بلھن: دنیا کی واحد نابینا ڈولفن ہے 

دریائے سندھ میں موجود بلھن کی آنکھیں ہمیشہ سے ناپید نہ تھیں بلکہ دنیا بھر میں پائی جانے والی ڈولفن کی یہ واحد قسم ہے٬ جو دریائے سندھ کے گدلے پانیوں کو اپنی آنکھیں دے بیٹھی ہے- بلھن کو دنیا میں کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے مثلاً انڈس ڈولفن٬ بلائنڈ ریور ڈولفن٬ ڈیلفن ڈی انڈو٬ انڈس سوسو اور سائیڈ سوئمنگ ڈولفن وغیرہ- انڈس ڈولفن کا سائنسی نام “ پلے ٹانسٹا انڈیکا “ اور “ پلے ٹانسٹا گینگی ٹیکا مائنر “ ہے- حیاتیات کے مطابق بلھن میملز کے گروپ میں شمار ہوتی ہے اور یہ دنیا کی واحد ڈولفن ہے٬ جس کی آنکھیں نہیں ہیں-

سائنسی تحقیق کے مطابق دریائے سندھ میں صدیوں سے رہنے کی وجہ سے گدلے اور سلٹ آمیز پانی نے اس کی آنکھوں کو بے نور کر دیا ہے لیکن یہ روشنی کے رخ اور شدت کے سہارے اپنی سمت کا تعین کر لیتی ہے یعنی بلھن میں موجود سونر سسٹم(Sonar System) سمت نمائی کا کام دیتا ہے-

ایک صحت مند اور جوان بلھن کا وزن 80 سے نوے کلو گرام ہوتا ہے اور یہ 8 سے 33 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت تک زندہ رہ سکتی ہے- مادہ بلھن کا قد زیادہ سے زیادہ 2.5 میٹر جب کہ نر کا قد 2 میٹر تک ہوتا ہے- بلھن دس سال کی عمر میں افزائشِ نسل کے قابل ہو جاتی ہے اور اس کی اوسط عمر 28 سال ہے- وضع حمل کا دورانیہ 10ماہ ہوتا ہے بچے عموماً موسم بہار میں پیدا کرتی ہے اور 2 سال تک نومولود بچے کو اپنے ساتھ رکھتی ہے- نوزائیدہ بچے کا قد تقریباً 70 سینٹی میٹر ہوتا ہے- نوجوان بلھن کے ہر دو طرف 30 سے 36 نوکیلے دانت ہوتے ہیں- اس کی خوراک میں چھوٹی مچلھیوں ( کیٹ فش٬ کارپ وغیرہ ) کے علاوہ جھینگے٬ کچھوے اور متعدد آبی پرندے شامل ہیں- بلھن سانس لینے کی غرض سے ہر 30 سے 120 سیکنڈ کے وقفے میں سطح آب پر ضرور آتی ہے-
 


بلھن دنیا بھر میں ڈولفن کی دوسری ایسی کم یاب ترین قسم ہے٬ جسے معدومیت کا شدید خطرہ لاحق ہے- آئی یو سی این ( انٹرنیشل یونین فار دی کنزرویشن آف نیچر اینڈ نیچرل ری سورسز ) کی دستاویز “ ریڈ ڈیٹا بک “ میں انڈس ڈولفن کو مسلسل معدوم ہوتی نسل قرار دیا گیا ہے- آبی حیات کے ماہرین کے مطابق انڈس ڈولفن کی افزائش میں کمی کی سب سے بڑی وجہ دریائے سندھ کے زیریں حصے میں موجود بلھن کی٬ بیراجوں کی مزاحمت کے باعث بالائی پانیوں میں بسنے والے اپنے خاندان سے ملاپ سے محروم رہنا ہے- علاوہ ازیں پنجاب اور سندھ کا نہری نظام بھی تازہ پانیوں کی اس جل پری کی فطری نقل و حرکت میں مزاحم ہے-
 


ماہرین کے مطابق دریائے سندھ کے ہیڈ ورکس سے نکالی گئی نہروں کو پانی دینے کی غرض سے بیراجوں پر رکاوٹ کے طور پر جو قد آدم پشتے ( Ladders ) بنائے گئے ہیں٬ انہیں ہٹا کر ایسی رکاوٹیں بنائی جائیں جن سے کم از کم زیریں اور بالائی سندھ میں بسنے والے بلھن کے خاندان آزادانہ جنوب سے شمال کی جانب سفر کر کے ایک دوسرے سے مل اور افزائش جاری رکھ سکیں- تاہم امریکا اور جاپان کے بعد پاکستان دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں مقامی طور پر ڈولفن کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں- اس ضمن میں گزشتہ کئی برس سے سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے بلھن کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں-

YOU MAY ALSO LIKE: