انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آبادکی طرز پرہر ایک
ضلع میں ایسی اسلامی جامعات وقت کی اہم ضرورت ہیں جن پر قرقہ واریت کی چھاپ
کا نام و نشان اور شائبہ تک بھی نہ ہو۔
میرے مطابق مساجد و مدارس دینیہ و عربیہ و اسلامیہ پرآویزاں فرقہ پرستی کے
تمام تر کتبوں، علامات و نشانات کا خاتمہ کر دیا جائے، ان کو فقط اللہ
سبحانہ و تعالٰی کے کلام قرآن مجید یعنی وحی متلوّ، سنۃ رسول اللہ صلّی
اللہ علیہ واٰلہ و سلّم (اسوۃ الحسنۃ) یعنی وحی غیر متلوّ کی تعلیم و
تربیّت، اطاعت و اتباع اور تعلیم و تدریس تک محدود کر کے فرقہ وارانہ
تعلیمات پھیلانے اور مذہبی منافرت کو فروغ دینے سے بہ ہر صورت روکا جائے۔
اخوّۃ اسلامی کو فروغ دیا جائے، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سمیت ابلاغ عامہ
کے تمام تر ذرائع اور وسائل کو بروئے کار لا کر، ان کے ذریعے لوگوں کو فرقہ
پرستی کے خلاف ، قرآن و سنۃ کے احکامات و تعلیمات سے بڑے پیمانے پر روشناس
کروایا جائے، مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی بھیلانے کو قابل دست اندازی
پولیس جرم اور دہشت گردی قرار دیا جائے، دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن
پلان کا لازمی حصہ بنایا جائے، جس کی سزا عمر قید ہو ، مقدمات کا فیصلہ
سرسری سماعت کی فوجی یا سول کورٹس میں چلا کر ایک ہفتے کے اندر سزائیں
سنائی جائیں تو ان شاء اللہ المستعان فرقہ پرستی کا زہر (جو اس وقت مسلم
معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کئے ہوئے ہے) اس کو بتدریج اور مرحلہ وار
سرجیکل آپریشن کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ عام مسلمان فرقہ پرستی سے کافی
حد تک اکتائے ہوئے ہیں وہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کے کلام قرآن مجید یعنی وحی
متلوّ، سنۃ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ و سلّم (اسوۃ الحسنۃ) یعنی وحی
غیر متلوّ پر مبنی الوہی ہدایت یعنی اصل دین اسلام کو قبول کر لیں گے جس کو
حضرت محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ واٰلہ و سلّم لائے ، عام مسلمان بآسانی
فرقہ پرستوں کے خود ساختہ مذہبی افکار و نظریات سے تائب ہو جائیں گے، البتہ
دین اسلام، مسلم امۃ اور قومی مفاد میں(مسلم معاشرے میں پھیلائے گئے فرقہ
پرستی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے) بعض نام نہاد مذہبی عناصر کو ڈنڈے
کے زور سے سیدھی راہ صراط مستقیم پر لانا پڑے گا اور ان کو ضلالت و گمراہی
پر مشتمل انسانی افکار ونظریات کی بناء و اساس پر قائم فرقوں (جو دراصل
اسلام کے خلاف جاری فتنوں سے کسی طور کم نہیں) سے لاتعلقی اختیار کرنے پر
آمادہ کرنے میں تھوڑی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ دین
اسلام میں فرقوں کے وجود کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ہے اور ان کو بنانا،
تسلیم یا قبول کرنا، ان کے ساتھ وابستگی رکھنا، ان کو جائزسمجھنا دین اسلام
میں حرام اور گناہ کبیرہ ہے، ان کی سرکوبی، سدّباب اور تدارک ہر مسلمان اور
مسلم ریاست کا اوّلین اور مقدّس فریضہ ہے۔
کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ مدارس عربیہ، دینیہ و اسلامیہ کا انتظام و
انصرام کن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، ان مدارس عربیہ، دینیہ و اسلامیہ کا
نصاب کیا ہے، وہاں کا ماحول کیسا ہے ،کس طرح کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے ،
قرآن مجید ورسول اللہﷺ کی سنۃ (احادیث مبارکہ )اور اسوۃ الحسنہ کی یا پھر
اپنے اپنے ناطل فرقہ کے من گھڑت، خود ساختہ، ضلالت و گمراہی پر مشتمل
انسانی و بشری قرقہ وارانہ و فرقہ پرستانہ افکار و نظریات کی، و ہاں پر
داخلہ حاصل کرنے اور والے کون ہوتے ہیں، کہاں سے اور کیوں لائے جاتے ہیں یا
پھر آتے ہیں، اسکول کے بجائے ان مدارس عربیہ، دینیہ و اسلامیہ میں کس بناء
پر، کونسی مجبوری کے باعث اور کیوں داخلہ لیتے ہیں، کیا یہ ان کی اولین
ترجیح ہوتی ہے یا پھر کوئی معاشی مجبوری ان کو یہاں پر کھینچ لاتی ہے، حصول
علم دین اور خدمت دین کے جذبے سے سرشار ہو کر، ذوق و شوق اور اپنی مرضی سے
یا کسی اور وجہ یا مجبوری کے تحت وہ ان مفت تعلیم، خوراک، لباس، رہائش،
علاج و معالجہ کی سہولیات دینے والے مدارس کا رخ کرتے ہیں یا لائے جاتے
ہیں، ان کی سماجی، معاشی، معاشرتی، جسمانی، نفسیاتی و ذہنی صحت ،حالت و
حیثیت و صلاحیت اور قابلیت کیا اورکیسی ہوتی ہے، مدرسے میں ان کو کس
صورتحال کا سامنا رہتا ہے، وہ معاشرے کے کس قدر پسماندہ ترین طبقے سے تعلق
رکھتے ہیں، کیسے ماحول میں رہ کر اور کیا سیکھتے ہیں، ان کا مقصد اور نصب
العین اور مقصدِ حیات کیا ہوتا ہے، قرآن و رسول اللہ ﷺ کی سنۃ (احادیث
مبارکہ اور اسوۃ الحسنہ کے احکامات و تعلیمات کے بجائے اپنے اپنے فرقوں کے
پرچار و فروغ میں کیوں مصروفِ عمل ہو جاتے ہیں، ان کی اوّلین ترجیح قرآن و
رسول اللہ ﷺ کی سنۃ (احادیث مبارکہ اور اسوۃ الحسنہ کے بجائے اپنا فرقہ
کیوں بن جاتی ہے، وہ قرآن و رسول اللہ ﷺ کی سنۃ (احادیث مبارکہ اور اسوۃ
الحسنہ پر اپنے فرقہ کی خود ساختہ، من گھڑت، ضلالت و گمراہی پر مبنی افکار
و نظریات کو قرآن و رسول اللہ ﷺ کی سنۃ (احادیث مبارکہ اور اسوۃ الحسنہ پر
اوّلیّت و فوقیت کیوں دینے لگ جاتے ہیں، فرقہ پرستی، مذہبی منافرت کو ہی
اپنا محبوب موضوع و عنوان کیوں بنا لیتے ہیں قرآن و سنّۃ اور اسوۃ السنہ کے
موضوعات اور عنوانات پر وعظ و نصیحت اور بنان کیوں نہیں کرتے؟؟؟
ان جیسے متعدد اور متعلقہ سوالات کے جوابات تلاش کرنا ضروری ہے۔ کیوں کہ
انہی کے نتائج سے ہی یہ معلوم ہو سکے گا کہ ان نام نہاد مذہبی عناصر سے حق
گوئی و بے باکی، اعلائے ، کلمة الحق، اصول پرستی، تقویٰ و قول و عمل میں
مطابقت، دین کی بے لوث اور سچی خدمت، قرآن و سنة کی تعلیمات، تقوی اور
دینداری اور دیانت داری و فرض شناسی، اسلام کے غلبے اور سر بلندیاور اتحاد
امت کے جذبے کی توقع عبث و بے کار اور بے سود کیوں ہے۔
معاشرے کے متوسط و معززطبقے سے تعلق رکھنے والے وضع دار اور صاحب حیثیت
لوگوں اور حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ ایسی اسلامی جامعات قائم کریں جن کا
ماحول و سہو لیات اور معیار تعلیم کسی طرح بھی نیچرل سائنسز اورسوشل سائنسز
