بہتوں کو دعوی ہے اقبال شنا سی کا ……!لیکن کیا اقبال فہمی
کی اتما میت و کلیت کا دعوی بھی ہے کسی کو ……؟؟یہ ایک اہم سوال ہے جس کا
جواب ……ابتک اثبات کے بجا ئے نفی میں ملے گا ……!!!با وجودیکہ اقبال شنا سوں
کے فریم ورک میں سینکڑوں اذہان نئی روشنیوں او رنئی تجلیوں کے ساتھ پرو
جیکٹ ہیں ۔
’’فکر اقبال ‘‘کے مصنف خلیفہ عبدا لحکیم فر ما تے ہیں :’’اقبا ل کا موضوع
ایسا ہے کہ اس پر کچھ مزید لکھنے کے لئے کسی معذرت کی ضرورت نہیں ‘‘(نقوش
اقبال صفحہ۲۳)اور شمس تبریز خاں کا دعوی بھی بر حق ہے کہ :’’ویسے بھی اقبال
کے سلسلے میں کو ئی حرف آخر کہنے کا دعوی کیا بھی نہیں جا سکتا‘‘(ایضا
صفحہ۲۷)۔یہی وجہ ہے کہ بحر اقبال میں غوطہ لگا نے والوں کی محنت شا قہ اور
انکی جہد مسلسل آج بھی ہمیں ہر روز ایک نئے اقبال سے روشنا س کر اتی ہے اور
تخیل اقبا ل کے نئے جزیروں تک ہمیں رسا ئی نصیب ہوتی ہے ۔اقبال کے تخلیقی
آفاق میں گم گشتہ مسا فرو ں کی جستجو آج بھی جا ری ہے اور ہر مسا فر نئی
نئی منزلوں تک پہنچ کر بھی اپنے آپکو یہ کہنے پر مجبور پا تا ہے کہ ’’ستا
روں کے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘……ایسے میں اقبا ل فہمی کی کلیت کا دعوی کیو
نکر کیا جا سکتا ہے ؟؟
اقبا لؒ کے جملہ شعری زاویوں کی افہام و تفہیم کے لئے صرف علم العروض،علم
البلا غت اور اسکے جملہ اقسام استعا رہ ،کنا یہ ،علا مت ،تشبیہات ،رمز ،کنا
یات ،تلمیحات،ابہام ……یا پھر اسلوب ،لہجہ ،تغزل ،ترنم ،تجمل ،تحیر اور تخیل
سے آگہی کا فی نہیں……بلکہ اسلام کے مبد أو معاد ،اسکی ابتدا ؤ انتہا ،اسکے
اصول وضوابط ،اسکے متحرک وانقلا بی عنا صر ،اسکے آفا قی پیغام و اعلان اور
تمام گو شوں کے وجدا ن کے ساتھ ،استغراق ،انہماک ،ذہنی اعتدال ،توا زن اور
افراط و تفریط سے اجتناب بھی نا گزیر ہے،کیو نکہ بعض معتقدین غلو کی حد تک
پہو نچ چکے ہیں، تو بعض کی نگا ہوں میں اسلا می علو م ومعارف میں درک و
بصیرت رکھنے والا کو ئی بھی علا مہ اقبا ل کا ہمسر نہیں ،جبکہ بقول مو لانا
ابو الحسن علی ندوی ؒ :’’وہ (علا مہ اقبال ) اسلا میات کے ایک مخلص طالب
علم رہے ‘‘ ……جسکے پاس شا ہین صفت نگا ہیں ہو ں ،خلاق ذہن کی تا با نی ہو
اور دا خلی حسیت میں بیدا ری کے چرا غ روشن ہو ں وہی متن اقبال ؒ کے با طنی
مفا ہیم کے اکتشا فی راہو ں سے گذر سکتا ہے ،جنہیں فلسفہ ،تا ریخ ،سیا ست
،مذہب ،تہذیب ،معا شرت ،معیشت ،ادب، محبت ،عشق ،خودی ،مغربی کلچر اور مشرقی
روا یت کا عرفا ن ہو،وہی انکی تحریروں میں علوم و معا رف کی متحرک لہروں پر
گرفت پا سکتا ہے ۔
اقبال شنا سوں کی فہرست میں ڈاکٹر یو سف حسین خاں ،مو لانا عبدا لسلام ندوی
،خلیفہ عبدالحکیم ،پرو فیسر اختر او رینوی ،علی سر دار جعفری ،ظ انصا ری
،پرو فیسر عبدا لمغنی ،پرو فیسر آل احمد سرور ،پروفیسر جگن نا تھ آزاد ،پرو
فیسر سمیع الحق ،مو لا نا طیب عثما نی ندوی ،مو لانا مسعو د عالم ،پرو فیسر
شکیل الرحمن ،محمد بدیع الزماں ،ڈاکٹر منظر اعجاز ،ڈاکٹر ممتا ز احمد خاں
،اسی طرح عربی میں ڈاکٹر عبدا لوہاب عزام اور صاوی علی شعلان شامل ہیں
……اسی سلسلے کی ایک حسین و مستند کڑی سید مو لا نا ابو الحسن علی ندوی ؒ
ہیں ۔
مو لانا کی شخصیت عبقری تھی ،وہ اسلام کے سچے غازی و سپا ہی تھے ،حر کت و
عمل کے تا بندہ ستا رہ تھے ،بلند عزائم اور عظیم حو صلوں کے ما لک تھے ،گو
ہر شب تاب اور جو ہر نا یاب تھے ،علم و عمل اور فکر و فہم کے روشن چر اغ
تھے ،ادب وصحا فت کے زندہ کر دار تھے ،اسلام کی تہذہبی ،ثقا فتی اور لسا نی
شنا خت کے معتبر حو الہ تھے ،تحریر و تقریر پر بے پایاں ملکہ تھا ،ایک صا
حب طرز انشا پر داز ادیب تھے ،اردو اور عربی ادب پر یکساں عبور تھا ،عربی
ادب میں اپنی جدت و ندرت اور سلاست و روا نی کا جو دریا آپنے بہا یا ،اس سے
بلاد عربیہ کے بڑے بڑے فصحا ء عش عش کر نے لگے ،سید قطب ،انو رالجندی ،علی
طنطا وی ،یو سف القرضاوی ،شکیب ارسلان ،نا صر البا نی ،شکری فیصل اور شیخ
عبدالعزیز رفا عی ……ہر ایک کے لوح قلب پر انہوں نے اپنی عظمت کے انمٹ نقوش
ثبت کئے ،انکی تحریر میں طلسما تی کیفیت تھی ،جو انسا نوں کوجھنجھو ڑ تی
،ذہنوں کے مقفل دریچوں کو وا کر تی تھی ،خرمن اسلام کو خا کستر کر دینے
والی برق مغر بیت کا انہیں بخو بی عر فان وادراک تھا ،اسلئے انہوں نے بھر
پور تو انائی کیسا تھ اسکا دفاع کیا ،ہر مو ضوع پر اپنے قلم کا جا دو جگا
یا ،جس مو ضوع کا بھی انتخاب کیا ،اس کا حق ادا کر دیا ،یقینا سیدصا حب ؒ
علو م و معا رف کے کو ہ کن تھے ،یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے اقبا ل شنا سی
کے چمن میں قدم رکھا تو اقبال کے گلشن شا عری میں باد بہاری کے خو شگوار
جھونکوں کو دا نشوروں نے محسو س کیا اورمولانا کی اس آمد کا ان حسین اقتبا
سات میں استقبال کیا :اقبال پر بڑی اچھی کتا بیں آئی ہیں ،مگر یہ کتا ب اس
مرد مجاہد عالم کی لکھی ہو ئی ہے ،جو اقبا ل کے ’’مر دمومن‘‘کا مصداق ہے
،اسلئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ’’نقوش اقبال ‘‘میں خود اقبال کی فکر
اور روح اسطرح گھل مل گئی ہیں،جیسے پھول میں خوشبو اورستا رو ں میں روشنی
‘‘(جناب ما ہرا لقادری) ’’……سید صا حب اپنی خاندانی روا یت کے مطا بق عالم
دین ہیں ،لیکن انکا ذہن وقت کے جدید تقا ضوں سے بھی آشنا ہے ،یہی وجہ ہے کہ
آپنے اقبال کے مختلف پہلو ؤں کو ایسے انداز میں پیش کیا ہے ،جیسے اغلبا
اقبا ل محسوس کر تے یا چا ہتے تھے ‘‘(جا وید اقبا ل ابن علامہ اقبال ؒ)
’’مو لانا کو اقبال کے کلام پر لکھنے کا سب سے زیادہ حق تھا اور انہوں نے
