حقیقت میلاد النبی - باونواں حصہ

مدینہ منورہ میں محفلِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد:-

ولأهل المدينة. کثرهم اﷲ تعالي. به احتفال وعلي فعله إقبال وکان للملک المظفر صاحب ’’أريک‘‘ بذالک فيها أتم العناية واهتمامًا بشأنه جاوز الغاية، فأثني عليه به العلامة أبو شامة أحد شيوخ النووي السابق في الاستقامة في کتابة الباعث علي البدع والحوادث. وقال مثل هذا الحسن : يندب اليه ويشکر فاعله ويثني عليه. زاد ابن الجزري : ولو لم يکن في ذالک إلا إرغام الشيطان وسرور أهل الإيمان.

قال يعني الجزري : وإذا کان أهل الصليب اتخذوا ليلة مولد نبيهم عيداً أکبر فأهل الإسلام أولي بالتکريم وأجدر.

’’اہل مدینہ۔ اﷲ انہیں زیادہ کرے۔ بھی اسی طرح محافل منعقد کرتے ہیں اور اس طرح کے امور بجا لاتے ہیں۔ بادشاہ مظفر شاہِ اریک اس معاملے میں بہت زیادہ توجہ دینے والا اور حد سے زیادہ اہتمام کرنے والا تھا۔ علامہ ابو شامہ (جو امام نووی کے شیوخ میں سے ہیں اور صاحب استطاعت بزرگ ہیں) نے اپنی کتاب الباعث علی البدع والحوادث میں اس اہتمام پر اس (بادشاہ) کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اس طرح کے اچھے امور اسے پسند تھے اور وہ ایسے افعال کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اور تعریف کرتا تھا۔‘‘ امام جزری اس پر اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان امور کی بجا آوری سے صرف شیطان کی تذلیل اور اہل ایمان کی شادمانی و مسرت ہی مقصود ہو۔ آگے مزید فرماتے ہیں کہ جب عیسائی اپنے نبی کی شبِ ولادت بہت بڑے جشن کے طور پر مناتے ہیں تو اہل اسلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کے زیادہ حق دار ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت پر بے پناہ خوشی و مسرت کا اظہار کریں۔‘‘

ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونسبه الطاهر : 15، 16

ملا علی قاری (م 1014ھ / 1606ء) اِمام برہان الدین بن جماعہ شافعی (725۔ 790ھ / 1325۔ 1388ء) کے معمولاتِ میلاد شریف کی بابت لکھتے ہیں :

فقد اتصل بنا أن الزاهد القدوة المعمر أبا إسحاق إبراهيم بن عبد الرحيم بن إبراهيم جماعة لما کان بالمدينة النبوية علي ساکنها أفضل الصلاة وأکمل التحية کان يعمل طعاماً في المولد النبوي، ويطعم الناس، ويقول : لو تمکنت عملت بطول الشهر کل يوم مولدا.

’’ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ زاہد و قدوہ معمر ابو اِسحاق بن اِبراہیم بن عبد الرحیم جب مدینۃ النبی۔ اُس کے ساکن پر افضل ترین درود اور کامل ترین سلام ہو۔ میں تھے تو میلاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر کھانا تیار کر کے لوگوں کو کھلاتے تھے، اور فرماتے تھے : اگر میرے بس میں ہوتا تو پورا مہینہ ہر روز محفلِ میلاد کا اہتمام کرتا۔‘‘

ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونسبه الطاهر : 17

مصر اور شام میں محفلِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد:-

فأکثرهم بذلک عناية أهل مصر والشام، ولسلطان مصر في تلک الليلة من العام أعظم مقام، قال : ولقد حضرت في سنة خمس وثمانين وسبعمائة ليلة المولد عند الملک الظاهر برقوق بقلعه الجبل العلية. فرأيت ما هالني وسرني وما ساء ني، وحررت ما أنفق في تلک الليلة علي القراء والحاضرين من الوعاظ والمنشدين وغيرهم من الأتباع والغلمان والخدام المترددين بنحو عشرة آلاف مثقال من الذهب ما بين خلع ومطعوم ومشروب ومشموم وشموع وغيرها ما يستقيم به الضلوع. وعددت في ذلک خمساً وعشرين من القراء الصيتين المرجو کونهم مثبتين، ولا نزل واحد منهم إلا بنحو عشرين خلعة من السلطان ومن الأمراء الأعيان.

