انسانی ریاست : قول، فعل ،ذہن اور روح

 انسانی ریاست کو چار صوبوں میں تقسیم کیاجا سکتا ہے۔ انسان ان چارصوبوں میں اس لئے تقسیم ہو سکتا ہے کہ وہ ان چاروں کرداروں میں علیٰحدہ علیٰحدہ ہوتا ہے۔ جہاں انسان میں ایک واضح امتیاز آتا ہے وہاں انسان کو علیٰحدہ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ چارحصے انسان کی شخصیت کے چار رنگ ہیں جن کو ملا کر ہی اس کی مکمل تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔

کسی بھی انسان کی تصویر میں سب سے پہلا جز اس کا قول یا زبان ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے۔ جب بھی اس کی زبان حرکت میں آتی ہے اس کا بھید کھول جاتی ہے ۔ یہ بات انسان کے اختیار میں نہیں لگتی کہ وہ زبان کی پردہ شکنی سے محفوظ رہ سکے۔ زبان اس کا ذہن فاش کرنے میں بہت عجیل ہوتی ہے۔ زبان جسم کا وہ واحد عضو ہے جو کبھی تھکاوٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ چاہے کوئی لگاتار کئی گھنٹے بولتا رہے، زبان نہیں تھکے گی، البتہ جبڑے تھک سکتے ہیں۔ زبان کو نہ ندامت کا پسینہ آتا ہے اور نہ اس کی شرمندگی سے نظر نیچی ہوتی ہے۔ جس کسی کی چاہے عزت پر وار کر سکتی ہے اور پھر محفوظ کی محفوظ۔ جبڑے ٹوٹ سکتے ہیں لیکن زبان پر آنچ نہیں آپاتی۔

انسان اپنے معمول میں جس عضو کو سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے وہ بھی زبان ہی ہوتی ہے۔ مسجد، عدالت، ہسپتال، گھر، درس گاہیں، مارکیٹیں، بازار، سڑکیں، ہر جگہ زبان کی طلسماتی حکومت نظر آتی ہے۔ نابیناانسان بھی زبان کے بغیر تنہائی محسوس کرتا ہے، اپاہج کی زبان اس کی لاٹھی سے برا سہارا ہے، کسی مدرس کے تمام کاروبار کا مدار ہی زبان پر ہوتا ہے۔ انبیاؑ کا پیشہ بھی زبان کی وساطت سے تکمیل کو پہنچا۔ ان پڑھ لوگوں کو بھی زبان کا علم ہوتا ہے اور بولنے کے لحاظ سے وہ بھی ان پڑھ نہیں ہوتے۔یہ بات بھی انسانی نفسیات سے ہے کہ ہر کوئی اپنی سنانا چاہتا ہے ، کسی کی کوئی سننا نہیں چاہتا۔ بچوں اور عورتوں میں بھی یہی رویئے کارفرما ہوتے ہیں کہ ان کی زبان دوسروں کے کانوں کے پار چلی جائے، جبکہ دوسروں کی زبان بولنے سے پہلے ہی گنگ ہو جائے۔ زیادہ زبان بندی بھی کسی آمد کا سبب بن جاتی ہے:
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پو چھو مدعا کیا ہے

انسان بسا اوقات ایسی زبان استعمال کر رہا ہوتا ہے جس پر اس نے قطعاً عمل پیرا نہیں ہونا ہوتا۔ یہاں زبان اور عمل میں ہزاروں میلوں کی مسافت آجاتی ہے۔ اکثر کسی افسر کے آگے ماتحتوں کی ’جی جی‘ ان کے دل کی آواز نہیں ہوتی۔ وہ تو بس مجبوراً ایسا کہہ رہے ہوتے ہیں جبکہ ان کا دل اس بات پر ان کو ملامت کر رہا ہوتا ہے اور وہ دل ہی دل میں اپنی افسر کے لئے ایسے ایسے الفاظ استعمال کر رہے ہوتے ہیں کہ جن کو اگر ان کا افسر سن لئے تو ان کو جان سے مار دے۔ ایسا کبھی کبھی کسی اور شخص کے ساتھ رویئے میں بھی ہو سکتا ہے۔ بہت سے لوگوں سے ملتے ہوئے کہا جاتا ہے ’ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی‘ جبکہ دل کی گواہی کچھ اور ہوتی ہے۔ دل بالکل خوش نہیں ہوا ہوتا لیکن زبان کو یہی حکم ہوتا ہے کہ وہ وہی منافقت پر مبنی جملہ ہی ادا کرے کیوں کہ زبان کو جھوٹ بولتے وقت کوئی نہیں دیکھتا اور نہ ہی جھوٹ بولتے ہوئے اس کا رنگ کالا ہوتا ہے اور نہ مستند دروگ گو کی زبان کی نوک کالی ہو چکی ہوتی ہے کہ دیکھنے والوں کو اس کی اصلیت کا پتہ چل جائے۔زبان کی آب و تاب میں فرق نہیں پڑتا چاہے سارا منہ کالا ہو جائے۔زبان ایسی نعمت ہے کہ جانوروں اور پرندوں کا ما فی الضمیر بھی اس کے ذریعے اظہار تک پہنچ جاتا ہے۔ گانے والے پرندے ، فطرت کے گویئے، یا عام پرندے سب کے سب اپنی اپنی زبان سے چہچہاتے ، لڑتے اور بات چیت کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ حشرات بھی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔

انسان کی زبان اس کی شخصیت کی نمائندگی کرتی ہے۔یہ معمولی اعزاز نہیں جو انسانی جسم کے کسی اور عضو کو نہیں مل سکا ۔ مزے کی بات ہے کہ زبان کا کبھی ایک درجہ نہیں ہوتا ، زبان کے اندر بھی زبان ہوتی ہے:
کچھ بھی نہ کہا ، اور کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے

زبان کے اندر کی زبان کو وہی سمجھتے ہیں جو ہم راز ہوں یا جہاں دیدہ ہو۔ محاورہ اور ضرب المثل ، اور اسے بہت سے کنائے اور اشارے جو ہر کسی کو سمجھ نہیں آ سکتے، بعض کو بہت اچھی طرح آشکار ہوتے ہیں۔زبان کے اندر زبان کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا ،کیوں کہ اس کے کئی ایک معانی اور سِر ہوتے ہیں۔ زبان کے اندر زبان کی ایک بڑی مضبوط مثال قرآن پاک کے حروفِ مقطعات بھی ہیں جن کو تمام جہانوں کی دو عظیم ترین ہستیوں کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا۔اسی انداز کو آگے بڑھائیں تو چرند، پرند، اور تمام جمادات کی زبان کو ان کا مالک سمجھتا ہے۔ لہٰذا ان کی زبان کو بھی اپنی طرز کی زبان کہا جا سکتاہے۔

ہماری بات کا مرکز یہ ہے کہ انسان تین حصوں میں منقسم ہوتا ہے، جن میں سے ایک بڑا حصہ زبان ہے۔
انسانی ریاست کو دوسرا بڑا صوبہ فعل یا عمل ہے۔ زبان کا تعلق ہوا کے ساتھ ہے اور اسے ہوا کی محتاجی بھی ہے۔ اکثر زبان بھی ادھر کو چلتی ہے جدھر کی ہوا ہوتی ہے۔جب تک کوئی بات عمل میں نہ آئے اس کا وجود مستحکم نہیں ہوتا۔کہنے کو انسان بہت کچھ کہہ دیتا ہے لیکن جس چیز کو عملی جامہ نہ پہنایا جائے، اس چیز کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔خیالی پلاؤ کون نہیں پکاتا، وعدے کون نہیں کرتا۔اگر صرف باتیں ہی سب کچھ ہوتیں تو دنیا میں کچھ نہ ہوتا۔ انسان نے جتنی بھی ترقی اور تبدیلی کی ہے، عمل کی بنیاد پر کی ہے۔ اگر انسانی زندگی سے عمل کا پہلو نکال دیا جائے تو انسان یا تو حیوان کی ذیل میں شمار ہو گا ،یا فرشتے کی۔ اگرچہ یہ دونوں انواع کی مخلوق اپنے طور پر بہت کچھ کرتی ہے لیکن انسانی عمل، جو کہ ظاہر ہوتا ہے،ہی کو بنیادی عمل کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ دونوں انواع انسان کی معاون اورممد ہیں لیکن کوشش انسان ہی کے حصے میں آتی ہے۔ انسانی عمل نے وہ کار ہائے گراں مایہ کر دکھائے کہ فرشتے بھی انگشت بدنداں رہ گئے۔ انسان نے اپنا پہلا مقابلہ بھی ملائک ہی سے جیتا تھا اور پھر اس جیت کی شاباش انسان کو مسجودِ ملائک بنا کر دی گئی۔ غار اور جنگل کے دور سے لے کر آج تک انسان محوِ عمل ہے اور اس عمل کے نتیجے میں انسان فطرت کے وہ سر بستہ راز افشا کر سکا ہے کہ اسنے واقعی نائبِ خدا ہونے کا حق ثابت کر دکھایا ہے۔سائنس اس ذمن میں قابلِ ستائش ہے کہ وہ علوم انسان کی دسترس میں آئے ہیں کہ جن کا کبھی خواب بھی نہ دیکھا گیا تھا۔

یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ انسان نے جس بھی چیز کی خواہش کی ، اس کی مسلسل تحقیق نے اسے حقیقت بنا دیا ۔ کبھی انسان تصویر اتارنے کی صرف تمنا رکھتا تھا، لیکن آج تصویر اتارنا بچوں کا کھیل ہے، کبھی انسان آواز کو گرفتار کرنا چاہتا تھا، لیکن آج آواز کو حراست میں لینا کسی طرح سے بھی کوئی کارنامہ نہیں کیوں کہ یہ عمل اتنا عام ہو چکا ہے۔کبھی انسان کی خواہش تھی کہ ہوا میں اڑے، اب یہ بات کسی طرح سے بھی کوئی جادو گری نہیں ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سائنس جس جادو گری کا انکار کیا کرتی تھی اس بے بہتر طلسم افزائی خود اس نے کر دکھائی ہے۔سائنس کی کس کس بات کا تذکرہ کیا جائے ہر بات ہی ایسی حقیقت ہے کہ انسان کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے کہ اس نے واقعی بہت کچھ کر دکھایا ہے۔سائنس کے علاوہ بھی ہر میدان میں انسان کے عمل نے کرشمے دکھائے ہیں۔ اچھائی سے لے کر برائی تک کوئی بھی بات صرف قول پر ختم نہیں ہوتی ۔ دونوں صورتوں میں قول کو فعل تک رسائی پا کر ہی کچھ ملتا ہے۔ اچھائی یا برائی کے زبانی دعوں کو کوئی نہیں مانتا۔ میدانِ کارزار میں عمل ہی کو اولیت حاصل ہے۔ جب تک قول کو فعل نہیں ملتا، قول پورا نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ کہنا آسان اور کر کے دکھانا بہت مشکل ہے۔انسان جو کچھ کرتا ہے اس کی بنا پر اس کا ثواب یا عذاب بھی پاتا ہے۔کہا جاتا ہے:
یہ بزمِ مئے ہے، یہاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کے خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

یہ بڑھ کے اٹھا نا ہی اصل بات ہے کہ انسان اپنے آپ کو عمل کے ترازو سے تولے کہ وہ کیا ہے۔عمل کی مجبوری کچھ یوں بھی ظاہر ہوتی ہے:
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچئے

یہ کھینچنا کسی وقت انسان کی مجبوری بن جاتا ہے۔کبھی کبھی مہربانی ایسی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے:
میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیئے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

عمل کی کچھ برکات ایسے بھی حاصل ہو سکتی ہیں:
میں کوچہء رقیب میں بھی سر کے بل گیا
اے کاش جانتا نہ تری راہ گزر کو میں