اس کتاب میں اسکو بڑی خوبی سے ادا کیا ہے ‘‘(مو لاناشاہ معین الدین احمد
ندوی )۔ایک اور تفر د آشنا ذہن رکھنے والے بین الاقوامی شہرت یا فتہ نقاد
حقا نی القا سمی کا یہ فیصلہ بھی سنئے !’’نقوش اقبال‘‘ایک ایسی کتاب ہے جو
اقبالیات پر محض ایک اضا فہ نہیں بلکہ اقبا ل شنا سی میں ایک سنگ میل کی
حیثیت رکھتی ہے ،اقبال کے جملہ فکری عنا صر کی تفہیم کا حق انہو ں نے ادا
کر دیا اور ایسا مو لانا ہی کر سکتے تھے کو وہ مو اہب لدنیہ سے معمور تھے
‘‘(دا رالعلوم دیو بند ادبی شنا خت نا مہ صفحہ ۱۶۷) ۔
علا مہ اقبال کی شا عری میں ہر دور کی تر جما نی کا استعارہ اور ہر ایک کے
خو ابو ں کی تعبیر ملتی ہے،انکی وسیع النظر ی نے انسا نی زندگی کے تمام
زاویوں اورسماج و معا شرت کے تمام پہلو ؤں کوتخیل کے چراغ سے روشن کیا
ہے،کا ئنات کے نشیب و فر از اور اور شکست و ریخت کی داستان ہو ،یا قو موں
کے عروج و زوال کا افسا نہ ،اقدار و روایات کے مٹتے نقوش ہوں یا انسا نو ں
میں انسا نیت کے فقدان کا المیہ ،احترام ادیان کا معاملہ ہو یا پھر انکے
اخلا قی و تعلیمی گوشے ،اقبا ل کی شا عری میں ان سب کے جلوے موجود ہیں
……انکی تخلیق میں ہنگا مہ ٔ جلوت بھی ہے اور سرور خلوت بھی ،فلسفہ ٔحیات
بھی ہے اور نکتہ آفرینی و نکتہ ٔ زندگی بھی وطنیت کے پر سوز نغمے بھی ہیں
اور قو میت کے راگ بھی ……نفحۂ مشکبار،با دۂ فر حت بخش ،بسنت رتوں کی شگفتگی
،جذب ومستی ،کیف و سرور ،نز ہت و بہجت ،لذت و مٹھاس ،خوش آہنگی ،کیفیت جنون
و وارفتگی اور مقنا طیسیت……یا پھر انکے تخیلات کے ارتعا شات جنہوں نے انکی
تخلیق کو گو ہرتا بدار بنا دیا ،جہاں ہر شعر مو تی اور یاقوت کے طرح چمکتے
اوردمکتے ہو ئے محسوس ہو تے ہیں……یہ علا مہ اقبال ؒ کی وہ شعری جما لیات و
خصو صیا ت ہیں ،جنکا تذکرہ تقریبا ہر اقبال شنا سوں کی تعبیر ات و تشبیہات
کے اندر وافر مقدار میں موجودہیں ……مگر انکی شاعری میں کچھ ایسے منطقے جن
تک رسائی بہت کم اقبال شناسوں کو نصیب ہوئی ،اگر ہو ئی بھی تو اسکا تذکرہ
یا تو ـضمناملتا ہے یا پھر اس منطقے کے ابعاد کو روشن کر نے کے لئے جس علم
سے آگہی درکار تھی اسکے فقدان نے اسے ابہام کے بادلو ں میں ملبوس کردیا
……وہاں تک رسا ئی ایک دیدۂ بینا اورذہن رسا ہی کر سکتاہے ……مو لا نا
ابوالحسن علی ندوی ؒ وہ خوش نصیب اقبال شنا س ہیں ،جنہوں نے کلام اقبال کے
ان منطقوں کو پا لیا ہے اور اپنی سلسبیلی نثر میں انہیں یوں تا بندہ کیا ہے
:’’سب سے بڑی چیز جو مجھے انکے فن کے طرف لے گئی وہ بلند حو صلگی ،محبت اور
ایمان ہے ،جس کا حسین امتزاج انکے شعر اور پیغام میں ملتاہے اور جسکا انکے
معا صرین میں کہیں پتہ نہیں لگتا ،میں بھی اپنی طبیعت اور فطرت میں انہی
تینوں کا دخل پا تا ہوں ،میں ہر اس ادب اور پیغام کی طرف بے اختیار انہ بڑ
