اسلام میں امانتداری کا تصور

کسی کی کوئی چیز اپنی حفاظت میں رکھنا ، امانت کہلاتا ہے۔ یعنی کوئی شخص اپنی کوئی چیز کسی کی حفاظت میں رکھ دے تو رکھنے والے پر واجب ہے کہ اسکی اتنی حفاظت کرے جتنی کہ وہ اپنی کسی بھی چیز کی حفاظت کرتا ہے اور جب وہ شخص اپنی چیز واپس لینے کا مطالبہ کرے تو فوراََ اسے جوں کی توں واپس کردے۔

فرمانِ الٰہی کا مفہوم ہے کہ اﷲ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو ٹھیک ٹھیک واپس کرو۔

اسکی آسان اور سادہ سی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے پاس مال یا غلہ کی صورت میں امانت رکھوائے اور پھر جب وہ کچھ عرصہ کے بعد اپنی امانت طلب کرے تو اسکی امانت اسے فوری طور پر لوٹائی جائے۔ مثلاََ اس نے اگر 100روپے کا نوٹ امانت رکھوایا تھا تو اسے وہی نوٹ واپس کرنا ہوگا اور اگر امانت مال کی صورت میں ہو تو وہی مال واپس کرنا چاہیئے۔ اگر چیز بدل لی گئی یا بلا اجازت استعمال کرلی گئی تو اس میں سے امانتداری کا عنصر منہاء ہوجاتا ہے۔ اور اگر امانت رکھوانے والے شخص کو یہ کہہ کر واپس کردیا جائے کہ پھر کسی اور وقت آکر اپنی امانت وصول کرلینا، تو یہ بھی خلافِ امانت کہلائے گا۔

قارئین! امانت کا مخالف لفظ ــــ’خیانت‘ ہے۔ اور جس کے پاس امانت رکھوائی جائے اسے امین کہتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات میں امانت میں خیانت کرنے والے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ جو چیز جس کی ہے، اسکو بالکل ویسے ہی اسکے مطالبے پر ادا کی جائے۔

قرآنِ کریم میں اﷲ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ ؛
ترجمہ: ہم نے اپنی امانت آسمانوں اور زمین پر پہاڑوں پر پیش کی تھی انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈرے اور انسان نے اسے اٹھالیا، بلاشبہ وہ ظالم اور جاہل ہے۔

قرآنِ کریم ہمارے لئے راہِ ہدایت ہے۔ یہ مقدس کتاب اﷲ تعالیٰ نے اپنی امانت کے طور پر انسانوں کے پاس رکھوائی ہے۔ اب ہم پر لازم ہے کہ ہم اسکی حفاظت کریں۔ قرآنِ پاک کی حفاظت سے مراد یہ نہیں کہ ہم اسے کسی اونچی جگہ پر چھپا کر رکھ دیں بلکہ اسے پڑھا جائے اور اﷲ کے احکامات پر عمل کیا جائے ۔ اگر ہم ایسانہیں کرتے تو ہم نہ صرف ظالم اور جاہل کہلائیں گے، بلکہ خائن بھی ٹھہریں گے۔ قرآنِ کریم میں اﷲ پاک نے جو احکامات فرمائے ہیں، وہ ہمیں ماننے ہونگے ، ان پر ایمان لانا ہوگا، تبھی ہم امانتدار کہلائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ کی اس امانت کو لیکر جو فرشتہ اترا، اسکا نام جبرائیل تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس فرشتے میں بھی امانت کی صفت رکھی۔ قرآنِ کریم میں اس فرشتے کو ’روح الامین‘ کہا گیا۔ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’ اس پیغام کو لیکر امانت والی روح اتری‘‘۔

امانتداری کی یہی صفت اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہر پیغمبر میں بھی رکھی اور اسکا ذکر قرآنِ کریم میں اکثر مقامات پر موجود ہے۔ نبی پاک ﷺکی حیاتِ طیبہ میں بھی امانتداری کی بیشمار مثالیں موجود ہیں۔ قریشِ مکہ نے اسلام قبول کرنے کی پاداش میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا تھا۔ ایسے حالات میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا۔ مکہ میں موجود تمام مسلمان مدینہ کی جانب ہجرت کرچکے تھے اور آخر میں نبی پاک ﷺکے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت علیؓ رہ گئے۔ آنحضرت محمد ﷺ نے آخری دن حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو فرمایا کہ آج رات ہم دونوں بھی مدینہ کی جانب ہجرت کرجائیں گے اور حضرت علیؓ سے فرمایا کہ آج رات آپ میرے بستر پر سو جائیں اور جن لوگوں کی امانتیں میرے پاس رکھی پڑی ہیں ، وہ میں آپ کے حوالے کرتا ہوں اور اگلی صبح آپ امانتیں لوٹا کر مدینہ کی جانب ہجرت کرلینا۔

قارئین! امانتداری کی ایسی مثالیں دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتیں۔ امانت سے متعلق اسلامی تعلیمات میں بیشمار مرتبہ تاکید کی گئی ہے۔ قرآنِ حکیم میں اﷲ باری تعالیٰ کے فرمان کا ترجمہ ہے کہ’ اﷲ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان تک پہنچاؤ‘۔ اس آیتِ مبارکہ کا سببِ نزول اگرچہ خاص تھا مگر اسکا حکم عام تھااور اسکے مخاطب عوام اور حکام دونوں ہی تھے۔ فرمانِ الٰہی میں دونوں کو ہی تلقین کی گئی ہے کہ امانتیں انہیں پہنچاؤ جو اسکے اہل ہیں۔ اس میں ایک تو وہ امانتیں ہیں جو کسی نے کسی دوسرے کے پاس رکھوائی ہوں ان میں خیانت نہ کی جائے بلکہ بحفاظت لوٹائی جائیں ۔ دوسرا یہ کہ اس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مناصب و عہدے بھی باصلاحیت و اہل لوگوں کو منتقل کیے جائیں۔

امانت کا دائرہء کار صرف روپے پیسے ، جائیداد و دیگر مادی اشیاء تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر مالی ، قانونی و اخلاقی امانت تک وسیع ہے۔ اگر آپ پر کسی کا حق باقی ہے تو اسکو ادا کرنا بھی آپ کے ذمے امانت ہے اور اس سے بڑھ کر اگر کوئی شخص آپ کو اپنا راز بتاتا ہے تو اسے افشاء کرنا بھی خیانت کے ذمرے میں آتا ہے۔ اسلام امانت میں پابندی کی تعلیم دیتا ہے تاکہ اسلامی تشخص انسانی کردار میں نمایاں نظر آئے۔ احادیث ِ مبارکہ کے مطابق قیامت کی نشانیوں میں سب سے پہلے امت سے امانت کا جوہر جاتا رہے گااورسب سے آخر میں جو چیز رہ جائے گی، وہ نماز ہے۔ (ترمذی) ۔
M.S. Noor
About the Author: M.S. Noor Read More Articles by M.S. Noor: 20 Articles with 16563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.