ٹام اینڈ جیری اور ان جیسے کارٹون ،فلمیں، ڈرامے محض
اتفاق نہیں ایک منظم ثقافتی یلغار ھے جسے سمجھنے کی ضرورت ھے اور ھمارے
اپنے منفی رویے ایک الگ مصیبت ھیں۔ جب بچے کارٹون دیکھ کے زبردستی کی
بنیادی تربیت حاصل کریں گے۔ کمزور اور اوٹ پٹانگ بنیاد کے ساتھ جب یہ
سکولوں میں جائیں گے اور پلے گروپ سے کمپیوٹر چلائیں گے اورچند سالوں میں
انٹرنیٹ پر چلے جائیں گے اور جیسی سوچ لے کر پروان چڑھے ھیں انٹرنیٹ پر
ویسی صحبت رکھیں گے،انٹرنیٹ پر تو اچھا،برا جو چاھو ملتا ھَے۔ تو کیسی
شخصیت پروان چڑھے گی۔یہ سوچنے، سمجھنے کی ضرورت ھے اور اس بچے کیلئے منفی
سرگرمیاں،ایکشن فلمز دیکھ کر ایک خیالی دنیا میں اپنی ھیروئن کی تلاش میں
رھنا آسان ھو گا بہ نسبت اس کہ وہ پڑھائی پر توجہ دے اور زندگی میں ایک
بہتر اور تعمیری رویہ اپنا سکے۔ اگر بچوں کی تربیت ان کارٹونوں کے ذریعے ھی
ھونی ھے اور آج کی مائوں نے فون سننے اور ڈراموں،فلموں میں اپنے اوقات
بتانے ھیں تو جیسے جاپانیوں نے اپنے بچوں کیلئے ڈورے مون جیسے تعیری کارٹون
بنائے تو پھر ھمارے معاشرے کے اچھے اصولوں کے تابع،ھماری اقدار سے ھم آھنگ،
تعمیری اور علمی کارٹون ملکی سطح پر بننے چاھئیں جن کو دیکھ کر ھمارے بچوں
کے علم میں اضافہ ھو اور ان کے کردار کی تعمیر ھو سکے۔ موجودہ تخریبی
کارٹون تو سازش کا پہلا حصہ ھیں ،ھمارے ملک میں ھمارے بچے کے پیدا ھونے سے
لے کر اس کے مرنے تک اس کی بربادی کیلئے ایک منظم ثقافتی یلغار ایک سازش کے
تحت جاری رھتی ھے۔
بچے کیلئے اچھے سکول کا انتخاب بھی بہت ضروری ھے اور اچھے سکول کے اچھے
ھونے کا معیار، بڑا نام یا زیادہ فیسیں یا بڑا رقبہ نہیں ھے ۔ یہ گلی محلے
کا سکول بھی ھو سکتا ھے۔ اچھے سکول کا انحصار اس کو چلانے والی شخصیت پر ھے۔
ھمارے ملک کی ایک مشہور اعلی تعلیم یافتہ شخصیت نے ایک دفعہ ایک محفل میں
ایک مشہور ادارے کا نام لے کر بتایا کہ میں بچپن میں اس ادارے میں پڑھا ھوں،
وھاں کا پڑھا بچہ صرف نام کا مسلمان رہ جاتا ھے،بچے کی اسلام کے خلاف برین
واشنگ کر دی جاتی ھے۔
بات ایسی ھی ھے لیکن آج کے دور میں یہ کارٹونوں سے شروع ھوتی ھے، کارٹون
ایک بنیاد ھے۔ اگر ھم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک بہتر شخصیت دیکھنا چاھتے
ھیں تو ھمیں ھر سطح پر اپنی اولادوں کی اچھی تربیت کا بندوبست کرنا ھو گا۔
بچوں کی صحت کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ھے۔ کچھ دن پہلے خبر آئی کی انڈیا
میں میگی نوڈلز میں سیسے کی مقدار تسلی بخش نہیں ھے اور چند دن بعد
13گست2015 کی خبر ھے کہ انڈیا میں میگی نوڈلز پر پابندی لگا دی گئی ھے۔