ھتا ہوں جو بلند نظر ی،عالی حو صلگی اور احیائے اسلام کی دعوت دیتا اور
تسخیر کا ئنات اور تعمیر انفس و آفاق کے لئے ابھا رتا ہے ،جومہر و وفا کے
جذبات کوغذا دیتا اور ایمانی شعور کوبیدارکر تاہے،جو محمد ﷺ کی عظمت اور
انکے پیغام کی آفا قیت و ابدیت پر ایمان لا تا ہے ۔
میری پسند اور تو جہ کا مر کز وہ اسی لئے ہیں کہ وہ بلند نظری ،محبت اور
ایمان کے شاعر ہیں ،ایک عقیدہ ٔ دعوت اور پیغام رکھتے ہیں اور مغرب کی ما
دی تہذیب کے سب سے بڑے نا قد اور فکر مند ،تنگ نظر قو میت و وطنیت کے سب سے
بڑے مخا لف اور انسا نیت و اسلا میت کے عظیم داعی ہیں ‘‘(نقوش اقبال
صفحہ۲۹)
انہیں منطقے کی جستجو کا تخلیقی استعارہ ہے ’’نقوش اقبال ‘‘جس میں مولانا
نے اپنے اسلامی و جدان سے اقبال کے اسلامی ا فکار و خیالات کو وا کیا ہے
،انکی روح کو تازگی اور توا نائی عطا کی ہے ،اقبال کے سو ز و ساز کے پر
سوزنغمے اس کتاب کی سطر سطر میں گو نج رہے ہیں ،اقبا ل اقبال کیوں تھے ؟
اور کیو نکر تھے ؟اس راز کا اکتشا فی چراغ اس کتاب میں روشن ہے ،جس راز تک
رسائی نام نہاد و ما ہرین اقبا لیات کو آج تک نصیب نہ ہوسکی ۔
اقبال کی شخصیت میں جن عنا صر کی تفحص وجستجو سید صا حب ؒ نے کی ہے وہ کچھ
یوں ہے (۱)دل کا مد رسہ اور ضمیر و وجدان کا دبستان (۲)قرآن سے شغف ،تعلق
،محبت اور سوز و احساس کے ساتھ ذوق مطالعہ (۳)’’عرفان نفس ‘‘اور
’’خودی‘‘(۴)آہ سحر گا ہی کی لذت آفرینی(۵)اور مو لانا جلال الدین رومی کی
کا مل رہنمائی یعنی مطالعۂ مثنوی۔اقبال کی شخصیت کے انہی عنا صر کے محور
ومطاف کے گر دانکی پو ری شاعری طواف کر تی ہے ،انہی عنا صر نے اقبال کو فکر
و خیال کی نیرنگی ،نگاہ تجسس ،سو زوگداز ،تب و تاب ،شعلہ ٔ جا ں سوز نظریں
،ایمان و یقین کی قیمتی دولت ،تخلیقی توا نائی ،حکمت و دانائی ،شعو رو
وجدان ،جذبۂ عشق و و ارفتگی ،رو حانی اسرار ،شجا عت و شہامت ،معا نی کی بلا
غت ،لفظوں کا فسوں ،اخلاص کا مل ،تد بر و تفکر ،شعری بہاؤ ،تسلسل ،روانی
،خود شنا سی ،اسرار شہنشاہی ،دا خلی کرب و اضطرا ب اور سو ز پنہاں سے ما لا
مال کر دیا ۔
اقبال کے لفظ’’ خودی‘‘ نے کتنوں کے پتے پگھلا دیئے ،جسکے نتیجے میں اقبال
کی شخصیت ہی ’’خودی ‘‘کے اسرارمیں گم ہو کر رہ گئی تھی ،اس کتاب کے تو سط
سے خودی کے حسین پر تو میں اقبال کی شخصیت نکھر کر سامنے آگئی ،بقول مولانا
ابو الحسن علی ندوی ؒ :’’علا مہ اقبال نے عر فان ذات پر بہت زوردیا ہے
،انسانی شخصیت کی تعمیر انکے نزدیک منت کش ’’خودی‘‘ہے ،جبتک عر فان ذات نہ
حا صل ہو ،اس وقت تک زندگی میں نہ سو ز و مستی ہے اور نہ جذبۂ و
شوق‘‘……خودی کے حوا لے سے کم و بیش یہی مفہو م آپ تقریبا تمام ما ہرین اقبا
لیات کے ہاں پا لیں گے ،مگر قیام و سجود کو علامہ اقبال نے خودی اور بے
