آیات:1-64
سورۃ البقرۃ(البقرۃ کا معنی گائے)قرآن کی دوسری اور مدنی سورۃ ہے(آیت نمبر
۲۸۱ خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی)۔سورۃ بقرہ میں 40رکوعات ہیں
اور 286آیات ہیں۔قرآن پاک کی سب سے لمبی آیت(آیت نمبر ۲۵۵)بھی سورۃبقرہ میں
ہے جسے ’آیت الکرسی‘کہتے ہیں۔سورۃ بقرہ کے ۲۳ویں رکوع میں فضیلت
رمضان،۲۵ویں رکوع میں آداب حج،۲۵ویں رکوع میں حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کے
مشہور مکالمے کا ذکرآیا ہے۔آیت نمبر ۲۵۶ میں ’اسلام زبردستی کا دین نہیں
ہے‘کا ذکر آیا ہے۔سود ،شراب اور جوئے کی ممانعت ،حضرت آدمؑ کی تخلیق کا قصہ
اور حضرت ابراہیمؑ کی دعا بھی سورۃ بقرہ میں آئی ہے۔
٭بارگاہ رسالت میں ایک فرشتہ نے عرض کی،یارسول اﷲﷺ!خوش ہو جایئے آپکو دو
ایسے نور عطا کیئے گئے جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے:ایک سورۃ فاتحہ
اور دوسرا سورۃ بقرۃ کی آخری آیات۔(مسلم ج۱ص۲۷۱،نسائی ج۱ص۱۴۵)
٭حضرت ابن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’جس نے رات کو
سورۃ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اسکوہر آفت سے بچانے کیلئے کافی ہو
جائیں گی‘۔(بخاری و مسلم)
٭حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’جس گھر میں سورۃ
بقرہ پڑھی جائے اس گھر میں شیطان نہیں آسکتا‘۔(ترمذی)
٭رسولﷺنے ارشاد فرمایا’سورۃ بقرہ قرآن کی کوہان ہے اور اسکی بلندی ہے کہ
اسکی ایک ایک آیت کے ساتھ اسی اسی(۸۰)فرشتے نازل ہوتے ہیں اور بالخصوص آیت
الکرسی تو عرش تلے سے نازل ہوئی اور اس سورۃ کے ساتھ ملائی گئی‘۔(ابو
داؤد،نسائی)
ترجمہ:شروع کرتا ہوں اﷲ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان ہمیشہ رحم فرمانے
والا ہے ٭ا لم(یہ حروف مقطعات ہیں،حقیقی معنی اﷲ اور اسکے محبوب رسولﷺ ہی
بہتر جانتے ہیں)﴿۱﴾یہ وہ(عظیم)کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی
گنجائش نہیں ،پرہیزگارو ں (متقین،جو اﷲ کا خوف رکھتے ہیں) کیلئے ہدایت
ہے﴿۲﴾جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم
نے(رزق)دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں)خرچ بھی کرتے ہیں﴿۳﴾اور جو کتاب(اے
محمدﷺ)تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے(انبیاء پر)نازل ہوئیں سب
پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں﴿۴﴾یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے
ہدایت پر(ہدایت یافتہ) ہیں اور یہی(لوگ)فلاح (نجات) پانے والے ہیں﴿۵﴾(اے
رسولﷺ)جن لوگوں نے کفر اختیار کر لیا ہے ان کیلئے سب یکساں(برابر) ہے خواہ
آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں﴿۶﴾اﷲ نے انکے
دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور انکی آنکھوں پر پردا( پڑا ہوا) ہے اور
(آخرت میں)ان کیلئے بڑا عذاب(تیار)ہے﴿۷﴾بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اﷲ پر اور
آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں،لیکن در حقیقت وہ ایمان والے(مومن) نہیں
ہیں﴿۸﴾وہ اﷲ کو(یعنی رسولﷺکو)اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں
مگر(فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور نہیں سمجھتے﴿۹﴾ان
کے دلوں میں بیماری ہے اﷲ نے انکی بیماری اور بڑھا دی ہے اور انکے
(مسلسل)جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کیلئے دردناک عذاب ہے﴿۱۰﴾جب ان سے کہا جاتا
ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤتو کہتے ہیں،ہم تو اصلاح کرنے
والے(مصلح)ہیں﴿۱۱﴾حالانکہ یہی لوگ مفسد(فساد کرنے والے) ہیں اور اپنے فساد
کو سمجھتے بھی نہیں ہیں﴿۱۲﴾اور جب ان سے کہا جاتا ہے دوسرے مومنین کی طرح
ایمان لے آؤتو کہتے ہیں،بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اس طرح ہم بھی
ایمان لے آئیں؟سن لو کہ یہی بیوقوف ہیں لیکن علم نہیں رکھتے(نہیں
جانتے)﴿۱۳﴾اور(یہ لوگ)جب اہل ایمان (ایمان والوں)سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں
ہم بھی ایمان والے ہیں اور جب اپنے شیاطین کی خلوتوں میں جاتے ہیں تو(ان
سے) کہتے ہیں ہم تمھارے ساتھ ہیں اورہم توصاحبانِ ایمان (پیروانِ محمدﷺ) سے
مذاق کرتے ہیں﴿۱۴﴾اﷲ پاک بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انہیں انکی سرکشی اور
بہکاوے میں اور بڑھا دیتا ہے﴿۱۵﴾یہی وہ لوگ جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی
خریدی،تو نہ تو انکی تجارت ہی نے کچھ نفع دیا(سودمند ہوئی)اور نہ ہی انہیں
ہدایت نصیب ہوئی﴿۱۶﴾ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے(شبِ تاریک)میں آگ
روشن کی،اور جب آگ نے اس کے گردونواح(آس پاس)کوروشن کر دیاتو اﷲ نے انکی
روشنی(بینائی) زائل کر دی(سلب کر لی) اور انکو اندھیروں میں چھوڑ دیااور
اب(اس اندھیرے میں)انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا﴿۱۷﴾(یہ)بہرے ہیں،گونگے
ہیں،اندھے ہیں کہ (کسی طرح سیدھے راستے(راہِ راست)کی طرف)لوٹ(پلٹ)ہی نہیں
سکتے﴿۱۸﴾یا(پھر انکی مثال ایسے ہے جیسے)آسمان سے مینہ برس رہا ہوجس میں
اندھیرا(چھا رہا)ہو او ر(بادل) گرج(رہا)ہو اور بجلی (چمک رہی )ہو تو یہ کڑک
سے(ڈر کر)موت کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اﷲ (ہر طرف
سے)کافروں کا احاطہ کئے(گھیرے) ہوئے ہے﴿۱۹﴾قریب ہے کہ بجلی(کی چمک)انکی
بصارت (بینائی )کو اچک لے جائے،جب بجلی ان کیلئے روشنی(اجالا)کرتی ہے تو وہ
اسکی روشنی میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا کرتی ہے تو کھڑے ہو
جاتے ہیں اور اگر اﷲ چاہتا تو انکے کانوں(کی شنوائی)اور آنکھوں(کی بینائی
دونوں)کو سلب کر لیتا(زائل کر دیتا)بیشک اﷲ ہر چیز پر قادر(قدرت رکھنے
والا)ہے﴿۲۰﴾اے لوگو!اﷲ کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو
پیدا کیاتاکہ تم متقی(پرہیزگار)بن جاؤ﴿۲۱﴾جس نے تمہارے لئے زمین کو
فرش(بچھونا)اور آسمان کو چھت (عمارت،شامیانہ)بنایااور پھر آسمان سے
پانی(بارش)برسا کر اس سے(انواع و اقسام کے) پھل پیدا کر کے تمھیں روزی
دی(رزق دیا)پس کسی کو اﷲ کا شریک (ہمسر)نہ بناؤحالانکہ تم جانتے بھی
ہو﴿۲۲﴾اور اگر تم کو اس(کتاب)میں،جو ہم نے اپنے(برگزیدہ) بندے(حضرت
محمدﷺ)پر نازل فرمائی ہے اگر تمہیں اس(کے کلام اﷲ ہونے)میں شک ہے تو تم اس
جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ،اور اﷲ کے علاوہ جتنے تمہارے مد دگار ہیں سب کو
بلا لاؤاگر تم(اپنے دعوے میں)سچے ہو﴿۲۳﴾لیکن اگر تم ایسا نہ کر سکو اور اور
ہر گز نہیں کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی(یعنی کافر) اور
پتھر(یعنی انکے بت) ہیں جو کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے﴿۲۴﴾اور(اے رسولﷺ)ان
لوگوں کو خوشخبری سنا دو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے کہ ان کیلئے (بہشت
میں)ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں جب انہیں وہاں کا کوئی پھل
کھانے کو ملے گاتو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہمیں اس سے پہلے(دنیا میں) ملا
تھاحالانکہ انہیں جو دیا گیا ہے وہ(صورت میں دنیا کے پھل سے)ملتا جلتا
ہے(مگر ذائقہ الگ ہو گا)اور وہاں ان کیلئے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ وہیں
(بہشتوں میں)ہمیشہ رہیں گے﴿۲۵﴾بیشک اﷲ ہر گز اس بات سے عار نہیں کرتا
کہ(کسی مطلب کے وضاحت کیلئے)مچھر اور اس سے بھی بڑھ کر (کسی حقیر چیز
کی)مثال بیان کرے پس مومن تو اسے اپنے رب کی جانب سے حق سمجھتے ہیں اور
کفار کہتے ہیں کہ ایسی مثال سے اﷲ کا کیا مقصد ہے؟اﷲ اس مثال سے بہتوں کو
گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو اس سے ہدایت بخشتا ہے اور گمراہ تو صرف فاسقوں
کو ہی کرتا ہے ﴿۲۶﴾جو اﷲ کے عہد کو مظبوط کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور جس چیز
(یعنی رشتہ)کے جوڑے رکھنے کا اﷲ نے حکم دیا ہے اس کو قطع کئے ڈالتے ہیں اور
زمین میں فساد(برپا)کرتے ہیں یہی لوگ خسارے میں ہیں﴿۲۷﴾تم کس طرح اﷲ کا
انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے پھر تمہیں زندہ کیاپھر تمہیں مارے گا
پھر تمہیں زندہ کرے گااور پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے﴿۲۸﴾وہی
تووہ(اﷲ)ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمھارے لئے پیدا کیا ہے پھر آسمان
کی طرف قصد کیاتو سات مستحکم آسمان بنا دئیے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے
والا ہے ﴿۲۹﴾اور(اے رسولﷺوہ وقت یاد کرو)جب تمہارے رب نے فرشتوں سے
فرمایاکہ میں زمین پہ اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں،انہوں (ملائکہ)نے عرض
کیا:’کیا تو زمین میں کسی ایسے شخص کو خلیفہ(جانشین)بنائے گاجو فساد برپا
