الصلوۃوالسلام علیک یا رسول اﷲﷺ
بسم ا ﷲ الرحمن الرحیم
تصوّف کا تعلق توحید اور اﷲ تعالیٰ کی معرفت سے ہے۔ صاحبِ تصوّف کو صوفی
کہا جاتا ہے۔ تصوّف کو ان ناموں سے بھی جانا جاتا ہے احسان ، توحید ، سلوک
، معرفت ، حقیقت ، اخلاص ، کشف ، اسرارو معارف وغیرہ۔ تصوّف اور صوفی کی
تعریف یا معنی میں علمائے کرام کے بہت اقوال ہیں چندآپکی خدمت میں پیش کرتا
ہوں۔
۰ حضرت جنید بغدادی رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ:
ٗٗ’’ تصوّف یہ ہے کہ حق تعالیٰ تجھے تیری ذات سے فنا کر دے اور اپنی ذات کے
ساتھ زندہ رکھے۔‘‘
ّّّ۰ حضرت معروف کرخی رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ:
ٗٗٗ’’ تصوّف حقائق پر عمل کرنے اور لوگوں کی چیزوں سے نا امیدی کا نام ہے۔‘‘
ّّّٗٗٗٗ۰ حضور غوث الاعظم رضی اﷲ تعا لیٰ عنہ:
ٗٗ ’’ تصوّف چار حرف سے مل کر بنتا ہے یعنی (ت،ص،و،ف) ت سے مراد توبہ ، ص
سے مراد صفائی،و سے مراد ولایت اور ف سے مراد فنا فی اﷲ تعالیٰ ہے۔ ان
چاروں صفات کے علم و عمل کا مجموعہ تصوّف ہے اور جس شخص میں یہ چاروں صفات
موجود ہوں وہ صوفی ہے۔‘‘
ّّّ۰ حضرت ذوالنون مصر ی رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ:
’’ صوفی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تمام کائنات میں اﷲ تعالیٰ کو پسند کیا۔‘‘
ّّّ۰ حضرت ابوالحسن نوری رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ:
ٗٗٗ’’ تصوّف تمام نفسانی لذت سے ہاتھ کھینچنے کا نام ہے۔‘‘
ّّّ۰ حضرت ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین ابنِ علی بن ابی طالب رحمۃاﷲ
تعالیٰ علیہ:
ٗٗٗ’’ تصوّف ایک نیک خصلت ہے، جو زیادہ نیک خصلت ہے وہ اعلیٰ صوفی ہے۔‘‘
۰ حضرت شبلی رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ:
’’ صوفی وہ ہے جو دونوں جہاں میں سوائے ذاتِ قدیم کے کچھ نہیں دیکھتا۔‘‘
۰ حضرت محمد بن احمد مقریٔ رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ:
ٗٗ’’ تصوّف وہ استقا متِ حال ہے جو ذاتِ حق کے ساتھ ہو۔‘‘
۰ حضرت مرتعش رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ:
ٗٗٗ’’ تصوّف نیک خصلت کو کہتے ہیں۔‘‘
۰ حضرت سمنون رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ:
ٗٗٗ’’ تصوّف یہ ہے کہ نہ تو کسی چیز کا مالک ہو اور نہ کوئی چیز تمہاری
مالک ہو۔‘‘ (کشف ُ المحجوب ،رسا لہ قشیریہ)
لفظ صوفی کی تحقیق:
(۱) صوف: اس لفظ کے معنی ’’اون ‘‘کے ہیں یعنی یہ لوگ کمبل یا موٹے کپڑے
پہننے کی وجہ سے صوفی کہلائے۔
(۲) صوف: اس لفظ کے معنی ہیں ’’ایک طرف ہونا ‘‘ یعنی یہ لوگ دنیا کو ترک کر
کے اﷲ ربُّ العزّت کی طرف ہوگئے۔
(۳) صف: اس سے مراد کہ یہ لوگ دین میں اوّل صف میں ہیں۔
(۴)صفّہ: اس سے مراد کہ یہ لوگ اصحابِ صفّہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے نقشِ قدم
پر چلنے والے ہیں۔
(۵) صفا: اس لفظ کے معنی’’ صفائی ‘‘کے ہیں یعنی یہ لوگ اپنے دل کو تمام
برائیوں سے پاک کر دیتے ہیں۔
(۶) صفو:اس لفظ کے معنی ’’محبت اور دوستی‘‘ کے ہیں یعنی یہ لوگ دنیا و
