حج بدل

جب مسلمان صاحب استطاعت ہو جائے تو پھر فریضہ حج کرنے میں دیر نہ کرے،کیونکہ موت کا کوئی پتہ نہیں کہ کب بلاوا آجاے،عمر دن بدن بڑھاپے کی طرف بڑھ رہی ہے حج جوانی، صحت اور تندرستی کے ساتھ کیاجائے تو اس کا مزہ ہی کچھ اورہوتاہے۔حج کے اخراجات میں سال بہ سال اضافہ ہوتاجارہا ہے اور حج کے رش میں ہرسال اضافہ ہوتاجارہاہے۔اس لیٔے یہ فرض جتناجلدی ادا کر لیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔کچھ لوگوں کی یہ سوچ اور خیال ہوتا ہے کہ حج سے پہلے ہم بچوں کی شادی،گھرکی تعمیریاکچھ دوسری مصروفیات سے فارغ ہوکرحج کرنے جائیں گے یہ انکی اپنی ذاتی سوچ ہوتی ہے مگردین میں ایساکوئی تصورنہیں ہے۔حج فرض ہے اور نکاح سنت ہے۔اور پھرکچھ لوگوں نے خودہی تصورکیاہوا ہے کہ اگر پہلے صرف عمرہ کرلیا جائے تو پھرحج فرض ہوجاتاہے ایسی کوئی بات نہیں ہے اگر عمرہ نہ بھی کرے تو حج پہلے سے ہی فرض ہے۔حج کی تین اقسام ہوتی ہیں۔ (۱) حج افراد۔ (۲) حج قران۔ (۳) حج تمتع اور حج کی ایک اور قسم حج بدل کہلاتی ہے۔ یہ حج بدل دو طرح کا ہوتا ہے (۱) فرض حج بدل۔ (۲)نفلی حج بدل۔ حج بدل کے متعلق عام طور پر لوگوں کو زیادہ علم نہیں ہوتا ہے کہ حج بدل کیا ہے اور کن حالات میں کیا جاتا ہے کیوں کیا جاتا ہے اور حج بدل کرنے والا کونسا حج کرے گا؟ لیکن آجکل ایک رواج چل نکلا ہے کہ جو آدمی ایک دفعہ حج کر آیاہے وہ اگلے سال پھر حج کیلئے جا رہا ہوتا ہے اور لوگوں کو بتا رہا ہوتا ہے کہ میں حج بدل پر جا رہا ہوں۔ میں اپنے والد یا والدہ کا حج بدل کرنے جا رہا ہوں۔ اور اسطرح کہ حج بدل پر جولوگ جا رہے ہوتے ہیں وہ حج بدل کی اصل روح سے واقف نہیں ہوتے۔ پاکستانی حکومت اور سعودی حکومت نے بھی پانچ سال میں ایک مرتبہ حج کی پابندی لگائی ہوئی ہے سعودی عرب میں بھی اگر ایک آدمی ایک دفعہ حج کر لیتا ہے تو آئندہ پانچ سال تک وہ بھی دوبارہ حج نہیں کر سکتا۔ اسی طرح پاکستانی حکومت نے بھی ہر سال حج یا دوبارہ حج پر جانے کی پابندی لگائی ہے لیکن خاتون کے ساتھ بطور محرم، گروپ لیڈر اور حج بدل پر جانے والوں کیلئے کوئی پابندی نہیں ہے۔ اور اکثر لوگ جو ہر سال حج پر جانا ضروری سمجھتے ہیں اسی رعایت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے حج درخواست فارم میں خاتون کے ساتھ بطور محرم، گروپ لیڈر یا حج بدل ظاہر کر کے حج پر چلے جاتے ہیں اور آجکل حج بدل پر جانا ایک فیشن بن گیا ہے کوئی والد کے نام پر کوئی والدہ کے نام پر کوئی دادا، دادی یا نانا، نانی کے نام پر حج بدل کیلئے جا رہا ہوتا ہے اور اکثر خواتین بھی حج بدل پر جا رہی ہوتی ہیں۔ حج بدل پر جانے کیلئے بیس شرائط ہیں اور ان شرائط کو پورا کرنے والا ہی صحیح حج بدل کر سکتا ہے اور جو ان شرائط سے ہٹ کر حج بدل کرتا ہے وہ حج بدل نہیں بلکہ نفلی حج بدل کرتا ہے نفلی حج بدل کیلئے کوئی شرط نہیں ہے حضور اکرمؐ کی حدیث مبارک ہے کہ حق تعالیٰ حج بدل میں ایک حج کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرماتے ہیں ایک وہ شخص جس کی طرف سے حج بدل کیا جا رہا ہے۔ دوسرا حج بدل کرنے والا شخص اور تیسرا وہ شخص جو حج بدل کروا رہا ہے۔حج بدل کرنے والے کو حج افراد کرنا چاہیے لیکن اکثر لوگ جو حج بدل پر جاتے ہیں وہ حج تمتع ہی کرتے ہیں اور اس طرح حج بدل ادا نہیں ہوتا۔حج بدل کے معنی ہیں کسی دوسرے کی طرف سے حج کرنا، کسی دوسرے کی طر ف سے نفلی حج یا عمرہ کرنے کیلئے کوئی شرط نہیں۔ صرف حج کرنیوالے میں اہلیت یعنی اسلام و عقل تمیز ہونا کافی ہے۔ البتہ فرض حج بدل کسی دوسرے شخص سے کرانے کیلئے 20شرائط ہیں۔ لیکن پہلے یادرکھیں کہ حج بدل کرانے والے کو آمِرکہتے ہیں اور جو دوسرے کے حکم سے حجِ بدل کرتا ہے ، اس کو مامور کہتے ہیں۔ شرائط یہ ہیں۔
