’’لبیک الھم لبیک…… لبیک لا شریک
لک لبیک…… انالحمد و انعمۃ لک و الملک …… لا شریک لک‘‘
حج کا مہینہ تھا۔تمام اطراف سے یہی صدائیں گونج رہی تھیں۔ شفاف سفید احرام
میں لپٹے افراد کا ایک سیلاب کسی بہت بڑے بھنور کی صورت میں بیت اﷲ کے گرد
طواف کر رہا تھا۔
’’اے اﷲ! مجھے اپنے دین کی خدمت کرتے ہوئے اس دنیا سے اٹھانا…… آمین یا رب
العالمین!‘‘خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی ذولفقار نے جو دعا مانگی وہ دینِ
اسلام کی خدمت کرنا تھی۔اس سے بہتر دعا اور ہو بھی کیا سکتی تھی۔وہ ٹکٹکی
باندھے اس عجیب منظر کو دیکھ رہا تھا۔ وہ منظر جو کبھی وہ صرف ٹی وی ،
اخباروں یا تصویروں میں دیکھتا تھا……
ہزاروں لوگ ایک سیاہ غلاف میں لپٹی اس قدیم و بزرگ عمارت کے گرد چکر کاٹ
رہے تھے۔
احادیث میں ہے کہ اس کعبہ کے عین اوپر ساتوے آسمان پر بیت المعمور ہے۔ جو
فرشتوں کا آسمانی کعبہ ہے…… جہاں جب کوئی فرشتہ طواف کے لئے داخل ہوتا ہے
تو تا قیامت پھر اس کی باری نہیں آتی……
کیساجلال تھا اس منظر میں……!!!
اﷲ کے نورکی تجلیات بیت المعمور سے ٹکرا کر اس کعبہ پر پڑتی ہیں……
اﷲ کی تجلیات…… جن کا تقاضہ کرکے حضرتِ موسی ؑ بے ہوش ہو گئے تھے…… اور
پہاڑ اﷲ کے خوف سے گھُٹ کر رہ گیا تھا……
اس نور کو کوئی انسانی آنکھ محسوس نہیں کر سکتی……اگر یہ نور ویسے ہی جلوہ
فرما ہو جائے جیسے موسی ؑ کے سامنے ہوا تھا تو ہر جاندار موت کے گھاٹ اُتر
جائے……
کیا سکت ہے انسان کی کہ وہ خالق کے نور کا مشاہدہ کر سکے؟؟؟ انسان بیچارہ
تو ایک سورج کو چمکتا نہیں دیکھ سکتا جو اُس خالق کی بے شمار تخلیقوں میں
سے صرف ایک تخلیق ہے……
’’نظریں اُسے پا نہیں سکتیں …… پرَ وہ نظروں کو پا جاتا ہے……‘‘ قرآن مجید
’’……اور یہ جنت کا پتھر ……‘‘ ذولفقار ہجرہ اسود کو بوسہ دینے کے بعد سوچنے
لگا۔
قرآن مجید میں ہے کہ جو پہلا گھر اﷲ کی عبادت کے لئے تعمیر ہوا وہ یہی مکہ
میں ہے…… کہتے ہیں حضرتِ آدم ؑ نے اسے فرشتوں کی مدد سے تعمیر کیا اور پھر
جنت کا ایک پتھر اس میں لا کر جڑ دیا۔یہ پتھر کبھی ایک ہی سالم پتھر ہوا
کرتا تھا…… پھر کچھ ظالموں نے کسی دور میں اسے یہاں سے اُدھیڑ لیا اور جب
واپس حاصل ہوا تو اس کے کئی ٹکڑے ہو چکے تھے…… اب یہ ٹکٹروں کی صورت میں
چاندی کے فریم میں خانہ کعبہ کے ایک کونے میں پیوست ہے۔ طواف یہیں سے شروع
ہوتا ہے……
یہ پتھر دنیا کا جنت سے تعلق جوڑتا ہے۔
ذولفقار نے اپنا چہرہ حجرہ اسمائیل کے ساتھ بنی ایک شیشے میں قید چیز پر
ٹکا رکھا تھا۔یہ مقامِ ابراہیم تھا۔یہاں ابراہیم ؑ جو تقریباََتمام