قال السخاوي : قلت : ولم يزل ملوک مصر خدام الحرمين الشريفين ممن وفّقهم اﷲ لهدم کثير من المناکير والشين، ونظروا في أمر الرعية کالوالد لولده، و شهروا أنفسهم بالعدل، فأسعفهم اﷲ بجنده ومدده.

’’محافلِ میلاد کے اہتمام میں اہلِ مصر اور اہلِ شام سب سے آگے ہیں اور سلطانِ مصر ہر سال ولادت باسعادت کی رات محفلِ میلاد منعقد کرنے میں بلند مقام رکھتا ہے۔ فرمایا کہ میں 785ھ میں سلطان ظاہر برقوق کے پاس میلاد کی رات الجبل العلیۃ کے قلعہ میں حاضر ہوا۔ وہاں وہ کچھ دیکھا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور بہت زیادہ خوش کیا اور کوئی چیز مجھے بری نہ لگی۔ میں ساتھ ساتھ لکھتا گیا جو بادشاہ نے اس رات تقسیم کیا۔ قراء اور موجود واعظین، نعت خواں (شعراء) اور ان کے علاوہ کئی اور لوگوں، بچوں اور مصروف خدام کو تقریباً دس ہزار مثقال سونا، خلعتیں، انواع و اقسام کے کھانے، مشروبات، خوشبوئیں، شمعیں اور دیگر چیزیں دیں جن کے باعث وہ اپنی معاشی حالت درست کر سکتے تھے۔ اس وقت میں نے ایسے 25 خوش الحان قراء شمار کیے جو اپنی مسحورکن آواز سے سب پر فائق رہے اور ان میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو سلطان اور اَعیانِ سلطنت سے 20 کے قریب خلعتیں لیے بغیر سٹیج سے اترا ہو۔

’’امام سخاوی کہتے ہیں کہ میرا مؤقف یہ ہے کہ مصر کے سلاطین جو حرمین شریفین کے خدام رہے ہیں ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اﷲ تعالیٰ نے اکثر برائیاں اور عیوب ختم کرنے کی توفیق عطا کر رکھی تھی۔ اور انہوں نے رعیت کے بارے میں ایسا ہی سلوک کیا جیسا والد اپنے بیٹے سے کرتا ہے۔ اور انہوں نے قیامِ عدل کے ذریعے شہرت حاصل کی۔ اﷲ تعالیٰ اس معاملہ میں انہیں اپنی غیبی مدد سے نوازے۔‘‘

ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونسبه الطاهر : 13

حجۃ الدین اِمام ابو عبد اﷲ محمد بن عبد اﷲ بن ظفر مکی (497۔ 565ھ / 1104۔ 1170ء) کہتے ہیں کہ الدر المنتظم میں ہے :

وقد عمل المحبون للنبي صلي الله عليه وآله وسلم فرحاً بمولده الولائم، فمن ذلک ما عمله بالقاهرة المعزّية من الولائم الکبار الشيخ أبو الحسن المعروف بابن قُفل قدس اﷲ تعالي سره، شيخ شيخنا أبي عبد اﷲ محمد بن النعمان، وعمل ذلک قبلُ جمال الدين العجمي الهمداني. وممن عمل ذلک علي قدر وسعه يوسف الحجّار بمصر، وقد رأي النبي صلي الله عليه وآله وسلم وهو يحرّض يوسف المذکور علي عمل ذلک.

’’اہلِ محبت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی میں دعوتِ طعام منعقد کرتے آئے ہیں۔ قاہرہ کے جن اَصحابِ محبت نے بڑی بڑی ضیافت کا انعقاد کیا ان میں شیخ ابو الحسن ہیں جو کہ ابن قفل قدس اﷲ تعالیٰ سرہ کے نام سے مشہور ہیں جو کہ ہمارے شیخ ابو عبد اللہ محمد بن نعمان کے شیخ ہیں۔ اور یہ عمل مبارک جمال الدین عجمی ہمذانی نے بھی کیا اور مصر میں سے یوسف حجار نے اسے بہ قدرِ وسعت منعقد کیا اور پھر انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوسف حجار کو عملِ مذکور کی ترغیب دے رہے تھے۔‘‘

صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 363

قوص میں جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:-

اِمام کمال الدین الادفوی (685۔ 748ھ / 1286۔ 1347ء) ’’الطالع السعید الجامع لاسماء نجباء الصعید‘‘ میں فرماتے ہیں :

حکي لنا صاحبنا العدل ناصر الدين محمود بن العماد أن أبا الطيب محمد بن إبراهيم السبتي المالکي نزيل قوص، أحد العلماء العاملين، کان يجوز بالمکتب في اليوم الذي ولد فيه النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، فيقول : يا فقيه! هذا يوم سرور، اصرف الصبيان، فيصرفنا.

