جنسی تشد دکے واقعات : ردعمل،اسباب اورسدباب

تصوف کی دنیاکی معروف روحانی شخصیت بلھے شاہ رحمۃ اﷲ علیہ کی نگری قصورکے نواحی گاؤں حسین خان والامیں پانچ یاسات سال سے جاری غیراخلاقی ،غیرانسانی کام سامنے آنے کے بعدقوم شرمسارہوگئی ہے۔یہ ملکی تاریخ کابداخلاقی کاسب سے بڑاسکینڈل بتایا جارہا ہے۔جس میں تین سوسے قریب بچوں سے زیادتی کرکے ان کی ویڈیوزبنائی گئیں۔ پھرانہیں ان ویڈیوزسے بلیک میل کرکے گھرسے زیورات وغیرہ اوردیگربچوں کولانے کابھی کہاجاتا رہا۔ملزمان نے بچوں کوبلیک میل کرکے ایک رپورٹ کے مطابق آٹھ کروڑ روپے کمائے۔ایساغیراخلاقی اورغیرانسانی کام نہ توپہلی مرتبہ ہواہے اورنہ ہی صرف قصورکے نواحی گاؤں حسین خان والامیں۔موجودہ دورمیں شایدہی کوئی ایساشہرہوجس میں یہ غیراخلاقی اورغیرانسانی کام نہ ہوتاہو۔لاہورمیں ایک درندہ صفت شخص نے سوبچوں کوزیادتی کے بعدقتل تیزاب کے ڈرم میں ڈالنے کااعتراف کیا تھا۔دوسال کی بچی کے ساتھ بھی درندگی کااندوہناک واقعہ پیش آیاتھا۔اب بھی آئے روزاخبارات میں اس طرح کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ایک قومی اخبارکی خبرکے مطابق شہرسلطان کے نواحی علاقہ بنڈہ اسحاق کے رہائشی ایک درندہ نے دس سالہ بچی سے زیادتی گلادباکرموت کے گھاٹ اتاردیا۔ ایک اورقومی اخبارکی خبریوں ہے کہ بہاولنگرکی رہائشی کالونی مدینہ ٹاؤن میں درندہ صفت عناصرنے وہاں کی رہائشی ایک خاتون کے ناجائزتعلقات استوارکرنے کے انکارپران درندوں نے مشتعل ہوکررات کے وقت ان کے گھرمیں اس خاتون، اس کی بہن اوراس کی ماں پرخطرناک تیزاب ڈال دیا۔اس دوران اس خاتون کاوالداسے بچانے آیاتوان درندوں نے اس پربھی تیزاب ڈال دیااورموقع سے فرارہوگئے۔اسی اخبارکی خبرہے کہ دورزقبل سمیحہ آبادملتان کے ایک رہائشی نے اس کے چودہ سالہ ملازم کوچوک کمہاراں والاسے گزرتے ہوئے اغواء کیااورنامعلوم مقام پرلے جاکربداخلاقی کانشانہ بنایا۔جس پرمسلم لیگ ق کے لیبرونگ کے نائب صدرراناحفیظ ،رانامحمدزاہد،جعفرحیات خان سمیت اہل علاقہ نے ملزمان کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ قصورکی طرح ملتان میں بھی ایک گروہ بچوں کے ساتھ بداخلاقی کرنے میں سرگرم ہے۔مقامی اخبارات میں خبرہے کہ ضلع لیہ کی تحصیل کروڑعادل والا نشیب میں ایک چودہ سالہ لڑکی رات ۹ بجے گھرسے طبعی حاجت کے لیے گھرسے نکلی کہ سامنے کھڑے ہوئے ایک درندہ نے ہاتھ میں پسٹل تان کرایک دوسرے درندے کے ساتھ سڑک کی جانب لے گیا۔جہاں پران کاایک اورساتھی درندہ بھی موجودتھا۔جوکہ اسے زبردستی گن پوائنٹ پرموٹرسائیکل پربٹھاکرامیرچوک لے گئے اوررات بھرزیادتی کانشانہ بناتے ر ہے اورصبح چھوڑکربھاگ گئے۔پنجاب کے آخری ضلع رحیم یارخان میں رواں سال کے ابتدائی آٹھ ماہ کے دوران ضلع کے مختلف تھانوں میں بچوں یانوعمرلڑکوں سے جنسی زیادتی کے ۳۴کیسزسامنے آچکے ہیں۔ یہ توصرف گنتی کے چندایسے واقعات ہی لکھے ہیں ۔قصورمیں ملکی تاریخ میں بداخلاقی کے سب سے بڑے سکینڈل کے سامنے آنے کے بعدپنجاب حکومت نے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرانے کااعلان کیا۔ جس کوعدالت عالیہ لاہورنے عدالتی تحقیقات سے انکارکردیا ہے جس کے بعد جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنادی گئی ہے۔وزیراعلیٰ شہبازشریف نے کہا ہے کہ قصورواقعہ کے ملزمان کوکڑی سے کڑی سزادی جائے گی اورملزمان اپنے انجام سے نہیں بچ پائیں گے۔ قصورواقعہ کے متاثرہ خاندانوں کوہرقیمت پرانصاف فراہم کریں گے۔انصاف نہ صرف ہوگا بلکہ ہوتاہوانظربھی آئے گا۔ان کی زیرصدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں انہیں قصورواقعہ کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ پیش کی گئی۔شہبازشریف نے کہا کہ قصورواقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔جنہوں نے یہ گھناؤنافعل کیا ہے وہ سخت ترین سزاکے حقدارہیں۔انہوں نے باقی ماندہ ملزمان کی فوری گرفتاری کاحکم دیا۔قومی اسمبلی اورسینیٹ میں بھی قصورواقعہ کے خلاف مذمتی قراردادیں منظورکی گئی ہیں۔سینیٹ میں جے یوآئی کے سینیٹرعطاء الرحمن نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام اس واقعہ کی مذمت کرتی ہے۔اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے جواس معاملہ کی تہہ تک جائے۔چیئرمین سینیٹ رضاربانی نے قراردارپررائے شماری کے بعدمعاملہ نیشنل کمیٹی آف ہیومن رائٹس کوبھیجتے بھی ہوئے کہا کہ کمیٹی اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرے۔انہوں نے کہا کہ کمیٹی اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک الگ ادارے کے قیام کے لیے اپنی سفارشات بھی تیارکرے۔قومی اسمبلی نے قصورواقعہ پرمذمتی قراردادمتفقہ طورپرمنظورکرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ واقعہ کی تحقیقات ترجیحی بنیادوں پرکی جائے۔ملوث افرادکوسزادی جائے۔بچوں کے حقوق کے لیے موثرقانون سازی کویقینی بنایاجائے۔یہ قراردادبین الصوبائی رابطہ میاں ریاض پیرزادہ نے پیش کی۔یہ قراردادحکومت اوراپوزیشن نے مل کرتیارکی۔ڈاکٹرنفیسہ شاہ نے کہا کہ قصورواقعہ کی نوعیت بھی سانحہ پشاورکی طرح ہی ہے۔وہاں بھی بچوں کاقتل ہوایہاں بچوں کے بچپن کوقتل کردیاگیا۔یہ صوبائی معاملہ نہیں۔خیبرپختونخوااسمبلی میں بھی قصورواقعہ کے خلاف مذمتی قراردادیں متفقہ طورپرمنظورکی گئیں اورذمہ داروں کوکڑی سزادینے کامطالبہ کیاگیا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ نے کہا کہ قصورواقعے کی مکمل تحقیقات کرواکرمجرموں کوکڑی سزائیں دی جائیں۔قصورواقعہ دردناک ہے جس کابہت افسوس ہے۔پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرمیاں محمودالرشیدنے پارٹی راہنماؤں گاؤں حسین خان والاکادورہ کیا۔جہاں متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کرکے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اورتحریک انصاف کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔جبکہ اس موقع پرمیڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے میاں محمودالرشیدنے کہا کہ بچوں کے ساتھ بدفعلی کاسکینڈل پاکستان کی تاریخ کابدترین واقعہ ہے۔انہوں نے حکومت سے قصورواقعہ کے کیسز فوجی عدالت میں چلانے کامطالبہ کیا۔