ذہن ،انسانی ریاست میں وہی مقام رکھتا ہے جو کسی ملک میں دارالخلافہ کا ہوتا ہے۔اگر دارالحکومت میں کوئی اچھا حاکم موجود ہو تو اس کے اثرات پوری ریاست پر بھی پڑتے ہیں۔ اور ایسے ہی اگر وہاں کسی برائی کو زبردستی حاصل ہو تو اس کے اثرات بھی پوری ریاست کی قسمت کا حصہ بنتے ہیں۔یہ بات کسی عجوبے سے کم حیرت ناک نہیں کہ انسان اپنے ذہن میں جیسا ہوتا ہے،ویسا اپنے قول اور فعل میں نہیں ہوتا۔ بلکہ بعض اوقات تو حد ہی ہو جاتی ہے کہ انسان اپنے قول اور فعل سے بالکل متضاد ہی ملتا ہے۔ اندر اور باہر سے ایک جیسے انسان شاید نہیں مل سکتے، یا اگر مل سکتے ہیں تو بہت ہی کم، یا صرف اخلاقی کتابوں میں، یا پرانی کہانیوں میں۔ یہ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ اندر، باہر سے ایک جیسا نہیں رہ سکتا۔ اور اگر رہنے کی کوشش کرے تو معاملات میں توازن برقرار نہیں رہتا۔ذہن میں خیالات کا ہر وقت ایک غبار اڑتا رہتا ہے جس کا اظہار کیا نہیں جا سکتا۔ اگر شعور کی رو نامی ایک ٹیکنیک یہ دعویٰ رکھتی ہے کہ وہ اس غبار کو الفاظ میں بدلنے کا کام کر سکتی ہے۔ لیکن یہ صرف اور صرف ایک دعویٰ ہے۔ کیوں کہ لکھنا ہمیشہ ایک شعور کوشش ہے۔ اور جب شعور کی لائٹ آن کر کے اس غبار کو دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کی بے ربطی میں کچھ نہ کچھ مصنوعی ربط شامل ہو جاتا ہے اور اس دوران بہت سا غبار ادھر سے ادھر ہو جاتا ہے جو کہ شعور کے آئینے میں اتر نہیں پاتا۔ اس لئے ذہن کی مکمل عکاسی نہیں کی جاسکتی۔ ذہن بعض اوقات ایسے ایسے خیالات سے آشنا ہوتا ہے جو کہ لکھے یا کہے نہیں جا سکتے۔ یا ان کی سمجھ ہی نہیں آ سکتی۔ اس لئے شعور کی رو کا دعویٰ محدود حد تک ہی صائب کہا جا سکتا ہے۔ یہ بات ہماری بحث سے ذرا ہٹ کر ہو گئی۔ انسان اپنے ذہن میں اپنے اصل رنگوں اور صورتوں میں ہوتا ہے۔جو کسی کو بھی دکھائی نہیں جا سکتیں۔ انسان اپنے ذہن کے صحرامیں اکیلا ہی ہوتا ہے۔ انسان کے ذہنی تخلیئے میں کسی کو داخل ہو نے کی اجازت نہیں ہوتی سوائے ان کے جن کو انسان خود اپنی سوچوں کا شریک بنا لے۔ انسان جذبات میں ایسا بہت کچھ سوچ لیتا ہے جو بعض میں اس کے خیال سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہاں تک بھی ہو جاتا ہے کہ لمبے عرصے کے دوست یا محبوب بھی ایک وقت انسان کے ذہن کی عدم مطابقت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ دوستی کے معاملے میں تو قریباً ہر شخص کا ذاتی تجربہ ہے کہ یہ اپنی ضرورت اور حالات کی زد میں رہتی ہے۔ اور وقت بدلتے ہی تعلقات بھی بدل جاتے ہیں۔ بہت سار ے بظاہر پارسا لوگ ، اندر سے’ پا رسہ ‘ کا فارمولا اپنا رہے ہوتے ہیں۔ ایسا انسان جس کا اندر باہر ایک ہو جائے یا تو فرشتوں اور یا حیوانوں کی صف میں شمار ہو سکتا ہے کیوں کہ انسان اور شیطان اپنے اندر اور باہر میں بہت بڑا فاصلہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔انسانی ذہن فطرت کے عجیب ترین کرشموں میں سے ہے۔یہ ایسی تماش گاہ ہے کہ اس کی سمجھ اس کو سر پر اٹھائے رکھنے والے کو بھی نہیں آتی۔

انسانی سوچ کو سرچ لائٹ کی مانند اس روشنی کو کہا جا سکتا ہے جو اندھیرے میں پڑی کسی چیز کی تلاش کے لئے ڈالی جاتی ہے۔یہ سوچ بہت کرشماتی ہے۔ تمام تر منصوبہ سازی اسی سوچ کی روشنی میں کی جاتی ہے۔ اس سوچ کو ملنے والی معلومات اور دریافتیں انسان کو بہت محظوظ بھی کرتی ہیں اور آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی دیتی ہیں۔ایک زمانے سے دوسرے زمانے تک آنے والی تمام تر معلومات اور سہولیات اسی سوچ کی سیڑھی آتی ہیں۔ اور مذید اگلے زمانے کو چلی جاتی ہیں۔ جو بھی زمانہ سوچ کے رستے محدود کرتا ہے زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور جو زمانہ سوچ کو تقویت دیتا ہے ، سوچ اسے عروج کی منازل طے کروا دیتی ہے۔