وهذا منه دليل علي تقريره وعدم إنکاره، وهذا الرجل کان فقيهاً مالکيّا متفنّناً في علوم، متورّعاً، أخذ عنه أبو حيان وغيره، مات سنة خمس وتسعين وستمائة.

’’ہمارے ایک مہربان دوست ناصر الدین محمود بن عماد حکایت کرتے ہیں کہ بے شک ابو طیب محمد بن ابراہیم سبتی مالکی۔ جو قوص کے رہنے والے تھے اور صاحبِ عمل علماء میں سے تھے۔ اپنے دارا لعلوم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن محفل منعقد کرتے اور مدرسے میں چھٹی کرتے۔ وہ (اساتذہ سے) کہتے : اے فقیہ! آج خوشی و مسرت کا دن ہے، بچوں کو چھوڑ دو۔ پس ہمیں چھوڑ دیا جاتا۔

’’ان کا یہ عمل ان کے نزدیک میلاد کے اِثبات و جواز اور اِس کے عدم کے اِنکار پر دلیل و تائید ہے۔ یہ شخص (محمد بن ابراہیم) مالکیوں کے بہت بڑے فقیہ اور ماہر فن ہو گزرے ہیں جو بڑے زُہد و ورع کے مالک تھے۔ علامہ ابوحیان اور دیگر علماء نے ان سے اکتساب فیض کیا ہے اور انہوں نے 695ھ میں وفات پائی۔‘‘

1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 66، 67
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206
3. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 238

بلادِ ہند (برصغیر پاک و ہند) میں جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :-

وبلاد الهند تزيد علي غيرها بکثير کما أعلمنيه بعض أولي النقد والتحرير. وأما العجم فمن حيث دخل هذا الشهر المعظم والزمان المکرم لأهلها مجالس فِخام من أنواع الطعام للقراء الکرام وللفقراء من الخاص والعام، وقراء ات الختمات والتلاوات المتواليات والإنشادات المتعاليات، وأنواع السرور وأصناف الحبور حتي بعض العجائز. من غزلهن ونسجهن. يجمعن ما يقمن بجمعه الأکابر والأعيان وبضيافتهن ما يقدرون عليه في ذلک الزمان. ومن تعظيم مشايخهم وعلمائهم هذا المولد المعظم والمجلس المکرم أنه لا يأباه أحد في حضوره، رجاء إدارک نوره وسروره.

وقد وقع لشيخ مشايخنا مولانا زين الدين محمود الهمداني النقشبندي. قدس اﷲ سره العلي. أنه أراد سلطان الزمان وخاقان الدوران همايون بادشاه تغمده اﷲ وأحسن مثواه أن يجتمع به ويحصل له المدد والمدد بسبه فأباه الشيخ، وامتنع أيضًا أن يأتيه السلطان استغناء بفضل الرحمن فألح السلطان علي وزيره بيرم خان بأنه لا بد من تدبير للاجتماع في المکان، ولو في قليل من الزمان. فسمع الوزير أن الشيخ لا يحضر في دعوة من هناء وعزاء إلا في مولد النبي عليه السلام تعظيمًا لذلک المقام. فأنهي إلي السلطان، فأمره بتهيئة أسبابه الملوکانية في أنواع الأطعمة والأشربة ومما يتمم به ويبخر في المجالس العلمية. ونادي الأکابر والأهالي.

وحضر الشيخ مع بعض الموالي فأخذ السلطان الإبريق بيد الأدب ومعاونة التوفيق، والوزير أخذ الطشت من تحت أمره رجاء لطفه ونظره وغسلا يدا الشيخ المکرم، وحصل لهما ببرکة تواضعها ﷲ ولرسوله صلي الله عليه وآله وسلم المقام المعظم والجاه المفخم.

