"السلام علیکم پاکستان ایمبیسی ، کیا آپ سرفراز یوسف بات
کر رہے ہیں، آپ اسوقت کہاں سے بول رہے ہیں ، ہندوستان میں موجود پاکستان
ایمبیسی سے لڑکی نے لاہور فون کرکے سوال کیا، دوسری جانب سے آواز آئی میں
لاہور سے بات کر رہا ہوں اور میں سرفراز ہی بات کر رہاہوں ، پاکستان
ایمبیسی کی لڑکی نے خوشی سے سرشار ہوتے ہو ئے سرفراز کی مدتوں انتظار کی
گھڑیوں کو اختتام کرتے ہوئے کہا، آپ کا دہلی سے فون ہے جگو نامی لڑکی آپ سے
بات کرنا چاہتی ہیں" یہ مکالمے پڑوسی ملک کی فلم ـــــــــ" PK"کے ہیں ، اس
فلم کے کئی سین قابل دید ہیں لیکن اوپر دیئے گئے مکالمے دل کو چھو لینے
والے مکالمے تھے ہم صرف فلم کو فلم کی حد تک دیکھتے ہیں سیکھنے سیکھانے کا
دور ختم ہو چکاہے اگرہم کچھ سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو ان مکالموں کا
ویژن ہمیں بہت وسیع محسوس ہو گااس فلم میں جگو نامی ہندوستانی لڑکی کو
کینیڈا میں ایک پاکستانی لڑکے سے پیا ر ہو جاتا ہے وہ پاکستانی لڑکے سے
شادی کرنے کے لئے اپنے والدین سے بات کرتی ہے تو اس کے والدین اپنے ایک
پنڈت گرو"تپسیا جی" سے بات کرتے ہیں ,جو انکے ذہن میں بٹھا دیتا ہے کہ
مسلمان اور پاکستانی دھوکا دیتے ہیں ، یہ ہی دو نکتے ہیں جس پر تپسیا جی
جیسے لوگ گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے سے عوام کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے
اسی قسم کے تاثرات پاکستان میں بھی پائے جاتے ہیں سوال یہ ہے کہ کیا
ہندوستان کی عوام بھی اسی طرح سوچتی ہے ؟ اس فلم کی زبردست کامیابی نے میرے
اس سوال کو غلط ثابت کیا اسکے بعد حالیہ فلم بجرنگی بھائی جان میں بھی کچھ
اسی طرح کا پیغام دیا گیا ہے یہ دونوں فلمیں پاکستان اور بھارت میں تنقید
کا نشانہ بنتی رہیں حالیہ دنوں میں بھی PKپر پولیس کو ٹُلہ کہنے پر مقدمہ
قائم ہوا ہے اسکے باوجوددونوں فلمیں مثبت ثابت ہوئیں ،بجرنگی بھائی جان میں
ایک پیش امام کے کردار کو بڑ ے ہی مثبت انداز میں پیش کیا گیا ہے میں
سمجھتا ہوں کہ اس سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے امیج کو قدرے بہتر کرنے کی
کوشش کی گئی ہے فلم میں بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیغام دیا گیا ہے کہ اگر
دونوں قوموں میں ایکدوسرے کے لئے محبت ہے تو سرحدوں کی لکیر کوئی اہمیت
نہیں رکھتی، اب سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ کیا یہ سب کچھ فلموں کی حد تک
محدود ہے یا اس میں تھوڑ ی بہت حقیقت بھی ہے ہندوستان کی عوام کا تو ہمیں
علم نہیں ہے لیکن وہاں کی اسمبلی میں بیٹھے تپسیا جی جیسے منتریوں کی پوجاا
سوقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک پاکستان کی شان میں گستاخی نہ کرلیں لیکن
اسمبلی میں بیٹھے منتریوں کی مخالفت،ہندوں کی متعصبانہ ذہنیت اور انتہائی
خطرناک ماحول کے باوجود پاکستان اور مسلمانوں کی حمایت میں فلم کا وجود میں
آ جا نا انتہائی جرات کی بات ہے ان دونوں فلموں کی کامیابی کا مطلب ہے کہ
ہندوستان کی عوام کی حمایت بھی شامل ہے اگر ہم اسی زاویئے سے اپنے ملک
پاکستان کا جائزہ لیں تو یہاں ماحول اسکے بر عکس نظرآئے گا اسوقت یہ آرٹیکل
لکھتے ہوئے میں سو چ رہا ہوں کہ میرا لکھا گیا کوئی بھی لفظ کہیں میرے لئے
مصیبت اور پریشانی کا باعث نہ بن جائے،اسکے بعد پرنٹ میڈیا کے ایڈیٹر صاحب
بھی اپنی مجبوریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں کانٹ چھانٹ کر کے شائع کریں
گے یا شائع ہی نہ کریں کہیں اُن کے ادارے کو کوئی پریشانی کا سامنا نہ کرنا
پڑ جائے ۔آواز حق کیلئے دونوں فلموں کے فلمسازوں نے زبردست رسک لیا دونوں
فلمیں کامیابی کے اعتبار سے افق کو چھوتی ہوئی نظر آرہی ہیں ۔یہ ہی میرا
نقطہ نظر ہے یہ ہی میرا پیغام ہے کہ حق کی آواز کو بلند کریں خواہ اسمیں
کتنی ہی دشواریاں کیوں نہ ہوں کیونکہ یہ ہمارا ہی نہیں ہماری آنے والی
نسلوں کا بھی مسئلہ ہے ۔
بجرنگی بھائی جان کا صرف ایک پہلو زیادتی کا ہے اور وہ یہ ہے کہ "غلام فرید
صابری قوال کی قوالی کو عدنان سمیع کی آواز میں ڈال کر قوالی کا ستیا ناس
کر دیا گیا، "امجد صابری قوال کا کلیم سو فیصد درست ہے"فلم کے پروڈیوسر
سلمان خان کو اُنکی بات پر توجہ دینی چاہئے۔
|