سوانحِ حیات سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ(قسط نمبر7)

تحریر: خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس

کتب سلطان الفقر'سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ:

سلطان الفقر'سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے ظاہری علم حاصل نہیں کیا اس کے باوجود آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تصانیف کی تعداد140 ہے ۔ابیاتِ باھو رحمتہ اللہ علیہجو کہ پنجابی میں ہے، کے علاوہ تمام تصانیف فارسی زبان میں ہیں۔

سلطان الفقر'سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کی فارسی کتب کے مترجمین نے اکثر یہ عبارت تحریر کی ہے کہ اُن کو سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کے دستِ مبارک سے لکھا ہوا کسی کتاب کا کوئی نسخہ دستیاب نہیں ہوا۔ صرف خلفاء اور درویشوں کے نسخہ جات ہی ملے ہیں۔ سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کی کتب کے مترجم سید امیر خان نیازی نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب اسرار القادری کا ترجمہ کرتے ہوئے پیش لفظ میں لکھی ہے۔ لکھتے ہیں '' ایک مترجم کی حیثیت سے میرے لیے سب سے بڑی پریشانی یہی ہے کہ قلمی نسخہ جات میّسر نہیں ہو پاتے تاکہ تقابلی جائزے کے بعد صحیح فارسی متن اخذ کرکے ترجمے کا صحیح حق ادا کیا جاسکے۔ اگر سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ صاحب کے اپنے ہاتھ مبارک کا لکھا ہوا ایک بھی نسخہ مل جائے تو باقیوں کی ضرورت ترجمے کے لیے نہیں رہتی۔ بد قسمتی سے کسی ایک کتاب کا نسخہ بھی آپ رحمتہ اللہ علیہکے ہاتھ کا لکھا ہوا موجود نہیں۔ وہ بھی اس طرح ضائع ہو گئے کہ خلفائے عظام نے انہیں عام کرنے کی بجائے اپنے صندوقوں میں محفوظ کر دیا۔''( صفحہ40)

اپنی تصنیف ''عین الفقر'' میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ''محمد مصطفی عربی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) و مرا علمِ ظاہر ہیچ نہ بود۔ از علم حضور است و ظاہر و باطن علم چندیں واردات فتوحاتِ کشادہ است کہ دفتر ہا باید''۔

محمد مصطفٰی عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مرا علمِ ظاہر ہیچ نہ بود ازعلمِ حضور است و ظاہر و باطن علمِ چندیں واردات فتوحاتِ کشادہ است کہ دفتر ہا باید“
ترجمہ: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور مجھے علمِ ظاہر کسی نے نہیں سکھایا کہ ہمیں علمِ حضوری عطا کیا گیا ہے جس کی واردات و فتوحات سے ظاہر و باطن میں اتنا وسیع علم منکشف ہوا ہے کہ جس کے اظہار کے لیے بے شمار دفاتر (کتب) کی ضرورت ہے۔

آپ حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کا یہ فرمان پڑھ چکے ہیں کہ انہوں نے اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ظاہری علم حاصل نہیں کیا یعنی آپ رحمتہ اللہ علیہ بھی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرح اُمیّ تھے اور لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے۔ جس طرح حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستِ مبارک کی لکھی ہوئی کوئی آیت، حدیث یا تحریر دستیاب نہیں ہے اسی طرح حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے دستِ مبارک کی بھی کوئی تحریر دستیاب نہیں ہو سکتی ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ جو کچھ مکاشفاتِ الٰہیہ سے بیان فرماتے درویش یا خلفاء اسے قلم بند کر لیتے تھے اور وہی نسخہ جات دستیاب ہیں۔ اس لیے اگر سلطان الطاف علی صاحب یا صاحبِ مناقبِ سلطانی یا کسی دوسرے صاحب کو سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کے دستِ مبارک سے لکھا ہوا کسی کتاب کا کوئی نسخہ نہیں ملا تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے ۔ جن کتب کے تراجم ہوئے ہیں اُن کے نسخہ جات خانوادہ سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے ورثہ سے ہی مترجمین تک پہنچے ہیں پھر اکثر مترجمین نے ایک ہی کتاب کے مختلف نسخہ جات کا تقابل کرکے ہی اُن کا ترجمہ کیا ہے اس لیے تقریباً دستیاب تمام تراجم میں تعلیمات کے لحاظ سے کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔

حضرت سلطان حامد رحمتہ اللہ علیہ نے '' مناقبِ سلطانی '' میں کتب کی جو فہرست دی ہے وہ بہت کم ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ '' مناقبِ سلطانی '' کی تصنیف کے وقت ہی اکثر وبیشتر کتب زمانہ کی دست برد کی نذر ہوچکی تھیں یا اُن کے پا س موجود نہ تھیں ۔ اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے علوم اور کتب کی اشاعت کیلئے کوئی ادارہ قائم نہ ہوسکا جس کی وجہ سے ان کتب کی وسیع پیمانہ پر اشاعت ممکن نہ ہوسکی ۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کتب کی اشاعت کے سلسلہ میں جتنی بھی کوششیں ہوئیں وہ انفرادی تھیں ۔ یا پھران کتب کے لمبا عرصہ تک پردہء اخفا میں رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ یہ '' کیمیائے گنج '' نااہلوں سے دوررکھنا چاہتے ہوں یا پھر ان کے ظاہر ہونے کاایک خاص وقت اور زمانہ مقرر ہو ۔ اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو آخری زمانہ کی ہدایت کیلئے مصطفی ثانی او ر مجتبیٰ آخر زمانی کا لقب عطا فرمایا ہے ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہکی کتب علمِ لدّنی کا شاہکار ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ فرمان مبارک ہے کہ جس کو کوئی مرشد کامل اکمل نہ ملتا ہو وہ میری کتب کو وسیلہ بنائے۔ رسالہ روحی شریف میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
'' اگر کوئی ولی واصل عالم روحانی یا عالمِ قدس شہود میں رجعت کھا کر اپنے مرتبے سے گر گیا ہو تو وہ اس رسالہ کو وسیلہ بنائے تو یہ رسالہ اس کیلئے مرشدِ کامل ثابت ہوگا اگر وہ اسے وسیلہ نہ بنائے تو اسے قسم ہے اور اگر ہم اسے اس کے مرتبے پربحال نہ کریں تو ہمیں قسم ہے '' ۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ اعلان آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ہر کتاب میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے ۔ حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہکی تصانیف کی عبارت بہت سادہ اور سلیس ہے جسے عام اور معمولی تعلیم یافتہ آدمی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تصانیف کی عبارت میں ایسی روانی اور تاثیر ہے جو دورانِ مطالعہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ ان کتب کو اگر با ادب او ربا وضو پڑھا جائے تو فیض کا ایک سمندر کتب سے قاری کے اندر منتقل ہوتا ہے ۔ اگر قاری صدقِ دل سے مطالعہ جاری رکھے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے حقیقی روحانی وارث سروری قادری مرشد تک راہنمائی ہوجاتی ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتب میں ضرورت کے مطابق آیاتِ قرآنی ' احادیث مبارکہ او راحاد یثِ قدسی کا استعمال فرمایا ہے ۔ ان کتب میں جہاں کہیں بھی عبارت میں ان کا ذکر ہے وہاں سے اگر ان کو نکال دیا جائے تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس جگہ آیات قرآنی یا احادیث کو درج نہ کیا جاتا تو مطلب مکمل نہ ہوتا ۔ حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ عبارت میں اشعار کا بر محل اور خوبصورت استعمال کرتے ہیں جس سے عبارت کا اثر دو چند ہوجاتا ہے ۔

آپ رحمتہ اللہ علیہکی جو کتب بازار میں تراجم کی صورت میں دستیاب ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں:
۱۔ ابیات سلطان باھو ؒ ( پنجابی) ۲۔ دیوانِ باھو ؒ (فارسی) ۳۔عین الفقر ۴۔مجا لستہ النبی ؐ ۵۔کلید التوحید (کلاں) ۶۔کلید التوحید (خورد) ۷۔ شمس العارفین ۸۔ امیر الکونین ۹۔تیغ برہنہ ۱۰ ۔رسالہ روحی شریف ۱۱۔گنج الاسرار ۱۲۔محک الفقر ( خورد)۱۳ ۔محک الفقر (کلا ں) ۱۴۔ اسرارِ قادری ۱۵۔اورنگ شاہی ۱۶۔ جامع الاسرار ۱۷۔عقلِ بیدار ۱۸۔فضل اللقاء ( خورد) ۱۹ ۔فضل ا للقاء (کلاں)۲۰ ۔مفتاح العارفین۲۱۔ نورالہدیٰ (خورد)۲۲۔ نورالہدیٰ (کلاں) ۲۳۔ توفیقِ ہدایت ۲۴۔ قربِ دیدار ۲۵ ۔عین العارفین ۲۶ ۔کلیدِ جنت ۲۷۔محکم الفقراء ۲۸۔سُلطانُ الوَھم(کلاں) ۲۹۔سُلطانُ الوَھم (خورد) ۳۰۔دیدارِ بخش ۳۱ ۔کشف الاسرار' ۳۲۔محبت الاسرار ۔۳۳طرفتہ العین

