خیبر پختونخوا کا نیا بلدیاتی نظام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پس منظر و پیش منظر
(محمد عبیداللہ علوی, Islamabad)
بلدیاتی نظام کسی بھی ملک کی
تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، آج کے دور میں جمہوریت کا یہ
خاصا ہے کہ عوامی حکومت عوام کے تمام بنیادی مسائل کو ان کی دہلیز پر حل
کرے اور اس مقصد کے لئے مقامی سطح پر عوام میں سے ہی صاحب ادراک لوگوں کو
آگے لائے جو واقعی عوامی مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں اور ذاتی
محلات کے بجائے عوامی فنڈ کو عوامی منصوبوں پر خرچنے کے جذبے سے سرشار ہوں۔
اس نظام کا آغاز یونان میں 4 ہزار سال قبل مسیح میں شہری ریاستوں سے ہوا،
سلطنت روما ہوا ، قدیم ہند میں اشوک کا عہد اس نظام کا زریں دور تھا، عہد
نبوی سے قبل مکۃ المکرمہ کا شہری انتظام الندوہ نامی بلدیاتی ادارے کے سپرد
تھا ۔ گیارہویں صدی کے آغاز میں محمود غزنوی وسطی ایشیاء سے ہندوستان میں
جو بلدیاتی نظام لایا اسے نظام دیوانی کہا جاتا تھا اور پنجاب و ہزارہ میں
انگریزوں کی آمد تک یہی نظام رائج رہا۔
اشتیاق حسین قریشی نے اپنی کتاب ایڈمنسٹریشن آف دی مغل ایمپائر اور
جادوناتھ سرکار نے مغل ایڈمنسٹریشن میں اس پر کافی روشنی ڈالی ہے، ان دونوں
کا کہنا ہے کہ مغلوں نے بلدیاتی نظام کو برصغیر میں بے حد ترقی دی، بلدیاتی
نظام کا سربراہ ناظم کہلاتا تھا جو صوبے میں تمام معاملالت کا ذمہ دار تھا
،اس کی انتظامیہ دیوان بخشی، قاضی، فوجدار، کوتوال، واقع نویس پر مشتمل
ہوتی تھی، ایک انگریز مصنف مورلینڈ اپنی کتاب دی ایگریگیرین سسٹم آف دی
مسلم انڈیا میں لکھتا ہے کہ محمود غزنوی کے بعد دیہی سطح پر جو بلدیاتی
انتظامیہ تشکیل دی گئی اس میں تحصیلدار، قانون گو، امین، خرانچی، مقدم اور
پٹواری ہوتے تھے جو مالیات اور دیہی علاقوں میں امن و امان کے ذمہ دار ہوتے
تھے، کوہسار سرکل بکوٹ، گلیات ، لورہ، مری، کوٹلی ستیاں، کہوٹہ سمیت جہلم
سے کاغان تک کا علاقہ محمود غزنوی نے پٹے (لیز) پر پھروالہ، کہوٹہ اور سید
پور (موجودہ اسلام آباد) کے گکھڑ خاندان کے حوالے کیا ہوا تھا اور یہ پٹہ
ہر عہد اور ہر خاندان کی حکومت میں (سوائے شیر شاہ سوری اور رنجیت سنگھ کے)
توثیق ہوتی رہی۔ انہوں نے اس علاقے میں دیوانی سسٹم رائج کیا ہوا تھا یہ
موجودہ یونین اور ویلج کونسل کی ابتدائی شکل تھی، آج بھی کوہسار کے اکثر
مقامات دیوان کے نام سے موسوم ہیں یہ وہی دیوان ہیں جہاں ایل دیہہ کے
معاملات فیصل کئے جاتے تھے اور تنازعات بھی طے ہوتے تھے۔انیسویں صدی کے
آغاز میں گکھڑ اقتدار کے خاتمہ کے بعد سکھوں کی آپ راژی (طوائف الملوکی)
کا دور شروع ہوتا ہے جو 1845ء میں راولپنڈی میں ضلع ایبٹ آباد کے بانی
میجر ایبٹ آباد کے سامنے سکھوں کے ہتھیار ڈالنے تک جاری رہا، دیوانی
بلدیاتی نظام تباہ و برباد اور کوہسار کی ثقافت، زراعت اور اقدار کا جنازہ
نکل گیا تاہم انگریزوں نے اپنی آمد کے بعد ہزارہ بشمول سرکل بکوٹ لورہ و
