ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے

"اے میرے بندے! ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے، اگر تو میری چاہت پر اپنی چاہت کو قربان کردے تو میں تیری چاہت میں تیری کفایت کروں گا اور ہوگا وہی جو میں چاہوں گا۔ اور اگر تو میری چاہت پر اپنی چاہت کو قربان نہ کرے' تو میں تم کو تیری چاہت میں تھکا دونگا اور ہوگا وہی جو میں چاہوں گا"۔

آجکل یہ روایات کیلنڈروں اسٹیکروں 'پوسٹروں کی زینت بنی نظر آتی ہے۔

لیکن اسکی سند کے بارہ میں آج تک کوئی یہ بھی نہیں بتا سکا کہ کہاں سے ملی گی!!!

اتنی بات سے اس روایت کا میڈ ان پاکستان ہونا ثابت ہو جاتاہے۔
اور یہ بھی کہ یہ اللہ پر بہتان اور جھوٹ ہے ۔

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَ‌ىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا

اس سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا،

یہاں ہم اس حدیث کے بارے بحث کرتے ہیں ، لوگوں نے اس حدیث قدسی بنا کر پیش کیا ہے اس روایت کا عربی متن درج ذیل ہے:

يَا عَبْدِي أَنْتَ تُرِيدُ وَأَنَا أُرِيدُ فَإِنْ سَلَّمْت لِي مَا أُرِيدُ أَرَحْت نَفْسَك وَقَضَيْت لَك مَا تُرِيدُ وَإِنْ نَازَعْتنِي فِيمَا أُرِيدُ أَتْعَبْت نَفْسَك وَلَا يَكُونُ إلَّا مَا أُرِيدُ

الانصاف للقاضی محمد بن الطیب الباقلانی' المتوفی: ۴۰۳ھ ۱/۶۳۔
نوادر الاصول للحکیم الترمذی' المتوفی: فی حدود سنة ۲۹۰ھ ص:۱۶۱'۴۳۳
احیاء العلوم للغزالی' المتوفی سنة: ۵۰۵ھ ۳/۴۳۷۔

ان کتابوں کے علاوہ یہ روایت دیگر متعدد کتا بوں میں ذکر ہوئی ہے لیکن اس کی سند کا ذکر کہیں نہیں ملتا ہے ۔اور یہ روایت جن کتابوں میں مذکور ہے ان میں سب سے قدیم کتاب نوادر الاصول ہے جسے حکیم ترمذی نے تالیف کیا ہے اور وہ تیسری صدی ہجری کے محدث ہیں، حکیم ترمذی کا نام سن کر یا پڑھ کر بعض حضرات کو اس سے شبہ لگ جاتا ہوگا کہ اس سے مراد مشہور محدث امام ترمذی ہے' جن کی کتاب "الجامع السنن" پڑھی پڑھائی جاتی ہے' لیکن واضح رہے کہ یہ دونوں شخصیات الگ الگ ہیں'

مشہور محدث کا نام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی ہے' اور حکیم ترمذی کا نام ابو عبد اللہ محمد بن علی بن الحسن الحکیم الترمذی ہے ،ان کا انتقال سن ۲۹۰ھ کے میں ہوا ہے۔
ملاحظہ ہو:لسان المیزان ۷/۳۸۷

ان کی تصانیف میں غیر معتبر اور بے اصل روایات نے جگہ پکڑ لی ہیں لہذا اس کو حدیث کہنا درست نہین ہے، اور امام غزالی نے اس کو حضرت داود کی طرف منسوب کیا ہے وہ لکھتے ہیں:

"ويروى أن الله تعالى أوحى إلى دواد عليه السلام : يا داود إنك تريد وأريد، وإنما يكون ما أريد، فإن سلمت لما أريد كفيتك ما تريد، وإن لم تسلم لما أريد أتعبتك فيما تريد، ثم لا يكون إلا ما أريد"

اور بعض لوگوں اس کے معنی کو درست قرار دیا ہے جیسا کہ یہ ہے:

ويبدو لي أن معناه صحيحا إذا فهم في سياقه خاصة لمن قرأ كتب السادة الصوفية في وجوب الاستسلام والانقياد لأوامر الله تعالى وترك التدبير معه سبحانه.

جب اس روایت کے سیا ق دیکھا گیا تو میرے لیے یہ واضح ہو گیا کہ اس کا معنی درست ہے خاص کر وہ لوگ اس کے معنی کو سمجھ سکتے ہیں جنھوں نے بڑے بڑے صوفیا کی کتابوں کو پڑھا ہے جواللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے وجوب اور ترک تدبیر کے بارے لکھی گئی ہیں ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب"

https://forum.mohaddis.com/threads/18467/


یہ تو میں نے محدث فورم سے نقل کیا مگر میری راۓ میں اسکو حدیث قدسی کہنا اور اللہ عزوجل کی طرف منسوب کرنا اس وقت تک صحیح نہ ہوگا جب تک کہ اس کی صحیح سند نہ مل جاۓ، جیسا کہ سورۃ یونس آیت 17 کا ایک حصہ اوپر نقل کیا گیا. اگر کسی بھائ کے پاس اس روایت کی سند ہو تو وہ مجھے کمنٹس میں بھیج سکتا ہے تاکہ میں اسے علماء اور محدثین کے سامنے رکھوں تاکہ وہ اسکو اصول حدیث کی روشنی میں اس پر تحقیق کرسکیں، اور جب تک اسکی صحیح یا حسن سند نہ ملے ہمیں اس روایت کو حدیث قدسی کہنے سے اجتناب کرنا چاہیے.

جزاک اللہ خیرا
 
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448852 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.