کی نامور سرکاری و نجی جامعات سے کسی طور کم نہ ھواور جن میں تقوی اوراسوة
الحسنہ کے مطابق بترویں دینی تربیت کا بھی بھرپور انتظام ھو، پڑھایا
جانیوالا نصاب بھی عصری و ملی تقاضوں سے ھم آھنگ ھو، فرقہ پرستی کا نام و
نشان بھی نہ ہو، جس سے عربی و اسلامی علوم و فنوں اور متعلقہ علوم و فنون
میں کامل ماگرت کو یقینی بنایا جا سکے اور ان کے ساتھ ساتھ جدید و مروجہ
عصری علوم سے بھی ضروری حد تک ھر طالبعلم کو روشناس کرایا جا سکے، تاکہ ان
میں معاشرے کے وضع دار اور صاحب حیثیت خاندانوں، متوسط و معززطبقات سے تعلق
رکھنے والے ذھین، قابل و لائق، جسمانی و ذھنی طور پر مکمل صحتمند، عمدہ،
مثبت و تعمیری صلاحیت، اخلاقی جراء ت، خودی و خود داری،مضبوط قوت ارادی،
مستقل مزاجی، استقامت اور حق بات کہنے کی ھمت و حوصلہ کے حامل، خوبصورت و
خوب سیرت بچے ذوق و شوق کے ساتھ میرٹ پر داخلھ حاصل کرنے میں فخر محسوس
کریں اوراس جانب متوجہ ھو سکیں جومسلم معاشرے کی اھم ضرورت ھے۔ صحیح اسلامی
اسکالر(عالم دین) مبلغ اسلام، مصلح اورمعاشرے کا ایک ذمہ دارصالح فرد، مفید
و فعال شرکی بننے کے ساتھ ساتھ ان طلبہ کوڈاکٹر، انجینیئر، آفیسر، تاجر،
سی۔ایس۔ایس اور آئی۔ایس۔ایس۔بی سمیت مقابلے کے تمام امتحانات پاس کر کے
اعلی فوجی و سول آفیسربننے کے بھی مساوی مواقع حاصل ھو سکیں۔
دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ عربی زبان لازمی کی جو تعلیم، 1982 سے، چھٹی
تا آٹھویں جماعت تک کے تمام مسلمان پاکستانی طلبہ کو دی جا رہی ہے اس کی با
مقصد اور مؤثر تدریس و تعلیم کو بہ ہر حال یقینی بنایا جائے اور اس کو
بتدریج و مرحلہ وارگریجوایشن کلاسز تک لازمی قرار دے دیا جائے تاکہ کم از
کم تعلیمیافتہ پاکستانی مسلمان تو کتابِ ھدایت قرآن مجید کو اور صلاۃ
(نماز) کو سمجھ کر پڑہ ھ سکیں اور پڑھ کرسمجھ سکیں کیوں کہ نزول قرآن اور
فرضیت صلاۃ (نماز) کے اصل مقاصد اس کے بغیر حاصل ہو نہیں سکتے اور اسی وجہ
سےمسلم معاشرے میں ان کی کوئی تاثیر بھی نمایاں نظر نہیں آ رہی ھے۔ اسلامی
جمہوریہء پاکستان میں آئینی و دستوری طور پر بھی قرآن و سنۃ پر مبنی دین
اسلام اور نبی آخر الزّماں صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم کی زبان عربی کا فروغ
حکومت کی اہم ذِمّہ داری بنتی ہے- عربی زبان سیکھ کر جب پاکستانی مسلمان
قرآن مجید اور سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم (صحیح احادیث
مبارکہ) کو سمجھ پڑھنے اور پڑھ کر سمجھنے کے قابل ہوں گے تو تب فرقہ وارانہ
دہشت گردی، فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکےگا-
جب معاشرے میں ایسے اسلامی اسکالرز (علماء دین) مناسب تعداد میں موجود او
اخلاص قلبی و صدق نیت کے ساتھ محض اللہ سبحانہ و تعالی کی رضاء و خوشنودی
اور معرفت کے حصول کی غرض سے بے لوث ھو کر اعلائے کلمة الحق کے لئے سر گرم
عمل ھو جائیں گے تو پھر مسلم معاشرے میں اصلاح بھی ھو سکے گی، اسے امن و
انصاف، مساوات اور فلاح حاصل ھو گی ، نااہل اور عاقبت نا اندیش مفادات کے
اسیر نام نہاد مولویوں کی اجارہ داری اور فرقہ پرستی سے نجات حاصل ھو گی،
اتحاد امت اور دین اسلام کے غلبے و سربلندی کی راہ ھموار ھو سکے گی- |