(شیخِ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ)
آپ کا تعلق کوہسار کے خوبصورت علاقہ ونہار کے ایک معروف زمیندار خاندان سے
ہے زمیندارے کے علاوہ 1958ء سے کوئلہ کی کان کنی کا کام بھی کرتے ہیں اور
اس وقت سے ٹیکس گزار بھی ہیں۔ ساٹھ سال قبل عین جواں عمری میں جب آپ حق کے
متلاشی ہوئے تو اﷲ رب العزت نے اپنے فرمانیَھدِی اِلَیہِ مَن یُّنِیبمطابق
ولیٔ کامل حضرت العلاّم مو لانا اﷲ یار خان صاحب ؒ کے درِاقدس پر
پہنچایا۔آپ نے ان کی صحبت کی بھٹی میں پچیس سال کا عرصہ گزارا اور کندن بن
کر نکلے۔حضرت العلاّم مولانا اﷲیار خان نوّراﷲ مرقدہ نے اپنے شاگرد رشید کے
سینے میں برکاتِ نبوّت ﷺ کا بے کراں سمندر انڈیلا اور اپنے بعد سلسلے کا
شیخ نامزد فرمایا۔
حضرت امیر مکرّم مولانا محمد اکرم اعوان مد ظلہ العالی سلسلہ عالیہ
نقشبندیہ اویسیہ کے فی زمانہ شیخ ہیں آپ کیفیاتِ قلبی اور برکاتِ نبوی ﷺ کے
امین و قاسم ہیں۔اَنَا قَاسِم وَاﷲ یُعطِیکی سنّت پر عمل پیرا ہیں۔حضرت جی
مد ظلہ العالی امت مسلمہ کےافق پروہ روشن آفتاب ہیں جس کی تابانی نے تمام
شعبۂ حیات کوروشن کر رکھا ہے۔آپ نے اصلی حقیقی تصوّف کو واضح کرنے کے لیے
ارشاد السالکین ،کنز الطّالبین،طریقِ نسبتِ اویسیہ،رموزِدلِ،کنوزِ دل جیسی
قریباً چالیس کتب سالکین کی رہنمائی کے لیے تصنیف فرمائیں۔
آپ نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی "مسائل السلو ک من کلام
الملوک " کی شرح فرمائی اور اپنے عطیم المرتبت شیخ ضرت العلام مولانا اﷲیار
خان صاحب ؒ کی کتاب دلائل السلوک کی بھی شرح فرمائی۔
آپ عصرِ حاضر کی ایک عہد ساز شخصیت ہیں جو ایک طرف بھولے بھٹکے لوگوں کو
راہِ ہدایت دکھا رہے ہیں تو دوسری طرف متلاشیانِ حق کے قلوب کو انوارات و
برکاتِ نبوی ﷺ سے منور فرما رہے ہیں۔آپ کی شبانہ روز کاوشیں صرف اور صرف
دیین حق کی سبربلندی و سر فرازی اور اہالیانِ پاکستان کی اکائی پر مرتکز
ہیں۔ آپ نفاذِ اسلام اور غلبۂ اسلام کے لیے کوشاں ہیں۔آپ نے اسی مشن کی
تکمیل کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک اسفار رفرمائے۔آپ کا سفر نامہ"غبارِ
راہ"اس حقیقت کا غمّاز ہے۔اس کے مطالعہ سے قاری نہ صرف امت مسلمہ کی زبوں
حالی اور پوری دنیا کی ثقافت سے شناسا ہوتا ہے بلکہ ان مسائل کا قابلِ عمل
حل بھی پاتا ہے۔
آپ عالمی تنظیم الاخوان کے منتخب امیر ہیں۔لاکھوں انسانوں کا تزکیۂ نفس
فرما کر ان کی عملی زندگیوں کو اسلامی سانچے میں ڈھال رہے ہیں۔پاکستان ہی
نہیں ان سے مستفیض ہونے والے پورے عرب و عجم میں موجود ہیں۔
آپ نے تعلیمِ بالغاں کا با قا عدہ سلیبس مقرر کر رکھا ہے۔مختلف کورسز کے