کرے گا اور خون ریزی کرے گاحالانکہ ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح وتقدیس
کرتے رہتے ہیں‘(اﷲ نے)فرمایامیں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے﴿۳۰﴾اور
اﷲ نے آدمؑ کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان سب چیزوں کو ملائکہ کے سامنے
پیش کیا پھر فرمایامجھے ان کے نام بتاؤاگر تم سچے ہو﴿۳۱﴾انہوں نے کہا،تو
پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے بیشک
توہی(سب کچھ)جاننے والا حکمت والا ہے﴿۳۲﴾پھر(اﷲ نے)فرمایا:اے آدمؑ تم
ان(فرشتوں)کو ان(چیزوں)کے نام بتاؤتو جب آدمؑ نے ان (فرشتوں)کو ان(چیزوں
)کے نام بتا دیئے تو اﷲ نے فرمایاکیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں آسمان
و زمین کے غیب کو جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو پوشیدہ(چھپ کر
یا مخفی)کرتے ہوسب مجھے معلوم ہے﴿۳۳﴾اور جب ہم نے(اﷲ نے)فرشتوں کو حکم
دیاکہ آدمؑ کے آگے سجدہ کرو تو ابلیس(شیطان)کے سوا سب سجدہ میں گر گئے اس
نے انکار کیا اور تکبر کیااور کافرین میں ہوگیا﴿۳۴﴾اور ہم نے حکم دیا کہ اے
آدمؑ!اب تم اپنی زوجہ کے ساتھ جنت میں ساکن ہوجاؤ(رہائش رکھو)اورجہاں سے
تمھارا دل چاہے آرام(مزے اور فراغت)سے کھاؤصرف اس(مخصوص)شجر(درخت)کے قریب
نہ جانانہیں تو ظالموں میں(داخل)ہو جاؤ گے﴿۳۵﴾پھر شیطان نے ان دونوں کو(اس
درخت کی ترغیب دیکر)انکے قدم پھسلائے اور انہیں اس(عیش و نشاط)سے نکلوا
دیاجس میں وہ تھے اور ہم نے حکم دیااب تم(زمین پر)اتر جاؤ(یہاں سے)تم ایک
دوسرے کے دشمن ہواور تمھارے لئے زمین میں ایک(خاص)وقت تک ٹھہرنے اور نفع
اٹھانے کا سامان موجود ہے﴿۳۶﴾پھر آدمؑ نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے(اور
معافی مانگی)تو اﷲ نے اسکی توبہ قبول کی بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا بڑا
مہربان ہے﴿۳۷﴾ہم نے فرمایا تم سب یہاں سے( نیچے )اتر جاؤجب تمھارے پاس میری
طرف سے ہدایت پہنچے تو (اسکی پیروی کرنا کہ)جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی
کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگااور نہ کوئی حزن(وہ غمگین نہیں ہوں گے)﴿۳۸﴾اور
جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایاوہ( لوگ) جہنمی ہیں(وہ)ہمیشہ
وہیں پڑے رہیں گے﴿۳۹﴾اے بنی اسرائیل! ہماری نعمتوں کو یاد کروجو ہم نے تم
پر نازل کیں اور تم میرے(ساتھ کیا ہوا)عہد پورا کرومیں تمھارے(ساتھ کیا
ہوا)عہد پورا کروں گااور مجھ ہی سے ڈرو﴿۴۰﴾اور جو کتاب میں نے(اپنے رسول
محمدﷺ پر)نازل کی ہے جو تمھاری کتاب تورات کی تصدیق کرتی ہے،اس پر ایمان
لاؤاور تم اس کے اولین منکر نہ بنواور میری آیتوں کو(تحریف کر کے)تھوڑی
قیمت(دینوی مفاد)پر نہ بیچواور مجھ ہی سے ڈرو﴿۴۱﴾اور حق کو باطل کے ساتھ نہ
ملاؤاور جانتے بوجھتے ہوئے حق کو نہ چھپاؤ﴿۴۲﴾اور نماز قائم کرواور زکوۃ
