خیر کا پیغام

تخلیق کائنات کے ساتھ ہی خیروشر کی جنگ نے سر اُٹھا لیا جو آج تک جاری ہے ۔اُولیا اﷲ ہمیشہ سے خیر کی نمائندگی کرتے آرہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے ۔حق وسچ کے حصول اور اشاعت کیلئے ہرقسم کے دباؤ کو کسی خاطرمیں نہ لانا اﷲ والوں کی شان ہے۔شر نے ہمیشہ دنیا میں جہالت پھیلائی اور اولیا اﷲ نے ہمیشہ علم وعمل کی روشنی سے معاشرے کو منور کیا اور معاشرتی بُرائیوں کوختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔سرکار دو عالم حضرت محمدﷺاﷲ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں ۔رب رحمان نے آپﷺ کے بعد سلسلہ نبوت ختم کردیا ۔آپ ﷺ سے پہلے آنے والے انبیاء کرام مخلوق کوبھلائی کی دعوت اور بُرائی سے بچنے کی نصیحت کرتے رہے ۔اُولیا اﷲ ہر دور میں موجود رہے جبکہ سلسلہ نبوت بند ہونے کے بعد مخلوق کی بھلائی اور انبیاء کرام اور خاص طور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات اور احکامات کی روشنی میں اسلامی تہذیت کو زندہ رکھنا اور انسانیت کو شر سے بچاکر خیر کی طرف مائل کرنا اُولیا اﷲ کی ذمہ داری ہے۔اپنے مرشِد،آل رسولﷺسید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست،آپ کے مرشِد باباجی عبدالغنی چشتی سرکارؒنے آپ کوشہزادے کا لقب دیا ،باباجی محمد علی مست سرکارؒنے آپ کومعراجدین کا لقب دیااور حضرت خواجہ اُویس قرنیؓ کی تعلیمات کے ساتھ خاص محبت کے باعث تحریک اُویس پاکستان کے امیر پیر غلام رسول اُویسی صاحب نے آپ کو تحریک اویس پاکستان لاہور کے سرپرست اعلیٰ کی ذمہ داری سونپ دی ہے ۔اپنے مرشِد سید عرفان احمد شاہ اُویسی صاحب کی تربیت میں ایک طالب کی علم کی حیثیت سے حاضر ہوتا ہوں تو اﷲ تعالیٰ ،رسول اﷲﷺ اور اُولیا اﷲ کی تعلیمات کے انمول موتی حاصل ہوتے ہیں ۔اہل قلم کی حیثیت سے ان انمول موتیوں کی روشنی کو آپ تک پہنچاکر اپنا فرض پورا کرنے کی کوشش بھی اکثر کرتا رہتا ہوں۔ خیر کا پیغام عوام تک پہچانے کیلئے ہمیں آپﷺ کی حیات مبارکہ سے ہمیشہ مدد ملتی ہے ۔خیرکاجو پیغام آپﷺ نے دنیا کو دیا اُس کی مثال نہیں ملتی ۔ضرورت اس امر کی کہ ہم قرآن کریم ،احدیث نبیﷺاورآپﷺ کی حیات مبارکہ سے فائدہ حاصل کریں۔رسول ا ﷲ ﷺنے خطبۃ الوداع دیتے ہوئے فرمایا‘‘ لوگومیں جوکہوں سن لو،گو مجھے معلوم نہیں ،ممکن ہے کہ اس حج کے بعد پھر میں تم سے یہاں نہ مل سکوں۔لوگو جس طرح یہ دن ،یہ مہینہ اور یہ مقام محترم ہے اسی طرح جب تک تم زندہ ہوتمہاری جانیں،تمہاری عزتیں اور تمہارے مال بھی باہم ایک دوسرے پرحرام ہیں۔عنقریب تم اپنے پروردگار کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور وہ تمہارے اعمال کی بابت بازپرس کرے گا،خبردار میرے بعد گمراہ نہ ہوجاناکہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو،جاہلیت کی ہربات میں اپنے پاؤں پامال کرتا ہوں۔آپﷺ نے فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پرعجمی کو عربی پر ،گورے کو کالے پراور کسی کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں،بڑائی کا معیار نیکی اور خوف خُدا ہے تم سب اُولاد آدم ؐاور آدم علیہ السلام مٹی سے بنے تھے ،سب مسلمان آپس میں بھائی ،بھائی ہیں،لوگو میں نے تم میں دوچیزیں چھوڑی ہیں ،جب تک انہیں تھامے رہوگے،ہرگز گمراہ نہیں ہوگے،وہ چیزیں کتاب اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی سُنت ہے’’قارئین محترم فرمان رسول اﷲ ﷺ کے مطابق ہمیں اپنی زندگی اور معاشرے کو گمراہی سے بچانے کیلئے جن دو چیزوں کو تھامے رکھنا تھا بدقسمتی سے ہم نے اُن سے دوری اختیار کرلی ہے۔