چنگ چی رکشہ کی بندش

 میرے وطن عزیز کے صاحب اختیار لوگوں کا یہ ایک عجیب دستور ہے کہ جب بھی پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے تب ہی عملی اقدامات کی طرف توجہ کی جاتی ہے ۔برائی کو شروع میں روکنے کی بجائے اس پھلنے پھولنے دیا جاتا ہے جب یہ خوب پھیل جاتی ہے تو پوری دیانت داری سے اس کے خاتمہ کی طرف توجہ کی جاتی ہے ۔ اور ایسی تندہی سے کام کیا جاتا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ اس پر داد دی جائے یا ماتم کیا جائے ۔ ایسے ہی کچھ غیر قانونی کاموں کی روک تھام کے لئے حکومتی ادارے گویا خواب غفلت سے بیدار ہوئے اورغیر قانونی تجاوزات تعمیرات اور چنگ چی رکشہ چلانے والوں کے خلاف زبردست کریک ڈاون دیکھنے میں آیا ۔ اسلام آباد کے نواحی علاقے جی الیون میں غیر قانونی آبادی کے خلاف کاروائی کی گئی ۔ اور غریبوں کے گھر مسمار کر دیئے گئے جو انہوں نے 2005 سے تعمیر کر رکھے تھے ۔ کسی نے یہ نہ سوچا کہ ان کو کہاں اور کیسے متبادل جگہ فراہم کی جائے گی اور ان کی رہائش کا کیا انتظام ہوگا ۔ شدیدگرمی اور سیلاب کی اس صورتحال نے غریبوں کی زندگی کومذید اجیرن بنا دیا ہے ۔

یوں لگتا ہے کہ غریب ہونا ایک مسلسل جرم ہے جو نہ تو کہیں اپنا ٹھکانا کر سکتا ہے اور نہ ہی باعزت روز گار کما سکتا ہے ۔ کراچی میں غریبوں کی سواری چنگ چی کے خلاف بھی قانونی کاروائی عمل میں لائی گئی اور باقائد ہ عدالت سے آرڈر حاصل کئے گئے ۔ اور یوں سینکڑوں کی تعداد میں چنگ چی رکشہ کے خلاف کاروئی کرکے پکڑ دھکٹر کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔

اس سلسلے میں کراچی پولیس کا یہ کہنا ہے کہ عدالت میں ایک سال سے چنگ چی رکشہ کے خلاف کیس دائر کر رکھا تھا جس کا فیصلہ آتے ہی اس کے خلاف کاروائی کی گئی ۔جب ان کے سامنے یہ موقف رکھا گیا کہ جو غریب بچارے اس کاروبار میں سرمایہ لگا بیٹھے ہیں وہ کس طرح قرضہ کی رقم پوری کریں گے۔ سواری کا کیا متبادل انتظام ہوگا ۔ اور بے روزگار ہونے والے ہزاروں چنگ چی چلانے والوں کا کمانے کا اور کیا زریعہ ہوگا ۔ تو ان کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا ۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ رکشہ کو یوں بند کرنے کی بجائے پہلے کچھ ایسے مثبت قدم اٹھائے جاتے کہ چنگ چی رکشہ کے سفر کو محفوظ بنا کر غریبوں کی اس سواری کو چلنے دیا جاتا ۔

اس سلسلے میں بہت سے اقدامات اٹھائے جاسکتے تھے ۔ مثلا ۔ قانونی طور پر لائینس جاری کئے جاتے ۔ رکشوں کے چھوٹے روٹ مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ رکشہ سٹینڈ کے لئے جگہ مخصوص کردی جاتیں ۔ رکشہ بنانے والی فیکٹریوں کو مقررہ تعدا دسے زیادہ رکشے بنانے سے روکنے کے لئے مناسب ہدایات جاری کی جاتیں ۔

یہ وہ چند ایک اقدامات اگر اٹھا لئے جاتے تو شاید رکشہ بند کرنے کی نوبت ہی نا آتی ۔ چنگ چی رکشہ بند کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اس سے ٹریفک کے حادثات میں اضافہ ہورہا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ وہ ٹر یفک جو اس وقت سڑکوں پر رواں دواں ہے کیا ان میں سے کسی کو کبھی کوئی حادثہ پیش نہیں آیا ۔ آئے روز ویگن اور ٹرک میں بھی تصادم دیکھنے میں آتا ہے ۔تو ٹرک پر کیوں نہیں پابندی لگا دی جاتی ۔ بسوں اور کوچ میں بھی تصادم دیکھنے میں آتا ہے تو کیا بسوں یا کوچ کو کیوں بند نہیں کیا گیا ۔ حادثات تو ریلوے اور جہاز کے بھی ہوجاتے ہیں تو کیا ان کو بھی بند کر دیا جائے -

کچھ عرصہ قبل ٹانگہ کو بھی اس وجہ سے بند کردیا گیا کہ یہ بھی ٹریفک حادثات کا باعث ہیں ۔ اب ٹانگے محض بچوں کی تفریح کے لئے ہی کہیں نہ کہیں نظر آجاتے ہیں ․

چنگ چی رکشہ کو بند کرنے کی دیگر وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اس میں اورلوڈنگ کی جاتی ہے ۔ یہ محفوظ سواری نہیں ۔ اور پتہ ہی نہیں چلتا کب الٹ جائے ۔

مزید یہ کہ عوام کی سیفٹی اور سہولت کے لئے اس کو بند کرنا ضروری تھا ۔ رکشے میں اضافی سیٹیوں سے اس کی لمبائی پڑھی جس سے ایکسیڈنٹ کے خطرات بھی کئی گنا بڑھ گئے ۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ پہلے عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرتے ہوئے متبادل انتظام کیا جاتا ۔ اس کے بعد ایسے اقدامات مرحلہ وار سر انجام دیئے جاتے ۔ بسیں اور ویگن چلائی جاتیں ۔کوچ کا انتظام کر لیا جاتا ۔

ہر رکشہ چلانے والا اپنے مالک کو روزانہ کا سو دوسو لازمی دیا کرتا تھا ۔ اسی طرح قسطوں پر لئے رکشوں کی قسط کی ادائیگی بھی اب بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ اس کی ادائیگی کہا ں سے کی جائے گی ۔

آخر آجاکے ایک غریب پر ہی کیوں افتاد ٹوٹتی ہے ۔ کیا کبھی کسی نے غریبوں کے گھر جاکر ان سے پوچھا کہ اس تمام صورتحال کے بعد ان کا کیا حال ہے ان کی گزر بسر کیسے ہورہی ہے ۔ ان کا روز گار ختم ہوا تو وہ اب کیا کریں گے ۔

ہمارے وہ حکمران جو اربوں کی کرپشن کرتے اور ملک و قوم کا نقصان کرتے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ کبھی ان کے خلاف بھی ایسا ہی کریک ڈاون کیا جائے ۔اور ان کی لوٹی ہوئی دولت سے غریب طبقہ کو بہتر سہولیات اور روز گار کے معقول مواقع فراہم کئے جائیں ۔
 
Maryam Samaar
About the Author: Maryam Samaar Read More Articles by Maryam Samaar: 49 Articles with 52628 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.