این اے154 لودھراںکا عدالتی فیصلہ۔ تیسری وکٹ بھی گر گئی
(Dr. Rais Samdani, Karachi)
پاکستان کے سیاسی موسم میں
تبدیلی یا بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ ایک مسئلہ حل ہوتا یا اس پر
برف پڑتی ہے تو دوسرا تیار ۔ کسی نے درست کہا کہ جمہوریت ہمیں راس ہی نہیں
آتی۔ سیاسی ماحول میں کشیدگی اور مسائل کے یکے بعد دیگر ے پیدا ہوجانے کی
ابتدا کپتان کے دھرنوں اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلاب مارچ کے بعد
سے شروع ہوئی۔ دھرنوں کا ڈراپ سین تو کمیشن کی رپورٹ نے کردیا تھا۔ کمیشن
کی رپوٹ عمران خان کے خلاف ضرور آئی لیکن جو بات کپتان شروع سے کہہ رہا ہے
اس میں کچھ نہ کچھ صداقت کے آثار وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آرہے ہیں ۔ ’منظم
دھاندلی‘ کے لفظ نے نون لیگ کو ظاہری اعتبار سے برتری دلوا دی اگر منظم کا
لفظ نہ شامل کرایاگیا ہوتا تو صرف دھاندلی کی بنیاد پر 2013 کے انتخابات کا
دھڑام تختہ ہوجانا تھا۔ عمران خان جن چار حلقوں کو کھولنے کی رٹ گزشتہ سال
بھر سے لگائی ہوئی ہے۔ ان میں سے تین کا نتیجہ آچکا اور تحقیقاتی کمیشن نے
دھاندلی نہیں بلکہ بے قاعدگی کی بنیاد پر پہلے سعد رفیق کوNA-125 لاہور سے
نا اہل قرار دیا، ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے حامد خان تھے جو سپریم
کورٹ چلے گئے اور ان کی وکٹ گرگئی۔اِسٹے آڈر کی بدولت وہ وقتی طور پر اپنی
سیٹ پر براجمان ہیں ، وزارت کے مزے لے رہے ہیں۔ عدالت نے اس حلقہ میں
انتخابات میں اس قدر بے قاعدگی دیکھی کہ یہاں از سر نو انتخابات کا حکم دے
دیا۔ دھاندلی اور کیسی ہوتی ہے۔ اسے عدالت نے دھاندلی نہیں کہا بلکہ بے
قاعدگی کہہ دیا۔ لیکن ہمارے سیاست دانوں میں اتنا حوصلہ اور برداشت کہاں کہ
سیٹ ہاتھ سے جانے دیں۔ جیسے ہی عدالت نے سعد رفیق کے حلقہ کا فیصلہ سنایا
تھا ،وہ سپریم کورٹ جانے کے بجائے عوام کی عدالت میں چلے جاتے۔ ان کا قد
کاٹھ بڑھ جاتا ، عوام میں عزت و توقیر میں اضافہ ہوجاتا لیکن اوپر سے نیچے
تک کوئی بھی تو ایسا نہیں کہ جوصاف ستھری سیاست کی جانب آئے۔ اگر ضمنی
انتخابات کے نتیجے میں نون لیگ ہار بھی جاتی تو کیا قیامت آجاتی؟، حکومت
چلی جاتی، سعد رفیق کے بغیر نواز شریف کی کیبنیٹ ادھوری رہ جاتی۔ سعد رفیق
اتنا بڑا دماغ ہے نون لیگ کے لیے کہ اس کے بغیر نوز شریف صاحب کے لیے سیاست
کرنا مشکل ہوجاتا۔ ملک میں ریل کا نظام درھم برھم ہوجانا تھا، اسمبلی سعد
رفیق کے بغیر ادھوری رہ جاتی۔ آخر کیا ڈر و خوف تھا اور ہے ۔ سعد رفیق اسٹے
آڈر کے ساتھ وزیر ہیں ، ان کے چہرہ پر وہ تازگی اور تازگی اب نظر نہیں آتی۔
نون لیگ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی سیٹ (NA-122)سے بھی ہاتھ دھو
بیٹھی۔ گویا کپتان جن چار حلقوں کے کھولنے کی بات مسلسل کررہا تھا ان میں
سے یہ دوسرا حلقہ تھا جس میں عدالت نے سنگین بے قاعدگی کی بنیاد پر ایاز
صادق صاحب کو گھر بھیج دیا۔ پہلے تو کہا گیا کہ ہم عدالت کے فیصلے کا
احترام کرتے ہیں۔دوسرے ہی دن نہیں معلوم کیا کھچڑی پکی کے نون لیگ کے وزیر
