داڑھی مَردوں کے لیے زینت،ان کا حسن و جمال بلکہ کمال بھی
ہے، اسی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مَردوں کو عورتوں سے ممیز کیا ہے۔اس لیے
دینِ اسلام کے مطابق جب سے داڑھی کے بال اُگنے شروع ہوں، تب سے انھیں
اکھیڑناامردسے مشابہت کے مترادف اوراس کا منڈانا یا ایک مشت سے پہلے کٹوانا
یا پاؤڈر وغیرہ کسی بھی ذریعے سے اس کا زائل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے
ہے۔واضح رہے کہ ایک مشت کے بقدر داڑھی رکھنا واجب ہے ، اگر کسی کو ملازمت
وغیرہ کے لیے بھی اس کو کاٹنا پڑے تو ایسی ملازمت اختیار کرنا ہی جائز
نہیں، کوئی اور جائز ذریعۂ معاش تلاش کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ اس سے بہتر
اوربرکت والی روزی عطا فرمائے گا، ان شاء اللہ۔ ارشاد ربانی ہے:ومن یتوکل
علی اللہ فہو حسبہ۔در اصل داڑھی رکھنامحض سنت نہیں،واجب ہے، کیوں کہ یہ
اسلام کے شعائر میں سے ہے لیکن بعض لوگ اس سے متعلق مختلف غلط فہمیوں کا
شکار ہیں، اس لیے آج ہم ایسے ہی چند غلط فہمیوں کا ازالہ کریں گے۔ ان شاء
اللہ
بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن شریف سے دلیل لاؤ کہ داڑھی رکھنا فرض ہے، حالاں
کہ دلائلِ شرعیہ قرآن میں منحصر نہیں بلکہ وہ چار ہیں؛ (۱) قرآن(۲)سنت(۳)
اجماع اور(۴) قیاس، پس ان میں سے کسی ایک سے ثابت کرنا گویا قرآن سے ثابت
کرنا ہے۔(اغلاط العوام: ۲۲۹)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں تو کہیں داڑھی رکھنے کا حکم نہیں آیا۔ آج
کل یہ ایک عام عادت ہو گئی ہے کہ ہر مسئلے کی دلیل قرآن سے مانگتے ہیں، سو
داڑھی رکھنے کے متعلق تحقیقی جواب میں عرض کرتا ہوں لیکن اول یہ سمجھ لینا
چاہیے کہ وہ جواب بالکل پھیکا اور سیدھا سادھا ہوگا، کیوں کہ تحقیقی بات
ہمیشہ بے مزہ ہوتی ہے، دیکھیے غالبؔ اور مومنؔ خاں کے شعروں میں کیا لطف
آتا ہے کہ لوٹنے لگتے ہیں اور حکیم محمود خاں کے نسخے کو سُن کر کسی کو
بھی حال نہیں آتا لیکن شعر کار آمد نہیں اور حکیم محمود خان کا نسخہ کار
آمد ہے، جس سے بیماری دفع ہوتی ہے اور تن درستی حاصل ہوتی ہے۔ غرض وہ
تحقیقی جواب یہ ہے کہ ہمارے ذمے یہ ضروری نہیں ہے کہ داڑھی رکھنے کے واجب
ہونے کو قرآن سے ثابت کریں بلکہ حدیث، فقہ سے ثابت کر دینا کافی ہے، کیوں
کہ یہ بھی تو وحی میں داخل ہے۔ [بایں معنی کہ حدیث، قرآنِ کریم کی اور فقہ
حدیث شریف کی توضیح و تشریح ہے]۔(اغلاط العوام: ۲۲۹)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ داڑھی رکھنے کا مسئلہ قرآن میں دکھلاؤ، سو حدیثوں سے
جو احکام ثابت ہو چکے ہیں، وہ سب خداوندی احکام ہیں، کیوں کہ حدیث پر عمل
کرنے کا حکم خود قرآن میں ہے، اس طور پر حدیثوں کے تمام حکم قرآن میں
ہیں، دوسرا جواب یہ ہے کہ حلقِ لحیہ (داڑھی منڈانا) تغییر خلق اللہ (اللہ
کی بنائی صورت بگاڑنا) ہے، جس کا حرام ہونا قرآن میں موجود ہے، پس حلقِ
لحیہ کا حرام ہونا قرآن سے ثابت ہو گیا۔(اغلاط العوام: ۲۲۹)
آج کل مسلمانوں نے ظاہری صورت بھی ایسی بنا لی ہے، جس سے ان کا مسلمان
جاننا بھی دشوار ہے، داڑھی ترشوانا اور داڑھی منڈانا تو ایسا عام ہو گیا
ہےکہ لوگ داڑھی منڈواکر شرماتے بھی نہیں۔ میں نے ایک موقع پر وعظ میں بیان