خودی کا جو استعا رہ بنا دیا ،اس تک رسائی سید صا حب ؒ کا ہی حصہ تھا چنا
نچہ وہ لکھتے ہیں کہ :’’اقبا ل کی لطافت حس دیکھئے کہ وہ نماز میں سجدے کو
بے خودی اور قیام کو خودی کا اظہار سمجھتے ہیں اور عبا دت کی محویت میں بھی
عبدیت کی انفرا دیت اور اس کا تیکھا پن بر قرار رکھنا چا ہتے ہیں
علا مہ اقبال کی شا عری میں اسلا میات کاجو رمز ہے ،انکی تخلیقی شخصیت
اورفکری وجود میں تکمیل فرما ن الہی کی جو دھڑ کنیں دھڑک رہی ہیں اور عشق
محمدی ﷺ کے نو رانی ارتعا شات کی جو لہریں مو جزن ہیں ان کا اکتشافی اظہار
ہر کسی کے لئے ممکن نہیں،اس کے لئے ادبی عر فان ،اضطراب آسا ذہن اور آشفتہ
جو لانی کے سا تھ آہ سحر گا ہی اور حب نبی ﷺسے معمو دل چا ہئے اور یہی دل
ہے سید صا حب ؒ کے سینے میں ۔انہو ں نے اقبا ل کے تخلیقی وجود میں اترکر اس
کے پر اسرار ابعاد کو ایک شفاف آئینہ عطا کیا ہے ،جس میں اقبال اپنی وجد
انگیز کیفیت اور نشا ط و سرور سے معمور لمحوں میں ڈوبے نظر آتے ہیں ،یہا ں
ان کے تخلیقی جوہر میں رخشندگی پیدا ہو جا تی ہے ،عشق کی کئی معنیا تی
جہتیں ان پر منکشف ہو جا تی ہیں ،انکی شا عری کا جا دو سر چڑ ھ کر بو لتا
ہے ،عشق و محبت کی زبان دل کا تر جمان بن جا تی ہے ،آنکھو ں سے اشکوں کے
گہر برستے ہیں ،حدی خواں کا نغمہ انکے آتش شوق کو مزید بھڑ کا تا ہے اور
انکے سا زدل پر مو ٔثر و بلیغ اشعار مچلنے لگتے ہیں،سید صا حب ؒ کی نظر میں
اس موضوع پر کلام اقبال کا ثانی کسی کا کلام نہیں :’’……انہوں نے رسو ل اعظم
ﷺ کے حضور میں اپنے دل ،اپنی محبت ،اپنے اخلاص اور اپنی وفا کی نذر پیش کی
اور آپ ﷺ کو مخا طب کرکے اپنے جذبات و احساسات ،اپنی ملت اور اپنے معا شرہ
کی دل گداز تصویر کھینچ کر رکھدی ،ایسے مو قع پر انکی شا عری کے جو ہر خوب
کھلتے تھے اور معا نی کے سوتے پھو ٹ پڑ تے تھے ،وہ حقا ئق جن کی زمام مضبو
طی سے انہوں نے گرفت میں رکھی تھی ،اس وقت بے حجاب و بے نقاب ہوکر سا منے
آتے اور اپنا خو ب رنگ دکھا تے
بحرفے می تواں گفتن تمنا ئے جہا نے را من ازشوق حضوری طول دادم داستانے را
ا س مو قع پر انکا کلام سب سے زیادہ جا ندار ،طا قتور ،مو ٔثر ،انکے جذبا ت
کا صحیح تر جمان ،انکے تجر بات کا نچو ڑ ،انکے عہد کی تصویر اور انکے نازک
ترین احساسات کا آئینہ دار ہے…… ‘‘سید صا حب ؒ کے فر یم ورک میں اقبال کی
جو تصویر ہے وہ آج کے اقبا ل شنا سوں سے بہت کچھ مختلف ہے ،آج اقبال کو قو
می اور وطنی شا عر کہہ کر انہیں محدود دائرے میں قید کرنے کی روش چل پڑی ہے
،شا ید اسکی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس عظیم شاعر پر کچھ عصبیتی ذہنیت کی طرف
سے ہ الزام عا ئد ہو تا ہے کہ اقبا ل فر قہ پرست تھے اور وطن دوستی سے و ہ
