کیا آپ کی آمدن جائز ہے

قدیم مصری تاریخ میں ایک شخص اماسس کا ذکر آتا ہے۔ وہ ایک عام آدمی تھا۔ پینے پلانے کا رسیا۔ ہنسی مذاق کا شوقین۔ مزاجاً لڑاکا، جنگجو۔ کسی بھی سنجیدہ کام سے ہمیشہ گریزاں۔ اس کی زندگی عیاشیوں اور ضیافتوں میں گزرتی۔ جب کبھی اسے پیسے کی قلت ہوتی تو وہ لوگوں کو لوٹ کر پیسے جمع کر لیتا۔ لٹے ہوئے لوگ قریبی عبادت گاہ میں جاتے اور وہاں کی کہانت کو اس کی شکایت کرتے۔ کچھ اسے چور قرار دے کر سزا یا جرمانہ عائد کر دیتے اور کچھ ہنس کر بری کر دیتے۔ اتفاق سے مصر کا حکمران قتل ہو گیا اور اماسس مصر کا حکمران ہو گیا۔ وہ چونکہ کسی ممتاز گھرانے سے تعلق نہیں رکھتا تھا اس لئے شروع میں لوگوں نے اسے حقیر جان کر اس کا احترام بہت کم کیا۔ اس کی ذاتی چیزوں میں ایک سونے کا برتن تھا جس میں وہ اور اُس کے مہمان خاص خاص موقعوں پر پاؤں دھویا کرتے تھے۔ اس نے اسی برتن کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور اس سونے سے ایک دیوتا کی شبیہہ بنا کر شہر کے سب سے پرہجوم مقام پر نصب کروا دی۔ مصری جوق در جوق اس جگہ پر آنے اور گہری عقیدت اور احترام سے اس کی پوجا کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر اس نے ایک اجلاس بلایا اور عوام کو بتایا کہ اس نے یہ مورتی ایک گندے برتن کو توڑ کر بنائی ہے۔ مگر وہ برتن مورتی کی صورت میں کس قدر قابل احترام ہو گیا ہے۔ بالکل اس برتن کی طرح اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ پہلے وہ ایک عام شہری تھا۔ اب ان کا بادشاہ ہو گیا ہے۔ اس لئے سب کا فرض ہے کہ وہ اس کی عزت کریں۔ احترام سے پیش آئیں۔ یوں اس نے اپنی چالاکی سے لوگوں کو اپنا ساتھ دینے پر قائل کر لیا۔

بادشاہت کے دوران اس کا انداز بہت عجیب تھا۔ صبح سویرے سے لے کر بعد دوپہر تک وہ سلطنت کے تمام اموربہت محنت سے نمٹاتا اور شام کو دوستوں کی محفل سجا کر ہنسی مذاق اور گپ شپ میں مصروف ہو جاتا۔ دوست احباب اور بہت سے لوگ کہتے کہ اس کا یہ انداز کچھ ٹھیک نہیں۔ اس کی اس طرح کی حرکتیں شاہی عظمت کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ اس کا کام تو تخت پر جم کر بیٹھنا اور سنجیدگی سے سارا دن امور مملکت میں مصروف رہنا ہے۔ تا کہ اہل مصر اسے ایک عظیم آدمی اور خود کو اس عظیم آدمی کا محکوم سمجھیں۔ اسے اچھے لفظوں میں یاد رکھیں۔ وہ ہنس کر جواب دیتا۔ ’’کمان چلانے والے نشانہ لیتے ہوئے اپنی کمانیں کھینچتے ہیں اور تیر چلانے کے بعد ان کو کھول دیتے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ ہروقت کمان کھینچ کر رکھیں تو بہت جلد ٹوٹ جائے گی اور کسی کام کی نہ رہے گی۔ انسانوں کا معاملہ بھی کمان جیسا ہی ہے۔ وہ اگر ہر وقت سنجیدہ کام میں لگے رہیں اور تھوڑا سا وقت بھی تفریح پر خرچ نہ کریں تو بد حواس ہو جائیں اور پاگلوں جیسی حرکتیں کریں۔ یہی جانتے ہوئے میں نے اپنے شب و روز کو کام اور تفریح میں بانٹ رکھا ہے۔‘‘