دیا کرواور (اﷲ کے آگے)رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو﴿۴۳﴾(یہ)کیا(عقل کی
بات ہے کہ)تم دوسرے لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہومگر اپنے آپ کو بھول
جاتے ہو؟حالانکہ تم کتاب(اﷲ)بھی پڑھتے ہوکیا تم عقل نہیں رکھتے؟﴿۴۴﴾اور(
مشکلات و مصائب کے وقت)صبر کرنے اور نمازپڑھنے سے مدد لیا کرواور بیشک نماز
مشکل ہے مگر ان لوگوں پر(گراں نہیں)جو عجز کرنے والے ہیں﴿۴۵﴾اور جو یہ یقین
کئے ہوئے ہیں کہ انکی اپنے رب سے ملاقات ہونے والی ہے اور اسی کی طرف لوٹ
کر جانے والے ہیں﴿۴۶﴾اے بنی اسرائیل میری ان نعمتوں کو یاد کروجو میں نے
تمھیں عنایت کیں تھیں اور یہ کہ میں نے تمھیں(اس دور میں)سب لوگوں پر فضیلت
دی﴿۴۷﴾اور اس دن سے ڈروجس دن کوئی شخص کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گااور نہ
ان کیلئے کوئی سفارش قبول ہو گی اور نہ کوئی معاوضہ لیا جائے گااور نہ (اﷲ
کے حکم کے خلاف) ان کی کوئی مدد کی جا سکے گی﴿۴۸﴾اور (وہ وقت یاد کرو)جب ہم
نے تمھیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمھیں بدترین عذاب دیتے تھے جو تمھارے
لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمھاری عورتوں کو(اپنی خدمت گزاری
کیلئے)چھوڑ دیتے(زندہ رہنے دیتے)تھے،اور اس میں تمھارے رب کی طرف سے بڑی
سخت آزمائش تھی﴿۴۹﴾اور جب ہم نے تمھارے لئے دریا پھاڑ دیاتم کو نجات دی اور
فرعونیوں کو غرق کر دیا(ڈبو دیا)اور تم دیکھ ہی تو رہے تھے﴿۵۰﴾اور جب ہم نے
موسیٰؑ سے چالیس راتوں کا وعدہ فرمایاتو تم نے ان کے پیچھے بچھڑے کو
(معبود)مقرر کرلیااور تم ظلم کر رہے تھے﴿۵۱﴾پھر ہم نے اس(ظلم)کے بعدتم کو
معاف کر دیا،تاکہ تم شکر کرو﴿۵۲﴾اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور قانونِ
فیصل(حق و باطل کو جدا کرنے والا قانون)دیا تاکہ تم ہدایت حاصل کر و﴿۵۳﴾اور
جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا:اے میری قوم!تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی
جانوں پر (بڑا) ظلم کیا ہے، تو اپنے بنانے والے (حقیقی رب )کے حضورتوبہ
کرو،پس (آپس میں)ایک دوسرے کو قتل کر ڈالو(اسطرح کہ جنہوں نے بچھڑے کو نہیں
پوجااور اپنے دین پر قائم رہے ہیں وہ بچھڑے کی پوجا کر کے دین سے پھر جانے
والوں کو سزا کے طور پر قتل کر دیں)،یہی عمل تمھارے لئے تمہارے خالق کے
نزدیک بہترین ہے پھر اس نے تمھاری توبہ قبول فرما لی کہ وہ بڑا توبہ قبول
کرنے والا مہربان ہے﴿۵۴﴾اور جب تم نے(موسیٰ سے)کہا :اے موسیٰ ہم تم پر(اس
وقت تک) ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم اﷲ کو سامنے نہ دیکھ لیں گے،تو تم کو
بجلی نے آ گھیرا(جو تمھاری موت کا باعث بن گئی)اور تم دیکھ رہے تھے ﴿۵۵﴾پھر
ہم نے تمھیں تمھاری موت کے بعد (ازسرِنو)زندہ کر اٹھایاتاکہ تم شکر
بجالاؤ﴿۵۶﴾اور ہم نے تم پربادلوں(ابر)کا سایہ کیا تم پر من و سلویٰ نازل
