب سے درہ بو لان سے ڈھا ڈر 30
کلو میٹر جنو ب میں بو لان ڈیم پانی کا بہا ؤ بر داشت نہ کر سکا تھا جس کی
بنا ء پر بند ٹو ٹ گیا تھا 26 سال گذ رجا نے کے با وجو دڈیم کا تبا ہ شدہ
حصہ جوایک تہا ئی لا گت سے بھی کم میں تیا رہو سکتا تھا مگر تیا رنہ ہو سکا
کاش !ہما رے وزراء بیرون ملک دوروں میں کروڑوں ر وپے خر چ کر نے بجا ئے اس
جانب تو جہ کر یں تو آئندہ ہم اس آفت سے بچ سکیں گیں محض خا لی دعووں سے
عوام کے دل نہیں جیتے جا سکتے ہما ری حکو متی نما ئندوں کو اس با رے میں
غور کر نے ضرورت ہے کہ یہ با ار ن رحمت جو ہما رے کھیتوں کو سیراب کر رہی
ہے جو زندگی کی نو ید ہے اسکی آمد سے ہمارے دل چور سے کیو ں ہو جا تے ہیں
یہ ہما رے لیے کیو ں ذحمت بن جا تی ہے ۔ |