گلیات کو مری سے الگ کیا اور یہاں پر دیوانی بلدیا نظام کی جگہ کمشنری سسٹم
کی بنیاد رکھی، برطانوی مورخ اٹین ٹالبوٹ اپنی کتاب پنجاب اینڈ دی راج
(1947 ۔ 1849) میں لکھتے ہیں کہ انگریزوں نے پنجاب کو پانچ انتظامی ڈویژنوں
میں تقسیم کیا اس کا انتظامی سربراہ کمشنر ہوتا تھا، اس کے نیچے ضلع کا
ڈپٹی کمشنر، اور معاونت کیلئے 5 اسسٹنٹ کمشنر ہوتے تھے جو ہندوستانی سول
سروس سے لئے جاتے تھے۔ تحصیلوں کا کنٹرول تحصیل دار اور نائب تحصیل دار کو
مالیاتی اور عدالتی اختیارات کے ساتھ دیا گیا، اس انتظامی مثلث کے آخر میں
ذیلدار ہوتا تھا جو 10 سے 30 دیہات کا سربراہ کہلااتا تھا اس کے نیچے ہر
دیہات میں ایک نمبردار ،ایک چوکیدار ہوتا تھا، ذیلدار اعزازی پولیس آفیسر
اور بڑے سرکاری پروٹوکول کا حامل کارندہ ہوتا تھا۔ ذیلدار کی اہلیت تعلیم و
تجربہ نہیں بلکہ انگریزوں کی وفاداری (ثبوت کے ساتھ) ہوتی تھی، سرکل بکوٹ،
گلیات، لورہ اور مری کے یہ ذیلدار ہی تھے جنہوں نے حریت پسندوں کو چن چن کر
عافیہ صدیقی کی طرح انگریزوں کے حوالے کیا۔ ضلعی انتظامیہ کے قدموں میں
بیٹھ کر کرسی نشین کہلائے اور منٹگمری (موجودہ ساہیوال) میں انگریز وفاداری
کے عوض مربعوں کے مالک بھی بنے،ان کی اولادیں آج بھی ان مربعوں سے مستفید
ہورہی ہیں۔
عہد حاضر میں بلدیاتی نظام کو مغربی ترقی یافتہ دنیا میں کاؤنٹی سسٹم کہا
جاتا ہے، اس کا سربراہ میئر ہوتا ہے اور باقی کونسلر کہلاتے ہیں، پاکستان
میں اسے بلدیاتی نظام کو لوکل باڈیزکہا جاتا ہے، اس کا آغاز 1962ء میں صدر
ایوب خان نے نمبرداری نظام لپیٹ کر کیا ،اس کی وجہ یہ تھی کہ نسل درنسل
نمبرداری منتقل ہونے کی وجہ سے یہ نظام اہلیت اور قابلیت کھو بیٹھا اور ظلم
و ستم کا نشان بن چکا تھا، نمبردار ہر قانون سے خود کو بالاتر سمجھنے لگا
تھا اور بلدیاتی نظام کو رواج دینا ضرورت بھی تھی مگر بدقسمتی سے یہ
نمبردار گھر نہیں گئے بلکہ ان میں سے اکثر اپنی برادری کے ووٹ اور عام
آدمی کی بے شعوری کی وجہ سے ان بلدیاتی اداروں کے چیئرمین اور جنرل کونسلر
بن بیٹھے مگر آج کے دور میں جو نمبردار کہلاتے بھی ہیں ان کے اختیارات صرف
اراضی کے انتقال کے وقت ان کی زبانی تصدیق تک محدود ہیں۔
پاکستان کے پہلے بلدیاتی نظام نے کوہسار بھر میں عام آدمی کو بے حد فائدے
پہنچائے، لنک روڈز بنیں، پھلوں بالخصوص سیب کے باغات کو فروغ ملا، درختوں
کو بچانے کے لئے مٹی کے تیل کے چولہے متعارف ہوئے ، بکری پالنا یا رکھنا
جرم قرار دیدیا گیا، شاملات سمیت سرکاری اراضی کو واگزار کروا کر مفاد عامہ
کے کاموں کے لئے استعمال کیا گیا، بچوں کی ولادت اور اموات کا ریکارڈ
نمبردار بھی رکھتے تھے مگر اس بلدیاتی نظام میں اسے بہتر بنایا گیا، بھٹو
دور کے نظام بلدیات نے کوہسار میں کوئی خاص اثرات نہیں چھوڑے، ضیاء الحق کے
عہد میں بلدیاتی اداروں نے ہر دیہی علاقے میں فراہمی آب، راستوں اورسڑکوں
کی پختگی ، مسجد سکولوں کے قیام کے فرض کو نبھایا مگر زراعت سے اجتناب برتا