کیااور( کہا کہ) ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤجو ہم نے تم کو عطا کیں
ہیں،اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا،بلکہ خود اپنے نفس پر ظلم کرتے
رہے﴿۵۷﴾اور جب ہم نے(ان سے)فرمایا: اس شہر میں داخل ہوجاؤپھر اس میں جہاں
سے چاہو بے تکلفی سے کھاؤاور(یہ کہ شہر کے) دروازے میں داخل ہونا تو سجدہ
کرنااور کہتے جانا: (اے ہمارے پروردگار!ہم سب گناہوں کی)بخشش طلب کرتے
ہیں،ہم تمھاری (گزشتہ )خطائیں معاف کر دیں گے اور نیکی کرنے والوں کو
مزید(فضل و کرم سے)نوازیں گے﴿۵۸﴾پھر ان ظالموں نے اس بات(کلمہ)کو جو ان سے
کہا گیا تھا بدل ڈالا(حطتہ کی بجائے حنتطہ کہا)،تو ہم نے(ان)ظالموں پرانکے
فسق و نافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل کیا﴿۵۹﴾(اور اس وقت کو یاد
کرو)جب موسیٰ نے اپنی قوم کیلئے پانی مانگاتو ہم نے کہا اپنا عصاپتھر
پرمارو،جس سے بارہ چشمے جاری ہو گئے اور ہر گروہ نے اپنا چشمہ(گھاٹ)پہچان
لیا(اور ہم نے کہ دیا کہ)اﷲ تعالیٰ کا(دیا ہوا)رزق کھاؤ اور پیو ،مگرزمین
میں فساد نہ پھیلاؤ﴿۶۰﴾(اور وہ وقت بھی یاد کرو)جب تم نے موسیٰؑ سے کہا ہم
ایک ہی (قسم کے)کھانے پر ہر گز صبر نہیں کرسکتے اس لئے اپنے رب سے دعا
کیجئے کہ وہ ہمیں زمین کی پیداوارساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز
پیدا کر دے،(موسیٰؑ نے اپنی قوم سے )فرمایا:کیا تم اس چیز کو لینا چاہتے ہو
جو ادنی ہے بدلہ اس کے جو بہتر ہے؟(اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو)کسی بھی شہر
میں جا اترو،بیشک(وہاں)تمہیں وہ کچھ مل جائے گا جو تم مانگتے ہو،(اب )ان پر
ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور وہ اﷲ کے غضب میں گرفتار ہو گئے،یہ اس لئے
کہ وہ اﷲ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق (بغیر کسی وجہ
کہ)قتل کرتے تھے(اور یہ سب اس لئے بھی ہوا)کہ وہ نافرمانی کئے جاتے اور حد
سے بڑھے جاتے تھے(سرکشی کرتے تھے،ظلم کرتے تھے)﴿۶۱﴾بیشک جو لوگ مسلمان ہیں
یا یہودی یانصرانی (عیسائی) یا صابی(ستارہ پرست)،(یعنی کوئی شخص کسی قوم و
مذہب کا ہو)اﷲ پر اور یوم آخرت(قیامت کے دن،فیصلے کے دن)پر (سچے دل
سے)ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا،تو ان کا اجر ان کے رب کے ہاں ملے گا
اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہوگااور نہ وہ غم ناک ہوں گے﴿۶۲﴾اور(اس وقت کو
یاد کرو)جب ہم نے تم سے عہد لیااور تم پر (کوہِ )طور کو اونچا کیا(اور حکم
دیا کہ)جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اسکو مظبوطی سے تھامے رکھو(پکڑے رہو)اور
جو کچھ اس(کتاب ِتورات)میں(لکھا)ہے اسے یاد رکھوتاکہ تم تقویٰ حاصل
کرسکو(تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ)﴿۶۳﴾پھر تم اس کے بعد پھر گئے، پس اگر تم پر
اﷲ کا فضل اور اسکی رحمت نہ ہوتی تو تم خسارہ والوں میں سے ہو جا تے (تباہ
ہو جاتے)﴿۶۴﴾ |