عقل جیسی نعمت کو بعض طبقات جیسا کہ شاعروں وغیرہ نے طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ لیکن دراصل حکمت، بصیر ت یا عقل خدا کی عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ عقل بھی باقی نعمتوں کی طرح غلطی کر سکتی ہے۔ جیسا کہ آنکھ ایک نعمت ہے لیکن آنکھ کا استعمال غلط ہونے پر آنکھ کو برا نہیں کہا جاتا، ہاتھ سے برا کام ہونے پر ہاتھ کے ایک نعمت ہونے کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح عقل ایک عظیم نعمت ضرور ہے اگرچہ کچھ صورتوں میں اس سے غلطی ضرور ہو سکتی ہے۔ لیکن اس غلطی پر عقل کے ایک نعمت ہونے کا انکار نہیں بنتا۔ ہاں غلطی کو غلطی ہی کہا جائے گا۔یہی تو وہ صلاحیت ہے جو انسان کو باقی مخلوق سے ممیز کرتی ہے۔ بے وقوفی کرنے والے کو کہا جاتا ہے: تمھیں عقل نہیں ہیـ۔ اور عقل کی مخالفت کرنے والوں کو کہا جائے : کیا تمھیں عقل نہیں ہے؟ تو انہیں بھی بہت برا لگے گا۔ اگر وہ کہیں گے کہ عقل اچھی چیز نہیں ہے۔

انسانی ذہن ایک علیحدہ جہان ہے۔ جہاں کا بادشاہ خود یہ ناتواں بندہ ناچیز انسان ہے۔ انسان ذہن میں کیا ہے ؟ شاید کوئی انسان نہیں جان سکتا۔کسی کے ذہن کو جاننا تو دور کی بات ہے اپنے ذہن کو جاننا ہی ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے تو فرمایا گیا ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔

انسانی ذہن کی بات کی جائے تو پہلے انسان سے لے کر آج تک اور آگے آنے والے تمام انسانوں تک، وہ پہلا ذہن اب بھی موجود ہے اور نئے ذہن کا حصہ بن کر اپنے آپ کو آگے بڑھا رہا ہے اور یہ سفر ہمیشہ جاری رہے گا۔ ماضی کی معلومات آج کے انسان کے کام آئی ہیں اور آج کی دریافتیں کل کی ذہنی عمارت کی بنیاد کا کام کریں گی ۔ کیا بنیاد عمارت کا حصہ نہیں؟ بے شک ہے۔ اس لئے ماضی کا ذہن آج کے ذہن کی بنیاد ہے اور آج کے ذہن میں موجود ہے۔ انسان ذہن اپنے رویوں میں بالکل ماضی جیسا ہے۔ صدیوں پہلے بھی انسان سہولت طلب تھا ، آج کا انسان بھی سہولت طلب ہے۔ یہ بات علیحدہ ہے کہ ہر زمانے کی سہولت کی چیزیں بدلتی رہی ہیں۔انسان کے ماضی کا ذہن اگر آج کے ذہن کا حصہ نہ بنتا تو انسانی ترقی کی عمارت آج اتنی اونچی نہ ہوتی بلکہ آج بھی انسان دریاروں کے کناروں اور بڑی غاروں کی تلاش میں ہوتا۔

ذہنوں کے درمیان ایک تعلق موجود ہوتا ہے جو کہ ایک دوسرے کے ذہن تک رسائی میں معاون ہوتا ہے۔ ایک طاقتور ذہن اپنی ذہنی طاقت سے کسی اور ذہن کو اپنا مطیع بنا سکتا ہے۔ایک ذہن دوسرے سے ایسا بہت کچھ کروا بھی سکتا ہے جو وہ اس ذہن کی گرفت کے بغیر نہ کرنا چاہے۔آج کل ’برین واشنگ‘ کی اصطلاح عام استعمال ہو رہی ہے۔ ایک طاقتور ذہن دوسرے ذہن کو اپنی جان ختم کرنے پر بھی تیار کر سکتا ہے۔ انتہائی حیرت انگیز بات ہے۔ استاد اپنی تمام تر کوشش اور خلوص کے باوجود اپنے طلبہ کو اپنی بہتری اور مستقبل کے لئے پڑھنے پر تیار نہیں کر پاتا ۔ جبکہ یہ لوگ انسان کو اپنے ہاتھوں مرنے پر تیار کر لیتے ہیں:
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

انسان جتنا اس ظاہری دنیا میں جیتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ ذہنی دنیا میں زندگی گزارتا ہے۔ظاہری کیفیت میں تو وہ سو بھی جاتا ہے لیکن ذہنی کیفیت میں تو وہ وہاں بھی خوابوں اور خیالوں کی اماجگاہ بنا ہوتا ہے۔ہمارا ذہن ، ہمارے جسم سے کئی گنازیادہ کام کرتا ہے۔ ذہنی کام صرف پڑھے لکھے ہی نہیں کرتے۔ ہر انسان کرتا ہے۔ ذہن انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اپنا کام شروع کر چکا ہوتا ہے۔ اور مرنے کے بعد بھی اسک کی سرگرمی زیادہ دیر تک جاری رہتی ہے۔

