ہمارا معاشرے کا فساد اور اسکی اصلاح

دنیا تباہ ہوتی ہے ہوجائے ،معاشرے میں فساد پھیلتا ہے پھیل جائے ،عزتیں نیلام ہوتیں ہیں ہوجائیں،لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ہوتے رہیں ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ہم اپنی خاندانی رسم و رواج ،اپنے خود ساختہ بنائے ہوئے اصول ،اپنی انا اور اپنی خواہشات کو قربان کے لئے لئے تیار نہیں آج بہت سی برائیاں اسی ہیں جس کو ہم برائی سمجھتے ہیں ،دل و دماغ سے اس کام کو برا جانتے ہیں لیکن ہم وہ طرز عمل چھوڑنے کو تیار نہیں ، کیوں؟؟ کیونکہ ہمیں خاندان والوں کا ڈر ہے کہ وہ طعنے دیں گے اور آپکی عزت کی عمارت جو آپنے اپنے ذھن میں اپنے لئے بنا رکھی ہے وہ ان طعنوں سے پاش پاش ہوجائے گی،اور اس بگڑے ہوئے معاشرہ کی باتوں کے ڈر سے آپ ان برے اعمال کو چھوڑنے کو تیار نہیں،

ایک کام جو برا ہو اللہ اور اسکے رسول کی منشاء کے خلاف ہو ایسے امور انجام دے کر کیا ہم یہ عذر پیش کرکے اللہ کی عدالت میں سرخرو ہوسکتے ہیں ،کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اے اللہ مین نے اپنے خاندان کی وجہ سے معاشرے کی وجہ سے تیری نافرمانی کی مجھے معاف کردے، تو اسکے عدل کی طرف نظر کی جائے اور دیکھا جائے کہ ھمارے یہ عذر اللہ معٖقول ہیں یا نہیں؟ اب ایک نظر ان چیزوں پر ڈالتے ہیں جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے ،اور جس کو ہر عقل مند انسان ناپسند کرتا ہے لیکن اپنی بزدلی اور خوامخواہ کے ڈر کی وجہ سے ہم ان اعمال کو اختیار کئے ہوئے ہیں

۱) شریعت نے شادی نہایت آسان بنائی ہے ،بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جو سہولت کے ساتھ ہوجائے ،اب شادی کے معاملے میں سب کی زبانی رائے تو یہی ہوتی ہے کہ آسان شادی ہوجائے سادگی سے شادی کرنی چاہیے لیکن عمل کرتے وقت کسی کی ہمت نہیں ہوتی ،اور وجہ اسکی وہی ہے جو اوہر بیان ہوئی کہ معاشرے کا خودساختہ خوف، اور پھر کیا ہوتا ہے کہ شادی کی فضول رسموں میں خرچ کے لئے پیسے جمع کرنے ہوتے ہیں جہیز کے خاطر خواہ انتظامات کرنے ہوتے ہیں پھر کیا ہوتا ہے کہ معاشرے میں اس وجہ سے زنا عام ہوتا ہے ،خودکشیاں ہوتیں ہیں، عزتیں نیلام ہوتی ہیں، باپردہ نوجوان بچیاں مجبور ہوتی ہیں کہ وہ گھر سے باہر نکل کر اپنا جہیز کے لئے پیسے جمع کریں، تو اس معاشرے کی برائی کا رونا تو ہر کوئی روتا ہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ ہم سب کا برابر کا حصہ ہے اس فساد کو پھیلانے میں ،ہمارے اعمال ،کردار سوچ سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے ،

۲)اللہ نے بیوہ عورتوں کو شادی کرنے کی اجازت دی ہے ان کے لئے دوسری شادی کرنے پر کوئی قدغن نہیں لگائی ہے ،اور ہم بھی زبانی طور پر یہی کہتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں بیوہ عورت کی شادی کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے ،پھر کیا ہوتا ہے کہ یہ عورت ہھوک افلاس سے تنگ آکر یا خودکشیاں کرتی ہیں یا پھر اللہ بچائے برے کاموں کی طرف چلی جاتیں ہیں، تو کیا اگر ہم خوش دلی سے ان کی شادیاں کرنے کو قبول نہیں کرسکتے ،یا پھر مرد حضرات دو شادیاں کریں اور دوسری شادی کرتے وقت ایسی بے سہرا عورتیں یا بیوہ عورتیں یا غریب گھرانوں کی عورتوں سے شادی کو ترجیح دیں تو کیا بہت سے مسائل حل نہیں ہوجائیں گے ،لیکن مسائل حل کرنا کس کو ہے ہمیں تو بس معاشرے کے خراب ہونے کا رونا رونا ہے
اس طرح کے مسائل کی پوری ایک فہرست ہے کہ ہم کس طرح سے معاشرے کے دباو مین آکر علط راہ پر چلتے جارہے ہیں اور کوئی پرواہ نہیں کررہے، مضمون طویل ہوگیا ان شاء اللہ پھر کبھی ان پر بات ہوگی۔
مولوی سید وجاہت وجھی
About the Author: مولوی سید وجاہت وجھی Read More Articles by مولوی سید وجاہت وجھی: 6 Articles with 10470 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.