اآخرت سے بے نیاز ہو کر صرف محبوبِ حقیقی سے محبت کرتے ہیں۔
امام قشیری رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ کے نز دیک عربی قواعد کی رو سے’’ صوفی‘‘
کی وجہ تسمیہ ثابت نہیں یہ ایک لقب کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ (تصوّف و
طریقت ٗ صفحہ۵۸ ، حقیقتتِ تصوّف ٗ صفحہ ۷۸ تا۲ ۸ ، مخزنِ طریقت ٗ صفحہ ۳ تا۶)
اگر ان تمام لفظوں کو مشترکہ ایک تعریف کے طور پر بیان کیا جائے تو یہ ہوگا
کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جو اون کا لباس پہنتے ہیں، جنہوں نے اپنے ظاہر اور باطن
کو پاک و صاف کرکے اصحابِ صفّہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی طرح دنیا کو ترک
کردیا ہے اور صرف اﷲ ربُّ العزّت سے محبت کرتے ہیں۔کل قیامت میں یہی لوگ صفِ
اوّل میں ہونگے۔‘‘
َعلم کی اقسام:
علمائے کرام کے نزدیک علمِ دین کی دو (۲) قسمیں ہیں۔
(۱) علمِ ظاہر : اس علم سے مراد شریعت ہے ۔ جس کے چار (۴) ماخذ ہیں (قرآن ،
حدیث ، اجماع ، قیاس )۔
(۲)علمِ باطن: اس علم سے مراد طریقت ہے۔ جسے علمِ لدُنّی بھی کہتے ہیں۔ یہ
علم قرآن کے باطن اور نبی کریم ﷺ کے سینہِ مبارک سے حاصل ہوتا ہے اور پھر
اولیا اﷲ رحمہم اﷲ تعالیٰ کے قلوب پر منعکس ہوتے ہوئے سینہ بہ سینہ تمام
اہل اﷲ رحمہم اﷲ تعالیٰ کے دلوں پر نقش ہوتا ہے۔
سورۃ کہف میں اﷲ ربُّ العزّت کا ارشاد ہے ـ ’’اور اسے (یعنی خضر علیہ
اسّلام) کو اپنا علم الدنی عطا کیا‘‘ (آیت ۶۵)
اس علم کی وضاحت حدیثِ رسولﷺ سے بھی ہوتی ہے۔
ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے مروی ہے:
’’ فرمایا میں نے حضور ﷺ سے دو (۲) علوم سیکھے ہیں۔ پہلا علم میں نے تم پر
بیان کر دیا اور اگر دوسرا بیان کردوں تو یہ گر دن اُرادی جائے۔‘‘
(صحیح بخاری ‘۱ : ۳ ۲)
(تصوّف و طریقت ٗ صفحہ۵۲ ، اسرارالسلوک ٗ صفحہ ۱۱ ، حقیقتِ تصوّف ٗ صفحہ۶۰)
علمائے کرام کے نزدیک تصوّف و طریقت کے تین (۳) مقاصد ہیں:
(۱) تزکیۂ نفس (۲) تصفیۂ قلب (۳) معرفتِ الہی۔ (حقیقتِ تصوّف ٗ صفحہ۶۵)
(۱) تزکیۂ نفس : انسان اگر کامیابی چاہتا ہے تو اپنے نفس کو پاک کرے مطلب
کہ اسے شرک سے،کفر سے، معصیت سے الغرض تمام برائیوں سے پاک کرے اور اﷲ ربُّ
العزّت کی وحدانیت اور رسولﷺ کی رسالت کا اقرار کرے۔
(۲) تصفیۂ قلب: اگر انسان برُے اعمال میں مشغول رہتا ہے تو اسکے قلب (دل)
پر سیاہ نکتہ لگ جا تا ہے جو آہستہ آہستہ پورے قلب کو سیاہ کر دیتا ہے اور
اگر قلب سیاہ ہوجائے تو پور ا جسم خراب ہو جاتا ہے جیسا کہ حدیثِ رسولﷺ ہے:
آپﷺ نے فرمایا ’’ تحقیق جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے اگر وہ اصلاح پذیر
ہوجائے تو تمام جسم کی اصلاح از خود ہو جاتی ہے اور اگر وہ فاسد ہوجائے تو
سارے جسم میں فساد برپا ہو جائے خبردار وہ دل ہے۔‘‘ ( صحیح بخاری ‘ ۱ : ۱۳)
(۳) معرفتِ الہی: جب انسان تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کی دولت سے مالامال
ہوجائے تو اس کے ذریعے اُسے اپنے رب کی معرفت نصیب ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ
حدیثِ رسولﷺ میں حضرت زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا واقعہ مذکور ہے کہ:
’’آپ ؓ سے نبی کریمﷺ نے فرمایا ، اے زید( رضی اﷲ تعالیٰ عنہ) تونے کس حال
میں صبح کی؟ عرض کی میں نے اس حال میں صبح کی کہ میں سچّا مومن ہوں۔ فرمایا،
ہر شے کی ایک حقیقت ہوتی ہے تیرے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ عرض کی ، میں نے
دنیا سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو پہچانا پس اس کا سونا، چاندی اور مٹی کنکر
میری نظر میں برابر ہوگئے میں ساری رات بیدار رہا اور سارا دن پیاسا رہا (یعنی
روزہ دار رہا) یہاں تک کہ مجھے محسوس ہوا کے میں اپنے رب تعالیٰ کا عرش
دیکھ ہوں اور میں اہلِ جنت کو دیکھ رہا ہوں کہ ایک دوسرے سے ملاقات کر رہے
ہیں اور میں اہلِ جہنم کو بھی دیکھ رہا ہوں کہ ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے
ہیں تو نبی کریمﷺ نے فرمایا ۔’’ اے زید ( رضی اﷲ تعالیٰ عنہ)! تیرے قلب کو
اﷲتعالیٰ نے روشن کر دیا اور تجھے معرفت حاصل ہوگئی اس پر قائم رہ۔‘‘ آپ نے
یہ بات تین (۳) بار ارشاد فرمائی۔ (کشف المحجوب )
ان تینوں (۳) مقاصد کو قرآن ِپاک میں نے یوں بیان کیا ہے۔قاضی ثناء اﷲ مجد
دی قدس سرہ تفسیر مظہری میں سورۃ الاعلیٰ کی آیت ۱۴،۱۵ کے تحت فرماتے ہیں
کہ ان آیات میں مدارجِ سلوک کی طرف اشارہ ہے’’ قد افلح من تزکیٰ‘‘(بے شک
مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا)
اس میں توبہ اور تزکیہ ٔ کی طرف اشارہ ہے، ’’وذکر اسم ربہ‘‘ (اور اپنے رب
کا ذکر کیا) اس میں زبانی ، قلبی ،روحی اور سری ذکر کی پابندی کی طرف اشارہ
ہے اور’’ فصلیٰ ‘‘(نماز پڑھی) اس میں مشاہدہ کے دوام کی طرف اشارہ ہے
کیونکہ نماز مومنوں کی معراج ہے اور نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ نماز میں
میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔‘‘ (احمد ، نسائی، حاکم ،بیہقی)
اب اگر اس تمام گفتگو کی روشنی میں تصوّف کی تعریف بیان کی جا ئے تو یہ
بنتی ہے کہ شریعت مطہرہ کی پابندی کرتے ہوئے تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کے
ساتھ تجلیاتِ ربّا نی کا مشاہدہ کرنا تصوّف و طریقت ہے۔(تصوّف و طریقت ٗصفحہ۶۱)
۰ مشورہ: اگر آپکو تصوّف کے بارے میں پڑھنا ہے تو نیچے دی گئی کتابوں سے
استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔
ؔ۰ مآخذ و مراجع:
۰ کشف ُالمحجوب (حضرت سیّد علی بن عثمان ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش
رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ)
۰ رسا لہ قشیریہ (حضرت ابوالقاسم عبد الکریم ھوازن قشیری رحمۃاﷲ تعالیٰ
علیہ )
۰ تصوّف و طریقت ( حضرت علامہ سیّد شاہ ترابُ الحق قادری دامت برکاتہم
العالیہ)
۰ اسرار السلوک ( حضرت علامہ پیر سائیں غلا م رسول قاسمی قادری دامت
برکاتہم العالیہ)
۰ حقیقتِ تصوّف (پروفیسر ڈاکٹرمحمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ)
۰ مخزنِ طریقت ( حضرت علامہ محمد ظفر عباس محمدی سیفیؔ دامت برکاتہم
العالیہ)۔ |