سود کی حرمت اور اُولیا اﷲ کی تعلیمات
(Imtiaz Ali Shakir, Lahore)
بحکم مرشِد پاک’’ سید
عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست،معراج دین ‘‘بہت سارے مطالعہ کے بعدسود
کیخلاف مضمون لکھنے بیٹھا تو یاد آیا کہ اُولیا اﷲ کی تعلیمات بھی اﷲ تعالیٰ
کے احکامات ،رسول اﷲ ﷺ کی سنت کے مطابق اور قرآن واحادیث کے عین مطابق ہوتی
ہیں لہٰذا تھوڑا سا مطالعہ اُولیا اﷲ کی تعلیمات کا بھی کرلیا جائے۔ابھی یہ
سوچ ہی رہا تھا کہ دل سے آواز آئی تیرے مرشِد تجھے سود کے خلاف لکھنے کا
حکم فرماتے ہیں ۔ٹھیک اسی طرح ہر ولی اﷲ اپنے عقیدت مندوں اور مریدین کو
اُن کی طاقت کے مطابق سودکی حرمت بیان کرنے اور عملی جہاد کا حکم دیتے
ہیں۔اُولیا اﷲ اُن کو کہتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے احکامات،رسول اﷲﷺ کی
تعلیمات اور سنت مبارکہ ،قرآن و احادیث پر پوری طرح عمل پیرا ہوں۔سود کی
تعریف۔سود کو عربی زبان میں ’’ ربا‘‘کہتے ہیں ،جس کے لغوی معنی زیادہ ہونا
، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود)
کی تعریف یہ ہے کہ : ’’ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے
وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا ‘‘۔ مثلاً کسی کو سال یا چھ ماہ کے لیے
100روپئے قرض دئے ، تو اس سے یہ شرط کرلی کہ وہ 100 روپے کے 120روپے لے گا
، مہلت کے عوض یہ جو 20روپے زیادہ لیے گئے ہیں ، یہ سود ہے ‘‘۔سود کی
حرمت۔اﷲ تعالی کا فرمان ہے :’’اے ایمان والو ! اﷲ سے ڈرو اور جو سود لوگوں
کے پاس باقی رہ گیا ہے ایمان والے ہو تو اسے چھوڑ دو ، تم نے ایسا نہیں کیا
تو اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے جنگ کے لیے خبر دار ہوجاوے ( البقرہ
:275)۔نیز فرمان باری ہے : ’’ اے ایمان والو ! کئی گنا بڑھا کر سود نہ کھاو
، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاو ، اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے
لیے تیار کی گئی ہے ، اور اﷲ اور رسول اﷲﷺ کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا
جائے‘‘۔ ( آل عمران :(132-131)حجۃ الوداع کے موقع پر، جس میں تقریباً سارے
صحابہ کرام عرب کے چپے چپے سے اُمنڈ آئے تھے ، اس میں بھی خصوصیت کے ساتھ
آپ ﷺنے تجارتی اور مہاجنی ہر طرح کے سود کی حرمت کا اعلان فرمایا :’’سن لو
! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاوں تلے روند دی گئی اور جاہلیت کا سود ختم کردیا
گیا ، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبد
المطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارا سود ختم ہے ‘‘۔( بخاری )سیدنا جابر کہتے ہیں
: رسول اﷲﷺنے سود کھانے والے ، اور اسے کھلانے والے ، اور اس (دستاویز)کے
لکھنے والے ،اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت بھیجی ہے اور پھر فرمایا
کہ یہ تمام کے تمام گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔‘‘( مسلم ۱۵۹۸)سیدنا عبد اﷲ
بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:’’ جس گاوں میں زنا اور سود رواج
پاگیا ، تو وہاں کے باشندوں نے اپنے اوپر اﷲ تعالیٰ کے عذاب کو حلال کرلیا۔
( صحیح ،المستدرک للحاکم)سیدناعبد اﷲ بن عباس ؓفرماتے ہیں : ’’محق‘‘ (
گھٹانا ) یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سود خور بندے کا نہ حج قبول کرتا ہے ، نہ صدقہ
، نہ جہاد ، اور نہ صلہ رحمی۔( یعنی اس کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی )۔ (
تقسیر قرطبی :۲۳۴/۲)سیدنا ا بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا
: ’’جس شخص نے سودکے ذریعہ زیادہ (مال ) حاصل کیا ، اس کا انجام کمی پر ہی
ہوگا (صحیح ، ابن ماجہ )ایک روایت میں ہے : ’’سود اگرچہ بظاہر زیادہ نظر
آتا ہے پراس کا انجام کمی اور قلت ہے ‘‘۔(مستدرک حاکم )دنیا دار انسان سود