گیا اور کوہسار جیسا زرخیز علاقہ بنجر اور بے آب و گیاہ ہوگیا۔
صدر ضیاء الحق کی وفات کے بعد افراتفری کا ایک اور دور شروع ہوا جو جنرل
مشرف کی 1998 ء میں آمد کے بعد تھم سکا، صدر پرویز مشرف نے مغربی جدید
کاؤنٹی سسٹم کی طرز کا نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا اور اس میں موروثی
نمبرداروں اور سابق چیئرمینوں کے علاوہ خواتین ، نوجوان، کسان، مذہبی
اقلیتوں کو بھی شامل کیا اور تعلیم کم از کم میٹرک قرار دیدی، اس نظام کا
سربراہ ناظم کہلاتا تھا۔ پہلا دور2001ء اور دوسرا دور 2005 پر مبنی ہے، ان
دونوں ادوار میں یونین کونسلوں کی سطح پر جتنے بھی ترقیاتی کام ہوئے اتنے
کوہسار کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے، ان ادوار میں مری میں گیس پہنچی،
بیروٹ سمیت ہر یوسی کو پانی کی فراہمی ہوئی، لنک روڈز کا جال بچھ گیا مگر
ان میں زراعت سے بدستور اغماض برتا گیا، تعلیمی ادارے قائم ہوئے مگر تعمیر
نو کے نام پر ان تعلیمی اداروں کو عمارات سے محروم کر کے بے آبرو کردیا
گیا، زلزلہ کے دوران عالمی سطح سے ملنے والی امداد کی ان بلدیاتی نمائندوں
اور ناظمین نے حقیقی متاثرین کے بجائے اپنے رشتہ داروں میں وہ بندر بانٹ کی
کہ اس سے پہلے کبھی بھی اس کی مثال نہیں ملتی جس کی وجہ سے مشرف کا یہ نظام
بھی عام آدمی کو ریلیف نہ دے سکا اور پرویزی و عزیزی حکومت کے بعد یہ بھی
زمین میں دفن ہوگیا۔ اب پی ٹی آئی کی کے پی کے حکومت نے اس نظام میں
اصلاحات کرکے نیا بلدیاتی نظام لائی ہے جس کی حلف برداری بھی ہونے والی ہے،
اس نظام میں یونین کونسلوں کو تقسیم کرکے مزید نچلی سطح پر ویلج کونسلوں تک
لایا جاچکا ہے، یہاں تعلیم کی کوئی شرط نہیں، انگوٹھا لگانے والا پی ایچ ڈی
کے سکالر کا ناظم اور جنرل کونسلر ہوسکتا ہے، ان بلدیاتی انتخابات میں جس
تھوک کے حساب سے خواندہ اور نیم خواندہ عوامی نمائندے اعلیٰ تعلیم یافتہ
لوگوں کا حق نمائندگی نبھانے آئے ہیں ان میں سے 90 فیصد انگریزی اور
کمپیوٹر سے ناواقف ہیں۔ بجٹ کیا ہوتا ہے انہیں اس کا پتہ نہیں، کسی منصوبہ
کی فیزیبلٹی کیسے بنائی جاتی ہے، پی سی ون، ٹو کیا ہوتا ہے، ٹاؤن پلاننگ
کیسے کی جاتی ہے، ویلج کونسل کے ایوان میں کارروائی کیسے ہوتی ہے اور آج
کے جمہوری دور میں صحافیوں جیسے باشعور طبقے کو کیسے ہینڈل کیا جاتا ہے، یہ
بے شعوری کی حد تک ان فضائل اور اہلیت سے محروم ہیں۔ اکثر کا خیال ہے کہ وہ
مال بنائیں گے مگر یہ خوشی اس وقت مایوسی میں بدلے گی جب 90 فیصد بجٹ کے
عوض پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت 10 فیصد وسائل خود پیدا کرنے کی ڈیمانڈ کرے
گی، ایک ایک پیسے کا آڈٹ ہوگا اور ویلج کونسل میں کئے جانے والے معیاری و
غیر معیاری ترقیاتی کاموں کی جانچ پڑتال بھی سختی سے کی جائے گی اور امید
واثق ہے کہ آئندہ سال مارچ تک آدھے سے زیادہ عوامی خدمت سے سرشار نمائندے
اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر اپنے گھروں کو لوٹنے کے بعد سو بھی چکے ہوں
گے۔ |
|