سُلطانُ الوَھم کلاں اور خورد کا نسخہ جیکب آباد (سندھ) میں سیّد سلطان شاہ لائبریری سے1977میں دریافت ہوا۔
شمس العارفین دراصل سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کی کتب کلید التوحید ، قربِ دیدار، مجموعۃ الفضل، عقلِ بیدار، جامع الاسرار، نور الہدیٰ ، عین نما، اور فضل اللقاء سے منتخب شدہ اسباق پر مشتمل ہے جو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دوسرے صاحبزادے سلطان ولی محمد رحمتہ اللہ علیہنے ترتیب دی تھی۔ اب سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کی تصنیف کے نام سے مشہور ہے۔
مناقبِ سلطانی اور شمس العارفین سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی چند ایسی تصانیف کے نام بھی ملتے ہیں جو اب تک نایاب ہیں۔(۱)مجموعۃ الفضل (۲) عین نما (۳) تلمیذ الرحمن (۴) قطب الاقطاب (۵) شمس العاشقین (۶) دیوانِ باھوؒ کبیر و صغیر۔ ایک ہی دیوانِ باھوؒ (فارسی) دستیاب ہے یہ یا تو کبیر ہے یا صغیر۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی واحد پنجابی کتاب جو پنجابی شاعری پر مشتمل ہے ابیاتِ باھو ؒ کے نام سے مشہور و دستیاب ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی ازواج اور اولاد پاک:

ازواج:

سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی زندگی میں چار نکاح فرمائے۔

1. آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ایک بیوی حضرت مخدوم برہان الدین احمدساکن لنگر مخدوم والا ضلع جھنگ کے خاندان سے تھیں ۔ حضرت مخدوم برہان الدین احمد سلسلہ سہروردیہ سے صاحبِ ارشاد تھے ایک روایت کے مطابق آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ اور دوسری روایت کے مطابق آپ رحمتہ اللہ علیہ اُن کے صاحبزادے تھے۔(تذکرہ اولیائے جھنگ)
2. دوسری بیوی اپنی ہم کفو یعنی قوم اعوان سے تھیں ۔
3. تیسری بیوی بھی قریبی رشتہ دار تھیں .
4. چوتھی بیوی ملتان کے ایک ہندو ساہو کار خاندان سے تھیں جو کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دستِ اقدس پر مسلمان ہو کر آپ کے نکاح میں آئیں ۔ اس واقعہ کو صاحبِ مناقبِ سلطانی نے یوں بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ دورانِ سفر آپ رحمتہ اللہ علیہ ملتان تشریف لے گئے اور دعوتِ قبور کیلئے حضرت بہاؤالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ کے مزارِ مبارک پر سوارہوئے۔ پہلے تو قبر جنبش میں آئی لیکن فی الفور پیران پیر دستگیر محبوبِ سبحانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی طرف سے حکم ہوا کہ اے بہاؤالدین یہ ہمارا محبوب ہے اس سے الفت کرنا ۔ جو کچھ یہ کہے بجا لانا پس حضرت بہاؤالدین رحمتہ اللہ علیہ نے مزار سے نکل کر ملاقات کی اور فرمایا جو حکم ہو فرمائیں تاکہ میں بجا لاؤں۔ اس حالتِ جذبہ میں سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔جب آپ رحمتہ اللہ علیہ سے بار بار اصرار کیا گیا تو سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اپنے شہر میں سے ایک پاکیزہ ( سعید) آدمی کا بازو دو ۔ اتنا کہہ کر اس مستی اور جذبہ کی حالت میں مزار مبارک سے نکل کر شمال کی جانب روانہ ہوئے۔ جب ظہر کی نماز کیلئے دریا کے کنارے پر وضوکرکے نماز کیلئے کھڑے ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک کنواری نوجوان عورت جوتے ہاتھ میں لئے کھڑی ہے پاؤں میں آبلے پڑے ہوئے ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا ! تو کون ہے ؟ عرض کیا کہ فلاں ساہو کار کی لڑکی ہوں جب آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت بہاؤالدین زکریا ( رحمتہ اللہ علیہ ) کے مقبرہ مبارک میں گئے اور وہاں سے نکلے تو میں اسی وقت مسلمان ہوگئی کیونکہ حضرت بہاؤالدین زکریا( رحمتہ اللہ علیہ ) نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت کرنے بلکہ لونڈی ہونے کا حکم دیا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اسی جگہ نزدیکی گاؤں میں لوگوں کی موجودگی میں ان سے نکاح فرمایا ۔

