آخرت کی فکر
(Shaikh Wali Khan Al Muzzafar, Karachi)
کہیں پڑھا تھا کہ کسی ملک میں یہ
دستور تھا کہ ہر پانچ سال بعد وہ اپنا بادشاہ تبدیل کر لیتے تھے۔ اور
بادشاہ کی تبدیلی کا طریقہ کار یہ ہوتا کہ مقررہ دن جو بھی شخص علی الصبح
شہر میں سب سے پہلے داخل ہوتا وہ بادشاہ قرار پاتا۔
سابقہ بادشاہ کو وہ لوگ ایک ایسی اندھیر کوٹھری میں ڈال آتے جو ہر طرح کی
آسائش اور سہولت سے خالی ہوتی اور وہاں پر بادشاہ اگلی ساری زندگی ایک
بھکاری کی طرح گزارتا اور پھر اُسی کسمپرسی کی حالت میں دم توڑ جاتا۔
ایک بار ایسے ہی بادشاہ کے منتخب کرنے کا دن آن پہنچا تو اُس دِن جو شخص
علی الصبح شہر کے سب سے بڑے داخلی دروازے کی طرف بڑھا، وہ نہایت عقلمند اور
زیرک انسان تھا۔ جیسے ہی وہ شہر میں داخل ہوا، وزراء اور مشیروں نے بڑی گرم
جوشی سے اُس کا استقبال کیا۔ اُسے شاہی سواری میں بیٹھا کر ایک جلوس کی شکل
میں محل تک لیجایا گیا اور بڑی عزت اور مرتبے کے ساتھ اُسے شاہی لباس پہنا
کر تخت پر بیٹھایا گیا۔
پھر اُسے وہ دستور پڑھ کے سنایا گیا کہ، "کیسے پانچ سال کے دوران تو اُس )بادشاہ(
کی ہر جائز اور ناجائز خواہش کو پورا کیا جائے گا، لیکن اُس کے بعد اُسے
اندھیر کوٹھری میں بالکل بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے گا۔"
نیا بادشاہ یہ شاہی فرمان سن کر کچھ سوچ میں پڑ گیا پھر اُس نے سب سے پہلا
شاہی فرمان جاری کرتے ہوئے کہا "میں حکم دیتا ہوں کہ اُس اندھیر کوٹھری کو
ایک خوبصورت محل کی شکل دی جائے اور وہاں پر زندگی کی ہر وہ سہولت مہیا کی
جائے جو ایک عام انسان کے لیے ضروری ہے۔۔۔!"
تمام وزیر اور مشیر بادشاہ کے اِس پہلے اور انوکھے فرمان سے حیران رہ گئے۔
کیوں کہ اب تک جتنے بھی بادشاہ آئے تھے، کسی نے بھی ایسا حکم صادر نہیں کیا
تھا۔ لیکن پھر بھی یہ شاہی حکم تھا تو شاہی معمار کام میں جُت گئے اور یوں
دھیرے دھیرے پانچ سال کا عرصہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور وہ اندھیر
کوٹھڑی بھی ایک عالی شان محل کی شکل اختیار کر گئی۔
تبدیلی کا دِن آیا تو بادشاہ نے خود اعلان کیا کہ "آؤ اور مجھے اُس جگہ
چھوڑ آؤ جہاں تم مجھ سے پہلے بادشاہوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کے آتے تھے۔۔!"
تبھی ایک وزیر آگے بڑھا اور بولا، "بادشاہ سلامت! آپ سے پہلے جتنے بھی
بادشاہ آئے وہ اپنی بیوقوفی اور نااہلی کی بدولت اپنے دردناک انجام سے بے
خبر، حکومت کے نشے میں مست رہ کر وقت گزارتے اور پھر اگلی پوری زندگی
اندھیر کوٹھڑی میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کے دم توڑ جاتے،لیکن آپ نے تو نہایت
دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے ہی دن سے اپنے انجام کی فکر کی اور اُس
اندھیر کوٹھری کو ہر قسم کے خطرات سے پاک کر کے اپنے رہنے لائق بنا لیا،
ہمیں آپ جیسے سمجھدار بادشاہ کی ہی ضرورت تھی۔ اِس لیے ہم سب نے فیصلہ کیا
ہے کہ آپ چاہے اِس محل میں رہیں یا اُس نئے محل میں قیام کریں، آپ کی مرضی
ہے۔ لیکن ہم آئندہ کےلیے بھی آپ ہی کو اپنا بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔۔۔۔‘‘
"اللّٰہ کے نیک متقی اور پرہیزگار بندے اُس سمجھدار بادشاہ کی طرح ابھی سے
اپنے انجام کی فکر کرتے ہوئے اُس اندھیر کوٹھری (قبر) کو ایک شاہی محل
بنانے کی فکر میں جُت جاتے ہیں، اور دراصل یہی لوگ کامیاب ہیں اور یہی لوگ
جنتی ہیں۔"
مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی اپنی مشہور کتاب ” انسانی دنیا پر مسلمانوں
کے عروج وزوال کا اثر “ میں لکھتے ہیں :
” انگریزی عملداری کی ابتدا کا واقعہ ہے کہ ضلع مظفّر نگر کے قصبہ کاندھلہ
میں ایک جگہ پر ہندو اور مسلمانوں میں تنازعہ ہوا کہ یہ ہندووں کا معبد ہے
یا مسلمانوں کی مسجد ؟ انگریز مجسٹریٹ نے فریقین کے بیانات سننے کے بعد
مسلمانوں سے تخلیہ میں پوچھا کہ کیا ہندؤو ں میں کوئی ایسا شخص ہے جس کی
صداقت پر آپ اعتماد کرسکتے ہیں اور جس کی شہادت پر فیصلہ کردیا جائے ؟
انہوں نے کہا : ”ہمارے علم میں ایسا کوئی شخص نہیں ، ہندؤو ں سے پوچھا تو
انہوں نے کہا :” یہ بڑی آزمائش کا موقعہ ہے ، معاملہ قومی ہے ، لیکن پھر
بھی ایک مسلمان بزرگ ہیں جو کبھی جھوٹ نہیں بولتے ، شاید وہ اس موقعہ پر
بھی سچّی ہی بات کہیں “یہ بزرگ مفتی الہی بخش صاحب ( تلمیذ حضرت شاہ عبد
العزیز صاحب خلیفہ حضرت سیّد احمد شہید کے خاندان کے ایک بزرگ تھے ،
مجسٹریٹ نے ان کے پاس چپراسی بھیج کر عدالت میں طلب کیا ، انہوں نے فرمایا
کہ :” میں نے قسم کھائی ہے کہ فرنگی کا منہ کبھی نہ دیکھوں گا “ مجسٹریٹ نے
کہا ” آپ میرا منہ نہ دیکھیں ، لیکن تشریف لے آئیں ، معاملہ اہم ہے ، اور
آپ کے یہاں تشریف لائے بغیر فیصلہ نہیں ہوسکتا “ وہ بزرگ تشریف لائے اور
پیٹھ پھیر کر کھڑے ہوگئے ، معاملہ ان کی خدمت میں عرض کیاگیا اور دریافت
کیا گیا کہ آپ کا اس بارے میں کیا علم ہے ؟، ہندؤو ں اور مسلمانوں کی
نگاہیں ان کے چہرے پرہیں اور کان ان کے جواب پر لگے ہوئے تھے ، جس پر اس
اہم معاملے کا فیصلہ ہونا ہے ۔ ان خدا ترس اور آخرت کی فکر کرنے والےبزرگ
نے فرمایا کہ :” صحیح بات تو یہ ہے کہ جگہ ہندؤو ں کی ہے ، مسلمانوں کا اس
سے کوئی تعلق نہیں ۔“ عدالت کا فیصلہ ہوگیا، جگہ ہندؤو ں کو مل گئی ،
مسلمان مقدمہ ہار گئے ، لیکن اسلام کی اخلاقی فتح ہوئی ، صداقت اور اسلامی
اخلاق کے ایک مظاہرے نے چند گز زمین کھوکر بہت سے غیر مسلم انسانوں کے ضمیر
اور دل ودماغ جیت لیے ، بہت سے ہندو اسی دن ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوگئے ۔“(
صفحہ 360)
افسوس فکر آخرت کی يہ تابناک مثالیں کتابوںمیں ہی باقی رہ گئی ہیں، رہامسلم
معا شرہ، تو وہ ’’مسلمانی در کتاب ومسلمانان درگور”اسلام کتابوں میں اور
مسلمان قبروں میں“کی زندہ مثال بن کر ساری دنیا میں زوال وذلت کی انتہا کو
پہنچ چکا ہے ۔ انا ﷲ واناالیہ راجعون ۔
|
|