ذہن اور دل کو علیحدہ علیحدہ بھی سمجھا جاتا ہے اور صرف ذہن کو سب کچھ بھی سمجھا جاتا ہے۔ جس طرح غم کا مرکز ذہن ہے لیکن آنسو صرف آنکھ میں آتے ہیں۔ آنکھیں رو رو کے برا حال کر لیتی ہیں، جبکہ کانوں پر غم کی صورت میں بھی جوں نہیں رینگتی۔ اسی طرح خوشی کے موقع پر دانتوں کو بھی اپنے اظہار کی خواہش ستاتی ہے ، لیکن بالوں میں کوئی جنبش نہیں ہوتی۔ ہم ایک لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ اسی طرح دل بھی خوشی اور غم کے جذبات کا اظہاری مرکز ہے، اور اصل جذبہ ذہن ہی میں ہوتا ہے۔ بالمختصر ہم نے دل کو ذہن کے حوالے کر دیا ہے تھوڑی دیر کے لئے۔

انسانی ریاست کا چوتھا صوبہ روح ہے۔ یہ صوبہ چوں کہ ماننے یا ماننے سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے کچھ لوگ اس صوبے کو مانتے ہیں اور کچھ لوگ نہیں مانتے۔لہٰذا اس پر بحث بھی ماننے والوں کے لحاظ سے کی جائے گی۔ کیوں کہ جو نہیں مانتے انہیں منوانے کی ضرورت نہیں ہے ۔

روح کا صوبہ انسانی صوبوں میں سے سب سے بڑا اور سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ روح کے بغیر جسم بے جان تصور ہوتا ہے۔ روح کی حیثیت ایسی ہے جیسے کسی الیکٹرانک چیز میں بجلی۔ جیسے وی بجلی کے بغیر کام نہیں کر سکتی، جسم بھی ناکارہ ہو جاتا ہے۔روح خدا کی مخلوق ہے اور اس کا بھید بھی وہ خالق ہی جانیا ہے۔یہ انسانی حواس کے مطالعے کا مضمون نہیں ہے۔ لیکن مذاہب کی تعلیمات اور واقعات کے مطابق کچھ بات کی جا سکتی ہے۔ جب انسان دنیا سے چلا جاتا ہے تو بولا جاتا ہے: اﷲ کا حکم، یا امرِ ربی، یا پنجابی میں یہ بھی لوگ کہتے ہیں: وعدے پج گئے۔ ان ساری باتوں میں روح کا تصور ہی پاتا جاتا ہے۔ جب روح جسم میں داخل کی گئی تو اس نے اپنے خالق سے ایک دن اس جسم سے نکال لئے جانے کا وعدہ لیا تھا ، ایسا کہاجاتا ہے۔روح، خدا کے دربار کا درباری ہے۔ جو روح معطر اور صاف ستھری ہو جائے اسے خدا کا قرب نصیب ہو جاتا ہے۔ اس روح کو جو پرواز اور طاقت میسر آتی ہے اس کا حال بس وہ ہی جانتی ہے۔ حضرت سلیمانؑ کے درباری نے ملکہ بلقیس کا تخت پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کر دکھایا تھا۔ یہ کون سی طاقت تھی؟ یہ روح کی طاقت ہی تھی جس نے آج کی تمام تر سائنسی ترقی کو بھی ورطہء حیرت میں ڈالا ہوا ہے۔ انسان اپنی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود ابھی اس سے بہت کم طاقت بھی حاصل نہیں کر سکا ۔
روح کے جہان سے واقفیت تو اسی کو ہے، لیکن یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ روح کا تعلق فوق الفطرت چیزوں کے ساتھ بھی ہے اور فطرت کی چیزوں کے ساتھ بھی۔ جیسا کہ روزے کے ذریعے بھوکا ،پیاسا تو جسم کو رکھا جاتا ہے لیکن بالیدگی روح کی ہوتی ہے۔ قریباً تمام مذاہب نے جسم کی تکلیف میں روح کے سکون اور جسم کی عیاشی میں روح کے زوال کی بات کی ہے یا نظریہ پیش کیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ مذاہب کی بنیاد یہی روح کا نظریہ ہی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ موت ہر انسان پر طاری اور حاوی ہے اس سے چھٹکارہ ممکن نہیں۔ مذاہب نے روح کے مختلف نظریات کی بنیاد پر آخرت کے نظریات دیئے اور ان مذاہب کے ماننے والوں نے ان نظریات کو مان کر اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کیا۔