سابق صدروپیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کہا کہ قصورواقعہ کی میڈیارپورٹس سچی ہیں تویہ حکومت کے چہرے پربدنماداغ ہے۔ انہوں نے اس واقعہ پرگہری تشویش کااظہارکرتے ہوئے پیپلزپارٹی اراکین اسمبلی سے تحقیقاتی رپورٹس کے بعد معاملہ کوقومی اسمبلی میں اٹھانے کی ہدایت کی۔قصورکے نواحی گاؤں حسین خان والامیں متاثرہ بچوں کے والدین سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے چیف جسٹس آف پاکستان سے قصورواقعہ کاازخودنوٹس لینے کامطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بچوں پرظلم وبربریت کاواقعہ سب سے بڑی دہشت گردی ہے۔اس لیے ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں۔معصوم بچوں کی زندگی اورمستقبل تباہ کرنے کے ظلم کے بعد مزیدظلم یہ ہے کہ متاثرہ خاندانوں سے ویڈیوزکے ذریعے بھتہ وصول کرنے کوشش بھی کی گئی۔مظلوم خاندانوں کویقین دلاتے ہیں کہ پوری قوم ان کی پشت پرکھڑی ہے۔ صدرپیپلزپارٹی پنجاب میاں منظوراحمدوٹونے کہا ہے کہ قصورمیں معصوم بچوں کی زندگیوں سے گھناؤنا واقعہ پنجاب حکومت اورمقامی انتظامیہ کی شرمناک ناکامی کامنہ بولتاثبوت ہے۔

ہمیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ گاؤں حسین خان والا قصورسے کتنادور ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ حسین خان والامیں پانچ یاسات سے بچوں کے ساتھ بداخلاقی کرنے والے درندے اخلاقیات سے کتنے دورہیں۔اخبارات میں یہ خبریں بھی موجودہیں کہ قصوربداخلاقی سیکنڈل کے سات ملزموں نے اعتراف جرم کرلیا ہے ادھرحکومت پنجاب کی جانب سے قائم کردہ اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی نے بچوں کے ساتھ زیادتی کی رپورٹس بے بنیادقراردے دیں۔راناثناء اﷲ کہتے ہیں قصورمیں بچوں کے ساتھ بدفعلی کاکوئی معاملہ رپورٹ نہیں ہوا۔ قصورمیں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے شرمناک واقعات میڈیاپرآنے کے بعد سب متحرک ہوگئے۔ وزیراعظم نے بھی نوٹس لے لیا۔ وزیراعلیٰ نے بھی اعلیٰ سطحی اجلاس بلالیا۔سیاستدانوں نے بھی ان اندوہناک واقعات کی اپنے اپنے اندازمیں مذمت کی۔قانون نافذکرنے والے ادارے بھی چوکس ہوگئے۔پانچ یاسات سال سے یہ مکروہ دھندہ جاری تھا۔ کیاکسی کواس بارے کوئی علم تھا یاسب کسی مجبوری کے تحت خاموش رہے۔کہا گیا ہے کہ یہ زمین کاتنازعہ ہے۔ایساہوبھی سہی تویہ الزام دوچاربچوں کے حوالے سے سامنے آتا۔ تین سوکے قریب بچوں کے ساتھ یہ غیرانسانی سلوک ہواہے۔ کیاکسی کاضمیرماننے کوتیارہے کہ یہ زمین کاتنازعہ ہے۔پانچ یاسات سال تک سیاستدان، قانون نافذکرنے والے ادارے، این جی اوزسب خاموش رہے۔میڈیابھی اس معاملہ کودیرسے سامنے لایا۔میڈیااس وقت اس معاملہ کوسامنے لایا جب متاثرین نے اس ظلم وبربریت کے خلاف احتجاج کیا۔غورکرنے کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کومنظرعام پرلانے کے لیے متاثرین کاسڑکوں پرآنااوراحتجاج کرنالازمی ہوتا ہے۔یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ لوگ اس طرح کے واقعات اپنی بدنامی کے خوف سے چھپاتے ہیں اورکسی کونہیں بتاتے کہ ان کے ساتھ کیابیت چکی ہے۔