تحریر۔۔
علینہ ملک،کراچی
انسان دنیا میں کبھی بھی تنہا وقت نہیں گزارتا،وہ کئی رشتوں ناتوں کے ساتھ
جڑا رہتاہے۔ان میں سے کچھ رشتے اور تعلق خونی ہوتے ہیں جبکہ بہت سے رشتے
اور تعلق روحانی ،اخلاقی اور معاشرتی طور پر بنتے ہیں۔ان ہی میں سے ایک
رشتہ استاد کا بھی ہے ۔استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے
۔اسلام میں استاد کا رتبہ والدین کے رتبے کے برابر قرار دیا گیا ہے ۔کیوں
کہ دنیا میں والدین کے بعد اگر کسی پر بچے کی تربیت کی زمداری عائد ہوتی ہے
تو وہ معلم یعنی استاد ہے ۔کیونکہ استاد ہی ہے جو ہمیں دنیا میں جینا اور
رہنا سہنا سیکھاتا ہے ،اور کتابوں کا علم سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔چنانچہ
اس لحاظ سے استاد واجب الا احترام شخصیت ہے ۔
گو یااستاد،معلم ،یا مدرس کی تعریف اگر ان الفاظ میں کی جائے تو بے جا نہ
ھوگا ،ایک استاد لوہے کو تپا کر کندن بناتا ہے ،پتھر کو تراش کر ہیرا بناتا
ہے ،بنجر زمین کو سینچ کر کھلیان بناتا ہے ۔استاد معمار بھی ہے ،لوہا ر بھی
ہے ،اور کسان بھی ہے ۔استاد واجب الا احترام اور لا ئق تعظیم ہے ۔استاد کا
درجہ ماں ،باپ کے برابر قرار دیا گیا ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ایک
زمانہ تھا جب طالبعلم حصول علم کی تلاش میں میلوں کا سفر پیدل کرتے تھے ،سالہاسال
ملکوں ملکوں گھومتے تھے ۔گھر بار سے دور رہ کر اپنے پیاسے من کو سیراب کرتے
تھے ۔استادوں کی مار کھا تے تھے ڈانٹ بھگتاتے اور سزا جھیلتے تھے ،تب کہیں
جاکر نگینہ بنتے ۔مگر اس دور کے طالبعلم با ادب اور با تمیز ہوتے تھے ۔
استاد کے قدموں میں بیٹھنا ،استاد کی باتوں کو خا موشی سے سننا ،اور استاد
کے سامنے چوں تک نہ کرنا کجا مذاق اڑانا تو دور کی بات نظر اٹھا کر بات کر
نے سے بھی ڈرتے تھے ۔
وقت نے اپنی اڑان بھری تو انسان بھی ترقی کی کئی منزلیں طے کرتا چلا گیا
۔اور اگر وقت بدلا تو تہذیب اور ادب آداب کے انداز بھی ساتھ ساتھ بدلتے چلے
گئے۔چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں استادبنناجوئے شیر لانے کے مترادف
ہے موجودہ دور میں اول تو کوئی استاد بننا پسند نہیں کرتا ہے اور جو بد
قسمتی سے بن جاتا ہے وہ اپنی عزت گنوا دیتا ہے کیونکہ موجودہ دور کا
طالبعلم استاد کو عزت دینے کا روادار نہیں ہے ،وہ استاد کو ایک تنخواہ دار
ملازم سمجھتا ہے جس کی عزت کرنا وہ ضروری نہیں سمجھتا ۔اور بچوں کی اس سوچ
کے سب سے بڑے زمدار خود والدین بھی ہیں جو بچپن سے ہی اپنے بچوں کے زہنوں
میں یہ بات بٹھا دیتے کہ یہ ہمارا تنخوادار ملازم ہے لہذا انھیں اتنی ہی
عزت دو جتنی اوروں کو دی جاتی ہے حقیقتا موجودہ دور کا ٹیوشن سسٹم اور
اکیڈمی کلچر نے بھی استاد کی عزت کو بہت کم کر دیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج
علم بھی تقر یبا نا پید ہوتا جارہا ہے اور اتنے اسکول ،اتنے مدرسے ،اتنے
کالج اور یونیورسٹیاں بن جانے کے باوجود معاشرے میں اخلاقیات ،ادب آداب اور
تہذیب نام کو نہیں رہی ۔
اسلام نے جہاں مسلمانوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا ہے وہاں اسلام کی نظر
میں استاد کو بھی معزز مقام حاصل ہے،تاکہ اس کی عظمت سے علم کا وقار بڑھ
سکے ۔استاد کی اہمیت علم کی بارش کی سی ہے جو زمین بارش کو جذب کرنے کی
صلاحیت رکھتی ہے وہ بارش کے فیض سے سر سبز وشاداب ہو جاتی ہے ۔جب ہمارے
رسول صہ تعلیم دیتے تھے تو صحابہ کرام اس قدر خاموشی سے بیٹھتے تھے کہ گویا
ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں اور انہوں نے زرا سی بھی حرکت کی تو وہ
اڑجائیں گے ۔خلیفہ چہارم امیرلمومنین سیدنا علی رضہ نے فرمایا !جس نے مجھے
ایک حرف بھی پڑھایا میں اس کا غلام ہوں،وہ چاہے مجھے بیچے ،آزاد کرے یا
غلام بنائے رکھے ۔ایک اور موقع پر فرمایا ! عالم کا حق یہ ہے کہ اس کے آگے
نہ بیٹھو اور ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جاؤ ۔
دنیا میں علم کی قدر اسی وقت ممکن ہے جب استاد کو معاشرے میں عزت کا مقام
حاصل ہو ۔جو طالبعلم استاد کا ادب واحترام کرنا جانتے ہیں اور ان کی
تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے استاد کا کہنا مانتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب و
کامران ہوتے ہیں اور دنیا میں بھی وہی عزت و مقام حاصل کرتے ہیں جو انہوں
نے اپنے استادوں کو دی اسی لئے کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے ،
باادب با نصیب ،بے ادب بد نصیب۔
|