قارئین کرام ! زندگی اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ سب سے برتر
نعمت ہے ، زندگی مخلوق سے جُڑی اُس نعمت کا نام ہے کہ جس کے بناء کوئی بھی
شے باقی نہیں رہ سکتی۔ اﷲ تعالیٰ کے سوا جتنے بھی مخلوق ہیں وہ سب زندگی کے
مالک ہیں اور زندہ رہ کر وہ سب زندگی کے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔ ہم یہاں
انسان یعنی اشرف المخلوقات کا ذکر کرینگے کہ جب تک انسان میں جان باقی رہتی
ہے وہ خود کو زندہ محسوس کرتا ہے اور اپنے زندہ ہونے کی احساس کو زندگی
کہتا ہے ۔ اب ایک زندگی عارضی زندگی ہے اور دوسری زندگی ابدی ہے جسکا ذکر
تفصیل کے ساتھ کرنا چاہوں گا۔
عارضی زندگی کیا ہے اور کیوں عارضی ہے ؟ تو یہ ایک واضح بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ
نے دنیاوی نظام عارضی طورپر بنائی ہے ، اس میں اپنے مخلوق کو آباد کردیا ہے
، اور باقاعدہ زندگی کو گزارنے کے طریقے سے آگاہ کردیا ہے۔ دنیا میں مختلف
انبیاء علیہ السلام تشریف لائیں ہیں اور ہر ایک نبی ؑ نے اﷲ تعالیٰ کی
اطاعت کی تاکید کی ہے ۔ اب ہر وہ انسان جس کو اﷲ تعالیٰ نے دل ودماغ اور
شعور سے نوازاں ہے وہ اِس بات کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے کہ زندگی گزارنے کا
صحیح اور غلط راستہ یا طریقہ کونسا ہے ۔ اور اسکے انجام سے بھی خوب واقف
ہیں ۔ اب اس عارضی دنیا کو اگر کوئی آزادی سمجھے تو وہ اپنی مرضی کے مالک
بن کر گزار لیتا ہے اور جو کوئی اپنے آپ کو قیدی سمجھ کر اور اﷲ تعالیٰ کے
احکامات اور رسول کریم ﷺ کی اطاعت کا پابند مان کر زندگی گزارنا پسند کرے
تو اُس انسان کو مومن کہا جاتا ہے اور ایک مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے
رب اور نبی کریم ؐ کی اطاعت کریگا۔ کیونکہ حضور کریم ؐ نے فرمایا حدیث
مبارک ہے ’’الدُّ نْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّتُ الْکَافِرْ ‘‘ ترجمہ
’’ دنیا مومن کیلئے قید خانہ اور کافر کیلئے جنت ہے ‘‘۔
حدیث مبارک سے صاف واضح ہے کہ مومن اپنے خالق اور نبی ؐ کی اطاعت کرنے کا
پابند رہیگا،،، اور کافر یعنی انکار کرنے والوں کیلئے یہ دنیا ایک عارضی
جنت کی مانند ہے ۔ اب ہر کوئی جانتا ہے کہ میں کس حد تک پابند ہوں اور کس
حد تک آزاد۔۔۔۔! زندگی امانت کے طورپر اﷲ تعالیٰ کا عطا کردہ نعمت ہے ، اگر
ہم اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس زندگی کو بسر کرتے ہیں تو بے شک اطاعت کرنے
والوں کیلئے جو انعامات اور آنے والی ابدی زندگی اﷲ تعالیٰ نے محفوظ رکھی
ہے اُسکے حسن وجمال کی مثال کوئی نہیں دے سکتا۔ ایک نہ ختم ہونے والی زندگی
اور نہ ختم ہونے والی خوشحالی ، اور پھر جتنے خواہشات کے انبار لگاؤگے پوری
ہوگی۔۔۔۔۔۔ ! اور پوری ہونے میں وقت بھی نہیں لگے گا۔ !
اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے !’’ ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری۔ لیکن ہوگا وہی
جو میری چاہت ہے ۔ پس اگر تو نے سپرد کردیا خود کو اس کے جو میری چاہت ہے ۔
تو میں بخش دوں گا تم کو وہ بھی، جو تیری چاہت ہے ۔ لیکن اگر تونے نافرمانی
کی اس کی ،جو میری چاہت ہے۔ تو میں جھکادوں گا تم کو اس کے لئے جو تیری
چاہت ہے ۔ اور پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے ۔ ‘‘
اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان سے صاف واضح ہے کہ یہ الفاظ اس دنیا میں رہنے والوں
کیلئے فرمائے گئے ہیں اور باوجود اسکے کہ دنیا ایک عارضی طور پر دی گئی
مہلت ہے اور رب العزت نے کوئی زبردستی سے اپنے احکامات ہم پر مسلط نہیں کئے
ہیں بلکہ پیار اور محبت سے فرمایا ہے کہ اگر تم میری رضا کی خاطر اپنے
خواہشات کو مسترد کرتے ہو تو میں تمہاری ہر ضرورت پوری کرونگا جہاں سے
تمہارا گمان بھی نہ اور وہ بھی عطا کرونگا جو تمہاری جائز خواہش ہے ۔ اس
میں تو خوشی کی بات یہ ہے کہ اگر ہم اﷲ کی رضا اور حضور کریم ؐ کی اطاعت پر
زندگی بسر کریں تو ہمیں ایک نہیں دو نہیں بلکہ بے شمار انعامات سے نوازاں
جاتا ہے ۔ اس عارضی دنیا میں ہمیں کیا ملتا ہے وہ آپ کے سامنے ہیں کہ جو
لوگ اطاعت کرتے ہیں انکے کاروبار ، محنت مزدوری میں خیر وبرکت ہوگی انکوں
سکون نصیب ہوگا اورانکی زندگی خوبصورت انداز گزرتی جائیگی ۔ مگر جو لوگ
غفلت برت رہے ہیں ، ان میں احساس کی کمی ہوتی ، انکے ضمیر مر چکے ہوتے ہیں
بس وہ زندہ لاشوں کی طرح مثال ہے نہ وہ خود کو نفع دیتے ہیں اور نہ کسی اور
کو نفع پہنچاسکتے ہیں ۔ نہ انہیں اس دنیا میں سکون ملتا ہے اور نہ آخرت کے
لذتوں کی عطائی نصیب ہوتی ہے ۔ بس وہ اپنے آپ پر خود ظلم کرتے ہیں ۔۔۔۔!
یہاں قسمت اور تقدیر کا ذکر کرونگا کہ کچھ لوگ جب کسی امتحان میں ڈال دیئے
جاتے ہیں اور زندگی کی تلخیاں اُسے گھیر لیتی ہیں تو انہیں اس بات پر مایوس
نہیں ہونا چاہئے بلکہ اُنہیں اﷲ تعالیٰ کی طرف توجہ دینی چاہئے اوراپنے
گریباں میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ شاید میرے اعمال ، نیت ، قول وفعل میں
کوئی کوتاہی تو نہیں ہوئی ہے۔ کہ جس کے بناء پر اﷲ تعالیٰ اُن سے ناراض ہوا
ہے تواُسی وقت اپنی بخشش کی دعا کرلینی چاہئے ۔۔۔! اور موجودہ حالات پر شکر
ادا کرنا چاہئے تب جاکے وہ لوگ سکون پا لیتے ہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ اپنے
بندوں سے جتنا محبت کرتا ہے اُسکی انتہا کسی کو بھی معلوم نہیں اور نہ کوئی
معلوم کرسکے گا۔ بس یقین یہی ہونی چاہئے کہ میرے رب نے جب مجھے پیدا کیا ہے
تو یقینا وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہوگا۔ اسی طرح جو لوگ مصیبت اور آزمائش
کے وقت یہ کہتے ہیں کہ یہ تو قسمت اور تقدیر کا کھیل ہے اور انسان کے ساتھ
کھیلتا رہتا ہے ،، تو میرے عزیزوں قسمت یا تقدیر کو کھیل مت کہو۔۔۔۔! یہ تو
انسان اپنے اعمال سے خود ہی بدلتا رہتا ہے ، انسان کے ارادوں سے ہی اُسکی
زندگی چلتی رہتی ہے ۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو شعور دیا ہے اب وہ اگر
وہ باشعور ہے تو شاید ہر ایک لمحہ فکر کرنے اور ہر کام کرنے سے پہلے سوچ
سمجھ کر قدم اُٹھائے۔ یا باشعور ہونے کے باوجود وہ جلد بازی کرے اور پھر
نقصان پائے تو کیا یہ انکی تقدیر میں لکھے گئے الفاظ تھے یا اُنکے قول وفعل
میں کوئی کوتاہی تھی۔۔۔!
یہ الفاظ شاید آپ سب نے بار بار سنے ہونگے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ’’ کہ جب
تک کوئی قوم اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش نہ کریں تب تک میں اُس قوم کے
حالات کو نہیں بدلتا ‘‘اب قوم کی بات الگ ہے شاید اُن میں اتفاق نہ ہو ،،
یہاں میں فرد واحد ایک انسان کی ذکر کررہا ہوں کہ اگر وہ اپنی زندگی بدلنے
کی کوشش نہ کریں حوصلہ پست ہو کیا اسی طرح خوار وزار رہیگا اور مایوسی کی
دلدل میں اسی طرح پھنسا رہیگا کہ چلو اب قسمت نے یہاں لاکر کھڑا کیا ہے ،،
قسمت سے کون کیسے لڑ سکتاہے ۔۔۔! واہ جی واہ یہ ہیں ہمارے حوصلے اور یہ ہیں
ہمارے خیالات ۔۔۔۔۔۔۔۔!
اسکے متضاد اگر کوئی انسان اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کریں اور حوصلہ تا
حیات بلند رکھے تو میرا رب انصاف والا ہے ضرور اُس انسان کو اسکے منزل تک
رسائی عطا کریگا۔۔۔ بشرط یہ کہ اُسکی زندگی کا مقصد جائز اور اﷲ تعالیٰ کی
رضا کی خاطر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ علامہ اقبال کا ایک قول ہے کہ
’’ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے ‘‘
’’خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ‘‘
قارئین کرام ! آپ نے شاید اولیاء کرام کی داستانیں نہیں پڑھی ہوگی جس میں
ایسے ایسے بزرگ اولیاء گزرے ہیں جنہوں نے اپنی نفسی خواہشات کو مسترد کرکے
صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا کی اور زندگی ایسی گزاری کہ قیامت تک انکی داستانیں
یاد رکھی جائیگی ،، اور آخرت میں بھی سب کے سامنے اُن کا بھرپور انداز سے
استقبال کیا جائیگا۔ اور بے شک وہ لوگ جو خود کو اﷲ تعالیٰ کے سپرد کردیتے
ہیں وہ کامیابی پانے والے ہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔۔۔۔!
اِن سب باتوں کا نچوڑ صرف ایک حدیث مبارک پر ہی ختم ہوتا ہے ’’حضور کریم ؐ
نے فرمایا ’’اِنَّمَلْ اَعْمَالُ بِنّیَاتْo‘‘ ترجمہ ’’اعمال کا دارومدار
نیت پر ہے ‘‘ اور جس طرح ہمارے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے فرمایا ’’
عمل سے زندگی بنتی ہے ، جنت بھی ، جہنم بھی ‘‘ تو ہر انسان جو کسی بھی مذہب
سے ہو میری یہ اُن سے التجا ء ہے کہ وہ اپنے زندگی کا مقصد جانیں اور خود
پر ظلم نہ کریں بلکہ اپنے ساتھ انصاف خود کریں۔ اور اپنے آپ پر ظلم کرنے
والوں آپ سب کے سامنے ہیں ،،،!
کچھ مثالیں پیش کرنا چاہوں گا۔ ! ایک وہ شخص ہے جو اہل وعیال کا مالک ہو
اور شراب نوشی ، منشیات میں لت پت اپنی زندگی کو آگ میں جلاتا ہے وہ صرف
خود پر ہی نہیں بلکہ اپنے اہل وعیال پر بھی ظلم ڈھاتا ہے ،، کیونکہ وہ اپنی
زندگی ختم کرنے پر تلا ہوا ہے اور آخر کار کسی نالی یا کھڈے میں اسکی لاش
پائی جاتی ہے انکے بال بچ بھی خوار ہوجاتے ہیں اور وہ بھی خودکشی کے مرتکب
ہوکر خود کو برباد کرلیتا ہے ۔۔! دوسری مثال :کچھ وہ اشخاص ہیں جو با عزت
نوکریوں کے کرسیوں پر بیٹھ کر اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کرتے ہیں، رشوت
، حرام خوری ، زنا ، عیش وعشرت ، بربریت، بدعنوانی اسی طرح کے اور مذموم
اعمال میں ملوث ہوتے ہیں وہ بھی خود کو دھوکہ دے رہے ہیں خود پر ہی ظلم
کررہے ہیں اور خود ہی اپنا چھین وسکون کھو بیٹھتے ہیں ،،، ۔۔!
میرے تحریر کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کسی کے دل کو ٹھیس پہنچے بلکہ شاید میرے
شائع کردہ تحریر سے کوئی استفادہ حاصل کرے کسی ایک شخص میں احساس زندہ
ہوجائے اگر چہ میں خود ایک عام انسان ہوں ،، بس کمپیوٹر پر اُردو کی لکھائی
میں ماہر ہوں اس لئے اس ہنر سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے دل کی آواز تحریر
کرتا ہوں اور شائع کرکے آپ کے خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔ کچھ لوگ داد دیتے
ہیں میرا حوصلہ بڑھاتے ہیں ،، جنکا میں بہت مشکور ہوں ۔ !
میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے احکامات اور اپنے محمد مصطفی ﷺ کی
اطاعت کا پابند بنائیں، ہمارے اعمال اور نیت کو شفاف بناکر اپنی رضا نصیب
فرمائے ۔اور ہماری زندگی چھین وسکون اور خوشحالی سے منور فرمائیں ۔ آمین۔۔
! والسلام ۔۔! |