کہتے ہیں اماسس کا عہد مصر کا خوشحال ترین دور تھا۔ دریازمین پر بہت مہربان تھے اور زمین انسانوں کی خدمت میں پہلے سے زیادہ پیداوار دیتی تھی۔ آباد شہروں کی تعداد بیس (20) تھی۔ جہاں لوگ خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ ایک عام آدمی کے طور پر جب وہ لوٹ مار کرتا رہا تھا تو وہ عبادت گاہیں جن کے لوگوں نے اسے چور اور ڈاکو جانتے ہوئے بھی بری کر دیا تھا اس نٰ وہ عبادت گائیں پوری طرح نظر انداز کر دیں۔ کیونکہ اس کے خیال میں وہ غلط، ہلکے اور بے وقعت لوگ تھے مگر وہ لوگ جنہوں نے اسے سزائیں دیں اور موردِ الزام ٹھہرایا انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا۔کہ وہ لوگ سچے ایماندار اور انصاف پرور تھے ان کی عمارات کی تعمیر کے لئے کثیر رقم خرچ کی۔ بہت سے مجسمے بھینٹ کئے اور ان کی جس قدر خدمت ہو سکی پوری طرح کی کیونکہ اس کے لئے ایسے بااصول لوگ حوصلہ افزائی اورقدر و منزلت کے مستحق تھے۔ اماسس کا سب سے بڑا کام یہ تھا کہ اس نے قانون بنایا کہ ہر مصری سال میں ایک دفعہ اپنے علاقے کے گورنر کے سامنے پیش ہو اور اپنے ذرائع حیات اور ذرائع آمدنی دکھائے۔ اپنی ایماندارانہ آمدنی کا ثبوت پیش کرے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرنے میں ناکام رہتا تو اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا اور تمام جائیداد ضبط کر لی جاتی۔ یہ قانون بعد میں اردگرد کے بہت سے ملکوں میں بھی اپنایا گیا۔

کسی بھی شخص کا کرپٹ ہونا یا نہ ہونا اس کے رہن سہن سے آسانی سے پتہ چل جاتا ہے۔ آدمی کچھ بھی کام کرے۔ جائز ذرائع سے کمانے کی ایک خاص رفتار ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ملک میں ذرائع پر قابض لوگ راتوں رات امیر سے امیر تر ہو جاتے ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹل جس میں رزق حلال کمانے والے لوگ شاید ہی کبھی کبھار جانے کی ہمت کرتے ہیں حرام خوروں کے دم سے خوب بزنس کر رہے ہیں۔ تفتیشی ادارے جس کا کام حرام خوروں اور کرپٹ عناصر کو پکڑنا ہے عجیب بات کہ ان کے ارکان ان ہوٹلوں کی رونق بڑھانے میں انتہائی زیادہ مددگار نظر آتے ہیں۔ حکومتی ایجنسیوں کو چاہئے کہ ان چیزوں کو پوری طرح تحقیق کریں۔ سارے احتساب کے عمل میں تفتیشی اداروں کے ارکان کا احتساب بھی ساتھ ساتھ چلنا چاہئے۔ خوف خدا اور دردِ دل رکھنے والے ارکان ان اداروں کا سرمایہ ہونا چاہئے اور کرپٹ ارکان کو فارغ کیا جانا چاہئے۔ احتساب عدالتیں جو اس وقت انتہائی سستی کا شکار ہیں اور نیب کے شکنجے سے آزاد نظرنہیں آتی ہیں۔ا نہیں آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جائے اور پابند کیا جائے کہ وہ ہر کیس کا فیصلہ جلد از جلد کریں ۔ حکومت بھی لوگوں کے ذرائع آمدن اور اس کے حصول کے جائز طریقوں کی پوری طرح تفتیش کرے۔ ایجنسیوں سے بھی رپورٹ بھی لے تا کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو سکے۔ اور نہ ہی کوئی مجرم قانون کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو سکے۔اس ملک کوایک بار صحیح راستے پر گامزن کرنے کے لئے ایسا قدم اٹھانا بہت ضروری ہے۔
 
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500548 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More