کو نفع بخش اور زکوۃ کو مال میں کمی کرنے والا سمجھتا ہے، جبکہ حقیقت اس کے
برعکس ہے، ایسے خام خیال افراد کی ہدایت کیلئے ،سود کے مقابلے میں اﷲ تعالیٰ
نے زکوۃ کا نظام پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ مال کو بڑھانا ہو تو اسے رب کی
بارگاہ میں زکوۃاور صدقات کی شکل میں پیش کرو۔’’اور تم لوگ جو سود دیتے ہو
، تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہوجائے تو وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک نہیں
بڑھتا ، اور تم لوگ جو زکوۃ دیتے ہو اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے،ایسے
ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں‘‘۔ (الروم :39)سیدنا عوف بن مالک ؓسے
مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا : ’’تم ان گناہوں سے بچو جو ( بغیر توبہ
کے ) بخشے نہیں جاتے :۱) خیانت : جس نے کسی چیز میں خیانت کی، اس چیز کے
ساتھ اسے قیامت کے دن حاضر کیا جائے گا۔ ۲) سود خوری : اسلئے کہ جو شخص سود
کھائے گا قیامت کے دن پاگل شخص کی طرح جھومتے ہوئے اٹھے گا۔صحیح مسلم کی
ایک روایت عقبہ بن عامر وابو مسعود انصاری ؓسے ہے۔اﷲ تعالیٰ نے
فرمایا:’’میں تجھ سے زیادہ معاف کرنے کا حق دار ہو ں۔ اے فرشتو ! میرے اس
بندے سے درگزر کرو۔‘‘ تجارت اور خصوصاًسونے وچاندی کی تجارت میں بہت سی
صورتیں ایسی پیدا ہوتی ہیں جو سود بن جاتی ہیں۔جو خنزیر اور شراب کی طرح
قطعی حرام ہے۔ اس کی حرمت کا انکا ر کرنے والا کافر ہے اور حرام سمجھ کر
لینے والا فاسق ہے۔اس کی مذمت میں قرآن وحدیث میں بکثرت احکامات وارد ہیں۔
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ’’یعنی جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ
اپنی قبروں میں ایسے اْٹھیں گے، جس طرح وہ شخص اْٹھتا ہے جسے شیطا ن نے چھو
کر باؤلا کردیا ہو۔ یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے کہا ،بیع سود کی طرح ہے
اورحقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔پس جسے
اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت پہنچ گئی اور باز آیا تو جو کچھ پہلے کر چکا ہے،
اس کے لیے معافی ہے اور اس کا معاملہ اﷲ تعالیٰ کے سپر د ہے۔ جو پھر ایسا
کریں وہ جہنمی ہیں ،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔اﷲ تعالیٰ سود مٹاتا ہے
اورصدقات بڑھاتا ہے اور ناشکرے گناہ گارکو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ مزید فرمایا
:’’اے ایمان والو!اﷲ سے ڈرواور جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے، چھوڑ
دو۔اگر تم مومن ہو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہیں اﷲ اور رسولﷺ کی طرف
سے لڑائی کا اعلان ہے۔‘‘ مسلم شر یف میں حضر ت جابرؓ سے روایت ہے :رسول ﷺاﷲ
نے سود دینے والے، سود لینے والے، سودکاحساب کاغذپر لکھنے والے اور اس کے
گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایاکہ وہ سب برابر ہیں۔‘‘ ابن ماجہ نے اسی
حدیث کو عبد اﷲ بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے۔ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہؓسے
روایت ہے :’’رسول اﷲﷺنے فرمایا : سود کا گنا ہ ستّر حصّہ ہے، ان میں سے کم
درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔‘‘ امام احمد اور ابنِ ماجہ
میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے :’’رسول ﷺنے فرمایا ،شب ِمعراج میں میرا
گزرایک قوم پہ ہوا،جن کے پیٹ گھر کی طرح بڑے بڑے اوران میں سانپ ہیں ،جو
باہر سے دکھائی دیتے ہیں، میں نے جبریل سے پوچھا ،یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے
کہا:یہ سود خور ہیں۔‘‘ امام احمد ودار قطنی وبیہقی عبداﷲ بن حنظلہ غسیل
الملائکہ سے راوی ہیں:’’رسول اﷲ ﷺنے فرمایا،سود کا ایک درہم جان کرکوئی
کھائے وہ چھتیس مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔ |
|