پیغمبروں کے جدِ امجد ہیں، کے پیروں کا نشان تھا۔ شاید کوئی پانچ چھ ہزار
سال پرانہ قدموں کا نشان …… جو اب تک جوں کا توں موجود تھا…… یہیں ابراہیم
خلیل اﷲ ؑ نے اپنے فرزند اسماعیل زبیح اﷲ ؑ کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی از
سر نو تعمیر کی تھی…… کہتے ہیں طوفانِ نوح نے اس کے آثار مٹا دئیے تھے۔
یہیں پاس سے آبِ زم زم بھی جاری ہوا تھا……
طواف کے سات چکر ذولفقار کو سات آسمانوں کا سفر معلوم ہو رہا تھا…… ہر ہر
چکر میں یوں لگتا جیسا اس کی روح کو کوئی چارج کر رہا ہو……اسے اپنی انگلیوں
کے پوروں میں ایک انوکھی سی سنسناہٹ محسوس ہو رہی تھی…… وہ اپنے آپ کو بہت
ہلکا پھلکا بے وزن سا محسوس کرنے لگا……
طواف مکمل کر کے ذولفقار نے آب ِزم زم نوش فرمایا اور ٹکٹکی باندھے خانہ
کعبہ کو دیکھنے لگا…… یہاں یہی سب کا من پسند کام تھا…… بس آنکھیں جوڑیں
کعبہ شریف کو دیکھتے رہنا…… کیسا عجیب اور دل فریب نظارہ تھا……
وادیء منا میں قیام کے پہلے روز ہی بارش ہو گئی اور موسم نہایت خوشگوار ہو
گیا۔یہ وہی وادی تھی جہاں ابراہیم ؑ اسما ئیلؑ کو قربانی کے لئے لے گئے
تھے۔جہاں ابلیس مردود نے تین بار نمودار ہو کر ابراہیم ؑ کو اﷲ کی اطاعت سے
روکنا چاہا۔ مگر ہر بار پتھر کھائے…… ابراہیم ؑ کے اسی عمل کی یاد میں اب
یہاں تین بڑے بڑے ستون قائم ہیں جن پر پتھر مارے جاتے ہیں۔
……اور پھر قربانی کا دن یعنی عید کا دن آگیا…… جب ابراہیم ؑ نے اسمائیل ؑ
کوقربان کرنے کا مسمم ارادہ کر لیا اور چھری چلانے کو ہی تھے کہ آواز آئی……
’’اے ابراہیم! تو نے تو اپنا خواب سچ کر دکھایا، بے شک ہم احسان کرنے والوں
کو بہت صلہ دیتے ہیں‘‘
……اور اسمائیل ؑ کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا آگیا اور ابراہیم ؑ نے اسے قربان
کیا۔
’’اے اﷲ! میرا دل نہیں چاہتا کہ پھر اسی دنیا میں واپس جاؤں‘‘۔حج سے واپسی
پر ذولفقار خوب رویا۔
’’یہ کیسی جگہ ہے اﷲ…… آسمان چھت ہے اور زمین فرش…… اور دو سفید اَن سِلی
چادریں تن کے کپڑے……‘‘ وہ اپنے آس پاس بار بار دیکھتا ، کبھی آسمان کو
دیکھتا کبھی زمین کو کبھی آس پاس مِناکی پہاڑیوں کو……وہ بے حد اداس تھا۔
اسے اپنی دنیا میں واپس جانے سے نفرت ہو رہی تھی۔اسے یہ کوئی اور ہی دنیا
لگ رہی تھی۔ کتنی سادہ اور پر سکون…… کوئی غم نہیں…… کوئی پریشانی نہیں……
بس اطمینان ہی اطمینان…… امن…… سکون……
۔۔۔۔۔۔۔
حج سے واپس آکر آج پہلا دن تھا کہ ذولفقار یونیورسٹی جا رہا تھا۔ وہ بہت
خوش تھا۔ وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا جیسے کوئی بوجھ اس
پر سے اتار لیا گیا ہو…… تمام دوستوں نے تو فون کر کے اسے حج کی مبارک باد
دے ہی دی تھی…… بس آج حج کے بعد دو بدو سب سے ملنا تھا……
اپنے ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوتی ہی اسے اس کے اسٹیوڈنٹس نے گھر لیا۔ کوئی گلے
ملتا کوئی ہا تھ ملاتا…… سب اسے حج کی مبارکباد دے رہے تھے۔
’’خیر مبارک!‘‘
’’اﷲ آپ سب کو بھی حج کی سعادت دے!‘‘ ذولفقار بھی گرم جوشی سے سب کو
خیرمبارک کہہ رہا تھا۔
اسی طرح چلتے چلتے اور لوگوں سے ملتے وہ اسٹاف روم تک پہنچ گیا ۔ وہاں کچھ
کولیگز گلاب کے پھولوں کا ہار لئے اس کے منتظر کھڑے تھے۔
’’ مبارک ہو ذولفقار صاحب!‘‘ ذولفقار کے ایک دوست نے اس کے گلے میں پھولوں
کا ہار ڈالا۔
’’مبارک ہو جناب!‘‘
’’ماشاء اﷲ! چہرے پر نور آ گیا ہے……‘‘ سب ہنستے مسکراتے اس سے گلے ملے اور
مبارکباد دی۔
’’شکریہ ! ‘‘
’’شکریہ بہت بہت!‘‘ ذولفقار دل کھول کے مسکرا رہا تھا۔ وہ ان کاجوش و خروش
دیکھ کر بہت خوشتھا۔
تھوڑی ہی دیر میں سب اپنے اپنے لیکچرز دینے چلے گئے۔ ذولفقار کی کلاس ایک
گھنٹے بعد تھی۔ وہ اپنے آفس میں بیٹھا اپنے نوٹس وغیرہ جمع کرنے لگا۔ اور
چھٹیوں کے دوران جو بھی ای میلز آئیں تھیں انہیں چیک کرنے لگا۔
’’السلام و علیکم سَر!‘‘
’’مبارک ہو حج کی……‘‘ کچھ اور لڑکے اسے مبارک باد دینے تشریف لائے۔
’’خیر مبارک…… بہت بہت شکریہ!‘‘ ذولفقار نے جواب دیا۔
’’کیسے ہیں آپ سب لوگ؟؟؟‘‘ اس نے ان کا حال چال پوچھا۔
’’الحمد ﷲ!‘‘ انہوں نے چھوٹا ساجواب دیا۔
’’……اور کیا ہو رہا ہے؟؟؟ کیا خبریں ہیں؟؟؟‘‘
’’سب ٹھیک جا رہا ہے؟؟؟‘‘ذولفقار نے اپنی انگلیوں کے کڑاکے نکالتے ہوئے بے
نیازی سے پوچھا۔
’’جی سَر …… الحمدﷲ سب ٹھیک ہے‘‘۔ سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔
’’اچھا……‘‘ ذولفقار نے زرا کھینچ کر لفظ اچھا کہا اور ان کی طرف دیکھنے لگا
کہ اس کی غیر موجودگی میں ہونے والے ضروری واقعات اور حالات سے اسے آگاہ
کریں گے۔
’’……بس سَر …… وہ……‘‘
’’سعد کو آپ جانتے ہیں نا؟؟؟‘‘ ان کے منہ سے سعد کا نام سن کر ذولفقار چونک
گیا۔
سعد کو تو وہ بھول ہی گیا تھا۔ ابھی تک وہ اس سے ملا بھی نہیں تھا۔
حقیقتاََ حج کے روح پرور سفر نے جیسے اس کے دماغ کا ری سیٹ بٹن دبا دیا ہو۔
وہ بالکل فریش اور تمام تر پرانی باتوں کو ذہن میں پیچھے کہیں دور دھکیل
چکا تھا۔
’’…… ہاں جانتا ہوں میں…… وہی ایلیکٹرانکس والا نا؟؟؟‘‘ ذولفقار نے سعد کے
ڈیپارٹمینٹ کا نام لیا۔
’’جی…… جی…… سَر وہی……‘‘
