نور اعلیٰ نور - قسط ۲۵

’’کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟؟؟‘‘
’’کیا اس کا بھائی اسے خود مروا بھی سکتا ہے؟؟؟‘‘
’’یا یہ محض ایک اتفاق ہے؟؟؟‘‘ ذولفقار رات کو اپنے بیڈ پر لیٹاخود سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ لگاتار سعد کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

بار بار اسے سعد کا معصوم چہرہ یاد آتا۔ اس کا پریشان چہرہ…… اس کی باتیں…… اس کا شک…… وہم…… وہ اس کا بھیجا ہوا میسج بار بار پڑھتا……
اتنی سی عمر میں وہ اﷲ کو پیارا ہو گیا……

’’مگر آج کل شہر میں ٹارگٹ کلنگ تو نہیں ہو رہی……‘‘
’’اگر کوئی حادثہ یا طبئی موت ہوتی تو اور بات تھی……‘‘
’’پَر ٹارگٹ کلنگ؟؟؟‘‘ معلومات کے مطابق سعد کو چار گولیاں ڈائریکٹ سینے میں لگیں تھیں۔
’’یقیناََ معاملہ اتنا سادہ نہیں…… ‘‘
’’کوئی اور بات ہے‘‘۔
’’ضرور سعد نے جو کچھ کہا تھا یہ اسی سے ریلیٹڈ ہے……‘‘ ذولفقار افسوس کرنے لگا ۔
’’کاش میں اس کی کوئی مدد کر سکتا……‘‘ ذولفقار کا دل ڈوب سا گیا تھا۔ وہ دلبرداشتہ اپنا چہرہ دائیں سے بائیں ہلارہا تھا جیسے کوئی کسی بات کے پچھتاوے میں ہلاتا ہے۔
’’اس نے مجھے اپنا سمجھ کرمجھ سے اپنی بات شیئر کی تھی……‘‘
’’اف…… اوہ……‘‘ ذولفقار ٹھنڈی آہیں بھرنے لگا۔ جیسے اسے یقین ہو گیا ہو کہ سعد کو اس کے بھائی نے ہی مروایا ہے اور اسے کوئی خاطر خواہ مشورہ نہ دے کر ذولفقار بھی اس کی موت کی ایک وجہ بن گیا ہو ……
’’اگر ایسا ہی ہے تو یہ تو بہت بڑی بات ہے……‘‘
’’……اور یقیناََ وہ لوگ بے حد خطرناک اور واقعی ملک دشمن ہیں……‘‘
’’بلکہ بہت بڑے دشمن ہیں…… ‘‘
’’جو اپنے بھائی کو بھی مروا سکتا ہے اس سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟؟؟‘‘
’’پَر میں کیا کر سکتا ہوں یار……‘‘ ذولفقار اپنے آپ کو کوسنے لگا۔
’’اب بھی میں کیا کر سکتا ہوں……‘‘
’’بلکہ اب بھی مجھے ایک شک ہی ہے…… بے شک یہ شک یقین کے بے پناہ قریب ہے ……مگر جب تک سو فیصد یقین نہ ہو جائے ، کیا کیا جا سکتا ہے……‘‘
’’اُف…… ‘‘ ذولفقار کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔
’’مجھے کچھ لوگوں سے اس بارے میں مشورہ کرنا چائیے…… کیونکہ اب بات اتنی جھوٹی نہیں رہی کہ میں اسے ایسے ہی نظر انداز کر دوں……‘‘
’’ایک شخص کی جان جا چکی ہے…… اور آگے نا جانے کیا کچھ ہونے والا ہے……‘‘
’’سعد جن لوگوں کی بات کر رہا تھا وہ جانے کیسی پلاننگ کر رہے ہیں‘‘
’’کہیں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں یا پھر اس سے بھی بڑھ کر کچھ……‘‘

ذولفقار نے ہاتھ اٹھا کر اﷲ سے مدد کی درخواست کی۔ اس نے طے کیا کہ تنظیم کے امیر ڈاکٹر سراج الدین اور دادا جان سے اس معاملے میں بات کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔

’’انا ﷲ و انا الیہ راجعون‘‘ دادا جان نے فرمایا۔
ذولفقار حسن کے گھر دادا جان سے ملنے آیا تھا۔وہ اور دادا جان شام کو چھت پران کے بڑے سے مصلے پر بیٹھے تھے۔ اس نے اکیلے میں دادا جان سے ساری بات کہہ دی۔
’’بیٹا! جیسا کہ آپ فرما رہے ہیں…… لگتا تو یونہی ہے کہ سعد بیٹے کی موت کوئی اتفاق نہیں……‘‘
’’ضرور ان لوگوں کا اس میں کوئی ہاتھ ہے جِن پر سعد کو شک تھا……‘‘
’’ہم یہی کر سکتے ہیں کہ پولیس کو خبر کر دیں…… تا کہ ان لوگوں کو تفتیش میں شامل کیا جائے اور ان کے ناپاک ارادے سب پر ظاہر ہوجائیں‘‘
’’مگر جیسا کہ آپ کہہ رہے ہیں آپ سراج الدین صاحب سے بھی بات کر لیں…… کیونکہ تنظیم سے مختلف قسم کے لوگ جڑے ہوئے ہیں……کوئی وکیل ہے…… کوئی فوج میں ہے…… کوئی کیا ہے……‘‘
’’وہ لوگ اور اچھی کوئی راہ نکالیں گے……انشاء اﷲ‘‘
’’میں پروردگار سے تمہاری خیر و عافیت اور کامیابی کی دعا کروں گا‘‘ انہوں نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف بلند کر کے کہا۔
’’تم اپنا بھی خیال رکھنا…… کیونکہ سعد نے صرف تم پر ہی یہ راز کھولا ہے……اگر……‘‘
’’آپ سمجھ رہے ہو نا بیٹا……‘‘ ذولفقار نے چونک کر دادا جان کو دیکھا۔اسے ایک جھٹکا سا لگا۔ اس نے یہ تو سوچا ہی نہیں کہ اس کی اپنی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جن لوگوں نے سعد کو موت کے گھاٹ اتارا اگر وہ جانتے ہیں کہ اُسے بھی وہ باتیں پتا ہیں جو سعد کو پتا تھیں تو لازماََ وہ اس کے پیچھے بھی ہوں گے۔

’’یہ ایک اہم بات ہے…… یہ کوئی چھوٹی بات نہیں……‘‘
’’ہمیں ضرور اﷲ کی رہنمائی لینے چائیے……‘‘
’’آپ رات کو سوتے ہوئے اﷲ سے دعا مانگ کر سویا کرو کہ وہ آپ کی رہنمائی کرے‘‘
’’ضرور اﷲ تبارک تعالی آپ کی مدد کرے گا‘‘
’’وہ تو ہر وقت …… اس وقت بھی ہمارے ساتھ ہے نا …… اور ابھی ہماری باتیں بھی سن رہا ہے……‘‘
’’اے پروردگار! تو اپنے لطف و کرم سے اس معاملے میں ہماری مدد فرما‘‘ ،دادا جان نے آسمان کی طرف دیکھ کر اپنے ہاتھ دعا میں بلند کر دیئے اور ان کی دیکھا دیکھی ذولفقار نے بھی اسی لمحے اﷲ سے رہنمائی کی دعا مانگی۔
۔۔۔۔۔۔۔


ذولفقار نے تنظیم کے امیر محترم جناب ڈاکٹر سراج الدین سے وقت لے کر انہیں تمام معاملہ گوش گزار کردیا۔ انہوں نے بہت تحمل اور غور سے ذولفقار کی بات سنی اور اسے ایک اہم معلومات تصور کیا۔ امیر محترم نے بتایا کہ انہیں اس قسم کی خبریں پہلے بھی ملتی رہی ہیں۔ کیونکہ تنظیم کے کارکنان پورے ملک میں پھیلے ہیں اور ہر طرح کے طبقے ، ہر طرح کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ تنظیم کا حصہ ہیں۔ کئی اندر کے باتیں تنظیم کو پتا چل جاتی ہیں۔ مگر یہ معاملہ ذیادہ سنجیدہ اور گھمبیر تھا……

’’بات اہم ہے…… ‘‘ ڈاکٹر صاحب بولے۔
’’اس قسم کی خبریں ہمیں پہلے بھی موصول ہوتی رہیں ہیں……‘‘
’’میں تنظیم کے نہایت مخلص اور چیدہ چیدہ افراد کی ایک میٹنگ بلاتا ہوں…… ہم اس میں یہ معاملہ ڈسکس کریں گے ……‘‘
’’ تنظیم میں فوج کے، پولیس کے ، وکلاء حضرات ، صحافی ، ڈاکٹرز، انجینئیز، ہر طرح کے لوگ شامل ہیں……‘‘
’’ہم سب مل کر یقیناََ کوئی بہترین فیصلہ کریں گے …… انشاء اﷲ…… کہ کیا کرنا چائیے……‘‘ ذولفقار نے ان کی بات پر اثبات میں سَر ہلایا۔
’’ کل یا پرسوں ہم یہ میٹنگ رکھ لیتے ہیں…… دوسرے افراد کی مصروفیت بھی دیکھنی ہو گی…… کیونکہ کچھ اہم لوگوں کا اس میں شرکت کرنا ضروری ہے……‘‘
’’جی…… ٹھیک……‘‘ امیر محترم کا مثبت رویہ دیکھ کر ذولفقار کی ہمت بندھ گئی اور ایک سہارا سا مل گیا۔
’’آپ مجھے اپنا موبائیل نمبر دے دیں میں آپ کو کل صبح تک کال کر لوں گا‘‘۔’’انشاء اﷲ‘‘ ڈاکٹرسراج الدین بولے۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن بعد تنظیم کی میٹنگ ہونا طے پائی۔
ذولفقار کا موبائیل بجنے لگا۔
’’السلام و علیکم بیٹا!‘‘
’’ذولفقار بیٹا میں بات کر رہا ہوں‘‘ دوسری طرف دادا جان تھے۔
’’السلام و علیکم دادا جان…… کیسے ہیں آپ!!!‘‘
’’الحمد ﷲ بیٹا …… الحمدﷲ……‘‘
’’بیٹا آپ کی بات ہو گئی……‘‘ داداجان تنظیم سے بات کرنے کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔
’’جی دادا جان…… کل بات کر لی تھی میں نے……‘‘
’’ام م م…… میں ایسا کرتا ہوں آج شام کو آپ کی طرف چکر لگاتا ہوں…… انشاء اﷲ‘‘ ذولفقار نے چاہا کہ از خود دادا جان سے مل لے۔
’’ٹھیک ہے بیٹا آج آ جاؤ……‘‘
داداجان نے خدا حافظ کہا۔ ذولفقار نے بھی سلام کر کے کال کاٹ دی۔

شام کو داداجان نے ذولفقار سے کہا کہ وہ بھی تنظیم کی میٹنگ میں شرکت کریں گے۔ذولفقار ان کی خوہش جان کر تھوڑا حیران ہوا۔ مگر داداجان کو انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ دادا جان کچھ ایسا جانتے ہیں جو وہ نہیں جانتا ورنہ دادا جان کبھی بھی اس طرح تنظیم میں شرکت کی خواہش نہ کرتے۔لہذا اسے اطمینان ہو گیا کہ جب اﷲ والے اس کے ساتھ ہیں تو اﷲ بھی ساتھ ہی ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے دن سب افراد تنظیم کے آفس کے ایک بڑے سے میٹنگ روم میں موجود تھے۔ ذولفقار نے امیرِ تنظیم اور دوسرے رفقاء سے دادا جان کا تعارف کرایا۔ یوں تو یہ میٹنگ خالصتاََ تنظیم کے ممبران کے بیچ ہی تھی۔مگر دادا جان کی با رعب شخصیت اور بزرگی دیکھ کر کسی کی بھی ان کے سامنے چوں کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ بلکہ سب ہی نہایت ادب و احترام اور کھلے دل سے انہیں خوش آمدید کہنے لگے۔ دادا جان بھی خوش دلی سے سب سے ملے اور کئی رفقاء کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔

میٹنگ تقریباََ تین گھنٹے چلی اور یہ بات طے ہو گئی کہ تنظیم کی طرف سے چیف آف آرمی اسٹاف کو ایک خط لکھ کر ممکنہ خطرے سے آگاہ کیا جائے گا۔ اور انہیں مشورہ دیا جائے گا کہ وہ میجر اشرف کی مخبری کریں اور اس پر نظر رکھیں۔ اس کام کے لئے ایک ریٹائرڈ بریگیڈئیر جو کہ تنظیم کے رکن ہیں سے مدد لی جائے گی۔
اب یہ طے کرنا باقی تھا کہ آیا تنظیم بھی اپنے طور پر اس معاملے میں کوئی ایکٹو ایکشن لے یا بس ایک خط لکھ کر اپنے آپ کو اس معاملے سے بری الذمہ سمجھے……

لنچ کے وقفے کے بعد دوبارہ میٹنگ شروع ہوئی۔
’’صرف COASکر ایک خط لکھ کر یہ سمجھ لینا کہ اب ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں…… ٹھیک بات نہیں……‘‘ ایک صاحب بولے۔
’’ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق لائحہ عمل طے کرنا ہوگا‘‘ انہوں نے بات آگے بڑھائی۔
’’میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ کیا کیا جا سکتا ہے…… ہم کوئی انٹیلیجنس ایجنسی تو ہیں نہیں…… ‘‘۔ ’’……ویسے بھی دین کا کام کرنے والی تمام جماعتوں پر تو ویسے ہی سب کی نظر ہے…… کہ کوئی بہانہ ملے اور ہمیں ban کر دیا جائے……‘‘ ایک اور سینئیر رفیقِ تنظیم نے فرمایا۔
’’بات تو ٹھیک ہے…… ہم دینی جماعتوں سے تو ویسے ہی سب کو اﷲ واسطے کا بیر ہے……‘‘
’’ہم تھوڑی بہت اپنی بساط کے مطابق کچھ کوشش کر سکتے ہیں……‘‘ ایک شخص جو فوج میں حاضر سروس تھے کہنے لگے۔
’’جی…… ‘‘ امیرَ تنظیم نے ان کی طرف دیکھا ۔ جیسے مزید سننا چاہ رہے ہوں کہ کیا کوشش کرسکتے ہیں۔
’’میرے خیال سے سب سے پہلے میجر اشرف پر نظر رکھنی چائیے…… اس کے لئے ہم ان کے علاقے میں موجود ہماری تنظیم کے حلقے سے رابطہ کر سکتے ہیں……‘‘
’’اس سے آگے کی ہر چیزابھی تو طے نہیں کی جا سکتی …… مگر کوئی اہم معلومات اگر ہمیں میجر اشرف کے بارے میں ملے تو کچھ اور بھی پلان کر سکتے ہیں…… بعد میں……‘‘
’’یعنی فی الحال صرف میجر اشرف پر نظر رکھی جائے‘‘ ڈاکٹر سراج الدین بولے۔ ذولفقار اور داداجان بھی بڑے غور سے سب باتیں سن رہے تھے۔
’’جی…… اس وقت تو اتنا ہی کرنا ہو گا بس……‘‘ وہ صاحب جو فوج میں تھے بولے۔
’’اس میں کوئی مضائقہ نہیں……‘‘
’’یہ کوئی بہت مشکل کام بھی نہیں……‘‘
’’بس احتیاط ضروری ہے……‘‘
’’ہم میجر اشرف کے حلقے کے امیر کو اگلی میٹنگ میں بلاتے ہیں…… مگر میجر کی ڈیوٹی کے وقت کون ان پر نظر رکھے گا؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا۔
’’یہ کام مجھ پر ہی چھوڑ دیں…… ڈیوٹی آورز میں کیا کرنا ہے یہ میں دیکھ لوں گا‘‘۔ وہی حضرت جو فوج میں تھے کہنے لگے۔
’’چلیں ٹھیک ہے…… ویسے بھی آپ ابھی حاضر سروس ہیں…… اور میجر اشرف بھی فوج میں ہی ہیں…… آپ یقینا یہ کا احسن طریقہ سے انجام دیں گے……‘‘
’’مجھے اور بھی کچھ صحافی یا تاریخ داں وغیرہ…… یا کوئی ایسے تنظیم کے رفقاء ہوں جو سیاست سے وابستہ رہے ہوں…… یا فوج کے اعلی عہدوں پر ہوں…… ان کی ایک لسٹ دے دیں……‘‘ ڈاکٹر سراج الدین نائب امیرِ تنظیم سے مخاطب ہوئے۔
’’ان افراد کی ایک ٹیم ہمیں تشکیل دینی چائیے…… کیونکہ یہ لوگ ایسے معاملات میں ایکسپرٹ ہوتے ہیں……‘‘
’’مگر خیال رہے کہ جس کو بھی اس معاملے کی بھنک پڑے وہ پورے اعتبار کا بندہ ہو…… اور اﷲ سے مخلص ہو……‘‘ ڈاکٹر سراج الدین نے تنبیہہ کی اور سب رخصت ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ہر ہر علاقے میں لاکھوں لوگ آباد ہیں۔ تنظیم نے ہر شہر کو مختلف حلقوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ ہر علاقے کا ایک حلقہ تھا اور اس خاص حلقے کا ایک امیر…… ہر ہفتہ اس علاقے میں رہنے والے تمام تنظیم کے ارکان آپس میں مل بیٹھ کر اپنی دینی تربیت کا اہتمام کرتے اور روز مرہ کے ملکی و غیر ملکی معاملات پر تبادلہ خیال کرتے……

میجر اشرف جس جگہ رہتے تھے وہاں بھی ایک حلقہ قائم تھا۔ امیر تنظیم کی طرف سے انہیں جو کام کرنا تھا اس کی اطلاع بھی دے دی گئی تھی۔

ایک ہفتے کے اندر اندر ہی ایک اہم خبر ملی۔
میجر اشرف کے گھر سے پتا چلا کہ وہ ضروری آفیشیل ورک سے لاہور گئے ہوئے ہیں۔ جبکہ اصل میں اس نے ڈیوٹی سے بیس دن کی چھٹیاں لے لی تھیں اور وہ کشمیر چلا گئے تھے۔

’’ہمیں کشمیر میں کوئی اجتماع کرنا چائیے اور اس بہانے وہاں کی خیر خبر کرنی چائیے……‘‘ڈاکٹر سراج الدین نے میٹنگ میں فیصلہ کیا۔
ذولفقار دادا جان اور باقی کی تمام ٹیم جو اس مشن میں ان کے ساتھ تھی کشمیر کے لئے روانہ ہوئے۔ کشمیر کے حلقے کے امیر کو پہلے ہی خبر کر دی گئی تھی۔ انہوں نے وہاں ایک چھوٹا سا اجتماع منعقد کیا۔
دو تین دن کی کوشش کے بعد وہاں کے حالات اور مقامات سے بہت حد تک آگاہی حاصل ہو گئی۔

یہاں کا ایک مقام انڈیا اور پاکستان کے بیچ اسمگلنگ کے لئے بہت ساز گار تھا۔ اگر فوج کا کوئی آدمی اندر سے ملا ہوا ہو تو وہاں سے آنا جانا نہایت آسان تھا۔ اس مقام پر ایک پل بھی تھا جو ایک کھائی کے اوپر واقع تھا۔ اگر کسی گاڑی یا ٹرک کو باڈر پار سے آنا ہو تو لازماََ اسی پل پر سے گزرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا……
میجر اشرف کو دو بار اسی مقام پر دیکھا گیا تھا ۔
پوری ٹیم کو یقین ہو چکا تھا کہ یہاں سے کوئی نہ کوئی ہتھیاروں کی اسمگلنگ ہونی ہے یاکسی خاص فرد کا یہاں سے ملک میں داخلہ ہونا ہے۔

ایک کشمیری رفیق سے درخواست کر کے چار افراد کو اسی مقام کے پاس کے ایک پہاڑ پر ایک گھر میں ٹھہرا لیا گیا۔
ان افراد میں ذولفقار ، ڈاکٹر سراج الدین اور دو اور افراد بھی شامل تھے۔
دادا جان اور باقی افراد جو کراچی سے ساتھ آئے تھے۔ اسی پہاڑ کے نیچے ہی ایک گھر میں مہمان کی حیثیت سے ٹھہر گئے۔

آج ان کا اس مقام پر ٹھہرنے کا پہلا دن تھا۔ عصر کے بعد داداجان ہاتھ میں ایک لاٹھی لئے نیچے سے اوپر پہاڑ پر آنے لگے۔

’’دادا جان آپ اتنی اوپر کیوں آئے ہیں؟؟‘‘ ذولفقار نے داداجان کو پہاڑ کے اوپر آتے ہوئے دیکھا۔
’’بس بیٹا ! اﷲ کی مدد سے آ گیا ہوں…… میں یہاں اتنی دور ایسے ہی نہیں آیا بیٹا……! ‘‘ یہ کہہ کر داداجان پاس پڑے ایک پتھر پر بیٹھ گئے۔ باقی افراد نے بھی آس پاس گھیرا ڈال لیا۔
’’آپ کیسے ہیں ڈاکٹر صاحب! ‘‘ داداجان ڈاکٹر سراج الدین سے مخاطب ہوئے۔
’’میں ٹھیک ہوں الحمدﷲ !‘‘۔ ’آپ نے کیوں زحمت کی اتنی اوپر آنے کی……‘‘ ڈاکٹر صاحب بولے۔
’’بس جناب آپ لوگوں سے ملنے کا جی چاہ رہا تھا سو آ گیا…… اور ہم تو ان ہی پہاڑوں میں پل بڑھ کر بوڑھے ہو گئے ہیں…… میرے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں…… ‘‘ یہ بات تو ٹھیک تھی ، داداجان مانسہرہ میں پیدا ہوئے اور ہمیشہ وہیں پلے بڑھے…… یہ پہاڑ ، دریا، کھائیاں تو وہ روز ہی دیکھتے تھے۔
’’آپ کی تنظیم میں ایک کمی ہے……‘‘ داداجان نے بڑے بے باک انداز میں کہا۔
’’کمی…… ‘‘ امیرِ محترم چوکنا ہو گئے۔
’’میں کچھ دن آپ لوگوں کے ساتھ رہا اس لئے کہہ رہا ہوں…… اچھی طرح آپ کی تنظیم کو سمجھنے کی کوشش کی……‘‘ وہ کچھ دیر خاموش ہوئے ۔
’’یہ دور جھوٹ ، فریب اور فتنہ کا دور ہے……یہ دجال کا دور ہے……‘‘وہ اپنی لاٹھی ادھر ادھر ہلاتے ہوئے بول رہے تھے۔
’’اس دور کے فتنوں سے نمٹنے کے لئے ایک آنکھ نہیں بلکہ دونوں آنکھیں چائیے…… ایک آنکھ سے تو دجال دیکھے گا……‘‘
ع دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
’’اس دل کی بھی آنکھیں ہیں…… تمھاری روحانی آنکھ……‘‘
’’اگر تمہاری روحانی آنکھ بند ہو تو تم دجال کے ماتھے پر لکھا’ کافر‘ کبھی نہیں پڑھ سکتے اور نہ ہی اس کے دھوکے سے بچ سکتے ہو…… ہاں اگر دل کی آنکھ اﷲ کھول دے تو چاہے تم پڑھے لکھے ہو یا ان پڑھ، دجال کے ماتھے پر لکھا ’کافر ‘پڑھ لو گے‘‘۔
’’کیا آپ کو رسول ِ پاک ؐ کی حدیث کا نہیں پتا…… کہ دجال کی ایک آنکھ کانی ہو گی اور اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ لکھا ہو گا ’کافر‘ اور اسے ہر مومن پڑھ سکے گا چاہے پڑھا لکھا ہو کہ ان پڑھ……‘‘
’’جی……‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا کہ وہ یہ رسول اﷲ ؐکی کی گئی یہ پیشن گوئی جانتے ہیں۔
’’……اور مومن وہی ہے جس کا دل بینا ہے…… ‘‘
’’آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ……دل اندھے ہو جایا کرتے ہیں……‘‘ دادا جان نے قرآن مجید کی ایک آیت پڑھی۔
’’……اور جیسے ان جسمانی آنکھوں کو دیکھنے کے لئے روشنی چائیے…… دل کی روحانی آنکھوں کو دیکھنے کے لئے نور چائیے……‘‘
’’آپ اپنی تنظیم میں یہ اعلان کر دیں کہ اﷲ کے ذکر سے ……اس کی آیات سے اپنے دلوں کو زندہ کریں اور اﷲ سے نور کے طلب گار ہوں…… سورۃ کھف کی ہر جمعے تلاوت کریں اور حضرت خضر ؑ کی شخصیت پر غور کریں جن کا ذکر اس سورۃ میں آیا ہے ……‘‘
’’خضرؑ صرف ان آنکھوں سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ اﷲ کی رحمت سے وہ ایسی چیزیں دیکھتے تھے جو دوسروں کو نظر نہ آتیں‘‘۔ تمام افراد ان کی باتوں میں محو تھے۔ خضرت خضرؑ کا موسیؑ کے ساتھ سفر جو سورۃکھف میں موجود ہے سے سب ہی واقف تھے۔ حضرت خضر ؑ نے تین ایسے کام کئے جو ظاہری طور پر عجیب اور غلط معلوم ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک لڑکے کو جان سے بھی مار ڈالا۔ مگر اﷲ کی طرف سے وہ تمام باتوں کی حقیقت سے واقف تھے۔

’’تنظیم کے تمام افراد کے پاس دلِ بینا ہونا چائیے…… اس کے لئے محنت کریں‘‘ داداجان نے نصیحت کی۔

مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا۔ سب نے مل کر جماعت کی اور داداجان واپس نیچے جانے لگے۔
’’ایسا کریں آپ یہیں ہمارے ساتھ رک جائیں‘‘ ۔ اندھیرا ہو چکا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے ان کا اندھیرے میں واپس جانا مناسب نہ سمجھا۔ انہوں نے ایک اور شخص کو نیچے
سونے بھیج دیا اور داداجان کو یہیں ساتھ رکھ لیا۔

ان سب نے تب تک یہیں رکنے کا ارادہ کر رکھا تھا جب تک کہ میجر اشرف یہاں ہے ۔ان کے کچھ اورافراد بھی میجر اشرف پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78868 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More