کیا تھا، وہاں اکثر ریش تراش موجود تھے کہ صاحبو! پہلے آپ بوجہ ریش تراشی
ہم ملّا لوگوں سے حیا کرتے تھے، اب اس کے برعکس معاملہ ہو گیا، داڑھی
منڈوانے والا شرمندہ نہیں ہوتا اور سخت افسوس یہ کہ آپ لوگ ریش تراشی کا
ارتکاب کریں اور بعضے کافر ریش درازی اختیار کرنے لگیں، اگر خوفِ خدا نہیں
رہا تو قومی شعار سمجھ کر اپنی وضع( شکل و صورت) کی حفاظت کریںاور غیر وضع
سے باز آئیں۔(اغلاط العوام: ۲۲۷)
آج قوم قوم پکارا جاتا ہے، لفظِ قوم کی پرستش کی جاتی ہے لیکن افسوس ہے کہ
آپ کو امتیازِ قومی (قومِ مسلم کے امتیازی نشان، شعارِ مسلم اور شعائرِ
اسلام) کی بھی پرواہ نہیں، حالاں کہ داڑھی رکھنا فرض ہے اور بالفرض اگر آپ
پر داڑھی رکھنا فرض بھی نہ ہوتا تب بھی قومی شعار بھی تو کوئی چیز ہے؟ کتنا
افسوس ہے کہ مسلمان ہندوؤں کا شعار اختیار کریں(چوں کہ داڑھی منڈانا
ہندوؤں کا شعار ہے)۔ (اغلاط العوام: ۲۲۷)
بعض گناہ ایسے ہیں کہ انسان اس کے کرنے میں اپنی مجبوری اور عذر بیان کر
سکتا ہے، گو یہ عذر وہم ہی کے درجے میں ہو، بھلا داڑھی منڈانے کی نازیبا
حرکت میںکیا مجبوری اور عذر ہے؟ اگر کوئی صاحب یہ کہیں کہ اس سے حسن بڑھتا
ہے، تو میں کہوں گا یہ بالکل غلط ہے، ایک عمر کے دو آدمیوں کو پیش کیا
جاوے، جن میں ایک کی داڑھی منڈی ہو اور دوسرے کے چہرے پر داڑھی ہو، اس کے
بعد ان کا مقابلہ کرکے دیکھ لیا جائے کہ کس کے چہرے پر حُسن برستا ہے اور
کس پر پھٹکار برستی ہے، غرض داڑھی منڈانے کا سبب حسن و جمال تو ہو نہیں
سکتا، حسن کی حفاظت [داڑھی] منڈانے میں نہیں ہے بلکہ مَرد کا حُسن تو داڑھی
ہے۔ داڑھی عجیب چیز ہے، اس سے آدمی بہت شکیل و حسین معلوم ہوتا ہے بلکہ
ایک شخص تو کہتے ہیں کہ اس سے تو آدمی بادشاہ معلوم ہوتا ہے۔ اچھا!
ابتدائے عمر میں تو اس لیے منڈائی کہ خوب صورت ہوں مگر بوڑھے ہو کر منڈانے
میں کیا مصلحت ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اگر داڑھی نہ منڈائی جائے تو کوئی نقصان
نہیں اور منڈانے میں کوئی نفع بھی نہیں ہوتا، پھر اس گناہِ بے لذّت سے کیا
فایدہ؟ فضول خدا کے سامنے ذلیل بھی ہوئے، دنیا میں کچھ مزہ بھی نہ
آیا۔(اغلاط العوام: ۲۲۸)
داڑھی کٹوانا باعثِ ذلّت ہے، دلیل یہ ہے کہ قیدیوں کی داڑھی کٹوائی جاتی
ہے، ظاہر ہے کہ متمدن اقوام نے اس کو قیدیوں کے لیے باعثِ ذلت ہی سمجھ کر
تجویز کیا ہے، نہ کہ باعثِ عزت سمجھ کر اور کسی قانون میں یہ نہ ملے گا کہ
کسی اعزاز کے موقع پر داڑھی منڈانا تجویز ہوا ہو۔ تعجب ہے کہ جو لوگ ذلت سے
بچتے ہیں وہ اس کو باوجود باعثِ ذلت تسلیم کرنے متمدن اقوام کے اختیار کرتے
ہیں اور باعثِ عزت سمجھتے ہیں۔(اغلاط العوام: ۲۲۸)
بعض لوگ داڑھی منڈانے ؍ کٹانے کے متعلق پوچھتے ہیں کہ یہ گناہِ صغیرہ ہے یا
کبیرہ؟ اس کا جواب سنیے! اول تو یہ پوچھنا اس لیے بے کار ہےکہ گناہ صغیرہ
ہو یا کبیرہ، سب واجب الترک ہے، اگر صغیرہ کی اجازت ہوا کرتی تو اس سوال کا
مضایقہ نہ تھا لیکن جب صغیرہ گناہ کی بھی اجازت نہیں تو اس سوال کا بھی
کوئی حق نہیں، پھر نظرِ صحیح سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کبیرہ ہے کیوں کہ
کبیرہ کی علامت اپنے مقام پر یہ طے ہو چکی ہے کہ اس کے ساتھ کوئی وعید