1۔جو شخص اپنا حج کرائے اس پر حج فرض ہو چکا ہو۔2۔حج فرض ہونے کے بعد خود حج کرنے سے عاجزیا مجبور ہو گیا ہو۔3۔مرتے وقت تک عاجز ہی رہا ہو۔4۔آمِر اور مامور دونوں مسلمان ہوں۔ 5۔آمِر اور مامور دونوں عاقل بالغ ہوں۔6۔مامور کو اتنی تمیز ہو کہ حج کے افعال سمجھتا ہو۔ اگر عورت مرد کی طرف سے حجِ بدل کرے تو جائز ہے مگر مرد سے حجِ بدل کرانا افضل ہے۔ اور ایسے شخص سے حج بدل کرانا افضل ہے جو عالم باعمل ہو، مسائل حج سے واقف ہو اور اپنا فر ض حج ادا کر چکا ہو۔7۔اگرآمر اپنی زندگی میں حجِ بدل کرائے تو دوسرے شخص کو اپنی طرف سے حج کرنے کا حکم دینا اور اگر وصیت کر کے فوت ہو گیا تو وصی یا وارث کا حکم دینا شرط ہے۔ اگر مرحوم نے وصیت نہیں کی ہے لیکن وارث یا کسی اجنبی شخص نے اس کی طرف سے خود حج بدل کیا یا کسی دوسرے شخص سے کرایا تو انشاء اﷲ اس مرحوم کا فرض ادا ہو جائے گا اور اس صورت میں آگے آنے والی کو ئی شرائط لازم نہیں ہوں گی۔8۔سفر میں سارا مال یا اس کا اکثر حصہ حج ادا کرانے والے کے مال سے خرچ ہونا اگر مامور نے اپنے روپے سے حج بدل کیا اور بعد میں آمر کے مال سے وصول کر لیا تو آمر کا حج بدل ادا ہو جائے گا ورنہ نہیں ہو گا۔9۔احرام باندھتے وقت یا حج کے افعال شروع کرنے سے پہلے آمر کی طرف سے حج کی نیت کرنا۔ 10۔صرف ایک شخص کی طرف سے حج کا احرام باندھنا۔11۔ صرف ایک حج کا احرام باندھنا۔12۔اگر آمر نے کسی شخص کا نام لیا ہو تو اسی شخص کا آمر کی طرف سے حج کرنا اور اگر اختیار دیا ہو کہ کسی سے کرا دیا جائے تو کسی سے بھی کرا یا جا سکتا ہے اورآمر کیلئے بھی یہی مناسب ہے۔13۔مامور معین کا متعین ہو یعنی اگر آمر نے یہ کہا ہو کہ فلاں شخص ہی حج کرے کوئی دوسرا نہ کرے تو کسی دوسرے سے کرانا جائز نہ ہو گا۔ اور اگر دوسرے کی نفی نہیں کی تو جائز ہو جائے گا۔ لیکن جس کو نامزد کیا گیا ہے اگر اس نے انکار کر دیا اور وارث نے کسی دوسرے سے کرایا تو جائز ہے۔
14۔اگر تہائی ترکہ خرچ کیلئے کافی ہو تو آمر کے وطن سے حج کرنا میقات سے پہلے جس جگہ سے ہو سکے ادا کر دیا جائے۔15۔اگر تہائی مال میں گنجائش ہو تو سواری پر حج کرنا۔
16۔حج یا عمرہ جس چیز کا حکم کیا ہے اسی کیلئے سفر کرنا۔ اگر حج کا حکم کیا تھا لیکن مامور نے اول عمرہ کیا پھر میقات پر لوٹ کرا سی سال یا آئندہ سال کا احرام باندھا تو آمر کا حج نہ ہو گا۔
17۔ آمر کا میقات سے احرام باندھنا۔اگر مامور نے میقات سے عمرہ کا احرام باندھا اور مکہ مکرمہ جا کر حج کا احرام باندھا اور حج کر لیا تو آمر کا حج ادا نہ ہو گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں رہنے والوں سے حجِ بدل کرانا غلط ہے ۔اس صورت میں حج کرنے والے کا حج ہو گا۔جس کی طرف سے کرایا گیا ہے اس کانہیں ہو گا لیکن نفلی حجِ بدل کسی سے بھی کرایا جا سکتا ہے۔
18۔ حج کا فاسد نہ کرنا۔ 19۔حج کا فوت نہ ہونا۔ 20۔آمر کے حکم کی مخالفت نہ کرنا۔ اگر آمر نے افراد یعنی صرف حج کا حکم دیا تھا اور مامور نے تمتع یا قران کر لیا تو مخالف ہوا اور آمر کو روپیہ واپس کرنا ہو گا اور وہ حج مامور کا اپنا ہو گا۔ حجِ بدل کرنے والے کو حجِ افراد کرنا چاہیے اور وہ حج افراد کا احرام باندھے گا حج تمتع یاحج قران کا نہیں اس لئے کہ حج بدل میں یہ ضروری ہے جس شخص کی طرف سے حج بدل کیا جا رہا ہے اسکی میقات سے حج بدل کا احرام باندھا جائے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب حج افراد کا احرام باندھا جائے اگرحج تمتع کیا جائے گا تو اس میں میقات سے عمرہ کا احرام باندھا جاتا ہے اور حج کا احرام تو مکہ مکرمہ پہنچ کر باندھا جاتا ہے اس سے مذکورہ بالاشرط کی خلاف ورزی ہو جاتی ہے اس لئے حج پر بھیجنے والے کی اجازت کے باوجود بھی حج بدل کرنے والا حج تمتع کا احرام نہ باندھے۔ حج بدل کرنے والا حج سے فارغ ہونے کے بعد اپنی طرف سے اور کسی اور کی طرف سے بھی عمرہ کر سکتا ہے۔ نفلی حج بدل میں بہت سی آسانیاں ہیں کوئی بھی شخص نفلی حج کر کے اسکا ثواب زندہ یا فوت شدہ جسے چاہے بخش سکتا ہے۔حجِ قِران کرنا ،آمر کی اجازت سے جائز ہے لیکن دم قِران اپنے پاس سے دینا ہو گا۔ آمر کے روپیہ سے بلا اجازت دینا جائز نہیں ہے۔