ذریعے لوگ قرآن حدیث ،فقہ اور عربی سیکھتے ہیں۔جن میں
ایمانیات،عبادات،معاملات اور اخلاقیات کی بنیادی تعلیم کے ساتھ
معاشیات،عدالت اور معاشرت کی رہنمائی ملتی ہے۔ مَردوں کی طرح خواتین کی
تربیت کا انتظام ہے۔ "الا خوات "کا نام سے ان کی بھی تنظیم ہے۔
آپ نے گزشتہ ادوار ِ حکومت میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو نفاذِ اسلام کے
لیے تحریری مسوّدہ پیش کیا۔شومٔی قسمت کہ ان حکومتوں کو توفیقِ عمل نہ
ہوئی۔
آپ مفسِّر قرآن ہیں۔اﷲکریم نے آپ کو علمِ لَدُنّی سے نوازا ہے۔اور قرآن پاک
کا خص فہم عطا فرمایا ہے۔یہ اسی علم لدنی کی برکت ہے کہ آپ نے ایک تفسیر
"اسرار التنزیل" تحریر فرمائی ہے۔جس میں آپ نے موقع بہ موقع تسوّف کے رموز
کو آشکار کیا ہے ۔یہ تفسیر صاحبِ دل حضرات کے لیے کسی نایاب تحفے سے کم
نہیں۔علاوہ ازیں زبان و بیا ن کی خوبیو ں سے آراستہ اور خاص و عا م میں
پسندیدہ ہے۔آپ کی دوسری بیانیہ تفسیر "اکرم التفاسیر" ہے جو نصف سے زا ئد
یعنی سولہ پا روں میں زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہے۔یہ تفسیر "وَلَقَد
یَسَّرنَا القُر آنَ لِلذِّکرِ"آسان قرآن" کا اظہر من الشمس ثبوت ہے۔آسان
زبان میں ہونے کے ساتھ ساتھموجودہ دور کے حالات کے مطابق ہونے کی وجہ سے
یوں لگتا ہے کہ قرآن کریم شاید موجودہ زمانے کے لیے ہی نازل ہوا ہے۔آپ کی
ایک اور پنجابی تفسیر"رب دیاں گلاّں" "اپنا ٹی وی چینل سے ٹیلی کاسٹ ہو تی
رہی ہے۔اس کی سی ڈی اور ڈی وی ڈی وغیرہ دستیاب ہیں اور انشاءاﷲ طباعت کے
بعد منظرِ عام پر آ جا ئے گی۔
آپ مترجمِ قران بھی ہیں۔آپ کا قرآن پاک کا سلیس ترجمہ"اکرم التراجم"قدرت اﷲ
کمپنی کی طرف سے شائع ہو کر کتب خانوں،مساجد اور گھروں کی زینت بن چکا ہے
اور اپنی روانی،سلاست اور شستگی کے باعث علماء اور عوام میں یکساں مقبول
ہے۔
آپ صوفی شاعر،محقق اوراور اعلیٰ پائے کے ادیب ہیں دلی کیفیات زباں پر آئیں
تو گردِسفر،دیدۂ تر،متاعِ فقیر،نشانِ منزل، آس جزیرہ،کونسی ایسی بات ہوئی
ہے اور دِل دروازہجیسے مجموعہ ہائے کلام معرضِ وجود میں آئے۔حضرت جی کا ایک
نعتیہ شعر بطور مثال ان کی والہانہ محبت کا ترجمان ہے۔
درِحبیب پر سیماب کو تلاش تو کر
وہ اورجائے گا کہاں اُٹھ کر مدینے سے
آپ کے ہزاروں بیانات آڈیو،وڈیو ریکارڈ شدہ ہیں۔سی ڈیز وغیرہ دستیاب ہیں۔کتب
کے علاوہ بے شمار پمفلٹ ہیں کسی چیز پر رائلٹی نہیں لیتے۔
آپ الفلاح فاؤنڈیشن کے بانی ہیں جو پورے ملک میں عموماً اورشمالی علاقہ
جات میں خصوصاً رفاہِ عامہ کی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