روح سے بہت سی ہوائی یا روحانی مخلوقات بھی منسلک ہوتی ہیں، جن میں سے جنات سرِ فہرست ہیں۔انسان بھی جنات کی پکڑ میں آ جاتا ہے۔ اور بعض جگہیں بھی آسیب زدہ شمار ہوتی ہیں۔ جادو ٹونے کا اثر اپنی جگہ ایک حقیقت ہے، اور ایسی چیزوں کا علاج بھی روحانی طور پر ہی ہو سکتا ہے۔روحانیت اپنی جگہ ایک جہان ہے۔ انسانی جسم کی زندگی، انسانی روح کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ انسانی وجود کی زندگی چند سالوں پر مشتمل ہے لیکن روح کی زندگی کا آغاز تو روزِ اول ہی سے ہو گیا تھا جوکہ روزِ آخرت تک جاری و ساری ہے۔انسانی جسم تو بچارہ چند لمحوں کا مہمان ہے، ساری عمر نشیب وفراز سے گزرتا ہے، نحیف و لاغر ہو کر دنیا سے منہ چھپا لیتا ہے۔ مٹی کا مال مٹی میں مل جاتا ہے۔ روح ہے کہ ایک لمحہ بھی بوڑھی نہیں ہوتی۔ اور جسم کا ساتھ چھوڑتے ہیں آسمانوں کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔جسم کی کمزوری اس کی پرواز میں حائل نہیں ہو پاتی۔

ارواح کے باہمی تعلق کو ذہنوں کے باہمی تعلق سے بھی زیادہ مضبوطی حاصل ہے۔ ذہنوں میں زمانے کے اندر سفر کرنے کی استعداد نہیں ہوتی جبکہ روحوں میں وقت کے اندر پرواز کرنا ایک معمولی بات ہوتی ہے۔ زمانے کے اندر ابھی تک انسان اپنی ذہنی طاقتوں کی تمام تر کوشش کے باوجود کامیاب نہیں ہو سکا۔ لیکن ارواح میں یہ طاقت ہوتی ہے کیوں کہ اوراح نے دراصل ان تمام زمانوں میں سفر کیا ہوتا ہے۔ ذہن بھی جسم کی طرح محدود ہوتا ہے لیکن روح کی آزادی جسم کی آزادی سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔موت جیسی چیز بھی جسم پر وارد ہے، روح تو پرواز کرتی ہے، مرتی نہیں۔ کیوں کہ وہ اﷲ کا حکم ہے۔

اﷲ کے بندوں کو یہ طاقت حاصل ہو جاتی ہے کہ ان کے جسم ارواح میں اوران کی ارواح اجسام میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔یہ بات اگر عام فہم کے لحاظ سے معمہ ہے لیکن سائنس کے نظریئے مادہ اور توانائی کے لحاظ سے عام سی بات ہے لیکن ایسا کرنا یا کس سکنا بلا شبہ کرامت ہے کیوں کہ ایسا عام فطرت میں کرنا محال ہے۔

اگر یہ بات کہی جائے کہ انسان کا لا شعور اس کی روحانی طاقت ہی کا دوسرا نام ہے تو شاید غلط نہ ہو۔ یا اس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن انسان کے ذہن میں خیالات اور سچے خوابوں کی بات کرتے ہوئے اس بات پر غور ضرور ہو سکتا ہے کہ انسانی ذہن کو بھی روح کے ساتھ کوئی علاقہ حاصل ہے کہ اپنی محدود قوت کے ساتھ ذہن کو ان باتوں تک رسائی کیسے حاصل ہوتی ہے جن کا تعلق روحانیت کے ساتھ ہے۔ تو ایسا کہا جا سکتا ہے کہ روح کا ذہن کے ساتھ تعلق اسکو ان باتوں کا ادراک دیتا ہے۔اگرچہ یہ بات حتمی نہیں ۔

