ایک بار پھر ہم نے چودہ اگست کو
یوم آزادی منایا اور اپنے رب کا شکر ادا کیاجس نے ہمیں آزادی کی نعمت سے
نوازا اپنی زمین پر اپنا اختیار دیا ہر طرف لہراتے سبز ہلالی پرچم اس بات
کا ثبوت تھے کہ ہماری اپنی شناخت ہے بازاروں میں لگے سٹال اور اس پر
خریداروں کا ہجوم بھی یہ یقین پیدا کرتارہا کہ اس ملک کے رہنے والے اس سے
بے پناہ پیار کرتے ہیں یہ محبت نہ کسی خاص طبقے سے مخصوص ہے نہ کسی خاص
فرقے،صوبے، شہر یا علاقے سے۔ بازار میں کچرا چننے والے ایک چھوٹے بچے نے
پرچم کاہیٹ پہنا ہواتھا اور خاموشی سے چلتے ہوئے اعلان کررہا تھا کہ ’’ میں
بھی پاکستان ہوں‘‘ سوڈا واٹر کی بوتلیں بیچنے والے کے ریڑھے پر لگا پاکستان
کا بڑا سا پرچم اس کے جذبات کا اظہار کررہا تھا کہ’’یہ میرا پاکستان ہے‘‘
دکانیں اور عمارتیں برقی قمقموں سے سجے دل میں امیدوں کے دیے روشن کررہے
تھے کہ اس وطن سے پیار کرنے ولے اسکے پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دیں گے۔ ہر
طرف جذبہ ہر طرف امید ہر طرف عزم ہر سمت وعدے۔ ٹیلی ویژن پر خوبصورت قومی
گیت، وطن کی محبت میں گُند ھے ہوئے اشتہارات اور پروگرام یعنی محبت ہی محبت
عقیدت ہی عقیدت ایسا ہر سال ہوتا ہے ہمیشہ ہوتا ہے ہم یہ سب کچھ کرتے ہیں
اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بس اب پاکستان بدل گیا ہماری تقدیر بدل گئی ہے
لگتا ہے اب ہم نے اپنی برائیوں پر قابو پالیا ہے اب پرچموں سے سجے دفاتر
میں کرپشن نہیں ہوگی سکولوں میں بچوں کو وطن کی محبت کا سبق سکھاتے استاد
اور قومی نغمے گاتے بچے اب اصل تعلیم حاصل کریں گے ان سکولوں میں تعلیم کے
نام پر کاروبار نہیں ہوگا۔ پرچم لگی ریڑھی سے اب مضر صحت چیز فروخت نہیں کی
جائے گی لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ اگلے دن جس طرح ہمارے پرچم کی جھنڈیاں زمین
پر پڑی ہوا کے ساتھ اڑرہی ہوتی ہیں اسی طرح پچھلے دن کے دعوے اور وعدے بھی
دفنائے جاچکے ہوتے ہیں بلکہ سچ پوچھیں تو اس دن بھی ہر ایک اپنے اپنے کھیل
میں مصروف رہتا ہے۔ اس سال کا یوم آزادی جس جوش وخروش سے منایا گیا اس نے
واقعی لہو گرما دیا لیکن کاش کہ ہم اس جذبے کو عمل میں ڈھالنے کی بھی کوشش
کریں لیکن ہوگاوہی کہ ہم پھر بدعنوانی کرپشن،رشوت میں مصروف ہوجائیں گے اور
پھر ہم نہ یہ احساس کریں گے کہ ہم نے اس ملک کے ساتھ جو وعدے کئے تھے اس کی
حفاظت کی جو قسمیں کھائی تھیں اس کی ترقی کے جو بلند بانگ دعوے کیے تھے وہ
ہم نے پورے بھی کرنے ہیں۔ اگر ہم چودہ اگست کو یوم آزادی منانے کے بعد سال
میں کچھ باریوم عمل بھی منالیا کریں اور کچھ دن یوم احتساب کے طور پر بھی
منالیا کریں اورجائزہ لے لیا کریں کہ ہم نے پچھلے دنوں میں کیا کیا کیا ہم
نے صرف باتوں کے تیر چلائے یاعمل بھی کیا۔ ہماری قوم کی بہت ساری خرابیوں
کے ساتھ ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتے جبکہ
ترقی اور بہتری عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے پاس اچھے
دماغ نہ ہوں، کاغذوں میں بننے والے منصوبے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم اچھے
منصوبہ سازہیں لیکن کاش کہ ہم ان منصوبوں پر پوری ایمانداری سے عمل کریں
ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ بے عملی یا کرپشن صرف اوپر کی سطح پرہے جہاں بہترین
منصوبے بنا کر قومی اور بین الاقوامی سطح پر خوب داد وصول کرلی جاتی ہے
لیکن دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ منصوبے فائلوں میں بند پڑے پڑے
پرانے ہوجاتے ہیں لیکن قوم کے کام نہیںآتے ہاں یہ منصوبہ سازبڑی بڑی
تنخواہیں وصول کرکے اپنی آنے والی سات نسلوں کا مستقل سنوار لیتے ہیں اور
اگر کوئی یہ محنت، ایمانداری سے کر لیتا ہے تو اسے لاگو کرنے والے اس کے
ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں کہ کروڑوں کے خرچے سے بننے والا پل چند ماہ یا دو
چار سال میں ہی گر کر اپنے بنانے والے انجنیئرکی قابلیت اور ایمانداری پر
نوحہ کناں ہو جاتا ہے ۔ تعلیم کے شعبے کو ہی لیجئے جہاں اسی نوے فیصد نمبر
لینے والے اپنے مضامین کے بنیادی خدوخال سے بے خبر ہوتے ہیں اور جب یہی
طلباء اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جاکر عملی زندگی میں آتے ہیں تو بے شفااور
بے فیض ڈاکٹر اور انجنیئر بن جاتے ہیں نہ تو لوگوں کے لیے نہ ملک کے ان کا
وجودخیر کا باعث بنتا ہے۔ اب ذرا نیچے کی طرف آئیے آپ کو ہر دوسرا چوتھا
بندہ بے روزگاری اور تنگدستی کا رونا وتا ہوا نظر آئے گا لیکن جب انہیں
نوکری مل جاتی ہے تو یہ یا تو دو چاردن بعد چھوڑ جاتے ہیں یا اگر بیٹھے
رہیں تو یہی توقع کرتے ہیں کہ انہیں کام کرنے کو نہ کہا جائے پاکستان کی
آبادی اس کے لیے رحمت بھی ہو سکتی ہے اگر ہر ایک اپنے اپنے محاذ پر ایک
سپاہی کی طرح کام کرے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ہم نوکری حاصل کرنے کے بعد
تنخواہ کے اوپر اپنا حق سمجھتے ہیں اور کام کو زیادتی کہ اگر کام مانگا تو
شاید یہ زیادتی کی جارہی ہے اور اس طرح ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپاتے۔
نوکریوں سے آگے نکل کر دیکھیں تو تجارت میں بھی یہی اصول کا ر فرما نظر آتا
ہے۔
|