ایک ایک کر کے عدالت کے فیصلے کے خلاف زہر افشانی کرنے لگے۔ایاز صادق کا
فرمانا تھا کہ الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کو تحفظات کے ساتھ مانا ہے، سپریم
کورٹ فیصلہ معطل کردیتا ہے تو اس عرصہ میں اسپیکر رہوں گا، ان کا کہنا ہے
کہ ان کا دل اس حلقہ سے دوبارہ الیکشن لڑنے کا چاہتا ہے ۔ لیکن اس کا
دارومدار ان کی پارٹی پر ہے۔ ویسے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی
یہی مشورہ دیا ہے کہ ایاز صادق کو سپریم کورٹ سے اسٹے آڈر لینے کے بجائے
عوام کی عدالت میں جانا چاہیے۔ یہی کام سعد رفیق کو بھی کرنا چاہیے تھا۔
معلومات فراہم کرنے کے وزیر با تدبیر پرویز رشید نے فیصلے کو متعصبانہ قرار
دیتے ہوئے، متعلقہ جج کی خوب خوب خبر لی، بقول جج صاب پرویز رشید نے انہیں
مارنے کی بھی دھمکی دے ڈالی۔ جج کے متعصب ہونے کی وجہ وزیر موصوف نے یہ
بیان کی کہ فیصلہ کی کاپی دینے میں تاخیر کی گئی تاکہ اسپیکر صاحب اپنے
اپیل کا حق استعمال نہ کرسکیں یعنی کے نون لیگ سعد رفیق کی طرح ایاز صادق
صاحب کی براخاستگی کو سپریم کورٹ کے توسط سے اسٹے آڈر حاصل کر لے۔ سیاست کے
رنگ بھی خوب ہیں ، فیصلہ حق میں آجائے تو واہ واہ، فیصلہ سنانے والا جج یا
کمیشن کے رکن جج دودھ میں دھلے ہوئے ، جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی کاپی سب سے
پہلے وزیر اعظم کو فراہم کردی جائے ، تو سب اچھا، کیمشن کی رپورٹ کپتان کے
خلاف آگئی تو کیمشن اچھا، اس کے سارے اراکین ایماندار۔ سعد رفیق کے حلقے
میں بے قاعدگیوں کی بنیاد پر انہیں سیٹ سے بے دخل کردیاجائے تو قیامت،
عدالت خراب، جج متعصب، اسی طرح ایاز صادق کے حلقے کا فیصلہ کپتان کی فتح ،
نون لیگ کی شکست تو جج خراب، عدالت متعصب۔ لاہور میں طاہر القادری کے مرکز
پر ہونے والے مظالم کسے یاد نہیں ، اس پر قائم ہونے والے کمیشن نے اپنی
رپورٹ دےدی ، کہا ں گئی وہ رپورٹ؟ یہ تعصب ہے یا سچائی؟پرویز رشید کے خیال
میں الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ خودنمائی اور تعصب پر مبنی ہے۔ان کے خیال میں
بے ضابطگیاں الیکشن کمیشن کی تھیں سزا ایاز صادق اور محسن لطیف کے نون لیگی
امیدواروں کو دی گئی جب کہ تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی کو سزا سے
استثنیٰ دے کر متعصبانہ روپے کا اظہار کیا گیا۔
پنجاب کے وزیر قانون کی باتیں تو سب ہی سے نرالی ہوتی ہیں وہ بھلا کیسے
خاموش رہ سکتے تھے۔ انہوں نے بھی ایاز صادق کی حمایت میں گرما گرم پریس
کانفرنس کرڈالی اور فیصلے کو نون لیگ کےخلاف سازش قراردیتے ہوئے کمیشن کے
سربراہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے جسٹس کاظم ملک پر الزام لگایا کہ یہ
فیصلہ اس وجہ سے نون لیگ کے خلاف آیا ہے کہ جج صاحب نے اپنے بیٹے کے لیے
نون لیگ سے ٹکٹ مانگا تھا جو انہیں نہیں دیا گیا ، جج صاحب نے یہ اس کا
بدلہ لیا ہے۔ رعنا ثناءکی سوچ پر افسوس صد افسوس۔ جسٹس کاظم ملک بھی خاموش
نہیں رہے انہوں نے چیلنج کیا رعنا ثناءاﷲ کو کہ اگر وہ یہ ثابت کردیں تو وہ