دور تھے ،جسکی تر دید علی سر دار جعفری کو ان الفا ظ میں کر نی پڑی :’’یہ
بات خاص طور سے کہنا چا ہتا ہو ں کہ جس طرح مہا تما گا ندھی اور ٹیگور ہندو
تھے ،اسی طرح اقبا ل مسلمان تھے ،لیکن ان بزرگوں کے دلوں میں سارے بنی نوع
انسان کا دردتھا (اقبال شنا سی)……سید صا حب ؒ یہی بات کہہ کر کتنے ہی اقبا
ل شناسوں کی نیندیں اڑا دیتے ہیں کہ :’’جو چیز اقبا ل کو اپنے ہم عصروں سے
ممتا ز کر دیتی ہے ،وہ ہے انکی شاعرانہ عظمت ،ادبی قو ت ،فنی ذہانت ،جبلی
عبقریت اوران سب کے ساتھ ساتھ اسلام کا پیغام !اقبال نہ قومی شاعر تھے اور
نہ ہی وطنی شاعر اور نہ عام روما نی شاعروں کی طرح انکی شا عری شراب و شا
ہد کی مر ہون منت تھی اور نہ انکی شاعری نری حکمت و فلسفہ کی شاعری تھی
،انکے پاس اسلام کی دعوت اور قرآن کا پیغام تھا ،جس طرح ہو ا کے جھو نکے
پھو لو ں کی خوشبو پھیلا تے ہیں اور جس طرح اس زمانے میں برقی لہروں سے
پیغا مات پہو نچا نے کا کام لیا جا تا ہے ،اسی طرح اقبا ل بھی اپنے اس
پیغام کو شعر کی زبان میں کہتے تھے تاکہ انکے پیغام کے لئے شعر بر قی لہروں
کا کام دے ،بلا شبہ اقبا ل کی شا عری نے خواب غفلت میں پڑی ہوئی قوم کو
بیدار کر دیا اور انکے دلو ں میں ایمان و یقین کی چنگا ری پیدا کر دی
‘‘(ایضا صفحہ ۵۴)
در اصل اس نکتے میں اثبات کا پہلو ہی سید صا حب ؒ کا مطمح نظر ہے ،جو شا عر
اسلام کے آفا قی نظام کا داعی ہو گا یقینا اس سے وطنیت کو علیحدہ نہیں کیا
جا سکتا ،کیو نکہ اسلام ایسے حب و وطن کو جو عصبیت اور رنگ و نسل سے پاک ہو
،تقا ضہ ٔایما ن تصو ر کر تا ہے ۔
نظم ’’مسجد قر طبہ ‘‘میں اقبال نے فن و زندگی کے بہت سے نظریات و اقدار کی
شمع فر و زاں کی ہے ،انکی شعری شخصیت اس نظم میں بھرپور تو انائی کے سا تھ
جلو ہ نما ہو ئی ہے ،یہ نظم انکی شا ہکار نظمو ں میں شا مل ہے ،اس نظم میں
اقبال کی ایما نی لہریں بے کر ا ں جذبا ت کے سا حل سے ٹکرا تی ہو ئی محسوس
ہو تی ہے ،مسجد قر طبہ کے منبر و محراب ،اسکے درو دیوار ،اسکے نقش و نگار
،اسکا جمال و جلال ،اسکی پختگی اور مضبوطی ،اسکی رفعت و بلندی ،اسکی
دلآویزی و رعنا ئی ، اسکے پر عظمت ستو نو ں اور اسکے عا لیشان منا رے اوران
منا روں سے گو نجتی ہو ئی رو ح عا لم کو تھرا دینے والی اذا نوں میں اقبا ل
نے اسلامیات کے جن استعا راتی پیکر کو اپنی ذکا وت و فطانت اور اپنے علم و
بصیر ت سے دیکھا ہے ،ان استعا رات کا اکتشاف سید صا حت ؒ کا ہی حصہ تھا
،جنکو انہو ں نے اپنی فکری مد رکات اورعلمی و ادبی صلا حیت کے ذریعے مختلف
تمثیلی حو الو ں سے و اضح کر دیا ،چند اقتبا سات ملا حظہ ہو ں:
’’اقبال کی نظر میں یہ وقیع و رفیع مسجد اپنی مجموعی تصویر و تا ثیر میں
مومن کی تعبیر اور اسکے معنوں کی ما دی تفسیر ہے ،جلال جمال ،پختگی اور