قابل تقلید بات ھے۔ پنجاب میں خاص طور پر لاھور میں فوڈ ڈیپارٹمنٹ انتہائی
محنت سے کام کر رھا ھے،جو قابل تعریف ھے۔ ان کے اختیارات اور افرادی قوت
اور کام کرنے کی سہولیات میں اضافہ ھونا چاھئے۔ ان کی تنخواھیں مناسب ھونی
چاھئیں اور فوڈ ڈیپارٹمنٹ کو بچوں کی خوراک ،خاص طور پر مختلف کمپنیوں کے
ڈبے کے دودھ کا کیمیائی تجزیہ کرنا چاھئے اور ان کی ایک سائٹ ھونی چاھئے
جہاں عوام الناس ان سے رابطے میں رہ سکیں اور ان کی شائع کردہ رپورٹ پڑھ
سکیں ۔
ھمارے معاشرے میں اکثر بچوں کو جنک فوڈ اور سوڈا ڈرنک کا عادی بنا کر ان کی
صحت کا ستیاناس کر دیا جاتا ھے۔ بچوں کی خوراک کے حوالے سے بھی مائوں کی
تربیت بہت ضروری ھے اس مقصد کیلئے حکومتی سطح پر ضروری اقدامات کرنے چاھئیں
اور یہ کرنا بہت آسان ھے۔ بچوں کے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ بچوں کو 4/5
گھنٹوں سے زیادہ پیمپر لگانا ان کی صحت کے حوالے سے نقصان دہ ھے۔ اس حوالے
سے مائوں کے پاس وقت کی کمی ھے اور بچوں کو بار بار پیشاب پاخانہ کروا کر
صاف کرنے کی محنت سے بچنے کیلئے پیمپر کے مناسب استعمال کی بجائے نامناسب
استعمال سے بچوں کو جسمانی عوارض میں مبتلا کرنے کا پوری کوشش کی جاتی ھے۔
ننھے منے بچوں کو ماں کی،باپ کی اور اس کے بعد دوسرے متعلقہ لوگوں کی،استاد
کی توجہ اور محبت محبت پوری ایمانداری اور سمجھداری سے دینی ھو گی تب ھی ھم
ایسے بچے حاصل کر سکیں گے جو بڑے ھو کر ملک وقوم کی بہتری اور ترقی کا باعث
بن سکیں۔ جسطرح فیملی پلاننگ اور ڈینگی وائرس پر کام کیا جاتا ھے اسی طرح
بچوں کی تربیت کیلئے خاص طور پر مائوں کی تربیت کا حکومتی سطح پر خاص
اھتمام کیا جا سکتا ھے۔ میڈیا کو استعمال کیا جا سکتا ھے۔
ھمارا دین ایک مکمل ضابطہ حیات ھے اور زندگی کے ھر شعبے اور بچوں کے بارے
میں بھی مکمل راھنمائی موجود ھے۔ ھمارا مسلہ یہ ھے کہ ھم اسلامی تعلیمات
اگر پڑھیں بھی تو نماز،روزے، حج سے آگے نہیں جاتے۔ بچوں کے معاملات، کھانا
پینا،سونا جاگنا۔شادی موت،خوشی غمی،کاروبار غرضیکہ ھر ھر کام کے متعلق
اسلام مکمل راھنمائی کر رھا ھے۔ بچوں کے معاملے میں بھی میں صرف توجہ کرنے
اور عمل کرنے کی ضرورت ھے۔ تاریخ گواہ ھے کہ جب تک مسلمانوں نے اسلام کے
دامن کو تھامے رکھا،بچوں کی تربیت خودبخود اچھی ھوتی چلی گئی۔ مسلم معاشرے
میں خوشحالی اور امن کا دور دورہ رھا۔ آج بھی ھمیں اپنے ھر معاملے میں اور
خصوصا بچوں کے معاملے میں اسلام کے نورانی احکامت پر عمل کرنے کی ضرورت
ھے۔۔ لیکن اس کیلئے کوشش کرنی ھو گی، محنت کرنی ھو گی خلوص نیت کے ساتھ
،لیکن۔ کون سمجھے ،کون کرے۔ ؟
ختم شد۔ |