استعفیٰ دے دیں گئے اور معافی بھی مانگے گے۔ عدالتوں سے محاز آرائی اور
عدالتوں کے خلاف باتیں کرنا ہر سیاسی جماعت کا ٹریک ریکارڈ رہا ہے۔ بات حق
میں ہو تو درست ، خلاف ہو تو جج کیا اور عدالت کیااور کیا عدالت کا احترام۔
ماضی میں ایسے بے شمار واقعات رونما ہوچکے ہیں کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے
خلاف فیصلے کو نہ صرف قبول نہیں کیا بلکہ عدالت کے وقار کو مجروح کرنے میں
کوئی کثر نہیں اٹھا رکھی۔افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا ملک اپنی عمر کی ساتویں
دیہائی مکمل کرلے گا لیکن ہمارے سیاست دانوں میں Maturity نہیں آئی۔ سیاست
کو ملک و قوم کی بھلائی ، بہتری اور ترقی کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے سیاست
کو لوٹ کھسوٹ ، دولت جمع کرنے، طاقت کے زور پر دوسروں کو نیچا دکھانے کا
ذریعہ سمجھتے ہیں ۔
سعد رفیق(NA-125) کے بعد سردارحلقہ ایازصادق(NA-122) اور اب ایک اور نون
لیگی جنہوں نے الیکشن تو آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑا تھا لیکن بعد میں جب
میاں صاحب کی نون لیگ حکومت میں آگئی تو انہوں نے نون لیگ جوائن کر لی۔
گویا اب وہ نون لیگ کے ہی ایم این اے تھے۔یہ حلقہ ہے NA-154لودھراں
کا۔تحریک انصاف کے جہانگیر ترین یہاں سے الیکشن ہار گئے تھے اور آزاد
امیدوار صدیق خان بلوچ جو اب نون لیگی رکن قومی اسمبلی ہیں کامیاب ہوئے
تھے۔ ملتان کے جج رعنا محمود نے فیصلہ سناتے ہوئے صدیق خان بلوچ کو جعلی
ڈگری کے باعث تاحیات نہ اہل قرار دے دیا۔ گویا نون لیگ کی تیسری وکٹ بھی گر
گئی۔ اب نون لیگ کے وہ وزیر جنہوں نے ایاز صادق کے خلاف فیصلے کو متعصب کہا
تھا اب وہ کیا کہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب نون لیگ کے پاس کہنے کو کچھ
نہیں۔ شکت کو خوش دلی سے قبول کریں۔ سپریم کورٹ سے اِسٹے آڈر لینے کے بجائے
اپنے شکست خوردہ امیدواروں کو گھر بھیج دیں۔ نون لیگ کے پاس بہت اچھے لوگ
ہیں۔ سعد رفیق، ایاز صادق اور صدیق بلوچ کی نہ اہلی اس بات کا ثبوت ہے کہ
عمران خان چار حلقوں کی بات کررہے ہیں وہ درست ہے۔ چوتھی وکٹ خواجہ آصف کی
ہے ان کے مقابلے میں عثمان ڈار پی ٹی آئی کے امیدوار تھے۔ یہ کیس بھی عدالت
میں ہے۔ اس حلقے کا فیصلہ عمران خان کے حق میں ہو یا نہ ہو چار میں سے تین
حلقوں میں عمران خان کی واضع کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ کپتان کی باتوں
میں سچائی دکھائی دیتی ہے۔کپتان کو 75 فیصد کامیابی حاصل ہوچکی ہے۔ ابتدائی
طور پر تیسری وکٹ گرنے کے بعد بھی نون لیگ کے وزیر اور دیگر نون لیگی شکت
کو تسلیم کرنے کے بجائے دیدہ دلیری سے نون لیگ کا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں۔
لیکن چند لوگوں کی باتوں سے خاص طور پر طلال چودھری کی باتوں سے اندازہ
ہوتا ہے کہ نون لیگ کے حلقوں میں یہ سوچ پیدا ہورہی ہے کہ وہ ب ان تینوں
حلقوں میں ضمنی انتخابات میں چلے جائیں۔ یہ بات تاحال حتمی نہیں ، نواز
شریف صاحب ملک سے باہر ہین ان کی واپسی پر ہی اس حوالے سے حتمی فیصلہ سامنے
آئے گا۔ (26اگست 2015) |
|