جب دھوپ کی شدت بڑھتی ہے تو
بادلوں کے برسنے کے انتظار میں آنکھیں بار بار آسمان کی طرف اُٹھتی ہیں۔ جب
بادل برسنا شروع کریں اور پانی ٹخنوں سے اوپر بہنا شروع کر دے تو دونوں
ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھ جاتے ہیں۔جب سردی بدن کو کپکپانے لگے تو گرم لحاف
ہو یا ہوا بدن کو راحت پہنچاتے ہیں۔ سخت گرم مرطوب ہواچلنے لگے تو برف کا
ایک ٹکڑا ہتھیلی پر رکھنے سے وجود میں ٹھنڈک کا احساس بھر جاتا ہے۔ موسمی
تغیرات کے اثرات تو اجسام پر تقریبا ایک جیسے احساس ہی پیدا کرتے ہیں۔ برس
ہا برس کی زندگی بار بار موسموں کے آنے جانے کے احساس سے لبریز ہوتی
ہے۔اُکتاہٹ کا شکار اس لئے نہیں ہوتے کہ تبدیلی کی اُمید واثق ہوتی ہے۔
کامل یقین ہوتا ہے کہ سدا اسی کیفیت میں زندگی نہیں گزرے گی۔شائد اجسام کی
طاقت اتنی ہی برداشت رکھتی ہے۔ہر گزرتا لمحہ نیا احساس دلاتا ہے۔ ہر پل
اجسام کائنات میں گردش مدار میں ہر روز آگے بڑھتے ہیں۔ یہاں تک کہ 365.25
دن کے بعد پھر 1سے تبدیلی کے سفر پر چل پڑتے ہیں۔ انتہائی خاموشی اور گہرے
سکوت کے ساتھ تواتر سے سفر میں رہتے ہیں۔جس میں نہ ہی پڑاؤ ہوتے ہیں اور نہ
ہی منزل۔ بس ایک سفر ہے اور ہمسفر جو ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جنہیں منزل سمجھ
لیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہاں صرف اِن اور آؤٹ ہے۔ جو خود گردش میں ہے وہ
ٹھہرنے کا انتظام نہیں رکھتا۔ جو اجسام خواہشات کی بدولت منزل کے نشان
ڈھونڈنے پر کمر بستہ ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے پر تولنے لگتے
ہیں۔ شب و روز آگے بڑھنے کی بجائے رکنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ نظام
کائنات کی طرح نظام حیات میں بھی بریک نہیں ہے۔ رکنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔
نئے اجسام داخل ہو رہے ہوتے ہیں ، سفر مکمل کرنے والے باہر نکل رہے ہوتے
ہیں۔منزل کی طرف بڑھنے والی ہر روح سفر کی تھکاوٹ سے چور بدن کو منطقی
انجام تک پہنچا کر دم لیتی ہے۔ روح زندہ رہنے کے لئے ایمان کی سیرابی کی
متمنی ہوتی ہے۔ اجسام جنگلی جڑی بوٹیوں کی طرح پہاڑوں ، ریگستانوں میں بھی
خود روئی کی طاقت سے کمزور جڑیں پکڑ لیتے ہیں۔ جو خشک زمین سے لپٹ کر ساکت
و جامد موسمی تغیرات سے بے پرواہ رہتے ہیں۔نئے کپڑوں میں سویا نہیں جاتا ،
پرانے کفن میں دفنایا نہیں جاتا۔ کھانا چھوٹ جائے تو اجسام سوکھ جاتے ہیں ،
سانس رک جائے تو پھول جاتے ہیں۔ جو آنکھ کے پردے سے باہر دیکھتے ہیں ۔ جو
دیکھتے ہیں وہی سوچتے ہیں۔ وہی چاہتے ہیں وہی اپناتے ہیں۔ ہر روز نئے اجسام
کی منظر کشی ہوتی ہے۔ مگر انداز ایک ہی رہتا ہے۔ نظروں سے چھپنے کے لئے جسم
ڈھانپے جاتے ہیں۔ وہ انہی راستوں پر سفر کرتے ہیں جن پر جانے کی انہیں
خواہش ہوتی ہے یا ضرورت۔ جن کی آنکھ اندر کے رُخ دیکھتی ہے، جو محسوس کرتے
ہیں وہی سوچتے ہیں۔ وہی چاہتے ہیں وہی اپناتے ہیں۔ ہر پل نئے نظام کی جستجو
و تلاش ہوتی ہے۔ جو اجسام کے اختیار و دسترس سے باہر ہوتی ہے۔ اجسام کی قید
میں رہنے والے خواہش اور ضرورت سے آزادی پانے کی تگ ودو کرتے ہیں۔ روح کی
قید میں رہنے والے عشق جنوں میں تشنگی مٹانے کے لئے تگ ودو کرتے ہیں۔ ان
میں سے بعض بہت قریب آ کر پھر پلٹ جاتے ہیں۔کوتوال اجسام خواہشات کی بیڑیوں
سے باندھ کر رکھتے ہیں۔ جہاں چھوٹ تو مل جاتی ہے چھٹی نہیں۔ جب دکھاوا نہیں
تو پہناوا کیسا۔ جب محنت نہیں تو ترقی کیسی۔ جب شوق نہیں تو پڑھنا کیسا۔ جب
خواہش نہیں تو ضرورت کیسی۔ جب چاہت نہیں تو ارمان کیسے۔ جب جستجو نہیں تو
تسلی کیسی۔ جب علم نہیں تو دعوی کیسا۔ جب محبت نہیں تو ندامت کیسی۔ جب حسن
نہیں تو جلوہ کیسا۔زندگی عہد نہیں جو تین لفظوں سے جڑے تو تین سے ہی ٹوٹے۔
چار دن کی زندگی چار حروف کے مجموعےسے ہی مکمل ہو سکتی ہے۔ اسے چار چاند
تبھی لگیں گے جب وہ چار حروف ہماری روح کو چکا چوند روشنی سے منور کر
دیں۔جب چار حروف ملتے ہیں تو وہ بنتے ہیں اللہ ، محمدﷺ اور قرآن۔ |