حضرت ابراہیمؑ نے مقامِ کعبہ پر کھڑے ہو کر انسانی ارواح کو اس گھر کے حج کی دعوت دی تو ان کے آس پاس بظاہر سننے والے شاید چند لوگ ہی ہوں لیکن عالمِ ارواح میں جس روح نے بھی اس صدا پر لبیک کہا وہ انسان حج کرے گا۔ روحوں کے جہان کی بات ہم عام مشاہدے کے ساتھ نہیں سمجھ سکتے۔اسی طرح روزِ اول اﷲ کی ذات نے تمام انسانوں کی روحوں سے پوچھا کہ کیا میں تمھارا رب ہوں؟ تو تمام ارواح نے یک زبان اعلان کیا تھا کہ ہاں اے اﷲ تو ہمارا رب ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں انسانوں کو یہ بات یاد دلائی ہے۔ لیکن ہم انسانوں کو تو یہ بات بالکل یاد نہیں ہے۔ ہمیں تو اپنے بچپن کی باتیں بھی یاد نہیں ہیں۔ لیکن اگر خدا نے فرمایاہے تو روح کے شعور میں کہیں نہ کہیں یہ بات اور سارا واقعہ ضرور محفوظ ہو گا ، ورنہ خدا اس بات کو یاد کرنے کا حکم ہی نہ دیتا۔حضورﷺ کا فرمان ہے میرا دشمن پر دو ماہ کی مسافت سے رعب پڑ جاتا ہے۔

روح کی یہ باتیں آج کل کی سائنسی ایجادوں کی مدد سے زیادہ آسانی سے سمجھی جا سکتی ہیں۔موبائل ، انٹرنیٹ،مصنوعی سیاروں کی مدد سے ملنے والی سہولتیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ اگر ایسا مادی طور پر ہو سکتا ہے تو روحانی طور پر کیوں نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ بات ماننے والوں کی ہے نا ماننے والوں کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

انسان کی ریاست کا چوتھا صوبہ بلا شبہ ایک بڑا صوبہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ انسانی ریاست کا سب سے بڑا صوبہ ہے تو مذاہب پر یقین رکھنے والے تو اس بات سے اتفاق کریں گے، لیکن نا ماننے والوں کا کیا کیا جاسکتا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ اور نہ ہی ہم کرنا چاہتے ہیں۔یہ اپنا اپنا نصیب اور اپنا اپنا مشاہدہ ہے۔
انسانی ریاست کے پہلے دو صوبوں یعنی قول اور فعل کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اسی طرح دوسرے دو صوبوں یعنی ذہن اور روح کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ان چاروں صوبوں کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے۔جس ریاست میں ان چاروں صوبوں کے درمیان اچھا تعلق ہو وہ ریاست بہت مضبوط ہوتی ہے اور جس ریاست میں ان چاروں کے درمیان ہم آہنگی نہ ہو اس کا نظام کمزور رہتا ہے۔ جس انسان میں یہ چاروں صوبے اچھائی پر اکٹھے ہوں وہ فرشتوں سے بڑھ کر ہے کیوں کہ اس نے اپنے اندر موجود شر کا مقابلہ کر کے یہ مقام پایا ہے۔ اور جس انسان کے اندر یہ چاروں صوبے برائی پر اکٹھے ہوں ، وہ شیطان سے بھی کم تر ہے کیوں کہ اس نے اپنے اندر اچھائی کے باوجود اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔تمام انبیاء ؑ نے ان چاروں کی اصلاح اور بہتری کے لئے کام کیا ہے۔ اکثر یہی ہوتا ہے کہ انسان ان چاروں صوبوں میں ہم آہنگی نہیں رکھ پاتا اور مختلف طرح سے توڑ پھوڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔

روح ٹھیک ہو تو انسان کا ذہن بھی ٹھیک رہے گا ، اگر ذہن ٹھیک رہے گا تو اس کا عمل بھی ٹھیک رہے گا اور اگر عمل ٹھیک رہے گا تو اس کا قول بھی درست ہو گا۔ یا اگر قول اور عمل کی ترتیب آگے پیچھے بھی کی جا سکتی ہے۔لیکن یہ بات حتمی ہے کہ اگر روح پر ایمان ہے تو اس کا ٹھیک ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر روح پر یقین نہ رکھنے والا ہے تو اس کا ذہن ٹھیک ہونا ضروری ہے۔ ذہن اگرچہ انسان کا ذاتی مسئلہ ہے، لیکن اس کا عمل ٹھیک ہونا ایک معاشرتی مسئلہ ہے جس پر قانون بھی حرکت میں آ سکتا ہے۔ عمل کو بڑی حد تک انسان کا کردار بھی کہا جا سکتا ہے۔قول تو اکثر انسانوں کے اچھے ہی ہوتے ہیں لیکن کچھ کے نہیں بھی ہوتے۔ لہٰذا قول کا ٹھیک ہونا اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔

الغرض انسانی ریاست کا ان چاروں صوبوں پر انحصار ہے۔بڑے انسان ان چاروں صوبوں میں مضبوط ہوتے ہیں اور چھوٹے انسان ان چاروں یا اکثر میں کمزور رہ جاتے ہیں۔
 

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313068 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More