مضبو طی ،وسعت و رفعت اوراپنی دلآویزی و رعنائی میں مسلمان کی ہو بہو شبیہ
(TRUECOPY)مسجد کے بلند و با لا ستو نوں کی ہیبت سے انہیں صحرا ئے عرب کے
وہ نخلستان یاد آتے ہیں ،جو اپنی کثرت و رفعت میں اسکی مثال ہیں ،وہ اسکی
جا لیوں اورجھر وکوں میں ایک ربانی نور اور ایک خدائی روشنی کا ظہور دیکھتے
ہیں اور اسکے بلند منا روں کو رحمت الہی کا مہبط اور فرشتوں کی فرود گاہ
سمجھتے ہیں اور ایمان و یقین کے جذبے سے سر شار ہوکر فر ما تے ہیں کہ
مسلمان بھی زندہ جا وداں ،لافا نی او ر لا زوال ہے اسلئے کہ وہ ابراہیم و
مو سی ؑاور تمام انبیاء کے اس لا فا نی پیغام کا حامل وامین ہے ،جسے اﷲ نے
بقا ئے دوام اور ابدی استحکام عطا کیا ہے اور یہ امت دنیا میں جسکی داعی و
نقیب ہے ……‘‘۔(ایضا صفحہ ۱۴۹تا۱۵۰)
’’……پھر مسجد قر طبہ سے مخا طب ہو کر کہتے ہیں کہ تو دنیا میں مو من کے
خواب کی تعبیر اور اسکی اولو العزمیوں کی تشریح و تفسیر ہے اور خشت و سنگ
اور تعمیر ی رنگ و آہنگ میں مو من کی روح کا ظہور ،تو اپنے وجود میں سر مو
من کا افشائے راز اور اسکی لیل ونہار کا سو ز و گدا ز ہے اور ترے پیکر جمیل
سے اسکے بلند احوا ل ومقا مات اور ار جمند افکار و خیا لات کی چہرہ کشائی
ہو رہی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ مو من کا ہاتھ اپنی کار کشائی اور کار سا زی
،اپنی مشکل کشائی اور تازہ کا ری ،فتح و ظفر ،قوت و سطوت اور غلبۂ وا قتدا
ر کے لئے دنیا میں خدا کا ہاتھ اور قدرت الہی کا ایک ذریعہ ہے ……‘‘(ایضا
صفحہ ۱۵۱)
’’……اقبا ل کہتے ہیں ،اسپین میں با وجود مغر بیت کے عر بی خون کی لا لہ
کاری ،اسکی چمن بندی میں مصروف ہے اور اندلسیوں میں آج بھی عر بوں کے اثر
سے روح کی لطا فت و خوشدلی ،مہمان نوازی و گر مجوشی ،سا دگی اورمشرقیت کا
جمال با قی ہے ،خو شبو ئے نجد و یمن سے آج بھی اسکی ہو ائیں معطر اورفضا
معنبر ہیں اور آہنگ حجاز و عراق کی صدا ئے با ز گشت وہاں اب بھی سنی جا
سکتی ہے ……‘‘(ایضا صفحہ ۱۵۲تا۱۵۳)۔
یہ کتاب سید صا حب ؒ کے فکری انفرا دکا تخلیقی استعا رہ اور معتبر و مستند
حو الہ بن کر نا قدین کی تو جہ کا مر کز بنی ہے ،جو عام اقبال شنا سوں سے
ہٹ کر لکھی گئی ہے ،اس کتا ب کے سا رے مشمو لات اہمیت کے حا مل ہیں ،اس
کتاب میں افکار و خیالات اقبا ل کے لب لباب کو سید صا حب ؒ نے اپنے اکتشا
فی ذہن سے پیش کیا ہے ،اسلئے اس کتاب کی افادیت وانفرا دیت اور آفا قیت ہر
دور میں مسلم رہے گی ۔
غلط نگر ہے تری چشم نیم باز ابتک
ترا نیاز نہیں آشنا ئے نا زابتک
گسستہ تار ہے تری خودی کا ساز ابتک
ترا وجود ترے واسطے ہے راز ابتک
کہ ہے قیام سے خالی تری نماز ابتک
کہ تو ہے نغمہ ٔ رو می سے بے نیا ز ابتک
{ ’’نقوش اقبال‘‘پھول میں خوشبواور ستا روں میں روشنی کی تمثیل‘‘ |