’’جیسا کہ بلند پایہ نقاد، علماء اور اہل قلم حضرات نے مجھے بتایا ہے ہندوستان کے لوگ دوسرے ممالک کی نسبت بڑھ چڑھ کر ان مقدس اور بابرکت تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ اور عجم میں جونہی اس ماہ مقدس اور بابرکت زمانے کا آغاز ہوتا لوگ عظیم الشان محافل کا اہتمام کرتے جن میں قراء حضرات اور عوام و خواص میں فقراء منش لوگوں کے لیے انواع و اقسام کے کھانوں کا انتظام کیا جاتا۔ مولود شریف پڑھا جاتا اور مسلسل تلاوتِ قرآن کی جاتی، بآواز بلند نعتیہ ترانے (قصیدے) پڑھے جاتے اور فرحت و انبساط کا متعدد طریقوں سے اظہار کیا جاتا حتیٰ کہ بعض عمر رسیدہ خواتین سوت کات اور بن کر رقم جمع کرتیں جس سے اپنے دور کے اکابرین اور زعماء کی حسبِ استطاعت ضیافت کرتیں۔ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بابرکت و مکرم مجلس کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ اس دور کے علماء و مشائخ میں سے کوئی بھی اس میں حاضر ہونے سے انکار نہ کرتا، یہ امید کرتے ہوئے کہ اس میں شریک ہو کر نور و سرور اور تسکینِ قلب حاصل کریں۔

’’ایک دفعہ شہنشاہِ دوراں، سلطانِ زماں، ہمایوں بادشاہ (اﷲ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے اور اچھا ٹھکانہ دے) نے ارادہ کیا کہ وہ ہمارے شیخ المشائخ زین الدین محمود ہمدانی نقشبندی قدس سرہ العزیز کے ہمراہ مجلس منعقد کرے اور ان کے لیے (مالی) اعانت کا اہتمام کرے۔ اور یہ مدد اس (بادشاہ) کے واسطہ سے ہو تو شیخ نے آنے سے انکار کر دیا حتیٰ کہ سلطان کو اپنے پاس بھی آنے سے روک دیا کیوں کہ وہ بفضلہ تعالیٰ اس سے مستغنی تھے۔ بادشاہ نے اپنے وزیر بیرم خان سے اصرار کیا کہ اجتماع کی لازماً کوئی تدبیر کی جائے اگرچہ وہ محدود وقت کے لیے ہی ہو۔ وزیر نے سنا کہ شیخ محفل میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی بھی خوشی یا غمی کی محفل میں شریک نہیں ہوتے۔ پس اس (وزیر) نے بادشاہ کو پیغام بھیجا کہ شاہانہ کھانے اور مشروبات تیار کیے جائیں اور ایک مجلسِ علمی کے انعقاد کے تمام اسباب بہم پہنچائے جائیں۔ تمام اکابرین اور کارکنانِ سلطنت کو مدعو کیا گیا۔

’’شیخ اپنے بعض مریدین کے ساتھ تشریف لائے۔ سلطان نے نہایت ادب سے لوٹا پکڑا اور وزیر نے شیخ کی طرف نظرِ لطف و کرم کی امید کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں میں طشت اٹھائی۔ یوں دونوں نے شیخ کے ہاتھ دھلوائے۔ دونوں کو اﷲ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور اپنی عاجزی و اِنکساری کی وجہ سے بڑا مقام و درجہ حاصل ہوا۔‘‘

ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونسبه الطاهر : 14، 15

اِس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، مصر، شام، قرطبہ اور غرناطہ (اسپین) حتیٰ کہ بلادِ ہند اور عجم کے رہنے والوں کا یہ عالم تھا کہ وہ بارہ ربیع الاول کے دن محافلِ میلاد کا خصوصی اہتمام مداومت سے کرتے چلے آئے ہیں، اور یہ ایک تاریخی عمل تھا جو وہ سر انجام دیتے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ بلادِ اسلامیہ کے یہ لوگ بریلوی نہیں رہے نہ ہی مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ اور مصر و شام کے کوئی لوگ بریلوی مکتبِ فکر کے تھے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ جو لوگ اِسلامی تاریخ سے کوئی آگاہی نہیں رکھتے اور ان کا مسلک شکوک و شبہات اور فتنہ و فساد پھیلانے کے سوا اور کچھ نہیں وہ اِسلام کی مسلّمہ تعلیمات کو مشکوک بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اسلامی ماخذ تاریخ تک ان کی رسائی نہیں جس کی وجہ سے وہ جھوٹ بولتے ہیں اور ایمانی حقائق کو مسخ کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ محض جہالت کا پرچار کرتے ہیں، تقریباتِ میلاد کے حق میں ماضی کی کتابوں کا انہوں نے کبھی مطالعہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 95186 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.