متعلق ہو اور اس میں وعید کا آنا ثابت ہے، علاوہ اس کے استخفاف و اصرار سے
صغیرہ بھی کبیرہ ہو جاتا ہے اور اس میں تو آج کل اس سے بڑھ کر استحلال
(حلال سمجھنا) بلکہ استحسان (اچھا سمجھنا) ہو گیا ہے، جس میں اندیشۂ کفر
ہے۔ (اغلاط العوام: ۲۲۹)
افسوس یہ ہے کہ اعتقاد میں بھی اس حرکت کے استحسان کا درجہ (موجود ہے)، اس
کو معیوب نہیں سمجھتے، حالاں کہ داڑھی منڈانا تو خاص جہاد کے موقع پر بھی
جائز نہیں۔یہ محض جاہلانہ خیال ہے کہ داڑھی کے ہوتے ہوئے دشمن پر ہیبت نہ
ہوگی، رعب نہ ہوگا، یہ بالکل غلط ہے، ہرگز صحیح نہیں بلکہ جہاد میں بھی
داڑھی والے کا رعب اور ہیبت ہوتی ہے۔(اغلاط العوام: ۲۳۰)
لطیفہ: ایک شخص مولانا شہیدؒ کا ہم سبق تھا، ایک دن اس نے مولانا شہیدؒ سے
کہا کہ داڑھی تو ایک مدِّ زائد ہے، فطری نہیں ہے کیوں کہ جب بچہ پیدا ہوتا
ہے تو داڑھی نہیں ہوتی، والزائد اولیٰ بالحذف، مولانا نے جواب دیا کہ دانت
بھی تو فطری نہیں ہیں، کیوں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو دانت نہیں ہوتے، ان
کو بھی توڑ دینا چاہیے، یہ سن کر مولانا عبد الحئی صاحبؒ نے فرمایا کہ واہ
مولانا! کیا دندانِ شکن جواب دیا۔(اغلاط العوام: ۲۳۰)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ داڑھی تُرک بھی منڈاتے ہیں، ہم ان کی تقلید کرتے
ہیں[اسی طرح آج کل عربوں کا حوالہ دیا جاتا ہے]، جواب یہ ہے کہ جو منڈاتا
ہے، [وہ]برا کرتا ہے، خواہ کسی ملک کا رہنے والا ہو، جب اس کا گناہ ہونا
ثابت ہو گیا تو جو لوگ اس پر اصرار کرتے ہیں اور اس کو پسند کرتے ہیں اور
داڑھی بڑھانے کو عیب جانتے ہیں بلکہ داڑھی والوں پر ہنستے ہیں اور اس کی
ہجو کرتے ہیں، ان سب مجموعۂ امور سے ایمان کا سالم رہنا ازبس دشوار ہے، ان
لوگوں کو واجب ہے کہ اپنی اس حرکت سے توبہ کریں اور ایمان و نکاح کی تجدید
کریں اور اپنی صورت موافقِ حکمِ اللہ ورسول(ﷺ) کے بنائیں۔(اغلاط العوام:
۲۳۰)
علاج: صاحبو! اس کے بیان کرنے کی تو ضرورت نہیں کہ داڑھی منڈانا گناہ ہے کہ
سب جانتے ہیں، کلام اس میں ہے کہ جن لوگوں کو عادت پڑی ہوئی ہے اور اس کو
اپنی زینت سمجھتے ہیں، وہ اس کو کیسے چھوڑیں، تو میں ان کے لیے ایک آسان
نسخہ بتلاتا ہوں کہ ان کے کسی کام میں فرق نہ آئے اور کام بھی کچھ ہو
جاوے، وہ یہ کہ میں ان کو اس کام سے نہیں روکتا البتہ دن بھر یہ کام کرنے
کے بعد شام کو خدا تعالیٰ کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار اور اس پر ندامت
ظاہر کیا کریںکہ یا اللہ! ہم بڑے نالائق، خبیث ، بڑے گنہ گار ہیں، ہمیں
توفیق عطا فرما کہ تیرے احکام کی اطاعت کریں، پھر صبح اٹھ کر وہی کام کریں
اور شام کو پھر یہی کام کر لیجیے۔۔۔اس پر بعض حاضرین نے کہا کہ حضرت جو یہ
کام کرے گا، وہ کیا پھر داڑھی منڈا سکتا ہے؟ میں نے کہاکہ میں کب کہتا ہوں
کہ منڈائے بھی، میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر داڑھی منڈانا ہی ہے تو یہ کام
بھی کرتے رہو، اس میں نہ آپ کی زینت و فیشن میں فرق آتا ہے، نہ کسی کی
عادت میں خلل پڑتا ہے، مگر گناہ کی تخفیف ہو جاتی ہے اور ممکن ہے کہ
تدریجاً اس سے نجات بھی ہو جائے۔(اغلاط العوام: ۲۳۱)
*** |