سیلابوں کی تباہ کاریوں میں" الفلاح نے بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ
کیا۔عملاً قابلِ تقلیدامداد کی۔
آپ روایتی پیروں کی طرح نذرانے کی بجائے خود انفاق فی سبیل اﷲ مین پیش پیش
ہوتے ہیں۔
آپ صقارہ ایجو کیشن سسٹم کے بانی اور سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔صقارہ اکیڈمی جس کا
افتتاح صدر جنرل ضیاءالحق صاحب نے کیا وہاں اقبال کے شاہینوں کی تربیت کی
جاتی ہے ۔صقارہ اکیڈمی دین اور علوم جدیدہ کاحسین امتزاج ہے۔
العلم علمان:علم الادیان وعلم الابدان کے مصداقspirtual ،نارمیٹو سائنسز کے
علم اور فزیکل سائنسز کے علم کا شاہکار عملی نمونہ ہے۔
اس اکیڈمی کا "راولپنڈی بورڈ" میں ایک خاص مقام ہے۔اکیڈمی کے تعلیم و تربیت
یافتہ سول و آرمی کے اعلیٰ عہدوں پر ہیں نیز مختلف شعبہ ہا ئے زندگی میں
قابلِ تقلیدنمونہ کے حامل ہیں۔
آپ بہترین نباض،اعلیٰ پائے کے حکیم اور چند یونانی ادیات کے موجد بھی
ہیں۔آپ اپنی مثال آپ شکاری ہیں ۔دنیا کے مشہور شکاریوں نے آپکی اس بے مثال
خوبی کا اعتراف کیا ہے۔ڈرائیونگ میں بھی کمال رکھتے ہیں۔
ان کی زندگی میں دنیوی خوف نام کی کوئی چیز نہیں۔ہاں خوف خدا،خوف آخرت
بدرجہ اتم موجود ہے۔
آپ بے بدل مقرر اور خطیب بھی ہیں آپ کے وعظ و خطابت کا کمال یہ ہے کہ ہر
عمر اور ہر شعبہ کے لوگ مستفید ہوتے ہیں بلکہ سر دھنتے ہیں حتیّٰ کہ جاہل
،عالم،اُجڈ اور تعلیم یافتہ بھی استفادہ کرتے ہیں۔آپ کا وعظ وتقریر سن کر
بہت سے لوگوں کی دنیا بدل جا تی ہے۔
یوں تو آپ نے بے شمار موضوعات پر اظہار خیا ل فرمایا ہے جو "نقوشِ حق" کے
نام سے کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے لیکن آپ کے خاص موضوع ذ کرِ
الہیٰ،عظمتِ باری،معرفتِ باری،حصولِ رضائے باری،حبِّ رسولﷺ،اطاعتِ
رسولﷺ،اتباعِ نبیﷺ،غزوۃ الہند اور غلبۂ اسلام وغیرہ ہیں۔آپ خود پریکٹیکل
انسان ہیں۔پریکٹیکل زندگی ہی پسند کرتے ہیں۔آپ ہر مسلمان کو با عمل با
کردار دیکھنا پسند فرماتے ہیں۔
آپ تحدیث نعمت کے طور پر فرماتے ہیں۔
"میں یہ بات ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ میں ایک نگاہ میں ایک شخص کے ایک ایک
ذرے کو اﷲ کا ذکر سکھا سکتا ہوں۔یہ مجھ پر ا ﷲ کا احسان ہےکہ مجھے اﷲ
تعالیٰ نے یہ قوت بخشی ہے کہ طالب کے قلب کو جاری کر سکتا ہوں اور اسے آج
بھی وہی کیفیاتِ نبویﷺ نصیب ہو سکتی ہیں۔"
شیخ المکرم ہمہ جہت شخصیت ہیں کہ ان کے ہر پہلو کا کما حقہٗ احاطہ ممکن
نہیں۔کسی نے ایسی ہی صورتحال کے پیشِ نظر فرمایا ہے
دامانِ نگہ تنگ و گلِ حسن تو بسیار
بشکریہ:ماہنامہ المرشد لاہور |