یہاں تھامے رکھنے کامطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ پکڑے رکھنا بلکہ کتاب اﷲ اور سُنت رسول اﷲ ﷺ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھ کر حرام سے ٹھیک اُسی طرح کنارا کرنے کا حکم ہے جس طرح فرمادیا گیا۔سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کے بعد یہ بات واضع ہوگئی ہے کہ ہمیں نہ صرف ایک دوسرے کی غلطی کو معاف کرنا ہے بلکہ ایک دوسرے کا خیال بھی رکھنا ہے ۔اگر آپﷺ کی حیات مبارکہ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے کبھی کسی دشمن کو بھی بددُعا نہ دے کر ہمارے لئے ایسی مثال قائم کی جسے ہم پوری کوشش کے بعد بھی فراموش نہیں کرسکتے ۔فرمان رسول اﷲ ﷺ ہے کہ’’اے اﷲ میری قوم کو ہدایت دے ،کیونکہ وہ نہیں جانتے ‘‘رئیس المنافقین عبداﷲ بن ابی اسلام کا بدترین دشمن تھا،جب وہ فوت ہوا تو رسول اﷲ ﷺ نے اُس کے حق میں دعا ئے مغفرت کی اوراپنی قمیض مبارک عنایت فرمائی ۔اُس کی سرکشی اور منافقت کے سبب اسے فائدہ نہ ہوالیکن اُس کے قبیلے کے سینکڑوں افراد نے آپﷺ کی رحم دلی کی وجہ سے اسلام قبول کرلیا۔جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے آخری اور محبوب نبی حضرت محمدﷺ کی اُمت سے پہلے نبیوں کی امتوں کو اُن کی نافرمانی اور سرکشی کے سبب مختلف عذابوں میں مبتلا کیا گیا۔کسی قوم کی صورت مسخ کردی گئی ،کسی کی بستی کواُلٹ دیا گیا،کسی پرپتھروں کی بارش کی گئی اورحضرت نوح علیہ السلام کی قوم تو اپنی مسلسل نافرمانیوں اور حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے پانی کے عظیم طوفان(عذاب)کی نذر ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ گئی لیکن میں قربان جاؤں اپنے نبی کریم حضرت محمدﷺ کی شان پرجن کی برکت سے کفار مکہ جو انتہائی سرکش اور نافرمان تھے پھر بھی عذاب عظیم سے محفوظ رہے ۔قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ’’اور اﷲ ہرگزاُن پر عذاب نازل نہیں کرے گاجب تک کہ آپﷺ ان میں موجود ہیں‘‘بددعا ایسا ہتھیار ہے جس کی کوئی قیمت نہیں یعنی بد دعا دینے میں ہر انسان خود کفیل ہے ۔ہم اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ غصے کی حالت میں ہر انسان کے پاس ایک ہتھیار ہر وقت موجود ہوتا ہے اور وہ ہے بددُعا۔دور حاضر میں اس ہتھیار کا زیادہ تر استعمال کمزور یعنی غریب لوگ کرتے ہیں لیکن امیر اور طاقت ور بھی دل کھول کر اس ہتھیار کااستعمال کرتے ہیں ۔حضور اکرمﷺ سے پہلے بہت سے انبیاء نے اپنی قوموں کی نافرمانیوں سے تنگ آکر اسی ہتھیار کا استعمال کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ سے اپنی قوموں کے حق میں بددُعا کی جس کے نتیجے میں اﷲ تعالیٰ نے اُن قوموں کو اعظیم عذابوں کی نظر کردیا۔دشمن کے حق میں بددُعا کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے پرمیں ایک بار پھر قربان جاؤں اپنے نبی کریمﷺ کی نرم دلی پر ۔ہجرت سے قبل مکہ میں مسلمانوں پر اور خود رسول اﷲﷺ پر کفار نے جو مظالم ڈھائے تھے اُن کا ذکر سن کر آج بھی انسان کی روح کانپ جاتی ہے۔اسی زمانہ میں ایک صحابی نے عرض کی کہ یارسول ﷺ دشمنوں کے حق میں بددُعا فرمائیے۔یہ بات سن کر آپﷺ کا چہرہ مبار ک سرخ ہوگیا ۔ایک مرتبہ ایک سے زیادہ صحابہ نے اسی قسم کی بات کہی توآپﷺ نے فرمایا ’’میں دنیا کیلئے لعنت نہیں بلکہ رحمت بنا کربھیجا گیا ہوں ۔جنگ احد میں دشمنوں نے آپ ﷺ پر پتھر پھینکے ،تلواریں چلائیں،تیربرسائے ،دندان مبارک شہید ہوئے،جبین ِ اقدس کو خون سے رنگ دیاگیالیکن پھر بھی حضور اکرم ﷺنے دشمنوں کے حق میں بددُعا نہیں کی بلکہ یہ دُعا فرمائی’’ اے اﷲ میری قوم کو ہدایت دے
 
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564405 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.