عوام لناس ہوشیار باش
(Syed Haseen Abbas Madani, karachi)
لوٹ مار کا سلسلہ اسقدر عام
ہوگیا ہے کہ آپ کویاد ہوگا کہ ملک کے قیام کے بعد پاسپورٹ بنواناجوئے شیر
لانے کے برابر تھا ادارے میں ہرکارے بڑی بڑی رشوتوں کا مطالبہ کرتے تھے۔
اسی طرح لائسنس خواہ ڈرائیونگ کا ہو یا اسلحہ کا رشوت کا بازار گرم تھا۔
بھٹوصاحب نے ایک بڑی اصلاح پاسپورٹ میں یہ کی کہ رشوت کوفیس کئی گناہ
بڑھاکر سرکاری مد میں ڈالا یا کہ نارمل اتنے کا اور ارجنٹ اتنے کا۔بعد میں
اسی طرح دوسرے اداروں میں ہوا اور اب وقت گزرنے کے بعد سرکاری قیمتوں پر
رشوت کا سرچارج پھر نا فذ ہوگیا۔
اسی طرح سے بھتہ اور پرچی کا کلچر ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے نوازشریف
سرکار نے سیلزٹیکس اورودہولڈنگ ٹیکس بھی لگادیاکہ انہوں نے غیر سرکاری بھتے
کو سرکاری مہر کے ساتھ نافذکردیا۔ اب ایسی صورتحال میں اٹھارہ کروڑعوام یہ
جگاڑ سوچ رہے ہیں کہ اسکی ادائیگی کے لئے کیا کریں۔ بجلی گیس پانی تو غائب
ہی ہے آخر کمائیں تو کیسے۔ ادھر ٹیلیفون کا محکمہ بھی سبز باغ دکھاکر کنکشن
لگواتا ہے اور کار کردگی پر حرف آنے نہیں دیتا۔ میں نے ابھی کنکشن
لگوایاتھا کہ بل دیکھ کر ہوش اڑگئے۔ کنکشن ختم کرنے کی درخواست دی تو کہا
گیا کہ آپ ہماری کار کردگی کے خلاف کچھ نہیں کہہ سکتے اگر لائن منقطع کرانا
ہے تو بہ عذر لکھنے کہ بل کی زیادتی کی وجہ سے میں اس بوجھ کو برداشت نہیں
کر سکتا ویسے بھی یہ سچ ہے کہ جس نل سے پانی نہ آتا ہو اسکے بل کا بوجھ
کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک سرکاری محکمے سے 1976 میں
استعفیٰ دینا چاہتا تھا کہ وہاں بے حد بد عنوانی تھی تو سبب بھی یہی لکھا
کہ مجھ سے اس میں ساتھ دیا ممکن نہیں ہے لہذاملازمت سے سبکدوشی چاہتا
ہوں۔دھمکی آئی کہ اس طرح لکھیں کہ اپنی ذاتی مجبوری کی وجہ سے ملازمت نہیں
کرسکتا۔ کسی ہمدرد نے کہا کہ تمہاری جراءت مندی تمہیں لے ڈوبے گی سرکاری
افسر تمہارے اوپر محکمہ جاتی کا رروائی ڈالدے گا اور تم تباہ ہوجاوگے بہتر
یہی ہے کہ اپنی ہی کمزوری کا اظہار کرکے جان چھڑاو۔
ابھی ایک اندوھناک خبر آئی کہ حمید گل صاحب کی دماغ کی رگ پھٹنے سے انتقال
ہوگیا۔ بھلا اس ماحول اور صورتحال میں کس میں اتنی سکت ہے کہ دل و دماغ
ٹھیک رکھ سکے یہ عارضہ تو ہر محب وطن اور ایماندار آدمی کو لاحق ہوسکتا ہے
جرم اور ظلم وستم بڑھتا جا رہا ہےاور اف کرنے کا حق نہیں ہے پیٹرول دنیا
بھر میں سستا ہوگیا یہاں قیمت کم کرنے پر آمادہ نہیں اور بجلی پر تیس فیصد
تک بڑھانے پر شرم نہیں آتی سرکاری سر پرستی مجرم اور جرم کو حاصل ہے ہم کو
ترکی کے زوال کا سبب نا انصافی اور بھاری ٹیکس پڑھایا گیا تھا۔
ضرب عضب دہشتگردی کیخلاف شروع ہوا اور بھلا ہو ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہ
انہوں نے معاشی دہشتگردی کا ایک ضروری نقطہ اٹھایا۔ کرپشن کا یہ عالم کے
نوکریاں بکنے لگیں نا اہل لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا گیا اسٹیل مل
، پی آئ اے اور دیگر اداروں کی تباہی اس کا نتیجہ نکلی پارلیمان میں جعلی
ڈگری والوں نے بڑی عزت کمائی مال بنایا اور یہ سب جمہوریت کو پٹری پر
سمبھالے رہے کہ یہی بہترین انتقام ہے روٹی کپڑا مکان کے وعدوں میں سے ایک
کو اسمبلی کی کینٹین پر پورا کیا گیا۔
اداروں میں رشوتیں سرکاری فیسوں میں تبدیل ہوئیں اور رشوت کا سرچارج بھی
عائد رہا اور غریب مارا مارا پھر رہا ہے معاملہ قصور کے بچوں کا ہو یا
سرمایہ داروں کی طرف سے گیس کی چوری یا بجلی کا کنڈا انکو سب معاف ہے پشاور
میں بچوں پر ظالمانہ ہلاکت کو ہم ہر پہلو سے یاد کر کے روتے ہیں یہ دل
ہلانے والا واقعہ بھلایا نہیں جاسکتا مگر کوئی تو انصاف کرے کہ قصور کے
معاملے میں بھی ہمارے ہی بچے حملہ آور کے چنگل میں ہیں اور کوئی پرسان حال
نہیں ہے۔
مسلمانوں ہم اور ہمارے حکمران بے حد کرپٹ ہیں اگر کوئی آسمانی آفت یا عذاب
نازل ہو تو اللہ سے شکوہ نہ کرنا کہ ہم نے اپنا حق ادا نہیں کیا۔
مرحوم حمید گل کے لئے عدالت کا یہ فیصلہ کہ پارلیمنٹ کوئی بھی قانون بنانے
کا حق رکھتی ہے آئین کے قرارداد مقاصد کو روندتا نظر آیا اور وہ دار فانی
سے کوچ کرگئے۔
جمہوریت کے علم بردار کارپوریٹ سیکٹر کے مال پر الیکشن لڑتے ہیں اور
پارلیمنٹ میں پہنچ کر اپنے آقائوں کا حکم مانتے ہیں اور اس طرح اسلامی
جمہوریہ کو سکیولر بنانے کے درپے ہیں۔
مولوی اور مذہبی لوگ بھی اس جمہوری گمراہی میں مبتلا ہیں جبکہ "اکثرالناس
ھم الفاسقون" ایک حقیقت ہے لوگوں کی اکثریت اسلامی جمہوریت کی کیا حفاظت
کریگی یہ جمہوریت پاکستان کی سالمیت اور اسکے اسلامی تشخص کی دشمن ہیں۔
اللہ کرے کوئی مرد مومن میدان میں آئے اور ان سب کو ان کے کیفرکردار تک
پہچائے ۔(آمین) |
|