حجِ تمتع کرنے کا مسئلہ ذرا پیچیدہ ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حج تمتع میں حج کا احرام آمر کی میقات سے نہیں ہوتا بلکہ مکہ مکرمہ میں 8ذی الحجہ کو باندھا جاتا ہے۔ اس لئے محتاط علماء نے حج تمتع کرنے کی ممانعت کی ہے، بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ اگر آمر اپنی طرف سے حجِ تمتع کی اجازت دے دے تب بھی آمر کا حج نہیں ہو گا۔جیسا کہ معلم الحجاج میں علماء تحقیق سے منقول ہے اور اسی کو راجح قرار دیا ہے۔باقی دوسری کتب فقہ کی عبارت سے معلوم ہو تا ہے وہ یہ ہے کہ آمر کی اجازت سے حج تمتع کرانے سے آمر کی طر ف سے حج ہو جائے گا۔اس اختلاف کا حل یہ ہے کہ آمر اگر خود زندہ ہے ،معذوری کی بناء پر حج نہیں کر پاتا اس لیے حجِ تمتع کی اجازت دیتا ہے تو ایسی صورت میں آمر کی اجازت سے حجِ تمتع ہو جائے گا۔اسی طرح جس پر حج فرض ہوا اور اس نے مرتے وقت وصیت کی کہ میری طرف سے حج تمتع کرانا،تو ایسی صورت میں حجِ تمتع کرنے سے آمر کی جانب سے حج ہو جائے گا۔ لیکن مرنے والے نے اگر مطلق حج کی وصیت کی ہے تو اور ورثاء نے حج بدل کرنے والے کو حجِ تمتع کی اجازت دے دی تو ایسی صورت میں ورثاء کی اجازت سے بھی تمتع کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ مرحوم کا حج میقاتی ہونا ضروری ہے اور جو تمتع کرے گا اس کا حج مکی ہو جائے گا۔

