گولڈامائر کی دلیل میں وزن تھا۔ لہٰذا
اسرئیلی کابینہ کو اس سودے کی منظوری دینا پڑی۔ اور آنے والے وقت نے ثابت
کر دیا کہ گولڈامائر کا اقدام صحیح تھا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا، اسی اسلحے
اور جہازوں سے یہودی عربوں کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے جنگ ہوئی اور عرب
شکست سے دو چار ہو گئے۔
جنگ کے ایک عرصے بعد واشنگٹن پوسٹ کےنمائندے گولڈامائر کا انٹرویو لینے کے
لئے آئے اور انہیں میں سے ایک نے یہ سوال کیا؛ امریکہ اسلحہ خریدنے کے لئے
آپ کے ذھن میں جو دلیل تھی، وہ فوراً آپ کے ذہن میں آئی تھی یا پہلے سے اس
کی حکمت عملی تیار کر رکھتی تھی۔
گولڈامائر نے جو جواب دیا وہ چونکا دینے والاتھا۔ وہ بولی!!! میں نے یہ
استدلال اپنے دشمنوں (مسلمانوں) کے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے لیا تھا۔
میں جب طلبہ تھی تو مذاہب کا موازنہ میرا مشغلہ تھا۔ انہی دنوں میں میں نے
محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سوانح حیات کا مطالعہ کیا تھا اس کتاب میں
مصنف نے ایک جگہ لکھا تھا کہ جب محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا
تو ان کے گھر میں اتنی رقم نہیں تھی کہ چراغ جلانے کے لیے تیل خریدا جا سکے۔
لہٰذا ان کی اہلیہ ( حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا) ان ذرہ بکتر رہن رکھ
کر تیل خریدا۔ لیکن اس وقت بھی محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے حجرے کی
دیواروں پر نو(٩) تلواریں لٹکی ہوئی تھی۔ میں نے جب یہ واقہع پڑھا تو میں
نے سوچا کہ دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور
اقتصادی حالات سےواقف ہوں گے۔ لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح ہیں اور یہ
بات پوری دنیا جانتی ہے۔
لہٰذا میں نے فیصلہ کر لیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا
پڑے پختہ مکانوں کے بجائے اگر خیمے میں رہنا پڑے تو بھی اسلحہ خریدیں گے
اور فوج کو مضبوط ثابت کریں گے اور فاتح کا اعزاز پائیں گے۔
گولڈامائر نے اس حقیقت سے تو پردہ ہٹا دیا مگر ساتھ ہی انٹرویو نگار سے
درخواست کی اسے “ آف دی ریکاڈ“ رکھا جائے۔ اور اس کو شائع نہ کیا جائے۔ وجہ
یہ تھی، مسلمانوں کا نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام لینے سے جہاں اس
کی قوم کو فوقیت ملے گی۔ چنانچہ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندہ نے یہ واقعہ حذف
کردیا۔
وقت دھیرے دھیرے گزرتا گیا یہاں تک کے گولڈامائرکا انتقال ہو گیا۔ اور وہ
انٹرویو نگار بھی صحافت سے الگ ہو گیا۔ اس دوران ایک اور نامہ نگار امریکہ
کے بیس بڑے نامہ نگاروں کا انٹرویو لینے میں مصروف تھا اس سلسلے میں وہ اسی
انٹرویو نگار کا لینے لگا۔ اس انٹرویو نگار نے گولڈامائر کا واقعہ بیان
کردیا۔ اس نے کہا کہ اب یہ واقعہ بیان کرنے میں مجھے شرمندگی محسوس نہیں ہو
ری ہے۔
گولڈامائر کا انٹرویو کرنے والے نے مزید کہا “ میں نے اس سلسلے میں تاریخ
اسلام کا جب مطالعہ کیا تو میں عرب بدوؤں کی جنگی حکمت عملی پڑھ کر دنگ رہ
گیا، کیوں کہ مجھے معلوم ہوا کہ طارق بن زیاد جس نے جبرالٹر فتح کیا تھا اس
کی فوج کے آدھے سے زیادہ سپاہیوں کے پاس پورا لباس تک نہیں تھا۔ وہ لوگ ٧٢
گھنٹے سے زیادہ ایک چھاگل پانی اور سوکھی روٹیوں پر گزارہ کرتے تھے۔ یہ وہ
موقع تھا کہ جب گولڈامائر کا انٹرویو نگار قائل ہو گیا کہ “ تاریخ فتوحات
گنتی ہے دسترخوان میں کتنے انڈے، مکھن اور جیم و جیلی نہیں۔
گولڈامائر کا اپنا انٹرویو جب کتابی شکل مں منظر عام میں آیا۔ تو دنیا اس
ساری داستان سے آگاہ ہو گئی۔ یہ حیرت انگیز واقعہ تاریخ کے جھروکوں سے
جھانک جھانک کر مسلمانان عالم کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ بیداری کا درس دے رہا ہے۔
ہمیں سمجھا رہا ہے کہ ادھڑی عباؤں اور پھٹے جوتوں والے گلہ بان، چودہ سو
برس قبل کس طرح سے جہاں بانی کرنے لگے؟ ان کی ننگی تلوار نے کس طرح چار
براعظم فتح کر لیے۔
مسلمانوں اپنی ہی تاریخ سے کچھ تو سبق حاصل کر لو۔ یہی تو ہمارے بزرگوں کی
وراثت ہے اس میں صرف عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ جب یہودی، نصرانی، مشرک
مسلمانوں کے خلاف ایک ہو سکتے ہں کیا ہم مسلماں قوم ایک نہیں ہو سکتی جب کہ
الله رب العزت نے ہمیں اپنے پیارے رسول محمد العربی خاتم النبین صلی الله
علیہ وآلہ وسلم کی ایک امت قرار دیا ہے اور فرمایا کہ تم مسلمان آپس میں
بھائی بھائی ہو تو پر یہ فساد کیسا۔ الله ہم سب کو دین اسلام پر چلنے کی
سچی امنگ عطا فرمائے۔ اور تاریح اسلام کا صرف مطالعہ ہی نہیں بلکہ اس پر
عمل کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین |