19- اگست 1963ء کو پاکستان آئین کی بالادستی کے پہلے علم
بردار مولوی تمیز الدین ڈھاکا میں وفات پاگئے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔
مولوی تمیز الدین مارچ 1889ء میں فرید پور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1914ء میں
انہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی ۔ 1926ء میں وہ پہلی مرتبہ بنگال کی مجلس
قانون کے رکن بنے۔ 1937ء میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے
نہ صرف بنگال کی مجلس قانون کے رکن بنے بلکہ غیر منقسم بنگال کی کابینہ میں
میں بھی شامل کئے گئے۔ 1945ء کے انتخابات میں وہ ہندوستان کی مرکزی مجلس
قانون ساز کے رکن اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی پہلی دستور ساز
اسمبلی کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ 1948ء میں قائداعظم کی وفات کے بعد آپ مجلس
دستور کے صدر منتخب کرلئے گئے۔
1954ء میں جب غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے احکام صادر کئے تو
مولوی تمیز الدین نے اسے سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کردیا۔ ہائی کورٹ نے
مولوی تمیز الدین کے حق میں فیصلہ دیا مگر حکومت نے فیڈرل کورٹ میں اپیل
دائرکردی جہاں فیصلہ گورنر جنرل کے حق میں ہوا اور یوں دستور اسمبلی توڑنے
کا قدم جائز قرار دے دیا گیا۔
کچھ عرصہ سیاست سے کنارہ کش رہنے کے بعد 1962ء میں وہ قومی اسمبلی کے رکن
اور بعدازاں اسپیکر منتخب ہوئے۔ انتقال کے وقت بھی وہ اسی عہدے پر فائز
تھے۔ |