اولادپاک:

''مناقبِ سلطانی'' میں سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے صاحبزادوں کی تعداد آٹھ بیان کی گئی ہے جو اس طرح ہے:

1. حضرت سلطان نور محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ
2. حضرت سلطان ولی محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ
3. حضرت سلطان لطیف محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ
4. حضرت سلطان صالح محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ
5. حضرت سلطان اسحاق محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ
6. حضرت سلطان فتح محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ
7. حضرت سلطان شریف محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ
8. حضرت سلطان حیات محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ
ڈاکٹر سلطان الطاف علی نے ''مراتِ سلطانی باھُو نامہ کامل'' میں تحریر فرمایا ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ایک صاحبزادی مائی رحمت خاتون بھی تھیں۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کے تمام صاحبزادگان میں سے صرف تین صاحبزادوں حضرت سلطان نور محمد رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت سلطان ولی محمد رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت سلطان لطیف محمد رحمتہ اللہ علیہ سے اولاد کا سلسلہ چلا جبکہ باقی صاحبزادگان لا ولد فوت ہوئے اور ایک صاحبزادہ سلطان حیات محمد صاحب کا انتقال بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔
سب سے بڑے صاحبزادے حضرت سلطان نور محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بعد مزار مبارک کو چھوڑ کر دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر علاقہ گڑانگ فتح خاں چلے گئے جو ڈیرہ غازی خان میں وھوا کے قریب ہے اور وہیں رہائش اختیار کی اورسلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بیس سال بعد واپس تشریف لائے اور یہیں وفات پائی اور مزارِ مبارک میں دفن ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد بستی قاضی نزد شہر لیہ میں آباد ہے۔

دوسرے صاحبزادے سلطان ولی محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ سجادہ نشین ہوئے ۔ آخری سفر میں ڈیرہ غازی خان (اب رحیم یار خان) کے قریب شہر مرٹہ میں حضرت غیاث الدین تیغ ہراں عادل غازی شہید کی خانقاہ کے قریب وصال فرمایا اور وہیں مدفون ہوئے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد چاہ سمندری (پرانا دربار سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ ) ' موجودہ دربار شریف، احمد پور شرقیہ اور رحیم یار خان کے آس پاس آباد ہے۔ آپ کی اولاد ہی سے تمام سجادہ نشین مقرر ہوئے اور زمین اور جائیداد کے وارث ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے بعض بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہوئے اور بعض نے سیاست کے میدان میں بھی بڑا نام کمایا۔میرے مرشد پاک کا سلسلہ نسب بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ ہی کے واسطہ سے حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے۔

سلطان لطیف محمد رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد بہت تھوڑی تعداد میں سبزل کوٹ (صادق آباد) میں آباد رہی۔ اس خانوادہ نے گمنامی اور تنگدستی میں وقت گزارا اور بالآخر ان کا سلسلہ مفقود ہو گیا۔ اب صرف دو صاحبزادوں سلطان نور محمد اور سلطان ولی محمد سے اولاد کا سلسلہ چل رہا ہے۔(جاری ہے)
Nasir Hameed
About the Author: Nasir Hameed Read More Articles by Nasir Hameed : 29 Articles with 51941 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.