وہ قانونی کارروائی بھی نہیں کرتے کہ اس سے زیادہ بدنامی ہوجائے گی۔صرف اس طرح کے واقعات ہی نہیں چھپائے جاتے اوربھی بہت سے ایسے کام ہیں جوچھپ کربھی کیے جاتے ہیں اورچھپائے بھی جاتے ہیں۔تاہم اس طرح کے واقعات کاکھوج لگانا،معاشرہ میں برے کاموں اوربے راہ روی کوروکناحکومت کی ذمہ داری ہے۔میڈیابھی چودہ طبق زمین کے نیچے سے بھی خبرلے آتا ہے۔ وہ بھی ان گھناؤنے واقعات پرکیوں خاموش رہا۔اس سے بڑھ کرغورکرنے کی بات یہ بھی ہے کہ قصورمیں جنسی تشدد کے واقعات ہوں یاملک بھرمیں اس طرح کے یاظلم وجبر، ناانصافی کے دیگرواقعات ہوں ان کانوٹس لینے کے لیے وزیراعظم، وزیراعلیٰ اورمتعلقہ اداروں اورافسران کے نوٹس لینے اورمتحرک ہونے کے لیے احتجاج کرنا، حادثہ پیش آنا،معاملہ میڈیاپرآنا ضروری ہوتا ہے۔جب اسلام آبادکے ایک سفارتخانے میں ہم جنس پرستوں کی کانفرنس ہوئی تھی اس وقت بھی راقم الحروف نے اپنے کالم میں اس وقت کے وزیراعظم سے کہاتھا کہ قوم کواس تباہی سے بچالو۔ہماری معلومات یہ بتانے سے قاصرہیں کہ اس وقت کسی سیاسی یامذہبی شخصیت نے اسکانفرنس کی مذمت کی تھی۔اس سے پہلے جب انٹرنیٹ آیا تواس وقت بھی ہم نے اپنی تحریروں میں اس کی وجہ سے بے راہ روی کے خدشہ کااظہارکیاتھا۔قصورمیں پولیس کے صوبائی سربراہ کے ساتھ پیش آنے والاسلوک بھی متاثرین کے غم وغصہ کی نشاندہی کررہا ہے۔حالانکہ انہیں ایسانہیں کرناچاہیے تھا وہ توان کودلاسہ دینے آئے تھے۔جنسی تشدد کے واقعات کے اسباب میں انٹرنیٹ پرموجودفحش موادکوبھی نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے اسباب ہیں۔پاکستان میں بننے والی اکثرفلموں میں چاہے وہ کسی بھی زبان میں ہوں لڑکے اورلڑکی کی آپس میں محبت اورخفیہ تعلقات کے مناظرضروردکھائے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں جب شادی کرناجوئے شیرلانے کے مترادف بنادی جائے بداخلاقی کے جرائم میں اضافہ ہی ہوگا۔جب دولہااوردلہن والے دونوں ایک دوسرے کودونوں ہاتھوں سے لوٹنے اورنچوڑنے پرلگے ہوئے ہوں وہاں بے راہ روی نہیں پھیلے گی کیا؟اس طرح کے واقعات روکنے کے لیے فلموں میں مردوخواتین کے محبت پرمبنی خفیہ تعلقات اورتنہائی میں ملاقات کرنے کے مناظردکھانے پرپابندی لگادی جائے۔انٹرنیٹ پرفحش موادویڈیویاتصاویرکی صورت میں موجودہے تو جلدسے جلدہٹادیاجائے۔شادی بیاہ کوآسان بنادیاجائے۔شادی کم سے کم اخراجات میں کرنے کارجحان بنایاجائے۔ بیٹایابیٹی جوں ہی جوان ہواس کی جلدشادی کرنے کی کوشش کی جائے۔ بچوں کی تربیت پرتوجہ دی جائے۔انہیں مذہب اسلام اورمذہبی راہنماؤں سے متنفرکرنے کی بجائے اس طرف ترغیب دلائی جائے۔نمازبرائیوں سے روکتی ہے۔سب مسلمانوں کونمازکی پابندی خودبھی کرنی چاہیے اورگھروالوں اورماتحت کام کرنے والوں کوبھی اس کاپابندبناناچاہیے۔مسلمانوں کومذہبی تقریبات میں زیادہ سے زیادہ شرکت کی ترغیب دلائی جائے۔علماء کرام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قران وحدیث کی روشنی میں مسلمانوں کوجنسی تشدد کے عذاب اورنقصانات سے آگاہ کریں۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350790 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.