اگر ورثاء کی اجازت سے حج تمتع کر ے گا تو مامور کیلئے روپیہ واپس کرنا لازم نہیں ہے۔ لیکن آمر کا حج ادا نہ ہو گا۔ حجِ بدل کرانے والوں کو اس کی خاص احتیاط کرنی چاہیے۔ احرام کی طوالت کے خوف سے آمر کے حج کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔اس معاملہ میں اکثریت غلطی کرتی ہے اس لئے کہ لوگ مسائل سے نا واقف ہوتے ہیں۔

نوٹ:جس پر خود حج فرض نہیں ہے اور اس نے پہلے حج نہیں کیا ہے تو اس کو حج بدل کیلئے جانا امام ابو حنیفہ ؓ کے نزدیک جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ حج بدل کیلئے اس کو بھیجا جائے جس نے اپنا حج کرلیا ہو۔
جس پر خود حج فرض ہو گیا ہے اور وہ ابھی ادا نہیں کیا ہے تو اس کو حج بدل کیلئے جانا جائز نہیں ہے۔جب والدین میں سے کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ حج فرض ہو اور اس نے ادائیگی کی وصیت نہ کی ہو تو بیٹے کو والدین کی طرف سے بطور احسان حج کرا دینا یا خود اس کی طرف سے حج کرنا بہت زیادہ مستحب ہے۔ایسی حالت میں نمبر 7والی شرائط نہیں لگیں گی اور اگر خود یا کسی دوسرے شخص سے مکہ مکرمہ ہی سے حج کرائے تو انشاء اﷲ تعالیٰ اس سے اس میت کا حج فرض ادا ہو جائے گا۔جب والدین میں سے کوئی فوت ہو جائے اور اس پر حج فرض نہ رہا اور اگر بیٹے صاحب حیثیت ہو جائیں تو ایسی حالت میں والدین کی طرف سے فرض والا حج بدل تو نہیں ہو گا۔ اس لیے ان پر حج فرض نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی بیٹے کو چاہیے کہ والدین کی طرف سے برائے ثواب حج کرا دے یا خود ان کی طرف سے حج کرے ،ایسی حالت میں بھی نمبر7کے بعد والی شرط نہیں لگے گی اور خود یا کسی دوسرے شخص سے مکہ مکرمہ سے بھی حج کرا سکتا ہے۔اس سلسہ میں یہ حدیث یا د رکھیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ والدین کی وفات کے بعد ان کیلئے خیرورحمت کی دعا کرتے رہو اور اﷲ سے ان کے واسطے مغفرت اور بخشش مانگو۔ حج کے ذریعہ والدین کو ثواب پہچانا مغفرت اور بخشش مانگنے کے برابر ہے۔

ایک حدیث میں ہے کہ جس نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حج کیا تو بے شک اس نے ان کی طرف سے حج ادا کر دیا اور اس کو خود دس سے زائد حج کا ثواب ملے گا ۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ جس شخص نے اپنے والدین کی طرف سے حج کیا یا ان کا قرض ادا کیا۔ تو وہ قیامت کے دن ابراروں کے ساتھ اٹھایا جائیگا۔( کنز العمال)

جس نے اپنا فرض حج کر لیا ہو تو اس کو اپنے لیے نفلی حج کرنے کی بجائے دوسرے کی طرف سے حجِ بدل ادا کرنا افضل ہے ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جس نے میت کی طرف سے حج کیا تو میت کیلئے ایک حج لکھا جائے گا اور حج کرنے والے کیلئے سات حج ہوں گے۔ (غنیۃ الناسک)۔اُجرت پر حج کرانا کسی حالت میں جائز نہیں ہے۔ٹھیکہ یا اجارہ کے طور پر حجِ بدل نہ کرائیں۔ بعض لوگ مصارف کا ٹھیکہ کر لیتے ہیں اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔سنا گیا ہے کہ بعض معلمین نے یہ کام کرنے والے دوسرے لوگ چندآدمیوں کی طرف سے روپیہ وصول کر کے ایک آدمی سے حج بدل کرادیتے ہیں اور ان سب کو ثواب بخش دیتے ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو بہت غلط بات ہے اس سے احتیاط کریں۔

نوٹ:۔ حجِ بدل کی نیت اس طرح کریں۔ ترجمہ یا اﷲ ۔میں اپنے والد یا فلاں کی طرف سے حج کی نیت کرتا ہوں ۔اس کو میرے لیے آسان بنا دے اور اسے قبول فرما لے۔

زندہ یا فوت شدہ لوگوں کی طرف سے نفلی طواف یا نفلی عمرہ کریں تواس کی نیت بھی اسی طرز پر ہو گی۔
 

DR.KHALID MAHMOOD
About the Author: DR.KHALID MAHMOOD Read More Articles by DR.KHALID MAHMOOD: 24 Articles with 60846 views HAJJ O UMRAH MASTER TRAINER.. View More