’’نظر نہیں آیا وہ…… اس کا فون بھی نہیں آیا……‘‘ ذولفقار سوالیہ نظروں سے
ان لڑکوں کو دیکھنے لگا۔
’’جی…… سَر …… وہ …… ‘‘
’’ سَروہ…… سعد کا انتقال ہو گیا ہے!!!‘‘
’’کیا……!!!‘‘ ذولفقار تقریباََ چیخ پڑا۔ حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی
اور منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
’’جی سَر…… بہت عجیب بات ہے…… مگر تقریباََ پندرہ دن پہلے سعد کا انتقال ہو
گیا……‘‘ ایک دوسرے لڑکے نے بھی بات کی تصدیق کی۔
’’کیا کہہ رہے ہو…… مجھے یقین نہیں آ رہا……‘‘ ذولفقار پریشانی کے عالم میں
ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس کے جسم نے ایک جھرجھری سی لی جسے باقی لوگوں نے
بھی محسوس کیا۔
’’کیسی بات کر رہے ہو…… یہ کیسے ہو سکتا ہے……!!!‘‘ سب کے چہرے یک دم اتر
گئے۔
’’سوری سَر آپ کو آتے ہی ہم نے بری خبر سنا دی……‘‘
’’نہیں یار ایسی بات نہیں ہے…… یہ بات تو مجھے پہلے ہی پتا چل جانی چائیے
تھی……‘‘ ذولفقار افسوس کرنے لگا۔ سب کے چہروں پر اداسی چھا گئی تھی۔
’’آہ……‘‘ ذولفقار کے منہ سے ایک آہ نکلی۔
’’او ہو……‘‘ ذولفقار بہت غمزدہ ہو گیا۔
’’یہ کیسے ہوا؟؟؟‘‘ ’’مجھے تو اب بھی یقین نہیں آ رہا……‘‘
’’سَر اسے تو ٹارگٹ کلنگ میں مار دیا گیا!!!‘‘ سعد مرحوم کے ایک دوست نے
جواب دیا۔ وہ تقریباََ رونے لگا۔
’’کیا!!!‘‘ ذولفقار پھر ہکا بکا رہ گیا۔
’’ٹارگٹ کلنگ میں!!!!‘‘ اب تو ذولفقار کی حیرت کی کوئی انتہا نہ تھی۔
’’جی سَر…… اخبار میں خبر بھی آئی تھی……‘‘ ایک اور لڑکا ہمت کر کے بولا۔سب
کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔
’’چچ چچ چچ چچ ……‘‘ ذولفقار اپنی دونوں کہنیاں ٹیبل پر ٹکا کر اپنا سَر پکڑ
کر افسوس کرنے لگا۔
’’آئے ہائے…… کیا زندگی ہے!!!‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ زندگی کی نا
پائیداری اور عارضی پن تب ہی کھل کر واضح ہوتا ہے جب کسی نو جوان کی موت کی
خبر سننے کو ملتی ہے۔
ذولفقار کا سارا دن اب بہت برا گزرا۔ جب بھی کوئی اسے حج کی مبارک باد دیتا
وہ خیر مبارک کہہ کر سعد کا افسوس کرنے لگتا۔
اس کا دل اب کام میں بھی نہیں لگ رہا تھا۔ بار بار اس کے ذہن میں سعد کا
پریشان چہرہ اور اس کی کہی ہوئی باتیں یاد آجاتیں۔
’’…… کہیں اس کی یوں اچانک موت اس بات کا ثبوت تو نہیں کہ جو کچھ بھی وہ
کہہ رہا تھا سچ کہہ رہا تھا……‘‘
’’……اور اسے ان ہی لوگوں نے مروایا جن کی ایمانداری پر اسے شک تھا!!!‘‘
ذولفقار بے انتہا پریشان ہو گیا-
ْٔ
ع میری بات کا یقیں تمہیں ہو گا مگر
مجھے زہر پڑے گا پینا…………
۔۔۔۔۔۔۔ |