اسلام میں میراث کا نظام اور خواتین کی حق تلفی (قسط ۱)

سپریم کورٹ میں وراثت کے ایک مقدمے میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاشرے کی ریت بن چکی ہے کہ بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت میں سے ایک ٹکا بھی نہیں دیا جاتا‘ انہیں ڈرا دھمکاکر وراثت نہ لینے پر قائل کیا جاتا ہے‘ زمینوں سے پیار کرنے والے اپنی وراثت کو بچانے کیلئے سگی بہنوں اور بیٹیوں کے وجود تک سے انکاری ہوجاتے ہیں‘ اسلامی معاشرے نے خواتین کو وراثت میں جو حقوق دئیے ہیں اس سے کوئی انکار کرنے کی جرات نہیں کرسکتا‘ وقت آگیا ہے کہ بہنوں اور بیٹیوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔چیف جسٹس آف پاکستان کا بیان خوش آئند ہے پر اس معاملہ پر عدلیہ کا سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا ابھی باقی ہے راقم وکیل ہونے کے ناطے سے اپنے چیمبر ’’باگڑی لاء ایوسی ایٹس :1فرید کوٹ روڈ لاہور کی خدمات اُن بہنوں اور بیٹیوں کیلئے جن کو وراثت کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے مفت فراہم کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہے ۔اسلام انسان کے لئے مکمل ضابطہ حیات ہے ، اسلام کی بہت سی خصوصیات ہیں ، انہی میں یہ خصوصیت بھی ہے کہ اسلام نے انسان کے لئے بہترین اقتصادی نظام دیا ہے ، جو کئی امور پر مشتمل ہے جن میں تقسیم میراث کا نظام بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اسلام نے بہت سارے امور کی رعایت کرتے ہوئے اس کا نظام بنایا ہے ، جس میں مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو بھی میراث کا حقدار بنایا گیا ہے۔اسلام نے عورت کو وہ مثالی حقوق دیے ہیں جو آج تک کوئی تہذیب یا مذہب اسے نہیں دے سکا۔ لیکن اس معاشرے میں ہماری بہن اوربیٹی ان حقوق سے محروم ہے جواسے اسلام جیسے عظیم دین نے دیے تھے۔ مسلمان معاشرے کی عورت کو آج بھی اکثر وراثت کے حق سے محروم رکھا جاتاہے۔قرآن عورت کو وراثت میں حقدار بناتا ہے لیکن ہم عورت کو اس کے اس حق سے محروم کیے ہوئے ہیں۔کیا دنیا دار اور کیا دیندار کوئی بھی اپنی بہن بیٹیوں کو وراثت میں حقدار نہیں ٹھہراتا اور چند برتن جہیز میں دے کر اسے اس کے حصے کی جائیداد سے محروم کرنے کی روایت ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ قیامت کی ایک نشانی وراثت کی تقسیم میں انصاف کا نہ ہونا ہے اسی لیے باوجود اس کے کہ مدرسوں کے نصاب میں اور وکیلوں کی پڑھائی میں وراثت کی تقسیم کا مضمون شامل ہوتا ہے لیکن ان دونوں طبقوں میں کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو شرعی طریقے سے وراثت تقسیم کرتے ہیں۔علما ء حضرات بھی اپنی بہنوں بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہ دیتے ہیں پاکستانی معاشرے میں پانچ فیصد ہی ایسے لوگ ہوں گے جن کے ہاں عورتوں کو وراثت میں حصہ دیا جاتا ہوگا۔جب علماء کے گھرانوں میں عورتوں کو ان کے واضح قرآنی حق سے محروم رکھا جاتا ہے تو ان لوگوں کا کیا کہنا کہ جن کے ہاں دینی علم کی روشنی پہنچی ہی نہ ہو۔جولوگ اس علم کے وارث ہیں وہ برابر کے قصوروار ہیں اس لیے کہ وہ اس علم پر خزانے کے سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ انہوں نے خود بھی اﷲ کے ان احکامات کو پاؤں تلے روندا ہوا ہے اور کسی دوسرے کو بھی ان پر عمل کرنے کی تعلیم نہیں دیتے۔اسلام تو عورتوں کو حقِ وراثت دیتا ہے لیکن مسلمان ان کا یہ حق غصب کرجاتے ہیں۔جوں جوں محروم طبقوں میں اپنے حقوق کی بیداری کی لہر پیدا ہوگی تو عورتیں بھی اپنا حق مانگیں گی۔ یہ کیسا مسلمان معاشرہ ہے؟ جہاں قرآن میں بیان کردہ حقوق سے ملک کی بیشتر آبادی کو محروم رکھا جارہا ہے۔جتنا عورت کو اس کے حق سے محروم رکھا جائے گا اتنی ہی اس کے دل میں مذہب اور مذہب کے ذمہ داروں سے بیزاری پیدا ہوگی اور شاید وہ وقت بھی آجائے کہ عورتوں کا ہاتھ ان طبقات کے گریبان تک جا پہنچے جو انہیں ان کے حق سے محروم رکھتے ہیں اور خالق حقیقی بھی ان سے پوچھے گا کہ تم نے کیوں عورتوں کو ان کے حق وراثت سے محروم رکھا۔ جیسے قرآن مجید میں آتا ہے کہ جب زندہ گاڑی ہوئی بچی سے پوچھا جائے گا کہ تمھیں کس جرم کی سزا میں قتل کیا گیا۔ اسی طرح عورت کے حقوق غصب کرنے والے مردوں سے بھی سوال کیا جائے گا کہ انہوں نے کیوں عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا؟مغرب کے تاریک دور میں جب عیسائیت نے عورتوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا تو اس کے ردعمل کے طور پروہاں حقوق نسواں کی تحریک اٹھی اور ہماری ماڈرن بیگمات این جی اوز کے ذریعے عورتوں کے حقوق کی پاسداری کا جو پرچار کرتی نظر آتی ہیں اس کے ڈانڈے دراصل اسی تحریک سے ملتے ہیں اور ہمارے ہاں اس تحریک کا واحد مقصداب عورتوں کو چادر اور چار دیواری کی قید سے آزاد کروانااوراسلام کے خاندانی نظام کو تہس نہس کرناہی رہ گیا ہے۔لیکن جب ہم خود بھی اپنی عورتوں کو ان کا جائز حق نہیں دیں گے تو وہ ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنیں گی اور انجام ان کا مغرب کی اس عورت کی طرح ہوگا جو دن کو مرد کے شانہ بشانہ کولہو کے بیل کی طرح کام کرتی ہے اور شام کو گھر کا کام بھی اس بیچاری کواکیلے ہی کرنا پڑتا ہے۔ دن کو دفتر سے پیسے کما کرلاؤ اور شام کوگھر کا سارا کام کاج بھی خود ہی سنبھالو یہ دامِ فریب ہے جس میں اس عورت کو پھانسا جارہا ہے۔ دفتر میں جانے والی عورتوں کا مرد استحصال بھی کرتے ہیں اور ان کا ناجائز فائدہ بھی اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں مرد کہتے ہیں کہ جس آفس میں کوئی لیڈی ہو وہاں کا ماحول اچھا ہوجاتا ہے۔آزادی نسواں کی تحریک کی نئی نسل کی تربیت پر پڑتی ہے کہ ماں باپ دونوں کو گھر سے نکال دو اور بچوں کی پرورش اور تربیت نوکروں اور آیاؤں کے ہاتھ میں دے دو تاکہ اگلی نسل بالکل ہی برباد ہوجائے۔ عالمی مالیاتی ادارے جن کے مختلف پراجیکٹس ہمارے دہی علاقوں میں چل رہے ہیں ۔ ترقی کے نام پر وہ کیا کررہے ہیں؟ عورت کو معاشی جدوجہد کا حصہ بنارہے ہیں گھر کی چاردیواری سے نکال کراسے کریانے کی دکان ڈال کردیتے ہیں کہ تو یہاں بیٹھ کر کام کرتی اچھی لگتی ہے۔ ان میں سے ایک ادارہ اے جے کے پلاننگ اینڈ دیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے تحت کام کرنے والا اے جے کے سی ڈی پی (AJK CDP) بھی ہے۔ جو ہمارے دیہی علاقوں میں جاکر لوگوں کے ساتھ مل کر مختلف سکیموں پر کام کرتا ہے۔ بچت کے مختلف طریقے لوگوں کو سکھائے جاتے ہیں۔ کاروبار اور گھریلو صنعتوں پر کام کیا جاتا ہے۔ ان کا بنیادی ہدف عورتوں کو کاروبار کرنا سکھاتے ہیں اوراس میں کامیابی کا معیار یہ رکھا گیا ہے کہ وہ گاؤں کی عورت کو گھر سے نکال کر دکان پربٹھا دیتے ہیں۔نبی اکرم کی احادیث مبارکہ کے مطابق سب سے بڑا فتنہ جو اس کائنات میں رونما ہوگا وہ دجال کا فتنہ ہوگا اورآپ نے فرمایا کہ اس فتنے کا عروج یہ ہوگا کہ سب سے آخر پہ عورتیں دجال کی طرف نکلیں گی اور ایک بندہ مومن اپنی بیوی بہن بیٹی اور پھوپھی کو گھر میں رسیوں سے باندھ کر رکھے گا کہ کہیں یہ دجال کی طرف نہ چلی جائیں تو یہ عورتیں رسیاں تڑا کر دجال کی طرف بھاگیں گی اس حدیث کے نتیجے کے طور پر جو تجزیہ کیا جاتا ہے وہ یہ بھی ہے کہ اس وقت ہر وہ کام جو کسی خاتون کو گھر کے قلعے سے باہر نکال کرمردوں کے درمیان لا کھڑا کرتا ہے وہ آنے والے اس دجالی فتنے کا ہی ایک روپ ہے جس کی انتہا وہ ہوگی جس کی خبر حدیث میں دی گئی۔ لیکن ذرا سوچیں اگر عورت کو گھر میں اپنے پورے حقوق نہ ملیں اور وہ اپنے باپ ، بھائی ، بیٹے اور خاوند سے اس وجہ سے بیزار ہو کہ وہ اسے اسلام کے متعین کیے ہوئے حقوق بھی نہیں دے رہے تو وہ گھر سے باہر نکل کر حقوق نسواں کے دلفریب نعرے کے چنگل میں نہیں آئے گی تو اور کیا کرے گی؟

 
Muhammad Raza
About the Author: Muhammad Raza Read More Articles by Muhammad Raza: 13 Articles with 13244 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.